ثانیثی نسائی ادب یا فیمنسٹ ادب
ثانیثی ادب اور تنقید مخصوص جنسی گروہ کے لیے قلم بند کی جاتی ہے۔ جس کے لکھنے والے اور قاری مخصوص جنسی گروہ سور رجحان سے وابستہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس جنسی گروہ کا معاشرے میں مخصوص کردار ہوتا ہے۔ 1960ء میں یہ روئیے جدید رنگوں میں ایک عمرانیاتی شعور کے ساتھ ہمارے مطالعوں اور سوچوں کا حصہ بنے۔ ثانیثیت (FEMINISM) کے معاشرتی اور ادبی نظریاتی مطالعات میں جنسی تعصّبات کے حوالے سے بہت حساس رہا ہے۔ اس کے سکہ بند تصورات پر سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ ثانیثی تنقید میں مارکسی، فرائدین، ساختیاتی پس ثانیثی تنقید، روثانیثی تنقید، نئی ثانیثی تنقید، نسلی اور مذہبی ثانیثیت تناظر میں اپنی اپنی تعبیرات اور تفاسیر بیان کی گئی ہیں۔ اس کو عورت کی مزاحمت اور احتجاج کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ جو عورتوں کے بارے میں تصورات، مفروضات کو منفرد سیاق و سباق عطا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ثانیثی ادب کے متن میں کچھ امور اور معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو اسے صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ اور سمجھا سکتی ہے۔ کیونکہ عورت کے تجربات اور حساسیت کو مرد کلی طور پر سمجھ نہیں پاتا۔ مارکسی فکریات میں ثانیثیت سے کچھ زیادہ دلچسپی اور ہمدردی کے جذبات نظر نہیں آتے کیونکہ یساریت پسند فکریات میں طبقاتی درجہ بندی میں خواتین کا علیحدہ وجود تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح فرائڈ کی فکر میں انسانی تعلقات کے عمل کیمیائی و انسلاکات اور بین العمل میں مرد کا آلہ تناسل کو ثانیثی تجزیات سے منسلک کر دیتا ہے۔ جو شارح اور رہنما بھی ہے۔ جو قوت مقتدر بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ثانیثی تنقید اور مطالعوں کے ذریعے عورت اپنے مادی نظام کی گم شدہ شجرہ نسب کو دریافت کر سکتی ہے۔ یہ مرد کی معاشرتی مرکذیت اور مقتدریت کو بڑا چیلنج تھا۔ کیا اب حوّا کو اتنی آسانی سے جنّت سے باہر نکالا نہیں جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ مرد، عورت کے مقنّون کی حساسیّت کی افقی، عمودی اور افقی سطح پر بیاں، تشریح اور اس کی تفہیم کر سکتا ہے؟ اصل میں ثانیثی ادب عورتوں کی آزادی، احتجاج، مزاحمت سے منسلک ہے۔ جہاں ان کے معاشرتی حقوق حاوی ’’مقولہ‘‘ ہے۔ جہاں عورت کو ’’شے‘‘ یا ’’کھلونا‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
جانثار مومن نے لکھا ہے ’’عربی لفظ ’تانیث‘’تانیثیت‘ سے مشتق انگریزی متبادل ’Feminism’ لاطینی اصطلاح ‘Femina’ کا مترادف ہے۔ معنی و مفہوم تحریکِ نسواں، نظریہ، حقوقِ نسواں اور نسوانیت کے ہیں۔ ابتداً 1871ء میں فرنچ میڈیکل متن میں لفظ Feminist نسوانیت والے مردوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ مغرب میں تحریک آزادی نسواں حامیوں کو بھی کہا گیا۔ بعد میں باقاعدہ لفظ Feminism تحریک نسواں کی اصطلاح بن گیا۔ اور ’حقوق نسواں‘ ، ’آزادی نسواں‘ یا ’ناری آندولن‘ سے جانی جانے والی تحریک کے بنیادی نظریات میں سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر دونوں جنس کے لیے مساویانہ حقوق کے ہیں۔ بالخصوص نسائی حقوق سے جڑی تمام فکروں کا مرکب ہے۔ اس تحریک کی خواتین علمبرداروں کے لیے Womanist اصطلاح مستعمل ہے۔ لفظ ’کاز‘ بھی ثانیثی مسائل کے لیے انہیں ناقدین کے استعمال میں ہے۔ اس کے برعکس عورت پسندی Womanism ہے جو خواتین میں رجولیت نارن پسندی Feminism ہے۔ یہ دونوں مختلف مکاتب کی فکریں ہیں۔ اس تحریک کا مقصد خواتین کے وہ تمام مسائل جو آنسوؤں سے لیکر مسکراہٹ تک درپیش آتے ہوں۔ اس ضمن میں ایلین سووالٹر نے ثانیثی تنقید کی چار اہم جہات کی نشاندہی کی۔ ’’۱۔ حیاتیاتی ۲۔ لسانیاتی ۳۔ تحلیلِ نفسی ۴۔ کلچرل تنقید۔‘‘ لیکن Feminism کی علمبردار بھی اس تحریک کی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش میں نظر آتی ہیں۔ ’’تحریک نسواں کی حامی فکریہ ہے آخر جب ’عورت‘ کے لیے کس لفظ کا استعمال ہونا چاہیے۔ ’ویمن‘ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ یہ بعض اوقات ’ویمن‘ (عورت) استعمال میں ہے اس کا مطلب ’تمام خواتین‘ نہیں ہوتیں۔ ’’یہی خیال Judith Event کا بھی ہے ’’نہ عورت، نہ مرد۔ تحریک نسواں کا ہدف Androgynous یعنی دونوں کے جنسی امتیازات مٹا کر لفظ جنس (Gender) تمام اختلافات کا بدل یا اہداف ہے۔ موجودہ حقوقِ نسواں کی ناقدین۔ اصطلاح Feminist ہے اور تحریک آزادی نسواں کے لیے Feminism ہے۔ چند ’’ثانیث‘‘ عورت پن یا نسوانیت نہیں ہوتی جو شعور جنس اجتماعی ہے۔ جس کی مثال کے طور پر، رابعہ بصری، خالدہ ادیب خانم، بوشیدہ جہان خانم، عطیہ فیضی، سلویا ہاتھ، روجیناولف، ایناسیکٹن، ایریکاژوک، خیر النسا جعفری، عطیہ دادو، عصمت چغتائی، ممتاز شریں کشور ناہید، خالدہ حسین، خیرالنسا جعفری فہمیدہ ریاض، ثمینہ راجا، سارہ شگفتہ وغیرہ کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ملتی ہیں۔ کوئر نظرئیے کے حوالے ثانیثی تصارات کو اجاگر کیا گیا جن میں ایواسیڈوک، جیوڈتھ بٹلر پیش پیش ہیں۔ چند اردو کے ادبی رسائل نے ثانیثی حوالے سے بڑی اچھی تحریروں کو اپنے مندجات میں شامل کیا۔ مثلاً اس انجلیس، کیلے فورنیا، امریکہ سے ایک زمانے میں اردو کا ادبی جریدہ ’’مشاعرہ‘‘ چھپا کرتا تھا اب یہ رسالہ چھپنا بند ہو گیا ہے۔ اس کی مدیرہ نیر جہاں ہوا کرتی تھیں۔ اس کو جریدے کو مدیر نے اسے سوئینر کا نام دیا۔ یہ خوب صورت رسالہ تھا۔ یہ خصوصی نمبر لاس انجلیس کے افسانہ نگاروں پر مشتمل ہے۔ اس میں 7 خواتین افسانہ نگار شامل ہیں، ایک بھی مرد افسانہ نگار اس شمارے میں نظر نہیں آتے۔ یہ نومبر 1999 میں چھپا تھا۔ اس پرچے میں افسانہ نگاروں اور افسانوں کی فہرست یوں بنتی ہے:
۱۔ منجور }نعیمہ ضیاالدین{
۲۔ مہندی کے دو رنگ }نیر جہاں{
۳۔ من حرامی تے حجتاں دے ڈھیر }روبینہ نورین{
۴۔ اور سورج ڈوب گیا }لالی چوہدری{
۵۔ صفحہ سات کالم چار }آصفہ نشاط{
۶۔ چنے کی دال }روحی فرخ{
۷۔ یہ تہذیب }صفیہ سمیع احمد{
ان تمام کہانیوں میں تہذیبی انحطاط، اقدار کی توڑ پھوڑ، امریکہ میں بسنے والے پاک ہند کے خاندانوں کے خلفشار اور مسائل کے ساتھ افسانوں میں ناسٹلجیائی روئیے اور ثانیثی مزاحمت اور احتجاج بھی نظر آتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔