بحری جہاز میں طول بلد معلوم کرنے کے مسئلے کے حل کے نتیجے پر ٹھیک وقت رکھنے والی گھڑی ایجاد ہوئی۔ اس سے جہازرانی میں خطرات کم ہوئے۔ اس سے سمندر پار سے خام مال آنا ممکن ہوا جو صنعتی انقلاب کے لئے ناگزیر تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز پر گھڑی ساز انتہائی باریک اوزاروں کو استعمال کرنے کے سبب دنیا میں انجینئرنگ کے صنعت میں سب سے آگے تھے۔ لیکن گھڑی کے اصل کام یعنی وقت رکھنے کا بھی صنعتی انقلاب میں بڑا حصہ ہے۔
صنعتی زندگی میں دن کی ٹھیک تقسیم ضروری تھی۔ زرعی یا فیوڈل معیشتوں میں وقت ریاضیاتی اکائیوں کے حساب سے شمار نہیں ہوتا تھا۔ پندرہ منٹ نہیں بلکہ اتنا وقت جو گائے سے دودھ نکالنے میں لگتا ہے۔ کسی کو معاوضہ فی گھنٹہ نہیں بلکہ کام کے یونٹ مثلاً ایک جوتا گانٹھ دینے پر دیا جاتا۔ تھامپسن نے بہت تفصیل سے ۱۷۸۳ میں کام کے طریقوں ذکر کیا ہے۔ جو اس زمانے سے واقف نہیں، اسے پڑھ کر کچھ ہنسی آئے لیکن ٹھیک ایک ہی وقت بہت سے لوگ اکٹھا کام شروع کریں گے، یہ اس زمانے میں سوچا نہیں جا سکتا تھا۔
بہت سے کام کرنے والوں کے وقت کا سنکرونائز ہونے کے بغیر صنعت کا تصور نہیں۔ برمنگھم ملز میں برتن بنانے والے وج وڈ کا کارخانہ وہ پہلی جگہ تھی جہاں لوگوں کے آنے کا وقت ریکارڈ ہونے کے تصور کا آغاز ہوا۔ فی گھنٹہ کام کرنے کا معاوضہ اس دور میں شروع ہونے والی جدت ہے۔ وقت گزرتا نہیں، خرچ ہوتا ہے۔ یہ کرنسی ہے جسے ضائع نہیں کرنا۔ یہ خیال اس کی پیمائش اچھی طریقے سے کر لینے کے بعد کا ہے۔
وقت کا ڈسپلن شروع میں بہت جابرانہ سمجھا گیا۔ آج بہت ابتدائی عمر میں تعلیمی ادارے سے ہی اس کا اتنا خیال کیا جاتا ہے کہ آج کے انسان کو اس کی عادت ہو چکی۔ صنعتی دور میں یہ تبدیلی ایک شاک تھی جس کے جبر پر اس وقت کے لٹریچر میں کئی جگہ پر ملتا ہے۔ گھڑی کے ہلتے پنڈولم نے وقت کے دریا سے نہریں بنائیں اور معاشرے کو اس کے ضبط کا پابند کر دیا۔
لیکن وقت کی پیمائش مہنگی تھی۔ جیب گھڑی ایک تعیش کی شے تھی۔ یہ پیمائش خود اس صنعتی انقلاب کی لپیٹ میں آ گئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ایک امریکی موچی کے بیٹے ڈینیسن نے صنعتی سٹینڈرڈایزیشن، ایک جیسے پرزے بنانا اور مینوفیکچرنگ کی دوسری تکنیک گھڑی پر استعمال کر کے گھڑی بنانے کے فن کو سو الگ کاموں میں بانٹ دیا۔ ایک شخص سٹیل کی تار بناتا، ایک تار سے سکریو، ایک اس کے کیس پر لکھتا۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرتا اور گھڑی تیار۔ ابتدائی ناکامیوں کے بعد آخر ۱۸۶۰ میں کامیابی ہوئی اور امریکی خانہ جنگی کے دوران ابراہام لنکن سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گھڑیاں بیچیں خاص طور پر فوجیوں کو۔ صرف دس برس میں گھڑی کی قیمت صنعتی پراسس کی وجہ سے چالیس ڈالر کی اوسط قیمت سے کم ہو کر ساڑھے تین ڈالر رہ گئی۔
گھڑی عوام کی پہنچ میں آ گئی۔ سیکنڈ تک بھی ناپا جا سکتا تھا۔ لیکن ہر آبادی کا اپنا اپنا وقت تھا۔ ایک شہر کے مرکزی کلاک میں میں چھ بجے ہوں تو دوسرے میں چھ بج کر پانچ منٹ۔ گھوڑوں اور بگھیوں کے دور میں اس سے فرق نہیں پڑتا تھا لیکن پھر سٹیم انجن سے چلنے والی ٹرین آ گئی۔ پانی سے بنی بھاپ کی توانائی سے چلتا یہ انجن معیاری وقت کی طرف کے سفر کا آغاز تھا۔