(Last Updated On: )
1950 کی دہائی کا امریکہ سخت عدم استحکام ، سیاسی بحران ، نسلی خانہ جنگی ، معاشی تنگی ، لاقانونیت اور غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا ۔
سیاسی اور نسلی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگز، احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ نے پورے ملک پر ایک مستقل کشیدگی اور تناؤ کی سی صورتحال مسلط کر رکھی تھی ۔
ایسے میں پریشان حال عوام کی توجہ Jim Jones نامی ایک مسیحی مبلغ نے اپنی جانب مبذول کی جوکہ 1954 میں امریکی ریاست انڈیانا میں قائم کیے گئے ایک مذہبی تنظیم People’s Temple کا لیڈر تھا ۔
یہ نئی مذہبی تحریک دراصل عیسائیت اور سوشلزم کا مجموعہ تھی ، فی الحقیقت اس تحریک کے تحت عیسائیت کی آڑ میں اشتراکیت کی تبلیغ اور پرچار کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔۔۔اور اس کام میں جم جونز بہت ماہر اور تجربہ کار تھا۔
جم جونز کسی ہالی ووڈ ایکشن فلم کے ہیرو جیسی شخصیت کا حامل تھا اور ایک بہتر مقرر تھا جس میں الفاظ کے زریعے کسی کے دل و دماغ کو جکڑ لینے اور اپنے افکار سے متفق کروا دینے کی عمدہ صلاحیت موجود تھی۔
چنانچہ وہ امریکی عوام جو امریکہ کے کشیدہ حالات اور معاشی تنگی کے باعث شدید ڈیپریشن اور بےیقینی کا شکار تھے انہیں جم جونز کی شکل میں ایک ایسا شخص میسر آگیا جو اپنے الفاظ اور افکار کی مدد سے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی صلاحیت سے لیس تھا ۔
اور اس طرح لوگ جوق در جوق جونز کی تقاریر اور بیانات سننے کے لیے پیپلز ٹیمپل کا رخ کرنے لگے ۔۔۔۔ اسطرح ٹیمپل کے ممبران کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا ۔
ایک مرتبہ جو شخص اس تحریک سے جڑ جاتا جلد ہی وہ جونز کے گہرے معتقدین میں شامل ہو جاتا تھا ۔
شروع شروع میں جونز کی تعلیمات بائبل کے گرد ہی گھومتی تھیں جن میں وہ کمال ہوشیاری سے اشتراکیت کا پیوند لگا دیا کرتا تھا لیکن جیسے جیسے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ایک طرف اس کی تعلیمات میں سے مذہب کا عنصر کم اور اشتراکیت کا عنصر زیادہ ہوتا جارہا تھا۔۔۔۔ تو دوسری طرف اس شہرت نے اس کا دماغ خراب کرتے ہوئے اسے غرور و تکبر اور بری عادات میں مبتلا کرنا شروع کردیا تھا۔
آنے والے سالوں میں اس نے اپنے فالورز کے سامنے خود کو ایک مبلغ کم اور ایک مسیح یا اوتار زیادہ ظاہر کرنا شروع کردیا ۔ اور اس کی عقیدت میں اب تک اندھے ہوچکے ٹیمپل ممبران نے اسے بلا جھجھک خدا کا اوتار تسلیم بھی کر لیا۔۔۔
جونز کی ان حرکتوں کی وجہ سے مقامی چرچ اور اصل عیسائی مبلغین اس سے سخت تنگ تھے اور اب عیسائی حلقوں میں اسے اور اس کی تحریک کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
۔
اشتراکیت کے اصولوں کے عین مطابق ٹیمپل کا ہر ممبر اپنی دولت اور اثاثہ جات ٹیمپل کے نام منتقل کردیتا تھا اور ٹیمپل اس مشترکہ فنڈ سے اس تحریک کو چلا رہا تھا کہ جو اب باضابطہ طور پر ایک کمیونٹی کی صورت اختیار کر چکی تھی۔۔۔۔ کئی لوگ بالخصوص نوجوان ، اپنے گھر بار، خاندان اور جابز چھوڑ کر مستقل ٹیمپل کے ساتھ ہی منسلک ہو چکے تھے اور ٹیمپل کے اندر ہی رہائش پذیر تھے۔
انڈیانا میں حالات خراب ہوجانے پر جولائی 1965 میں جونز نے پیپلز ٹیمپل کو کیلیفورنیا منتقل کردیا ۔
یہاں آکر بھی جونز نے اپنی روش نہ بدلی اور عیسائیت کے نام پر اشتراکی نظریات کے پرچار کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔۔۔ کیلیفورنیا میں بھی ٹیمپل ممبران کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی تھی ۔
اپنے عروج پر پیپلز ٹیمپل 20,000 ممبران پر مشتمل تھا ۔
۔
سکینڈل :
1972 میں ٹیمپل سے منحرف ہونے والے کچھ ممبران نے میڈیا اور حکومت کے سامنے اس بات کا انکشاف کیا کہ ،
1- جونز ایک نفسیاتی مریض ، احساس برتری میں مبتلا تشدد پسند شخصیت ہے جو فیمیل ٹیمپل ممبران کے ساتھ کئی مرتبہ دست درازی بھی کرچکا ہے۔
2- جونز ٹیمپل کے نام پر اکھٹے ہونے والے فنڈز اور ممبران کی طرف سے ہبہ کیے گئے اثاثہ جات کا استعمال اپنے اور اپنے قریبی حلقہ کے عیش و تعیش کے لیے کررہا ہے۔
3- جونز ممبران کو ٹیمپل سے جڑے رہنے کے لیے دھمکیوں ، ہراسمنٹ ، بلیک میلنگ یہاں تک کہ ان کے خاندان کے افراد بالخصوص بچوں کو زیر حراست رکھنے جیسے جرائم میں ملوث ہے۔
۔۔۔ ان منحرف ممبران کے بیانات کے بعد دیگر ممبران کو بھی شہ ملی اور اس طرح ٹیمپل کے متعدد موجودہ و سابق ممبران نے میڈیا کے سامنے جونز کے ہاتھوں اپنے استحصال کے واقعات کو بیان کیا۔
اس سے ایک طرف جہاں پورے ملک سے جونز اور پیپلز ٹیمپل کو شدید ترین تنقید اور لعن طعن کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔وہیں ناصرف نئے ممبران کی شمولیت رک گئی بلکہ موجودہ ممبران بھی تیزی سے ٹیمپل سے کنارہ کش ہونے لگے۔۔۔۔یہاں تک کہ محض دو برس میں ٹیمپل ممبران کی تعداد 20 ہزار سے محض 3 ہزار کے قریب ہی رہ گئی۔
جونز ہمیشہ ان الزامات کی نفی کرتا رہا اور انہیں امریکہ کی کیپٹلسٹ حکومت کی طرف سے رخی جارہی سازش قرار دیتا رہا۔
۔
گیانا ہجرت :
1974 میں جونز نے اپنے سبھی فالورز سمیت امریکہ سے ہجرت کرکے اپنے ٹیمپل کو شمالی امریکہ کے ملک گیانا 🇬🇾 میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اس سلسلے میں اس نے گیانی حکومت سے مذاکرات کیے جس میں اس نے گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن سے 150 کلومیٹر دور ایک گھنے ، ویران جنگل کے بیچوں بیچ اپنے ٹیمپل اور کمیونٹی کے لیے ایک قطعہ زمین کی فرمائش کی۔
یوں تو کوئی بھی ملک اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے باشندوں کو بیک وقت ، ایک ہی مقام پر شہریت کی اجازت نہیں دیتا ۔
تاہم جونز نے گیانی حکومت کے سامنے ایک آفر رکھی ۔۔۔ ان دنوں گیانا اور وینزویلا کے درمیان سخت کشیدگی چل رہی تھی اور گیانا پر کسی بھی بھی وینزویلا کے حملے اور فوج کشی کے سخت خطرات تھے۔
جونز کی طرف سے مانگا گیا علاقہ وینزویلا کی سرحد کے نزدیک تھا۔۔۔۔ بقول جونز ، اگر گیانا حکومت انہیں اس مقام پر سیٹل ہونے کی اجازت دے دے تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی باشندوں کی موجودگی کے باعث وینزویلا گیانا پر حملے سے باز رہے گا ۔ کیونکہ اگر وینزویلا حملہ کرتا ہے اور اس میں امریکی باشندوں کی موت ہو جاتی ہے تو امریکہ جو پہلے ہی وینزویلا کے سخت خلاف ہے ، ایسی صورت میں جنگ میں کودنے سے باز نہیں رہے گا ۔
یہ ترکیب کارگر رہی ۔۔۔۔ اور گیانا حکومت نے جونز کو گیانا کے دوردراز جنگلی علاقے Port Kaituma میں اپنے ٹیمپل کی ری-لوکیشن کی اجازت دے دی۔
1976 میں جونز نے اپنے 500 مقلدین کو بھاری سازو سامان کے ساتھ گیانا میں مقررہ مقام پر بھیجا اور انہوں نے Port Kaituma میں نئے پیپلز ٹیمپل بنام Jonestown کی تعمیر کا کام شروع کردیا ۔
سب سے پہلے 3800 ایکڑز رقبے سے درختوں کی کٹائی ، زمین کی صفائی اور ہمواری کا کام شروع کیا گیا۔۔۔ ان ہزاروں درختوں کی لکڑی کو آگے چل کر جونز ٹاؤن کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جانا تھا ۔
اسی دوران جارج ٹاؤن سے جونز ٹاؤن تک 150 میل لمبی کچی سڑک پر بھی کام کا آغاز ہوگیا ۔
جونز نے اس نئے ٹیمپل کے نزدیک ایک عارضی ائیرسٹرپ بھی تعمیر کروائی ۔
زمین کی صفائی کے بعد اس سارے رقبے کو باڑ لگا کر محفوظ کیا گیا اور پھر اس احاطے کے اندر چوبی عمارات ، گھروں اور کیبنز کی تعمیر کا کام شروع ہوا ۔
۔
بقول جونز ۔۔۔” یہ کمیونٹی جنتِ عرضی کا نمونہ ہوگی جہاں نہ کوئی سیاسی یا نسلی تقسیم ہوگی نہ کوئی گروہ بندی اور نہ کسی کو کوئی معاشی تنگی ہوگی۔ سب ایک جیسا کھائیں ، پیئں اور پہنیں گے۔ مفت تعلیم اور میڈیکل سہولیات سبھی ممبرز کے لیے یکساں ہوں گی۔ سبھی کو دن میں 5 دن 8 گھنٹے کام کرنا ہوگا اور 2 دن مکمل آرام اور تفریح ۔ یہاں کسی کو بھی نہ تو کوئی ٹیکس یا بِل بھرنے ہوں گے اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی خدشات یا خوف۔ یہاں نہ تو کوئی محتاج اور غریب ہوگا اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار یا دولتمند۔”.
صاف ظاہر تھا کہ جونز چین اور روس کے کمیونی اور اشتراکی نظریہ کا عملی نفاذ چاہتا تھا۔
اس مقام پر جونز اب تقریباً تقریباً ملحد ہو چکا تھا اور اس کی تعلیمات میں سے عیسائیت کا عنصر مکمل طور پر غائب ہوچکا تھا۔
جونز ٹاؤن کے علاؤہ جونز نے گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن میں بھی ایک مکان خریدا ، جسے پیپلز ٹیمپل کے کچھ سرکردہ افراد جونز ٹاؤن کے ترجمان اور سفارتکار ایک دفتر کے طور پر چلا رہے تھے۔۔۔ جونز ٹاؤن کے بیرونی دنیا سے رابطے کا یہی واحد زریعہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جونز ٹاؤن میں زندگی :
1977 میں جم جونز اپنے 915 مقلدین کے ساتھ سان فرانسسکو سے ہجرت کرکے گیانا میں جونز ٹاؤن منتقل ہوگیا۔۔۔اور اس طرح پیپلز ٹیمپل کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
جونز ٹاؤن بنیادی طور پر ایک زراعتی پراجیکٹ تھا جہاں کے سبھی لوگوں کا بود و باش کاشتکاری پر انحصار کرتا تھا۔
یہاں ہر کسی کو برابر کام کرنا پڑتا تھا ، ان کی رہائش خوراک اور دیگر ضروریات کمیونٹی کے ذمہ تھی۔۔۔ جونز نے یہاں سپورٹس سینٹر، نرسری، پویلین ، ہسپتال سمیت بہت کچھ تعمیر کروایا تھا ۔
لیکن۔۔۔۔ یہاں کے سبھی رہائشیوں کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ یہاں اخبار، ٹی-وی ریڈیو کچھ بھی موجود نہ تھا اور بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد زریعہ جونز کا وائرلیس سیٹ تھا جس کے زریعے وہ جارج ٹاؤن میں موجود ٹیمپل کے آفس سے رابطہ رکھتا تھا۔
۔
اس وقت تک جونز باضابطہ طور پر ایک نفسیاتی مریض اور ایک نشئی بن چکا تھا ۔ اسے ہر وقت اپنے آس پاس ہر کوئی ، ایک سازشی کردار نظر آنے لگا تھا اور وہ اب یہ یقین رکھنے لگا تھا کہ پوری دنیا اس کی اور اس کے افکار کی دشمن ہے۔
اس کی صحت کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتا جارہا تھا ۔
اور اب وہ کسی مبلغ کے بجائے کسی سخت گیر آمر کے طور پر کمیونٹی کو چلانے لگا تھا ۔
جونز اپنی رائے کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہ کرتا تھا اور معمولی سے اختلاف یا کسی خلافِ طبعیت بات پر کمیونٹی ممبران کو سخت سزائیں دیتا تھا ۔
جونز کی طرف سے کیے گئے سبھی وعدے ایک کے بعد ایک فرضی یقین دہانی ثابت ہورہے تھے ۔
کمیونٹی ممبران کو اب ہفتے میں 6 دن آٹھ سے دس گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور باقی وقت بھی انہیں تعلیم کے نام پر کمیونیت و اشتراکیت کے زیر پر مبنی برین واشنگ سے گزرنا پڑتا تھا ۔ انہیں مہنیوں مہینوں تک ایک جیسی خوراک پر گزارہ کرنا پڑ رہا تھا۔
چند ماہ میں ہی کمیونٹی کے لوگ جونز سے بد دل ہونے لگے لیکن جونز کی سخت طبعیت کے باعث کوئی بھی اپنی زبان نہیں کھول سکتا تھا کیونکہ ایسا کرنے والے کو بیت بری طرح سے مار پیٹ کرنے کے بعد جیل کے نام پر بنی کوٹھریوں میں دنوں یا بعض اوقات ہفتوں کے لیے قید کردیا جاتا تھا ۔
اس کمیونٹی سے کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ چاروں طرف جونز کے مسلح گارڈز پیٹرولنگ پر تعینات تھے اور کمیونٹی سے فرار ہوکر بھی سینکڑوں میل تک گھنا جنگل تھا جسے عبور کر پانا بھی ناممکنات میں تھا ۔
۔۔۔ دوسری طرف کمیونٹی میں شامل ان لوگوں کے والدین اور رشتے داروں کی تشویش مسلسل بڑھتی جارہی تھی کہ جو ان کی مرضی کے بغیر، گھر سے بھاگ کر پیپلز ٹیمپل کا حصہ بنے تھے اور اب کئی ماہ سے ان کا رابطہ بھی کٹ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی ٹیم کی گیانا روانگی :
جونز ٹاؤن کے بابت امریکی حکومت کو مل رہی رپورٹس اور امریکہ میں متاثرین جونز ٹاؤن کے والدین اور رشتے داروں کے علاؤہ میڈیا کے دباؤ کے بعد امریکی حکومت نے کانگریس ممبر “لیو رائن” کی کمان میں ایک 17 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جسے گیانا میں جونز ٹاؤن تک رسائی حاصل کرکے وہاں کا وزٹ کرنے کے بعد اول تو یہ طے کرنا تھا کہ کیا واقعی جم جونز نے اس کمیونٹی کو ایک بڑے زندان اور بےگار خانے میں بدل دیا ہے یا پھر یہ محض افواہیں ہیں۔۔۔۔اس ٹیم کا دوسرا ٹاسک یہ تھا کہ جونز ٹاؤن میں موجود ان سب ممبرز کو اپنے ساتھ لے آئیں کہ جو وہاں مزید نہیں رہنا چاہتے ۔
اس ٹیم میں صحافی بھی شامل تھے اور کچھ متاثرین کے والدین یا رشتے دار بھی۔
14 نومبر 1978 کو یہ ٹیم امریکہ سے گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن لیے روانہ ہوئی۔
گیانا پہنچے کے بعد ان کا قیام جارج ٹاؤن کے مشہور “پیگاسس ہوٹل” میں تھا ۔
اس دوران کانگریس ممبر لیو رائن نے جارج ٹاؤن میں موجود پیپلز ٹیمپل کے آفس کو وزٹ کیا اور وہاں تعینات ٹیمپل ممبران سے یہ درخواست کی کہ وہ جم جونز سے اس کی گفتگو کا بندوبست کریں اور یہ بھی بتایا کہ وہ امریکہ حکومت کی ایما پر اپنی ٹیم سمیت ، جونز ٹاؤن کو وزٹ کرنا چاہتا تھا ۔
شروع میں تو جم جونز نے انتہائی سختی سے اسے منع کردیا کہ وہ یا کوئی بھی سرکاری ترجمان اس کی کمیونٹی یا کمیونٹی کے کسی ممبر کے قریب مت پھٹکے۔
تاہم لیو رائن نے جونز کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ کسی اختلافی مقاصد کی غرض سے نہیں آیا اور اس کا مقصد صرف کمیونٹی کو وزٹ کرنے کے بعد اس وزٹ کی رپورٹ امریکی حکام کے حوالے کرنا ہے۔
کافی پس و پیش کے بعد جونز اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ وہ رائن اور اس کی ٹیم کے چند ممبران کو جونز ٹاؤن میں داخل ہونے اور ایک دن قیام کرنے دے گا۔
۔
جونز ٹاؤن کا دورہ :
۔۔۔ چنانچہ 17 اکتوبر کو گیانا ائیرلائنز کے ایک چھوٹے طیارے پر لیو رائن اور اس کی ٹیم کو جونز ٹاؤن سے 10 میک کے فاصلے پر موجود اس عارضی ائیرسٹرپ تک پہنچا دیا گیا۔
اور یہاں سے جونز ٹاؤن کے کچھ ممبران ایک ٹرک کے ذریعے ان سب کو جونز ٹاؤن تک لے گئے۔۔۔۔۔ جونز ٹاؤن میں لیو رائن کی ٹیم کے استقبال کے لیے تیاریاں پہلے سے مکمل کی جاچکی تھیں ۔
پوری کمیونٹی کی صفائی ستھرائی ، پینٹ اور ڈیکوریشن کے ساتھ ساتھ رائن کی ٹیم کے لیے بہترین ڈنر اور میوزک پروگرام کا بھی بندوبست کیا گیا تھا ۔ اور ساتھ ہی جونز نے سبھی ممبران کو انتہائی سختی سے یہ احکامات دے رکھے تھے کہ وہ رائن یا اسکی ٹیم کے سامنے کوئی بھی ایسی بات نہ کریں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ناخوش ہیں یا کسی استحصال سے گزر رہے ہیں۔
۔۔۔۔ دورے کا پہلا دن، اور رات کی تقریبات سبھی بہت خوشگوار ثابت ہوا ۔ یہاں تک کہ رائن نے رات کی تقریبات کے دوران جونز ٹاؤن کے ممبران سے چند منٹ کی گفتگو میں اس بات تک کا اظہار کیا کہ وہ اس کمیونٹی اور اس کے انتظامات سے مطمئن اور خوش ہے۔
لیکن۔۔۔۔
جم جونز جو اب ڈیپریشن اور پینک کی وجہ سے چوبیس گھنٹے نشہ آور گولیوں کے زیر اثر رہتا تھا ، اس کا ذہن جزوی طور پر مفلوج اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوچکی تھی ، وہ اس خوشگوار ماحول اور رائن کی تقریر کو بھی ایک تقیہ سمجھتے ہوئے یہ شک ذہن میں مستقل بٹھائے ہوئے تھا کہ “رائن اور اس کی ٹیم CIA کی ایما پر درحقیقت جونز ٹاؤن کی مخبری اور ریکی کرنے کے مشن پر ہے اور اس کے بعد امریکی فوج جونز ٹاؤن پر حملہ آور ہوجائے گی۔”
چنانچہ وہ اپنے اندر کی آگ میں جل رہا تھا اور اب وہ رائن اور اس کی ٹیم کا خاتمہ کر دینے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
رائن کے دورے کے دوسرے دن ، ٹیمپل کے 14 ممبران نے اس سے رابطہ کیا اور اسے آگاہ کیا کہ وہ یہاں انتہائی مخدوش حالات اور حراست میں جی رہے ہیں۔۔۔اور یہ کہ وہ رائن کے ساتھ جونز ٹاؤن سے نکل کر واپس امریکہ چلے جانا چاہتے ہیں۔
جونز جو پہلے ہی رائن کی ٹیم کو CIA کا انڈر کور گروپ سمجھ رہا تھا اب اپنی کمیںونٹی کے 14 افراد کو منحرف ہوکر رائن کے ساتھ مل جانے پر بری طرح سے اعصابی ٹوٹ پھوٹ اور غم و غصے کا شکار ہوگیا۔
18 نومبر 1978 کے دن ، لیو رائن، اس کی ٹیم اور سبھی 14 منحرفین واپس اس ائیرسٹرپ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ان کا طیارہ موجود تھا ، جس کے زریعے انہیں واپس جارج ٹاؤن جانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
سانحہِ پورٹ کیٹوما:
18 نومبر کی شام 5 بجے رائن اور اس کے سبھی ہمراہی مطلوبہ ائیرسٹرپ تک پہنچ گئے جہاں ان کا طیارہ موجود تھا۔
وہ سب ٹرک سے اترنے کے بعد اپنا سامان سنبھال کر طیارے پر سوار ہو ہی رہے تھے کہ قریب ، جنگل سے کچھ مسلح افراد نکل کر سٹریپ کی طرف بڑھے جو ہینڈ گنز اور شاٹ گنز سے لیس تھے ۔
سٹرپ پر پہنچتے ہی انہوں نے ابھی مسافروں پر اندھادھند فائر کھول دیا۔۔۔نہتے مسافروں کے پاس اپنے دفاع کے لیے ایک پستول تک موجود نہ تھا ۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی کو یہ امید تھی کہ جونز اتنے ہائی پروفائل سرکاری اہلکار کی موجودگی میں ان پر حملہ کروا سکتا ہے۔
5 افراد موقع پر گولیوں کا شکار ہوکر زمین بوس ہوگئے جبکہ دیگر 11 افراد کو بھی گولیاں چاٹ گئیں۔۔۔ سبھی نے جنگل میں ادھر ادھر بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
کئی منٹ تک گولی باری کے بعد حملہ آور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔۔
مرنے والے 5 افراد میں لیو رائن بھی شامل تھا۔
حملہ آوروں کے جانے کے بعد بچے ہوئے افراد بشمول زخمیوں کے سبھی واپس ائیرسٹرپ پر پہنچے۔ خوشقسمتی سے اس حملے میں طیارے کو کوئی قابل ذکر نقصان نہ پہنچا تھا اور پائلٹ بھی زندہ اور محفوظ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحہِ جونز ٹاؤن 18 نومبر 1978 :
ادھر جونز ٹاؤن میں جب جم جونز کو رائن کی موت کی خبر ملی تو اس نے واپس آچکے حملہ آوروں کو خراج تحسین پیش کیا ۔
اور پھر لاؤڈ سپیکر پر جونز ٹاؤن کے سبھی ممبرز کو پویلین پہنچنے کی ہدایات دیں۔
پوری کمیونٹی کے جمع ہوجانے کے بعد جونز نے ان سے آخری خطاب کیا ۔ جس میں اس نے سب کو یہ “خوشخبری” سنائی کہ اس کے گارڈز نے لیو رائن اور اس کے ساتھیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔
ساتھ ہی اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اس خبر کے امریکہ پہنچتے ہی امریکی فوج پوری طاقت سے جونز ٹاؤن پر ٹوٹ پڑے گی اور ان سب کا خاتمہ کر دے گی ۔
جونز نے اپنی 44 منٹ کی آخری تقریر میں پوری کمیونٹی کو اس پر بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ ” امریکی فوج کے ہاتھوں دردناک انجام سے دو چار ہونے کی نسبت بہتر یہی ہے کہ ہم سب پر امن اور پر سکون طور پر اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیں۔۔۔اور اپنی جانیں ایک ‘انقلابی مقصد’ کے لیے قربان کردیں۔”.
جس وقت جونز کی تقریر جاری تھی اسی وقت جونز کے قریبی گرگے اس کے حکم پر بڑے بڑے برتنوں میں میٹھا شربت گھول کر اس میں سریع الاثر سائینائیڈ زہر ملانے میں مصروف تھے۔
۔
اس 44 منٹ کی تقریر (جسے آپ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں) میں جونز کمیونٹی کے چند گنے چنے افراد کے علاؤہ باقی سب کو اس بات پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ امریکی بمباری یا فوجی کارروائی سے قبل انہیں خود ہی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لینا چاہیے۔
۔
تقریر ختم ہونے کے بعد سب ممبران کو تیار شدہ شربت کے گلاس پیش کیے گئے۔ جو ممبران خودکشی پر راضی نہیں تھے انہیں گن پوائنٹ پر اسی شربت کے انجیکشنز لگادیے گئے۔
جونز کے کہنے پر سبھی ممبران نے بیک وقت شربت پینا شروع کیا۔۔۔
۔
کچھ ہی دیر کے اندر جونز ٹاؤن ایک ہارر مووی کے سین جیسا منظر پیش کررہا تھا جہاں 909 افراد کی لاشیں کیڑے مکوڑوں کی طرح بکھری پڑی تھیں۔جن میں 300 بچے بھی شامل تھے۔
وہ ننھے، شیر خوار بچے جو گلاس میں نہیں پی سکتے تھے انہیں فیڈر کی مدد سے زہریلا شربت دیا گیا۔
۔
سبھی ممبرز کی موت کا اطمینان کرلینے کے بعد جونز نے اپنے پستول کی مدد سے خود کو شوٹ کرلیا۔
اور اس طرح یہ سانحہ جدید دنیا میں اجتماعی خودکشی کا سب سے بڑا اور سب سے ہولناک واقعہ بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل کلام:
بھلے ہی اس سانحہ کا اصل ذمہ دار جم جونز ہی ہے۔
تاہم اس میں ایک بڑی ذمہ داری امریکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے اول تو اتنی اہم شخصیت کو بغیر کسی سکیورٹی یا بیک اپ اتنے خطرناک اور غیر یقینی مقام پر بھیجا ۔ اور دوسرا یہ کہ امریکی حکومت نے جونز کی جنونی طبعیت کو زیادہ سیریس نہ لیا کہ وہ اس حد تک بھی جا سکتا ہے۔
ساتھ ہی ٹیمپل ممبران نے بھی بزدلی کا ثبوت دیا ورنہ 1 ہزار افراد کے لیے دس بارہ مسلح افراد پر قابو ہوکر انہیں غیر مسلح کرکے باندھ دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔۔۔۔تھوڑی سی ہمت دکھا کر اس تاریخی سانحے کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔
****
تحریر: ستونت کور
تحریر: ستونت کور