گھر میں روشنی چھائی ہوئی ہے آج تو چاند بھی منہ چھپائے ہوا ہے جوں جوں سورج ڈھل رہا ہے علی کے گھر کا چاند طلوع ہورہا ہے، صرف مدینہ میں ہی نہیں بلکہ چہار سو اس کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں، ہر طرف ایک پرجوش نظارہ ہے چہرے خوشی سے کھلے جارہے ہیں ہر طرف ایک ہنگامہ ہے،۔ وہ دیکھو۔۔ علی کے گھر میں ایک چاند اتر کر آیا ہے، آج فاطمہ نے ایک روشن و تابناک روح کو جنم دیا ہے، آج شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اپنے پھول کو گود لیا ہے، وہ دیکھو۔۔۔ حسن۔۔ اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے چاند جیسے بھائی کو مس کر رہا ہے، سرور کونین کی خوشی کا تو پوچھنا کیا گود میں لے لے کر انہیں سونگھ رہے ہیں، اور۔۔ حسین۔۔ حسین۔۔ کہ کر پکار رہے ہیں، اب حسین بولنے لگا ہے۔ کھیل کود کرنے لگا ہے، جب دونوں بھائی گھر کے صحن میں کھیل رہے ہوں تو گویا آسمان سے بھی زیادہ صاف وشفاف چاند زمین پر ہو اور وہ بھی علی کے صحن میں،۔ یہ دونوں معصوم اپنے نانا کے پیار بھرے شفقت میں پروان چڑھ رہے ہیں، نانا کی بے پناہ محبتیں انہیں حاصل ہیں۔ کبھی لبوں کو چومتے کبھی پیشانی کو بوسہ دیتے کبھی دونوں کو گود میں لے کر سونگھتے اور فرماتے جاتے۔ حسن و حسین دنیا میں میرے پھول ہیں،۔ حضور گھر میں داخل ہوئے دونوں نواسے رو رہے ہیں۔ ان کا رونا آپ کو نہیں بھاتا۔ فرماتے ۔۔ فاطمہ۔ تمہیں نہیں معلوم میرے جگر کے ٹکڑوں کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے، اس طرح کی بے پناہ محبتوں کے سائے میں دونوں کی پرورش ہورہی ہے، فاطمہ جیسی بتول کی آنچل علی کی بہادری و شجاعت نانا کی محبت و شفقت گویا تینوں میٹھے چشموں سے سیراب ہو رہے تھے،
مگر نانا جان کی نگاہ نبوت حسین کے مستقبل کو دیکھ رہی تھی اور نانا کے دین کی خاطر قربانیاں پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی خواب میں بھی دکھا یا جاچکا تھا ،
اب وقت تھا کہ وہ پیشن گوئی پوری ہو نانا جان دنیا سے پردہ فرما چکے یکے بعد دیگرے چاروں خلیفہ بھی رخصت ہوگئے، اب حالات بگڑ گئے ہیں مدینہ میں ظالم حکمران مسلط ہیں لوگوں سے جبراً بیعت لے رہے ہیں مگر چند غیرت مند افراد نے اپنے ایمان کے بل بوتے بیعت سے انکار کیا ہے ان میں ایک حضرت حسین بھی ہے، آپ مدینہ میں ظالم حکمران سے تنگ آکر مدینہ چھوڑ کر کوفہ چل دئیے ہیں، عراق والے مسلسل خطوط بھیج رہے ہیں اور حسین کو عراق آنے کی دعوت دے رہے ہیں اس قدر اصرار سے تنگ آکر امام حسین عراق کا رخ کرتے ہیں راستہ میں عراق کی غداری اور اہانت کا پتہ چلتا ہے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملتی ہے جوش انتقام میں کوفہ کی راہ لیتے ہیں آپ کے ساتھ صرف ستھر افراد ہیں امام حسین کے معصوم بیٹے اور بیٹیاں بھی ساتھ ہیں۔۔۔ آہ۔۔۔ کربلا کا میدان آپہنچا،۔ یہاں یہ چھوٹا سا لشکر مگر ایمانی قوت سے سرشار پڑاو ڈالتے ہیں چاروں طرف میدان کا جائزہ لیتے ہیں ایک طرح کی وحشت سی معلوم ہورہی ہے اتنے میں ابن زیاد کا وہ ساٹھ ہزار کا لشکر جرار امنڈ آتا ہے ادھر صرف ستر افراد ہیں ان میں بھی چند معصوم جانیں ہیں ۔۔ آہ۔۔ آل رسول کا یہ چھوٹا سا قافلہ اب دشمنوں کے گھراؤ میں ہے ، چاروں طرف سے تلواروں کی چمک دکھائی دے رہی ہے امام حسین کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہے جو پانی کے لئے تڑپ رہا ہے دشمنوں سے پانی مانگتے ہیں مگر وہ ظالم شیر خوار پر بھی رحم نہیں کرتے اور پانی دینے سے انکار کردیتے ہیں امام حسین اصرار کرتے ہیں مگر ظالموں نے ذرا بھی رحم نہ کی اور یوں اپنی ظلم کی داستان رقم کی کہ امام حسین کی گود میں ہی اس معصوم سے بچہ کو شہید کر دیا جاتاہے، امام حسین کانپ رہے ہیں تھرارہے ہیں، جگر چھلنی ہورہا ہے، لرزتے ہوئے اپنے خیمہ میں آتے ہیں تو ایک اور دردناک منظر دیکھتے ہیں کہ اس کے جوان بیٹے کو دو ٹکڑے کر کے خیمہ کے آگے پھینک دیا گیا ہے امام حسین اپنے ہی جوان بیٹے کے ٹکڑے کو اٹھاکر اس جگہ رکھ دیتے ہیں جہاں انہوں نے معصوم بچہ کی لاش کو رکھا تھا، اب گھمسان کی رن پڑ گیا ہے ساٹھ ہزار کے مقابلہ میں ستر افراد بڑی دلیری کے ساتھ لڑرہے ہیں ایمانی تلواریں دشمنوں کی صفوں کو چیرتی پھاڑتی نظر آرہی ہے مگر کب تک ، ایک ایک کرکے سب شہید کردیے جاتے ہیں آخر میں علی کے نور نظر فاطمہ کے لخت جگر سرور کونین کے پھول کی باری آتی ہے دشمن آواز لگارہے ہیں ۔۔ حسین کو قتل کرو۔۔ آواز سنتے ہی مجمع میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور سب کی نگاہیں امام حسین کو دیکھنے لگتی ہیں امام حسین دشمنوں کے بیچ تن تنہا ہیں ہاتھ میں تلوار ہے نانا کی تربیت علی کی بہادری فاطمہ کی آنچل کی خوشبی چاروں طرف سے انہیں صدا دے رہی ہے، ۔۔ حق کی خاطر ایک نہیں سو جانیں بھی قربان ہو جائے تو اس سے بڑی خوشی کوئی اور نہیں۔۔۔۔ یہ خلاصہ تھا تمام تر تربیت کا۔۔۔ دشمن حسین کا سر لینے کیلئے بیتاب ہے اب بھی وہی شرط کہ۔ ابن زیاد کی بیعت کرلو۔۔۔ مگر حسین کے ضمیر نے اور ان کے ایمانی جوش نے گوارا نہ کیا کہ کسی ظالم اور نااہل کی بیعت کرے ، بلاآخر لڑتے ہوئے کربلا کے میدان میں نانا کی دین کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے،
اور ساتھ ساتھ یہ پیغام دے گئے کہ مصیبتوں اور آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے دین کی سربلندی کیلئے گردن کٹ جائے تو بلا جھجک اسے قبول کر لیا جائے لیکن ظالم سے ایک لمحہ کیلئے بھی سمجھوتہ گوارہ نہیں ہونا چاہیے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...