یہ جو میرا شہر
میرا ملک جل رہا ہے
جبرو ظلم کی جو انتہا ہے
اس کے تم گواہ رہنا
قلم سے اپنے
مظلوموں کی داستان لکھنا
یعنی لفظوں میں آئینہ لکھنا
لکھنا کہ کیسے
چند ملک کے ٹھیکیداروں نے
موت کا تانڈو رچا
وہ تہذیب و تمدن، یکجہتی
جس کی تاریخ ہے گواہ
وہ جسم و جاں۔۔
جو خاک ہند کے خمیر سے ہے گوندھا۔۔۔۔
وہ زندگی جس کو اپنا وجود یہاں ملا
کیسے محافظوں نے تمہارے مٹا دیا
سر راہ زندہ جلا دیا
تم۔۔۔۔ ہاں تم
میرے سناتن دوست
تم دیکھ رہے ہو نا۔۔۔۔۔
شاید میں نا رہوں
میرا جسم ہو ، جاں نا رہے
لب ہوں اور زباں نا رہے
لیکن۔۔
ہے یقین کہ تم زندہ رہوگے۔۔
اپنے جسم و جاں کے ساتھ
تم گواہ رہو گے۔۔
تم ۔۔۔۔۔
جو اب خاموش ہو
تب اپنے لب ضرور کھولنا
جب کفن میں لپٹے
تمھارے جیسے
جسم و جاں تمھاری گلی سے گزریں گے
ان کے لہو کی چھینٹے
تمھارے بند دروں پر دستک کی طرح بج اٹھیں
تو ان آہٹوں کو ضرور سننا
خموشی کے دروازوں کو توڑنا
تب تم ضرور بولنا۔۔
میرے سناتن دوست
مت بھولنا ۔۔۔۔
کہ تم گواہ رہو گے ۔۔