1 جولائی 2018 کو ایک اندوہ ناک خبر نے پورے ہندوستان کو لرزا کے رکھ دیا۔ اور یہ خبر دہلی کے علاقے براڑی کے ایک گھر سے برآمد ہونے والی ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی لاشوں کے متعلق تھی جنہیں ابتدائی تحقیقات میں ہی اجتماعی خودکشی کا ایک واقعہ قرار دے دیا گیا ۔
لیکن۔۔۔ اس سانحہ میں دو باتیں غیر معمولی تھیں۔
اول- ایک ہی خاندان اور تین جنریشنز کے افراد نے ایک ہی وقت میں ایک ہی مقام پر ایک ہی طریقے (پھانسی) سے خودکشی کی۔
دوم- یہ خاندان معاشی طور پر مستحکم ، خوش باش ، متحرک اور انتہائی باعزت افراد پر مشتمل تھا ۔
آخر ایسی کیا قیامت آن ٹوٹی کہ اس ہنستے بستے خوشحال خاندان کے ہر آخری فرد تک کو اچانک خودکشی کی نوبت اگئی۔۔۔۔؟
۔
اس سلسلے میں یوں تو میڈیا نے سینکڑوں مختلف مفروضات کو بکھیرتے ہوئے خوب مکھی پر مکھی ماری ۔ لیکن اس کیس میں 2 بنیادی مفروضات ،معروف ہیں :
1- کہ یہ خودکشی ایک اجتماعی نفسیاتی مرض اور اس کے اثرات کا نتیجہ ہے۔
2- کہ بھوپال فیملی کسی Cult یا خفیہ مذہبی گروہ کا حصہ تھے اور اسی شیطنت کا شکار ہوکر انہوں نے خودکشی کر لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس سانحہ کی تفصیلات جانتے ہیں تاکہ ہمیں, کسی نتیجے تک پہنچنے میں آسانی رہے۔
پسِ منظر :
بھوپال فیملی کا تعلق بنیادی طور پر راجھستان سے تھا لیکن وہ ایک دہائی سے ہریانہ میں آباد تھے جہاں ان کی کچھ زمین تھی اور وہ ہریانہ میں کاشتکاری اور ڈیری کا کام کرتے تھے۔
1990 میں بھوپال چوہان نے اپنی زمین فروخت کی اور اپنے خاندان سمیت دہلی منتقل ہوگیا۔
یہاں انہوں نے براڑی میں ایک مکان خریدا اور مکان کے پہلے فلور میں کریانہ اور پلائی ووڈ کے ایک سٹور کا آغاز کیا ۔
رفتہ رفتہ ان کا کاروبار چلتا گیا اور یہ لوگ پہلے غریب سے لوئر مڈل کلاس اور پھر اپر مڈل کلاس فیملی میں ڈھل گئے ۔
بھوپال اور اس کی بیوی نارائنی کے 2 بیٹے (بڑا بھونیش اور چھوٹا لالت) اور ایک بیٹی (پرتیبھا جوکہ بیوہ) تھی۔
براڑی میں اس کامیاب کاروبار کے ساتھ اپنے علاقے اور کمیونٹی میں انہوں نے خوب عزت اور اچھا نام کمایا اور بھوپال فیملی کو پورے براڑی میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
2004 حادثہ:
2004 میں بھوپال کے چھوٹے بیٹے لالت کے ساتھ ایک جھگڑے کے دوران ، سخت نوعیت کا حادثہ پیش آگیا جس میں پلائی کے بھاری ٹکڑے بلندی سے اس کے سر پے آکر لگے۔۔۔۔ لالت کا دماغ بہت بری طرح سے متاثر ہوا ۔
کئی ماہ کے علاج معالجے کے بعد جسمانی طور پر تووہ بحال ہوگیا لیکن اس حادثے کے بعد وہ گویائی سے محروم ہوچکا تھا اور اب بول نہیں سکتا تھا۔
لیکن اتنا ہی نہیں۔ اس حادثے میں اس کی نفسیاتی کیفیت ہر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے تھے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ پرانے خیالات کے حامل افراد کے ذہن میں ایک فتور یہ ہوتا ہے کہ سائیکیٹرسٹ کو دکھانے کا مطلب ہے کہ انسان پاگل ہے یا پھر صرف پاگلوں کو ہی دماغی معالج کو دکھایا جاتا ہے ۔ چنانچہ ایک طرف لالت کو کسی نفسیاتی معالج کو نہیں دکھایا گیا تو دوسری طرف بات نہ کرسکنے کی وجہ سے وہ بنیادی کتھارسس سے بھی محروم تھا ۔
بعد میں اسی کیفیت میں لالت کی شادی بھی ہوئی اور اس کی بیوی ٹینا سے اس کا ایک بیٹا شیوم بھی تھا لیکن قوتِ گویائی سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کو بھی کبھی پکار نہ سکا تھا۔۔۔۔اور یہ ایک مستقل ، گہرا احساسِ محرومی تھا۔
۔۔۔۔
بھوپال کی موت 2007:
2007 میں خاندان کے سربراہ بھوپال چوہان کی موت ہوگئی ۔ پورے خاندان کے لیے یہ بہت بڑا سانحہ تھا کیونکہ ناصرف وہ خاندان کے سرپرست تھے بلکہ ان کے فیملی بزنس کو شروع کرنے اور اس مقام تک پہنچانے کا سہرا بھی انہی کے سر تھا ۔ ظاہر ہے ان کی موت سے ان کی فیملی کو جو دھچکا لگا اس سے سنبھلنے کیں انہیں طویل عرصہ لگ سکتا تھا ۔
لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوا۔
۔۔۔۔۔
لالت بول اٹھا :
بھوپال کی موت کا 10واں دن تھا اور ان کے گھر میں بھوپال کے ایصالِ ثواب کے لیے پوجا پاٹ جاری تھی کہ اچانک لالت بول اٹھا اور پنڈت کے ساتھ ساتھ بھیجن گانے لگا ۔
بھوپال فیملی جنہوں نے کئی سال سے لالت کو خاموش ہی دیکھا تھا اور ڈاکٹرز کے مطابق لالت کی گویائی کا اختتام ہوچکا تھا اس کا یوں اچانک بول اٹھنا پورے خاندان کے لیے خوشگوار حیرت کا ایک دھچکا تھا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لالت کی گویائی اچانک واپس کیسے آ گئی۔۔۔؟
ممکنہ طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ باپ کی موت سے جو بھیانک جذباتی شاک لالت کو لگا اس نے لالت کے سائیکوسس کو ریورس کردیا اور وہ بولنے کے قابل ہوگیا ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
۔۔۔۔۔
نئی زندگی :
بھوپال کی موت کے بعد جب ان کے خاندان سے نئی زندگی کا آغاز کیا تو کہا یہ جارہا تھا کہ انہیں سنبھلنے میں اور معمول پر واپس آنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا ۔
لیکن ہوا اس کے بر عکس۔۔۔۔
ان کے رشتے داروں ، پڑوسیوں اور دیگر جاننے والوں نے بھوپال کی موت کے چند دن بعد سے ہی نوٹ کیا کہ بھوپال فیملی اب سنبھل چکی ہے اور نہ صرف سنبھل چکی ہے بلکہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سنورتی جارہی ہے۔
انہوں نے پوجا پاٹ اور مذہبی معاملات میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کردی۔
شراب ، سگریٹ سمیت ہر مضر چیز کو ترک کردیا ۔
سب ہی وقت کے بےانتہا پابند ہوگئے ۔
اپنی دولت اور کاروباری انکم کو انہوں نے نئے شعبوں میں انویسٹ کرنا شروع کردیا ۔۔۔ ان کا کاروبار نہیں زیادہ بہتر اور منافع بخش ہوتا گیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرا سٹور بھی کھول لیا ۔
اب وہ اپر مڈل کلاس سے ایک امیر خاندان بنتے گئے۔
ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں مزید بہتری آنے لگی۔
غرض ان کی زندگی کا ہر ایک پہلو بہت خوش اسلوبی سے مزید سے مزید بہتر ہوتا چلا جارہا تھا ۔
براڑی کے لوگ اس خاندان کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ دیکھو انہوں نے باپ کی موت کے بعد بھی کیسے نہ صرف خود کو سنبھال لیا بلکہ اپنی زندگی کو مزید بہتری کی طرف گامزن کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
لالت کی ڈائری :
اب آگے کے سب معاملات کا راز پولیس کو ان 11 ڈائریوں سے ملا کہ جو اس سانحہ کے بعد انہوں نے اس گھر سے برآمد کیں۔ ہر ڈائری خاندان کے ایک ایک فرد کی تھی ۔۔۔ لیکن۔۔۔ سب سے اہم ڈائری لالت کی تھی۔
آخر بھوپال کی موت کے بعد ان کی فیملی نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کیسے کرلی ۔۔۔؟
اس کا راز لالت کی ڈائری نے افشاء کیا۔
۔
بھوپال کی موت کے چند روز بعد جب لالت نے معجزاتی طور پر بولنا شروع کردیا تو اس نے اپنی فیملی کے سامنے یہ بات رکھی کہ
“بابا کی روح اپنی فیملی کی راہنمائی کے لیے واپس آ گئی ہے اور اسی نے مجھے گویائی بخشی ہے ۔۔۔۔ بابا کی روح مجھ سے بات کرتی ہے اور مجھے ہدایات بخشتی ہے ۔ میں ان سبھی ہدایات کو ڈائری میں تحریر کردیتا ہوں اور اب خاندان کے ایک ایک فرد کو انتہائی سختی سے ان ہدایات ہر عمل کرنا ہوگا ورنہ ہم سبھی تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔”.
اب بھوپال فیملی جو کہ کافی ضعیف الاعتقاد لوگ تھے انہوں نے لالت کی گویائی واپس آنے کی وجہ سے اس کی باتوں کو سچ تسلیم کرلیا اور اب سے ہر رات لالت اپنے مرچکے باپ کی دی گئی فرضی ہدایات کو ڈائری پر تحریر کردیا کرتا اور اگلے روز وہ ہدایات خاندان کے سبھی افراد کے سامنے پڑھ دیا کرتا تھا ۔
یہ ہدایات زندگی کے ہر ایک پہلو سے متعلق ہوتی تھیں کہ انہیں کیا کھانا ، پہننا ہے ؟ کن لوگوں سے تعلق رکھنا اور جس سے دور رہنا ہے ؟ کاروبار کا پیسہ کس شعبے میں لگانا ہے ؟ کس وقت جاگنا اور سونا ہے کب گھر سے نکلنا اور کب گھر واپس آنا ہے ؟ سٹور کس وقت کھولنا اور کب بند کرنا ہے ؟ بچوں کو کس سکول میں پڑھانا ہے ؟
غرض زندگی کے معمولات سے جڑی ہر چیز سے متعلق بہت سخت ہدایات تھیں۔۔۔اور ساتھ ہی سبھی فیملی ممبرز کو سختی سے ہدایت تھی کہ اس گھر کی کوئی بات کا اشارتاً بھی گھر سے باہر کسی کے سامنے ذکر نہیں کرنا۔۔۔
اب۔۔۔۔ جیسے جیسے بھوپال فیملی کے ممبرز بھوپال کی فرضی روح کی ہدایات پر عمل کرتے رہے ویسے ویسے زندگی کے ہر پہلو میں ان کی حالت سنورتی چلی گئی اور اس وجہ سے ان کا اس بات پر یقین مزید سے مزید پختہ ہوتا چلا کہ واقعی بھوپال ہی لالت کی زبان میں ان سے مخاطب ہوتا ہے اور لالت کی ڈائری پر بھوپال ہی ان کے لیے زندگی کی گائیڈ لائنز تحریر کرتا ہے۔
ایک وقت گزرنے کے بعد ان سبھی کے دماغ میں یہ بات مکمل طور پر پختہ ہوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
خودکشی :
جون 2018 میں لالت نے بھوپال کی زبان میں میں اپنے خاندان کو اس بات پر آمادہ کرنا شروع کیا کہ اب بھوپال اپنی اصل شکل و صورت میں ان سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے لیے انہیں “بڑھ تپسیا” نامی ایک عمل کرنا پڑے گا ۔
اس نے بتایا کہ یہ تپسیا کرنے کے لیے ان سب کو اپنے آپ کو گھر کے ہال کی چھت پر روشنی کے لیے بنائے جنگلے سے رسیاں باندھ کر لٹکادینا ہوگا ۔۔۔۔۔اس نے کہا کہ میں (یعنی بھوپال) عین وقت پر آکے آپ سب کی جان بچاؤں گا اور پھر اپنی اصل شکل و صورت میں آپ سب سے ملوں گا۔
اس نے کہا کہ اگر خاندان کے سبھی ممبرز نے یہ عمل نہ کیا تو ان پر تباہی و بربادی کے دروازے کھل جائیں گے اور سب ختم ہو جائے گا ۔
اب ۔۔۔ بھوپال فیملی 7 برس سے مسلسل اسی اندھ وشواس کا شکار تھی اور اب تک وہ مکمل طور پے برین واش ہوچکے تھے ۔
چنانچہ انہوں نے لالت کی اس بات کو بھوپال کی ہدایات ہی سمجھتے ہوئے 30 جون کی رات اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ۔
انہیں مکمل یقین تھا کہ عین موقع پر بھوپال انہیں آکر زندہ بچا لے گا۔
اور نہ تو وہ مرنا چاہتے تھے نہ خودکشی کرنے جارہے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ محض ایک بےضرر تپسیا تھی ۔
۔۔۔۔
چنانچہ سوائے نارائنی نے وہ سبھی اس سٹولوں پر چڑھ کر اس جنگلے سے لگا دیے گئے رسی کے پھندوں سے جھول گئے اور سٹولوں کو ٹھوکر مار کر دور کردیا اور یوں وہ سب پھانسی چڑھ کے موت کے گھاٹ اتر گئے ۔۔۔ جس میں لالت بھی شامل تھا۔
نارائنی کی لاش اس کے کمرے سے ملی اسے ایک بیلٹ کی مدد سے گلہ گھونٹ کر مارا گیا تھا ۔ بیلٹ پر سے لالت کے فنگر پرنٹس برآمد ہوئے۔
اگلی صبح جب ان کا سٹور حسب معمول نہ کھلا تو گاہکوں کو اس بات کی تشویش ہوئی اور انہوں نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملنے پر پولیس کو اطلاع کردی گئی۔ اور پولیس نے آکر جب دروازہ کھولنے کے انتظامات کیے تو ہال کے چھت کے جنگلے سے لٹک رہی 10 افراد کی لاشوں کا بھیانک منظر ان کے سامنے تھا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔
لالت کا نفسیاتی عارضہ :
اس سے قبل میں اپنے تحریر “روپوش ” میں تفصیل سے اس بات کا ذکر کرچکی ہوں کہ delusional disorder ایک ایسا سنگین نفسیاتی عارضہ ہے کہ جس کا شکار شخص کوئی فرضی سیچویشن تصور کرکے اسے خود پے طاری کر لیتا ہے اور پھر اسی کے تحت جینے لگتا ہے ۔۔۔ گویا وہ ایک فرضی زندگی جی رہا ہے لیکن اپنے نفسیاتی عارضے کی وجہ سے اسے حقیقت سمجھتا ہے اور ہر کام اسی کے مطابق سرانجام دیتا ہے۔
پولیس کے مطابق لالت بھی delusional disorder میں مبتلا تھا اور اس نفسیاتی عارضے کی وجہ سے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اس کے باپ کی روح اس کے وجود میں سرائیت کرکے اس کی زبان سے بولتی اور اس کے قلم سے لکھتی ہے۔
یہ کہ 2004 کے حادثے کے بعد لالت کا پراپر نفسیاتی علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی نفسیاتی طور پر انتہائی غیر مستحکم تھا۔ اور اس نئے عارضے نے اسے انتہائی حدوں تک پہنچا دیا ۔
۔
اب رہی بات کہ اس نے اپنے خاندان کے باقی افراد کو بھی اس مرض میں کیسے دھکیل دیا؟
تو اس کی تفصیل ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ معجزانہ طور پر لالت کی گویائی واپس آجانے اور پھر اسے بھوپال سے منسوب کردیے جانے پر انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا
اور جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا وہ برین واشنگ کی کیفیت سے گزرتے گئے ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ اس اجتماعی خودکشی کی نوبت تک پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔
اس سانحہ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ کوئی زندہ گواہ نہ بچنے کی وجہ سے اس کی وجوہات کا حتمی طور پر کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ بس کچھ مبہم معلومات کی بنا پر ہم کچھ مفروضات ہی قائم کرسکتے ہیں۔۔۔۔
اور جب ہمیں حتمی وجہ کا علم نہیں تو ہم اسے روک نہیں سکتے۔۔۔نجانے کتنے ہی اور خاندان اسی کیفیت سے گزر رہے ہوں ۔ اور کب ایسا ہی کوئی نیا سانحہ برپا ہوجائے۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...