ٹرین چل رہی تھی۔ ڈبے میں بیٹھے ہوئے ایک معتبر شخص نے سامنے بیٹھے ہوئے مسافر کو بتایا ’’میں حفیظ ہوں‘‘۔ مسافر نے سُن کر کوئی خاص تاثر نہ دیا۔ معتبر شخص نے پھر بتایا ’’میں شاہ نامہ اسلام کا مصنف ہوں‘‘۔ اس پر بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کوئی توجہ نہ دی۔ معتبر شخص نے ایک کوشش اور کی۔ ’’ارے بھئی! میں حفیظ ہوں۔ قومی ترانے کا خالق‘‘۔ مسافر کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ اس نے ایک بے رنگ سی ’ہوں‘ کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ معتبر شخص نے زچ ہو کر کہا ’’بھئی! میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری‘‘ اب مسافر کا چہرہ فرطِ مسرت سے تمتما اٹھا۔ وہ جوش میں اٹھا۔ حفیظ صاحب سے بغل گیر ہوا اور صدقے واری ہو کر کہنے لگا ’’اوہ! آپ بھی جالندھر کے ہیں‘‘!
یہ لطیفہ سچا واقعہ ہے یا محض اختراع‘ نہیں معلوم! مگر اس سے ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ ایک شہر‘ ایک علاقے اور ایک قومیت کا ہونا یا ہم زبان ہونا انسانی جذبات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہاں! جب یہ اہمیت ایک خاص حد سے بڑھ جائے اور تعصب یا عصبیت کی شکل اختیار کر لے تو معاشرتی بیماری (سوشل ایول) بن جاتی ہے!
ان دنوں بہار کا موسم ہے۔ وحشت جوبن پر ہے۔ فانی بدایونی نے کہا تھا ؎
فصلِ گُل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
بہار آئے اور وحشتیں بڑھ جائیں تو دیوانوں پر سنگ باری شروع ہو جاتی ہے۔ پتھر مارنے والے ہاتھوں نے دستانے پہنے ہوئے ہوں تو سنگ باری کا اور ہی مزہ ہے! عطاء اللہ شاہ بخاری جیسا انصاف کون کرے! کہنے لگے‘ کسی کی ماں بہن دیکھی تو فوراً اپنی ماں بہن کا خیال آیا‘ پھر غالب کا شعر پڑھا اور کیا خوب اس شعر کا اطلاق کیا ؎
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا!
لیکن اب کے جو سنگ باری ہو رہی ہے‘ اس میں سنگ اٹھانے والے اور پتھر مارنے والے اپنے سر سے غافل ہیں! ایم کیو ایم کی آغوش سے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے اور حق بھی! ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت کو عسکری ونگ پالنے کا کوئی حق نہیں! اس بات میں بہت وزن ہے کہ کل جس صولت مرزا کو بچانے کی کوشش ہو رہی تھی آج اس پر جھوٹ اور نااعتباری کے لیبل لگائے جا رہے ہیں۔ کسی رہنما کو ملک سے باہر بیٹھ کر غیر متوازن بیانات دینے اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے کی آزادی بھی نہیں دی جا سکتی۔ ٹارگٹ کلرز کو پکڑنا‘ یرغمال شہر کو رہا کرانا‘ ساری باتیں درست ہیں۔ جو صورتِ حال درپیش ہے‘ یقینا المناک ہے اور قابلِ مذمت بھی! مگر سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا اس المناک اور قابلِ مذمت صورتِ حال کی ساری ذمہ داری ایم کیو ایم پر ڈالنا درست ہے؟ اللہ کے بندو! یہ ہے وہ سخن گسترانہ بات جو مقطع میں آ پڑی ہے۔ انصاف! انصاف! انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جو حصہ قیصر کا ہے‘ قیصر کو دینا ہوگا اور جو کلیسا کا ہے‘ اس سے کلیسا کو محروم کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا!
یہ کالم نگار کراچی کا ہے نہ لاہور کا! پختون ہے نہ بلوچی نہ مہاجر! پنجاب کا آخری مغربی ضلع بھی عجیب قسمت رکھتا ہے! وسطی پنجاب جائیں تو استقبال یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ ’’اچھا! پنجاب آئے او!‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ الزام اسی حد تک لگانا چاہیے جس حد تک انصاف اجازت دے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ تیسری نسل کو مہاجر کہلانے کا کیا حق ہے‘ ہجرت تو پہلی نسل نے کی تھی‘ یہ تو یہیں پیدا ہوئے تو کہتے وقت یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مہاجر کہلوانے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ ایم کیو ایم کی تشکیل کے پیچھے محرکات و عوامل کیا تھے؟
ایک بات جو تواتر کے ساتھ کہی جاتی ہے یہ ہے کہ ضیاء الحق نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کا کراچی میں زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنوائی۔ ایک سابق جرنیل نے بھی یہ بات وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مذہبی سیاسی جماعت ضیاء الحق کے سارے دور میں اس کے ساتھ یک جان دو قالب رہی! یہاں تک کہ اس جماعت کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے مقدمے میں گواہوں سے بھی ملتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی حامی پارٹی کا توڑ کرے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھی قوم پرستوں کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنوائی گئی۔ گویا ایم کیو ایم بنانے والے سارے موم کے پُتلے تھے۔ ان میں عقل تھا‘ نہ شعور! جو کسی نے کہا‘ انہوں نے کر ڈالا! جب کہ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو چھوڑ کر‘ سیاسی شعور سب سے زیادہ اہلِ کراچی میں تھا۔ یہ کراچی ہی تھا جہاں سے آمریت کے زمانۂ عروج میں مادر ملت فاطمہ جناح انتخابات جیتی تھیں!
زبان اور قومیت کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کراچی کے مہاجروں نے نہیں کیا۔ کبھی نہیں! اس کارِ خیر کا آغاز دوسروں نے کیا اور آغاز کے بعد اسے ’’کمال‘‘ تک بھی دوسروں ہی نے پہنچایا۔ جئے سندھ محاذ ستر کے عشرے کی ابتدا ہی میں بن گیا تھا۔ اس سے بھی پہلے گوہرایوب خان صاحب اپنے محترم والد کی ’’فتح‘‘ کا جشن کراچی میں منا چکے تھے اور لالوکھیت کے علاقے پر حملہ کیا جا چکا تھا۔ تاریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے کہ کس کے گلے میں تختی لٹکا کر‘ اس پر مادرِ ملت لکھ کر جلوس نکالا گیا تھا! ایک روایت تو یہ بھی ہے کہ گلے میں تختی نہیں‘ جوتا لٹکایا گیا تھا! یہ سب کرنے والے ایک مخصوص زبان اور ایک قومیت سے تعلق رکھتے تھے!
1972ء میں سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کے نفاذ کا بل پیش کیا گیا۔ اس بل کی شق نمبر چھ یہ تھی:
Government may make arrangements for progressive use of sindhi language in offices and departments of Government including courts and assembly.
یعنی ’’حکومت کے دفتروں اور محکموں‘ بشمول عدلیہ اور اسمبلی‘ سندھی زبان کے بتدریج نفاذ کے لیے انتظامات کیے جائیں‘‘۔ حزبِ اختلاف نے‘ جس میں اردو بولنے والے بھی تھے‘ ترمیم پیش کی کہ سندھی کا استعمال ’’قومی زبان کے علاوہ‘‘ ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ اردو اور سندھی دونوں کا استعمال ہوگا۔ سپیکر نے ترامیم نامنظور کردیں۔ حزبِ اختلاف نے واک آئوٹ کیا اور اس کی غیر حاضری میں بل پاس کردیا گیا۔ اس کے بعد زبان کی بنیاد پر رسوائے زمانہ فسادات نے کراچی اور حیدرآباد کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا!
ایم کیو ایم سے بہت پہلے اے این پی قومیت اور زبان کی بنیاد پر سیاست میں داخل تھی۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی قومیت کے اردگرد گھومتی تھیں۔ جب ہر کوئی پاکستانی بننے کے بجائے سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچی اور کشمیری بن گیا تو اردو بولنے والے کہاں جاتے؟ کیا کرتے؟ یہاں تو جو ہندو‘ عیسائی یا اور کوئی اور غیر مسلم‘ اسلام بھی قبول کر لے تو اسے معاشرتی سطح پر کبھی قبول نہیں کیا جاتا نہ رشتہ دیا جاتا ہے‘ مہاجروں کو کون سندھی تسلیم کرتا؟ کبھی تلیر کہہ کر پکارا جاتا‘ کبھی لکڑ! یہ سب رعونت اور تکبر کے مظاہر تھے۔ سندھی اور بلوچی وڈیرے دو دو سو بندوق بردار محافظوں کے جلو میں‘ تلوار نما مونچھوں کو تائو دیتے‘ کراچی کو اپنی جاگیر سمجھتے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اردو بولنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ پھر کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا۔ مقابلے کے امتحان میں فیل ہونے والوں کو گھروں سے بُلا بُلا کر تعیناتی کے خطوط دیے گئے۔ ’’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘‘
(APMSO)
اسی کوٹہ سسٹم کے ردعمل میں وجود میں آئی۔ کراچی یونیورسٹی میں اس تنظیم سے پہلے زبان اور قومیت کی بنیاد پر کم از کم دس طلبہ تنظیمیں موجود تھیں! پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن‘ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘ پنجابی سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن‘ پنجابی میڈیکو آرگنائزیشن‘ سندھی میڈیکو آرگنائزیشن‘ جئے سندھ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘ سندھی سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ سرائیکی سٹوڈنٹ
آرگنائزیشن‘ کشمیری سٹوڈنٹ فیڈریشن‘ یہ سب مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے پہلے موجود تھیں!! فروری 1981ء میں ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی میں داخلے کے ایام میں مہاجر طلبہ تنظیم پر حملہ کیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مہاجر تنظیم کے طالب علم رہنمائوں کو اس کے بعد طویل عرصہ تک یونیورسٹی میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کچھ نہ کیا ہو! تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے! اردو بولنے والوں نے زبان اور قومیت کی بنیاد پر تنظیم سب سے آخر میں بنائی اور بہت سے دوسروں کو دیکھ کر بنائی… ردعمل شدید ہوتا ہے اور انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ ردعمل میں ایم کیو ایم سے فاش غلطیاں ہوئیں جن کا نتیجہ وہ آج دیکھ رہی ہے۔ سب سے پہلی غلطی ان سے یہ ہوئی کہ ان کی صفوں میں دانشور اور اہلِ حکمت نہ تھے۔ صورتِ حال کا مقابلہ ان حضرات نے بندوق اور ماردھاڑ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ مطالعہ اس کے رہنمائوں کا سطحی تھا اور گہرائی عنقا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بقول جون ایلیا‘ جن لوگوں میں شبلی نعمانی‘ سلیمان ندوی‘ محمد علی جوہر‘ سرسید احمد خان‘ حکیم اجمل خان اور لیاقت علی خان جیسے مشاہیر پیدا ہو رہے تھے‘ وہاں اب جاوید لنگڑا‘ فلاں کمانڈر‘ فلاں موٹا اور فلاں پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ یہ نعرہ کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدو‘ کوتاہ اندیشی اور کور چشمی پر مبنی تھا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک پورا ملک جو جاگیرداروں اور پشتینی نسل در نسل قیادت سے تنگ آیا ہوا تھا‘ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنمائوں کو نظر ہی نہ آیا! نام انہوں نے مڈل کلاس کا لیا لیکن عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے باہر نہ نکلے۔ تاریخ کا سنہری موقع ضائع کیا۔ اگر یہ حضرات پورے ملک کے متوسط طبقے کو ساتھ لے کر چلتے تو صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی۔ زہر کا علاج انہوں نے تریاق سے نہیں‘ زہر سے کیا۔ زبان اور قومیت کی بنیاد پر جو سیاست ہو رہی تھی اس کا مقابلہ زبان اور قومیت سے کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بجائے‘ پاکستانیت سے مقابلہ کرتے تو آج پورا پاکستان ان کے ساتھ ہوتا!
ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت! الزام اتنا ہی لگانا چاہیے جتنا درست ہو! توازن ضروری ہے! آج ہم جو کاٹ رہے ہیں‘ اُسے بونے میں ہم سب شریک تھے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔