Nostalgia! —– ناسٹلجیا
ایسے گھر اور فلیٹس اولڈ کراچی کھارادر، برنس روڈ، آرام باغ، فیریئر روڈ اور دوسرے پرانے علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن ان کی خاص بات یہ کہ یہاں ایک اپنائیت اور شناسائ کا احساس۔۔۔ جیسے کہ کبھی ہم یہاں رہ چکے ہیں۔ حالانکہ ہم نہ اس دور کے ہیں اور نہ کبھی ایسی عمارت میں رہے۔ عام طور پر چار منزلہ عمارات ہیں جو زرد پتھر سے تعمیر شدہ ہیں۔ یہ انگریز دور میں ہندوئوں یا پارسیوں کی بنائ ہوئ عمارات ہیں جن پر تقسیم کے بعد انڈیا سے آئے خاندانوں نے قبضہ کیا یا پھر یہ مہاجرین کو کلیم میں دئیے گئے۔ اس زمانے کی کافی عمارات اب بہت خستہ ہوچکی ہیں اور ان میں رہائش خطرناک قرار دے کر خالی بھی کرالئے گئے ہیں۔ لیکن کچھ خستہ حال عمارتوں میں اب بھی لوگ رہائش پذیر ہیں کہ ان کے پاس اور کوئ رہائش نہیں۔ بہت سی عمارات اب بھی بہترین حالت میں ہیں جن کے گرائونڈ فلور پر بہت سے جانے مانے اور پرانے کاروباری ادارے ہیں۔ آرام باغ کا ہمدرد دواخانہ ، فیروز سنز، کئ پرانے بینک اور دیگر کاروباری ادارے آج بھی موجود ہیں۔
ان گھروں کی سب سے خاص بات ان کے رنگین منقش ٹائلز والے فرش ، عمدہ لکڑی کے بنے دوپٹ والے دروازے اور فولادی سلاخوں والی کھڑکیاں ہیں۔ ان علاقوں اور گھروں کا اپنا ایک الگ ہی ماحول ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی ٹائم مشین سے اس ڈیڑھ دو سو سال پرانے دور میں آگئے ہیں۔ ہر وقت باہر سے آتا ٹریفک کا شور اور بازار کی چہل پہل، سورج کی روشنی پوری طرح نہ آنے کی وجہ سے عجیب خنکی اور نمی سی جو گرمی کے موسم میں بہت بھلی معلوم دیتی ہے۔ البتہ جو فلیٹس دھوپ اور ہوا کے رخ پر ہیں اور سامنے کوئ دوسری بلڈنگ نہیں ان میں خوب دھوپ اور ہوا آتی ے۔ پوری عمارت میں مختلف گھروں کے کچن میں پکائے کھانوں کی خوشبو پھیلی ہوتی ہے۔ گھروں سے آتی خواتین اور بچوں کی آوازیں جس میں کبھی کبھی پالتو طوطے کی ٹائیں ٹائیں ایک عجیب سی اپنائیت اور سکون کا احساس پیدا کردیتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ریڈیو پر چلتے مہدی حسن نورجہاں اور لتا رفیع کے گانوں کی گونج بھی سنائ دیتی تھی۔ لیکن اب اکثر گھروں سے ٹی وی کے مختلف چینلز کی دھیمی آواز سنائ دے جاتی ہے۔ آج بھی اگر کبھی فولادی سلاخوں والے جنگلے اور دوپٹ والے موٹی لکڑی کے دروازے کے سامنے آپ سن پچاس یا سن ساٹھ کی دھائ کا کوئ فلمی گیت نور جہاں یا لتا رفیع کی آواز میں سن لیں تو گویا ایک جھٹکے میں آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ شاید آ پ ماضی میں پہنچ گئے ہیں۔
ایک مرتبہ ایسی ہی یک بلڈنگ میں ایک فلیٹ کے سامنے یہ گیت گونج رہا تھا۔
اے دل مجھے بتادے تو کس پے آگیا ہے
وہ کون ہے جو آکر خوابوں پے چھا گیا ہے
یقین جانئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سن پچاس کے دور میں پہنچ گیا ہوں۔ کیونکہ اردگرد کا ماحول بالکل ویسا ہی تھا جیسے کہ کسی فلم کے لئے اس زمانے کا سیٹ لگایا گیا ہو۔ نہ جانے کیوں ان معاملوں میں میری حسیات بہت تیز ہئں۔
بالکونیوں میں کپڑے پھیلاتی خواتین یا شام کے وقت لڑکیا بالیاں گرل پر کہنیاں ٹکائے نیچے بازار کی چہل پہل کا نظارہ کرتی۔۔۔ لمبی رسی اور ٹوکری کی مدد سے اپنی گیلری یا کھڑکی سے سودا یا کھانے پینے کا سامان اوپر کھینچتی ْخواتین ۔ ان کھڑکیوں دریچوں اور بالکونیوں میں جھانک تانک سے نہ جانے کتنی محبتیں اور عشق کے فسانے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ کچھ کامیاب اور کچھ ناکام، معاشقے اور دل لگیاں دل میں زندگی بھر کی کسک چھوڑ جاتے ہیں۔ان عمارات کی چھتوں اور کھڑکیوں پر بے شمار کبوتروں کا بسیرا ہے جو اکثر دن بھر غٹر غوں کرتے مختلف گروں کی بالکونیوں یا کھڑکی کی کارنس پر چونچیں ملاتے نظر آتے ہیں۔
کچھ عمارات کے اونچے ٹاور نما میناروں پر چیلوں نے بھی اپنے آشیاں بنائے ہوئے ہیں۔ یہ عمارتیں ہمیں نہ صرف ماضی سے جوڑتی ہیں بلکہ
ایک عجیب ناسٹلجیا سے بھی دوچار کرتی رہتی ہیں۔
صدر اور دیگر مصروف ترین کاروباری علاقوں میں ایسی عمارات کے نیچے قائم ایرانی بیکریاں اور چلو کباب فراہم کرنے والے ایرانی کیفے جہاں آج بھی چائے چھوٹی چھوٹی چائے دانیوں میں الگ دودھ اور چینی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔اگر ایک چائے کا آرڈر دیجئے تو پہلے تو ویٹر فرج سے نکالی ہوئ پانی کی یخ بوتل جو عموما" وہسکی یا وڈکا وغیرہ کی خالی بوتل ہوتی ہے۔ جن کو خالی ہونے کے بعد دھو دھلا کر اور لیبل اتار کر منی پلانٹ لگانے یا پھر پانی رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک المونیم کے گول تھال میں سفید پیالی اور طشتری، چھوٹی سی اسٹیل کی چائے دانی،ننھی سی چھننی اور چمچ، سلور کی کٹوری میں دو چمچ برابر شکر اور انگوٹھے برابر دودھ دان لا کر آپ کی میز پر سجا دےگا۔ ان کیفوں میں اکثر انعامی معمے حل کرتے بوڑھے افراد یا صحافی حضرات کی محفلیں جمتی ہیں۔ ان کا کھانا بھی صاف ستھرا اور مناسب دام ہوتا ہے۔ مجھے ان کا مغز مصالحہ بے انتہا پسند ہے جو چھوٹی چھوٹی گول تل لگی گرما گرم تندوری روٹی اور کھیرے پیاز مولی کے سلاد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ساتھ میں آدھا کٹا لیموں اور نمک دانی۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان عمارات کو ڈھا کر ان کی جگہ کثیرالمنزلہ پلازے اور شاپنگ مالز بنائے جا رہے ہیں۔جہاں میکڈونلڈ، کے ایف سی، پیزا ہٹ جیسے ریسٹورنٹ کھل جاتے ہیں۔ کشادہ وسیع گلاس ڈور سے جھانکتی دکانیں جن میں گوچی، ورساچی، کیلون کلائن، لیوائس، زارا، اور دیگر انٹر نیشنل برانڈز کی مصنوعات کے علاوہ موبائل فونز اور الیکٹرونکس کے شورومز قائم ہیں۔ جہاں خوشبو ہے، چکاچوند ایل ای ڈی لائٹس اور انگریزی میوزک ہے، شوخ رنگین چہرے اور گلیمر ہے لیکن وہ زرد پتھروں سے بنی پرسکون عمارت، فولادی سلاخوں والی کھڑکیاں، دو پٹ والے لکڑی کے دروازے اور مٹھو کی ٹائیں ٹائیں جو ماضی سے ہمارا رشتہ جوڑتی ہیں جب ڈھائ جاتی ہیں تو ہمارا ماضی بھی ان کے ساتھ ڈھے جاتا ہے۔ نہ یاد رکھنے کو کچھ رہتا ہے اور نہ بھول جانے کو ۔۔۔۔۔۔۔
———
اس پوسٹ کے ساتھ منسلک تصاویر ضرور دیکھئے تاکہ آپ اس ماحول اور احساسات کو محسوس کرسکیں۔
کیا آپ بھی ایسی پرانی عمارات سے واقف ہیں؟ آپ کو ایسی عمارت میں کیسا محسوس ہوتا ہے۔ برہ کرم کمنٹس میں بتائیے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔