سانحہ 12 مئی کو گزرے تقریبآ 15 سال سے ذائد عرصہ بیت چکا ہے تاہم اس سانحہ کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی جب عرس البلاد کہلانے والے شہر میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مودر الزام ٹھہراتی رہیں۔ جبکہ اس کی جے آئی ٹی بننے کے باجود کوئی اصل ملزمان کا تعین نہیں کیا جا سکا اس کھیل میں اصل کرداروں کا معاملہ ایک راز ہی رہا سانحہ بارہ مئی کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی جنم رہتی رہی ملک بھر کے اخبارات و نجی چینل ہر سال اس حوالے سے مختلف پروگرام بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ کراچی کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے اس دن کراچی کی سڑکوں پر گولیوں کی ترٹراہٹ اور جاری تھی پورے شہر میں مسلح افراد کا راج قائم تھا شہرقائد کی عوام اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو کر رہے گئے۔ ہزاروں نوکری پیشہ خواتین شدید خوف و ہراس کا شکار رہی نا گھروں کو جا سکتی تھی نا ہی کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب تھی۔ متعدد جگہوں سے خواتین کے ساتھ آبروریزی اور جنسی زیادی کے واقعات بھی سننے کو ملے پورے شہر میں قیامت کا سماں برپا تھا بروز اتوار 12 مئی 2007 کو شہر کی سب سے معروف سڑک شاہراہ فیصل میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بسی اور بے چارگی کی علامت بنے حالات کو کنٹرول کرنے سے قاصر تھے مسلح افراد کھلے عام اور بے دریغ جدید اسحلہ سے لیس ہو کر سب سے اہم سڑک کو یرغمال بنا پورے شہر کو مفلوج کر دیا محدود اندازے کے مطابق اس قتل عام میں 63 سے ذائد گھروں کے روشن چراغ کو گل کر دیا گیا اسی اندھا دھن فائرنگ کے نتیجے میں گولی لگنے سے کم و بیش 200 افراد زخمی ہوکر مختلف ہسپتالوں میں گئے جن میں سے درجنوں کی تعداد ایسی ہے کی جن کی گولیاں ابھی تک جسموں میں پیوست ہیں جس کا درد انہیں اس واقعہ کو بھولنے نہیں دیتا۔ ماضی میں ہونے والی اس قتل و غآرت کے واقعہ کے مرکزی کردار جو بھی ہوں مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے بلا شبہ نا تو محب وطن ہو سکتے ہیں اور نا ہی کراچی کو پاکستان کا دل اور شہہ رگ سمجھنے والے جبکہ اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماوّں کی جانب سے اس واقعہ کی شدید مذمت کی گئی اور پورے واقعہ کی شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا جبکہ اصل معاملہ سیاسی ریٹنگ حاصل کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کا تھا اس تمام تر صورتحال سے نقصان صرف اور صرف کراچی کی عوام کو ہوا جہاں انہوں نے درجنوں گاڑیوں کو نظر آتش ہوتے دیکھا وہیں کئی نجی املاک چند منٹ کے اندر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ اس تمام واقعہ پر نقصآنات کا قیاس آرائیوں کے سوا کبھی حتمی جائزہ نہیں لیا گیا۔ آگ و خون کا یہ کھیل جب شروع ہوا جب 12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی آرہے تھے اور باقاعدہ منظم انداز سے شاہراہ فیصل میں جدید اسحلہ سے لیس مسلح افراد نقب لگائے بیٹھے تھے پھر شہر بھر کو یرغمال بنا لیا گیا چھتوں اور سڑک کو بلاک کر کے محاظ جنگ کھول دیا گیا سڑک پر لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے کوئی پرسان حال نہیں تھا جدید آتشی اسحلہ سے لیس مسلح افراد کے سامنے قانون اپنی رٹ بحال کرنے میں مکمل ناکام ہوچکا تھا اس حوالے سے مختلف تجزیہ نگاروں نے مختلف آراء دی جس میں اپنی سیاسی وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں آرائیں بھی دیں جبکہ کچھ نے عوامی جذبات کو مجروع کرتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام واقعہ کا مرکز ایک جماعت کو بناتے ہوئے توپوں کا رخ ایک جانب موڈ دیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی ایک جماعت یا کسی فرد کو ذمہ دار ٹھہرانا احمقوں کی جنت میں رہنا ہے کیونکہ جس پلاننگ اور مربوط انداز میں منصوبہ بندی کی گئی تھی اس واقعہ میں ممکنہ طور پر کوئی ایک شخص کا جماعت ملوث نہیں ہوسکتی بہرحال دن مہینوں اور مہینے سال میں گزرتے رہے تجزیہ اور الزامات کی بوجھاڑ ڈیرھ عشروں سے جاری و ساری ہے تاہم ایک ذمہ داری شہری ہونے کے ناطے نا صرف واقعہ کی نا صرف مذمت کرنی چاہئے تاکہ مستقبل بعید میں یہ شہر کسی خانہ جنگی کا شکار نا ہوسکے۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...