(Last Updated On: )
فطرتِ انسانی میں جذبہ دردوغم کی حیثیت قوی تر ہے اور رنج وغم کے احساس کی شدت ہی اشک وآہ کی شکل اختیار کرتی ہے اور چوںکہ دنیا کی بیش تر زبانوں کی ابتدا نظم سے ہوئی ہے اس لیے شاعر کادل جب دردوغم سے لبریز ہوتا ہے تووہ ’آہ وبکا‘ کو شعر کے قالب میں اسی طرح ڈھالتا ہے کہ اشعار خود مجسم تصویر درد بن جاتے ہیں۔ اسی بیانِ رنج والم کو مرثیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اظہارِ غم کے لیے شعوری طور پر انسان جس ملفوظی وسیلہ کو موزوں ترتیب کے ساتھ پہلے پہل استعمال میں لایا اس کو مرثیہ کی ابتدائی شکل کا نام دیاجاسکتاہے۔ قدیم ترین زبان وادب میں بھی ایسی صنفِ شاعری کاوجود ملتا ہے جو اظہارِ غم کا ذریعہ رہی ہے۔ بقول عظیم امروہوی:
’’انسانی آنسوؤں کی اس مکتوبی شکل کانام ہی مرثیہ ہوگا۔ حضرت ہابیلؑ کی موت پر ابوالبشر حضرت آدمؑ کی آنکھوں میں چھلک آنے والے آنسو شاید وہ پہلا خاموش مرثیہ ہیںجو خود فطرت نے ایک درد رسیدہ باپ کے صحیفۂ عارض پر لکھا ہوگا‘‘۔ ۱؎
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ساتھی، عزیز یا خوردو بزرگ کی موت پر اور اس کی دائمی جدائی پر رنج والم کے شدید جذبہ سے دوچار ہوتاہے۔ اس کا اظہار وہ مختلف صورتوں میں کرتاہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسے مرثیہ کہا گیا ہے۔ سنسکرت میں رودررس(jkSnzjl) کروڑ رس (djw.kjl) اور انگریزی میں الیجی (Elegy) کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس کی ابتدا نسل انسانی کے ساتھ ہوئی ہے۔ اسی لیے دنیا کے پہلے انسان کے نام کے ساتھ ، ایک تصور مرثیہ کا بھی اُبھرتا ہے۔ علماء کاخیال ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا شعر آدمؑ ہی نے سریانی زبان میں کہا تھا، اور یہ شعر مرثیہ ہی میں موزوں کیاگیاتھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب حضرت آدمؑ کو جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا تو انھوں نے جنت کے فراق میں مرثیہ کہا۔ کئی لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اُتارا تو آدمؑ نے اپنے بیٹے پر رنج وغم کا اظہار کیاتھا اور اپنے مقتول بیٹے پر ماتم وبکا کیاتھا۔ یہ کلمات موزوں کلام کی صورت میں رونما ہوئے اور اسی کا نام مرثیہ ہے۔ ۲؎
مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لفظ رثیٰ سے مشتق ہے ’’جس کے لغوی معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں، اصطلاح شعر میں اس صنف کو کہتے ہیں جس میں کسی مرنے والے کی تعریف وتوصیف اور اس کی وفات پر اظہارِ ماتم کیاجائے‘‘۔ ۳؎
عربی دنیا کی قدیم زبانوںمیں سے ایک ہے اور مرثیہ شاید عربی کی قدیم ترین صنف سخن ہے۔ ’’مرثیہ گوئی کا صحیح مبدا ملک عرب اورزبان عربی ہے۔ وہاں مرثیہ گوئی کا عام رواج تھا‘‘۔ ۴؎ اس لیے یہ کہنا کسی حد تک بجا ہوگا کہ عرب میں ’’شاعری کا آغاز مرثیہ سے ہی ہوا ہے‘‘۵؎اور یہی ہونا چاہیے تھا۔ ’’عرب میں شاعری کی ابتدا بالکل فطرت کے اصول پر ہوئی یعنی جو جذبات دلوں میں پیدا ہوتے تھے، وہی اشعار میں ادا کردئیے جاتے تھے۔ جذبات میں دردوغم کا جذبہ اورجذبات سے قوی تر ہے، اور جس جوش سے یہ ظاہر ہوتا ہے اورجذبات ظاہر نہیں ہوسکتے ‘‘۔ ۶؎ عربی شعرا اپنے عزیزوں، ساتھیوں ، بزرگوں اور قبیلے کے افراد کی موت پر مرثیے کہا کرتے۔ اُن میں مرنے والے کی توصیف اور اس سے تعلقِ خاطر کی بنا پر قلبی رنج وغم کا اظہار کیاجاتا لیکن عباسی دور میں خراسانیوں کی معرفت ایرانیوں کا عمل دخل ہوا تو انھوں نے اس صنف شاعری کو اپناتے ہوئے نہ صرف فارسی میں رائج کیا بلکہ اس کے دامن کو وسیع تر کیا۔ عربی میں خناؔ، متمم ؔبن نویرہ اور فرزوقؔ نے کامیاب مرثیے لکھے۔ فارسی میں فردوسیؔ، فرخیؔ، شیخ سعدیؔ، امیر خسرؔو، مناقیؔ، نظیریؔ، عرفیؔ، محتشم ؔوغیرہ نے اس صنف کو تقویت عطا کی۔ ’’ایرانی شعراء نے عربوں کے مرثیے کے نمونے دیکھے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ فارسی شاعری میں بھی مرثیوں کے اضافے ہوگئے‘‘۷؎ اور پھر ایرانیوں اور فارسی زبان کی معرفت اردو میں اس صنف شاعری کی ابتدا ہوئی۔
یہ تھا ماقبل تاریخ اور ماضی بعید کا پس منظر، ماضیِ قریب بلکہ آج کے عہد میں مرثیہ کا تصور واقعہ کربلا کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ ’’اردو تنقید وتاریخ میں جب ’’مرثیے‘‘ کالفظ استعمال کیاجائے تو اس سے مراد وہ مرثیے ہوتے ہیں جوواقعاتِ کربلا سے متعلق اور جن کی ایک الگ ادبی حیثیت ہے‘‘۔ ۸؎ واقعۂ کربلا تاریخ اسلام میں صداقت وحقانیت کاوہ منفرد اور عظیم سانحہ ہے جو ہجرتِ نبوی کے اکسٹھویں سال وقوع پذیر ہوا۔ ’’یعنی اس وقت جب امیر معاویہ کے بیٹے یزید نے خلافت یعنی اللہ کے رسول ﷺ کی نیابت کا اعلان کیا اور مسلمانوں سے بیعت مانگی۔ حضرت علیؓ کے بیٹے اورپیغمبر اسلام کے چھوٹے نواسے حسینؓ نے بیعت سے انکار کردیا ۔ حسینؓ کو انکار کی قیمت دینا پڑی۔ گھر چھٹا، مدینے سے بہت دور عراق میں فرات ندی کے کنارے حسینؓ کو اُن کے بہتّر ساتھیوں کے ساتھ، جن میں کوئی بچپن کا دوست تھا، تو کوئی محبت کرنے والا اور باقی بھائی بھتیجے، بھانجے اور بیٹے جن میں چھ مہینے کی ننھی سی جان،حسینؓ کا بیٹا علی اصغر ؓبھی تھا۔ ان سب کو یزید کی فوج نے گھیر لیا۔ تین دن تک یزید کی فوج سے حسینؓ کی بات چیت ہوتی رہی۔ حسینؓ نے بیعت سے تو انکار کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مجھے یزید کے پاس لے چلو، میں اس سے بات کرلوں گا۔ مگر یہ بات نہیں مانی گئی۔ حسینؓ نے کہا کہ میں یزید کی حکومت سے باہر نکل جاؤںگا۔ مجھے چلاجانے دو، یہ بات بھی قبول نہ کی گئی تو حسینؓ نے یزید کی بیعت کے مقابلے میں اپنا سر دینا پسند کیا اور ۶۱ ہجری کے محرم کی دس تاریخ کو اپنے سب ساتھیوں، دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ تیسرے پہر تک شہید ہوگئے۔ ۹؎ میدانِ کربلا میںپیغمبر اسلام کی آل واہل بیت کو جس بے دردی سے اور انسانیت سوز انداز میں شہید کیا گیا اس کی مثال ملنی محال ہے۔ ’’واقعہ کربلا در اصل حق وباطل کی کش مکش تھی اور اگرچہ مادّی ساز وسامان کے بل بوتے پر اس کش مکش میں ظاہری فتح باطل کو ہوئی۔ مگر حقیقی فتح وسرفرازی اُن جاں بازوں کی قسمت میں لکھ دی گئی جنھوں نے سردینا گوارا کیا مگر باطل کے سامنے جھکنا پسند نہ کیا‘‘۔۱۰؎ بقول مولانا محمدعلی جوہرؔ:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یہ جنگ ’’نیکی اور بدی ، انسانیت اور بہیمیت کی جنگ ہے‘‘۱۱؎ یعنی’’باطل نے حق کو چیلنج کیا کہ وہ اطاعت قبول کرے، حق نے انکار کیا۔ حق وباطل کے درمیان یہی جہاد، حق کے نام پر حق کے پرستاروں کی شہادت اور اس کے نتیجے کے طور پر حق کی آفاقی جیت نے اس واقعے کو انسانی تاریخ کاایک عظیم واقعہ بنادیا۔ ۱۲؎ اِس اندوہناک سانحہ کی یاد منانا عزاداری کہلایا۔ ’’مرثیہ گوئی عزاداری سے مربوط ومتعلق ہے۔ عزاداری اُن رسوم کانام ہے جو امام حسینؓ کی شہادت کی یادگار میں رائج ہیں’‘۱۳؎ واقعۂ کربلا کی یادگار منانے کا طریقہ اصلاً ایران کے شیعوں کی رسم ہے‘‘۔ ۱۴؎ لیکن اس کی ابتداء عراق میں ہوئی۔ ’’سلطنت بنی اُمیہ کے زوال کے بعد عراق میں معز الدولہ احمد بن بویہ کی سلطنت قائم ہوئی۔ انھوں نے ۳۵۲ھ/۹۶۳ء میں بغداد میں سب سے پہلے عزاداری کی بنیاد ڈالی‘‘۔ ۱۵؎آلِ رسول ﷺ سے محبت وعقیدت کی بنا پر رسم اتنی عام اور مقبول ہوئی کہ ایران میں اس کو مذہبی فریضہ کی حیثیت دے دی گئی۔ ایرانی شعراء نے مرثیہ کو واقعاتِ کربلا کے پیش کرنے کاوسیلہ بنالیا۔ اس طرح مرثیہ نے جہاں لوگوں کی توجہ اپنی طرف ملتفت کی وہاں اس صنفِ شاعری کاتعلق عزاداری سے بھی قائم ہوگیا۔ ہمارے یہاں یہ رسوم، فارسی زبان اور ایرانیوں کے زیرِ اثر دکن سے شروع ہوئیں گوکہ آج ’’مقامی حالات وخصوصیات کی بنا پر اگرچہ یہ رسمیں اب ملک کے مختلف حصوں میں الگ الگ طرح سے رواج پاگئی ہیں لیکن ان سب کاآغاز ہندوستان میں ایرانیوں کے اثر واقتدار سے ہوا‘‘۔ ۱۶؎
اردو شعروادب کی باقاعدہ ابتدا اور نشو ونما سرزمینِ دکن میں ہوئی۔ ’’ابتدائی شاعری کے تمام نمونے ہم کو دکن ہی میں ملتے ہیں‘‘۔ ۱۷؎ اور اُن اولین نمونوں سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ’’صنفِ مرثیہ سے ہی اس کاآغاز ہوا‘‘۔ ۱۸؎ یہ مرثیے، محض چند کاوشوں کو چھوڑ کر، اپنے موضوع کے اعتبار سے شہدائے کربلا اور واقعاتِ کربلا تک محدود رہے۔ اس بنا پر مرثیے کی اصطلاح کامفہوم یہ ٹھہرا کہ وہ نظم جو شہدائے کربلا سے متعلق ہو اور جس میں ان کی تعریف اور توصیف کے ساتھ اپنے رنج وغم کا اظہار بھی ہو، مرثیہ کہلائی۔ ’’ادبی اصطلاح کے طور پر مرثیہ اس صنفِ شعر کو کہتے ہیں جس میں سیدالشہداء حضرت امام حسینؓ یا اُن کے رفیقوں کے سفر کربلا ، مصائب، شجاعت اور شہادت کابیان کیا جائے۔ اِس ضمن میں کئی اور چیزیں بھی آجاتی ہیں لیکن اصلاً اردومرثیے کی بنیاد انھیں باتوں پر قائم ہے۔‘‘۱۹؎ لُغت میں اگرچہ مرثیہ کے معنی وہی ہیںجوعربی ادب کے ابتدائی عہدمیں تھے لیکن آج اس کے اصطلاحی معنی بدلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ادب میں مرثیے کی مقبولیت اور اس جانب خصوصی توجہ کاسبب وہ محبت اور عقیدت ہے جوہر خاص و عام کو آلِ رسول اور اہلِ بیت سے ہے اور اسی والہانہ لگاؤ نے اس صنفِ شاعری کو معراجِ کمال پر پہنچایاہے۔
حواشی
۱؎ مرثیہ از آدمؑ تا این دم، عظیم امروہوی، آج کل، نئی دہلی، ستمبر ۱۹۸۲ء، ص:۶
۲؎ میر انیسؔ بحیثیت رزمیہ شاعر، ڈاکٹر اکبرحیدری، ص: ۴۴۵
۳؎ لکھنؤ کا دبستانِ شاعری،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،ص: ۶۶۹
۴؎ اردومیں مرثیہ کی تاریخ اورادبی حیثیت ، قاسم شبیر نقوی نصیرآبادی، شاعر، آگرہ، جولائی۱۹۴۷ء، ص: ۶
۵؎ میر انیسؔ بحیثیت رزمیہ شاعر،ڈاکٹر اکبر حیدری، ص: ۴۴۵
۶؎ موازنہ انیسؔ ودبیرؔ، علامہ شبلی نعمانی، مرتبہ: فضل امام، ص: ۲۲
۷؎ میر انیسؔ بحیثیت رزمیہ شاعر،ڈاکٹر اکبر حیدری، ص: ۴۴۹
۸؎ دبستانِ عشق کی مرثیہ گوئی، ڈاکٹر جعفر رضا، ص: ۱۹
۹؎ اردو مرثیہ، سفارش حسین رضوی، ص: ۱۴-۱۵
۱۰؎ تحقیقی مطالعۂ انیس، ظہیر احمد صدیقی، ص: ۹
۱۱؎ انیسیات، مسعود حسن رضوی ادیبؔ، ص:۱۰۸
۱۲؎ ادبی مطالعے، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، ص: ۱۰۴
۱۳؎ اردو مرثیے کی روایت، ڈاکٹر مسیح الزماں، ص: ۱۴
۱۴؎ ایضاً،ص: ۲۰
۱۵؎ اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقاء، ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری، ص: ۶۹
۱۶؎ اردومرثیے کی روایت، ڈاکٹر مسیح الزماں، ص:۱۴
۱۷؎ مراثی انیسؔ میںڈرامائی عناصر، شارب ردولوی، ص: ۲۴
۱۸؎ میر انیسؔ بحیثیت رزمیہ شاعر،ڈاکٹر اکبر حیدری، ص: ۴۵۸
۱۹؎ اصول انتقاد ادبیات، سید عابد علی عابدؔ، ص:۲۴۶