تعارف و تبصرہ
گل نوخیزاختر۔ ۔ ۔ لاہور
بڑے عرصے بعد افسانوں کی اتنی اچھی کتاب پڑھنے کو ملی۔ کہانی میرا عشق ہے اور افسانہ اس عشق کو جلا بخشنے کا اہم ترین ذریعہ‘ شائد اسی لیے منیر احمد فردوس کی کتاب نے پہلے تین منٹ میں ہی اپنے حصار میں جکڑ لیا اور پھر میں یہ کتاب پڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا۔ میں چونکہ اپنی جاہلیت کی بنا پر استعاروں اور علامتوں سے بھاگتا ہوں لہذا ہر وہ تحریر جو سیدھی سیدھی ہو وہ ہر قاری کی طرح میرے دل میں بھی سیدھی سیدھی اتر جاتی ہے۔ بیانیہ افسانہ مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے ۔ منیر احمد فردوس کا شکریہ کہ انہوں نے بیانیہ افسانے کو چار چاند لگانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ کتاب26 افسانوں پر مشتمل ہے اور ہر افسانے کی ٹریٹمنٹ اتنی شاندار ہے کہ پڑھتے ہوئے کئی بار مجھے لگا کہ میں بھی اسی افسانے کا کوئی کردار بن گیا ہوں۔
میرے نزدیک اچھا افسانہ جاندار مکالمے کے ذریعے پروان چڑھتاہے‘ یہ صورتحال ”سناٹوں کے شہر“ میں جا بجا نظر آئی۔ بات کو بیان کرنے اور قاری کو جھنجوڑنے کا فن منیر صاحب کو خوب آتاہے۔ ان کے افسانوں میں جیتی جاگتی بستیاں اور جیتے جاگتے لوگ نظر آتے ہیں ’ادھورے پن کی دیمک‘ کی چند لائنیں دیکھئے….
”ایک روز میچ کی وجہ سے رات گئے گھر آنے پر میری شامت آئی ہوئی تھی اور میرا باپ مجھے شدید ڈانٹ ڈپٹ کر رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔کچھ لوگ میرے باپ کے پاس آئے اور وہ بوکھلائی ہوئی حالت میں فوراً ان کے ساتھ چلا گیا۔میں نے باپ کے چہرے پر شدید غصہ اور نفرت دیکھی۔تھوڑی ہی دیر میں مسجد کے سپیکروں سے میرے باپ کی آواز گونج رہی تھی’تمام غیر مند مسلمان ایک ضروری اعلان سنیں….ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ سبزی منڈی کے ساتھ والی کالونی جہاں کافر اور مشرک بستے ہیں وہاں کسی نے ہمارے مذہب کی کھلم کھلا توہین کی ہے اور ہم اس پر کسی صورت چپ نہیں بیٹھ سکتے ‘ جس کسی غیرت مند مسلمان کے دل میں اسلام کی تھوڑی سی محبت بھی زندہ ہے تو وہ فوری طور پر کافروں کی کالونی پہنچے اور توہین کا بدلہ لے“۔
اس افسانے میں انہوں نے لاہور میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ایک مشہور زیادتی کو موضوع بنایا ہے اور ایک ایک لائن میں انتہاپسندی کی جڑوں کو بے نقاب کرتے گئے ہیں۔
منظر نگاری منیر احمد فردوس کے افسانوں کا خاصہ ہے‘ مجھے روسی افسانوں کی منظر نگاری بہت پسند ہے لیکن کبھی کبھی یہ منظر نگاری بوجھل کرنے لگتی ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ مجھے منظر نگاری نے نہیں میرے اندر کی متلون مزاجی تنگ کر رہی ہے لہذا میں کہانی میں اور ڈوب جاتا ہوں اور بوجھل پن کو دلچسپی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنے لگتاہوں۔ منیر احمد فردوس کے ہاں بھی منظر نگاری موجود ہے لیکن یہ اسے صرف اسی حد تک بیان کرتے ہیں جس حد تک یہ قاری کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ کہانی پر فوکس رکھنا ان کی نہایت قابل تعریف صلاحیت ہے۔ کہانی کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ ”انسانی وجود کو زمین پر لانے کے جواز میں قدرت نے کہانی کا سہارا لیا اور تین کرداروں پر مشتمل کائنات کی سب سے پہلی‘ بڑی اور سچی کہانی لکھی جس کے تجسس بھرے انجام کی بدولت انسان اس کہانی کا ایک متحرک کردار بن کر جنت سے زمین پر اتر آیا۔ فرش ِخاک پر قدم رکھتے ہی ایک اور زمینی کہانی نے انسان کو اپنے حصار میں لے کرایک لازوال کردار بنا دیا۔اس نئی کہانی نے نئے راستے تراشے اور انسانی کرداروں کا تجسس دیکھ کر کہانی نے انجام کا طوق پہننے سے انکار کر دیا‘….
کہانی کے ارتقاءکا اتنا خوبصورت اظہار میں نے پہلے کبھی نہیں پڑھا۔ منیر احمد فردوس کے افسانے چونکا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرا ہمیشہ یہ کہنا ہے کہ افسانے میں چونکا دینے والے اختتام کے بعد ہمیں چونکا دینے والی کوئی بات بھی نظر آنی چاہیے ورنہ اکثر ایسا ہوتاہے کہ افسانہ نگار چونکانے کے چکر میں ایسے ایسے بم گراتاہے کہ اکثر قاری کے سر میں پھٹنے کی بجائے خود مصنف کی کتاب پر پھٹ جاتے ہیں۔یہاں یہ بات نہیں‘ اِس کتاب کا ہر افسانہ آپ کو چونکاتاہے‘ کچھ سوچنے پر مجبور کرتاہے اور ایک نئی جہت کی پرت کھولتاہے۔
اکثر ادیبوں کا یہ دعویٰ ہوتاہے کہ جب تک وہ رات کو کتاب نہ پڑھیں انہیں نیند نہیں آتی ‘ ٹھیک کہتے ہیں‘ میرے پاس بھی کئی ایسی کتابیں موجود ہیں جنہیں میں ’نیند کی گولی‘ کے طور پر استعمال کرتاہوں‘ نیند نہ آرہی ہو تو کتاب کھولتا ہوں اور ساتھ ہی میری آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ اصل میں مجھے کتاب پڑھنے کے لیے ایک خوبصورت ماحول درکار ہوتاہے۔ سونے سے پہلے تو میں کتاب پڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ نیند مجھ سے میرا مطالعہ چھین لیتی ہے سو میں کوشش کرتا ہوں کہ اگر کوئی کتاب دل کو لگے اور مکمل پڑھنے کو دل چاہے تو چھت پر چلا جاﺅں اور موبائل بند کردوں۔ منیر احمد فردوس کی کتاب کے ساتھ بھی میں نے یہی سلوک کیا‘ کافی سارے مالٹے چھیلے‘ چھت پر دھوپ میں کرسی رکھی ‘ موبائل آف کیااور ’سناٹوں کا شہر‘ کھول لی۔ کتاب ختم ہوتے ہی پتا چلا کہ میں مالٹے کی ایک قاش بھی نہیں کھا سکا۔ اس زیادتی کی تمام تر ذمہ داری منیر احمد فردوس پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے مجھے سردیوں کی دھوپ میں مالٹے کی لذت سے محروم کر دیا‘ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے افسانے لکھتے ہوئے منیر احمد فردوس خود بھی کھانے پینے سے بے خبر ہی رہے ہوں گے کہ ایسے جاندار اور آنکھیں کھولتے افسانے لکھنے کے لیے قلم سے زیادہ قلب کی ضرورت پڑتی ہے۔
میں وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی کتاب پر اس لیے بھی کالم لکھتا ہوں تاکہ قارئین سے اپنے محسوسات شیئر کرتا رہوں‘ کتاب پڑھنے کا کلچر رہے نہ رہے کتاب چھپنے کا کلچر ضرور باقی رہے گا۔مجھے یقین ہے منیر احمد فردوس کی یہ کتاب بالکل بھی بزنس نہیں کرے گی کیونکہ بہت کم لوگ اسے خرید کر پڑھنا پسند کریں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا منیر احمد فردوس نے یہ کتاب منافع کمانے کے لیے لکھی ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو لکھ لیں‘ سخت ناکامی ہوگی۔ اور اگر یہ کتاب اردو افسانے کی روایت کو مزید توانا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے تو منیر احمد فردوس دو سو فیصد کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ان کے لکھنے کا انداز اور قلم کی کاٹ مجھے اس لیے بھی مزا دے گئی کہ میں خود بھی تحریر میں ”ڈنک“ کا قائل ہوں‘ ہومیوپیتھک تحریریں مجھے متاثر نہیں کرتیں۔سو میرے لیے یہ کتاب اور اس کا مصنف اس لیے بھی قابل تعریف ٹھہرے کہ دونوں نے مجھے نئے ذائقے سے روشناس کرایا‘ مجھے کہانی کے ٹوٹتے ہوئے تعلق سے دوبارہ جوڑا اور یہ احساس دلایا کہ افسانہ ابھی زندہ ہے۔ اردو افسانے کے سرخیل جنا ب منشا یاد صاحب ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ’میں جب افسانہ نہیں لکھتا تو مجھے لگتا ہے جیسے میں معذور ہوگیا ہوں‘ میرا جواب تھا کہ میں افسانہ نہ پڑھوں تو میری یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔منیر احمد فردوس صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے دھڑادھڑ آتی شاعری کے دور میں ہمیں اتنی اچھی نثر پڑھنے کو دی‘ افسانے لکھے‘ کہانی کا خیال رکھا ‘ قاری کا خیال رکھا اور بڑی جرات سے ان موضوعات کو چنا جن پر بات کرتے ہوئے اکثر ادیبوں کے پر جلتے ہیں۔