صنعت شعر فروشی اور شاعر سازی
اکیسویں صدی میں سرمایہ داری اپنے ہتھیاروں اور ہتھ کنڈوں سے لیس ہر شعبہ زندگی میں اپنے قدم جما چکی ہے۔کرہ ارض پر ہونے والی انسانی اور غیر انسانی، ساری سرگرمیاں اس کی لپیٹ میں ہیں۔ کارل مارکس نے جن پیداواری رشتوں کو تذکرہ کیا تھا، وہ اپنی سچائی اور توانائی کے ساتھ شعروادب میں بھی جڑیں استوار کر چکے ہیں۔ ہمیں اس پر کسی حیرت یا استعجاب کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ جس طرح کوئی بھی نیا فلسفہ مرحلہ وار فن تعمیر، تخلیقی فنون، سائنس، تاریخ، ادب، آرٹس، شاعری گویا تمام شعبوں میں اپنے مخصوص تناظر میں متعارف ہوتا ہے، ایسا ہی سرمایہ داری نظام کا کلچر اور اس سے وابستہ خرافات تمام شعبہ ہائے زندگی یہاں تک کہ ہمارے روزمرہ کے رویوں میں بھی داخل ہو چکی ہیں۔ جدیدیت ہو، وجودیت ہو، مابعد جدیدیت، ساختیات، یا پھر پس ساختیات یا مابعد ساختیات، ان ساری لہروں اور نظریوں نے علمی و ادبی شعبوں کو بھی یکساں سطح پر متاثر کیا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ سرمایہ داری کا آکٹوپس شعروادب کو اپنے حصار میں نہ لیتا۔
پاکستان کے قیام سے پہلے تک شاعری بکتی نہیں تھی، استاد شعرا اپنے شاگردوں کو عنایت کرتے تھے۔جدیدیت سے پہلے تمام فنون میں استادی شاگردی کا رشتہ روایت سے جڑا ہوا تھا۔ جب تک استاد کے جوتے سیدھے نہ کیے جاتے، خدمت اور ریاضت نہ کی جاتی ، استاد اپنا علم شاگردوں میںتقسیم نہیں کرتے تھے۔ اس طریقہ کار نے سیکھنے کے عمل کو بہت سست رو اور محدود کر رکھا تھا۔ صنعتی انقلاب نے زندگی کے ہر شعبے کی رفتار کو بڑھا دیا۔ ایک جانب اگر پیداواری شرح میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب صارف اور صارفیت کی جانب بھی توجہ دی گئی۔ نئی نئی منڈیاں تلاش کی گئیں۔ مارکیٹنگ کے نئے نئے طریقے اور نئی منصوبہ بندیاں کی گئیں۔ اور یوں اپنی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ نفع کے ساتھ صارف تک پہنچایا گیا۔ شعرو ادب میں ایسے رویوں کا در آنا کوئی ایسی انہونی یا غیر معیوب بات نہیں سمجھنا چاہیے۔ معاشرے کے تمام شعبہ جات اس کی زد میں آئے تو علم و ادب اور تعلیم اور استادی شاگردی کا رشتہ اس کی زد میں کیوں نہ آتا۔سب سے پہلے اسکولوں کالجوں میں ٹیوشن کے کاروبار سے استادی شاگردی کے رشتے نے معیشت کے ساتھ اپنے آپ کو براہ راست جوڑا۔ معیشت کی یہ صورت شاعری میں استاد شاگرد کے رشتے میں بھی در آئی۔ استاد شعرا جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اپنے شاگردوں سے ملنے والے تحفے تحائف اور نذرانہ جات کے عوض ان کی غزلوں کی اصلاح کرتے رہے۔ اس وقت تک پھر ایک بھرم قائم تھا مگر جب ہر شے ہی خریدوفروخت کے رشتے تک محدود ہو کر رہ گئی تو شاعری کے اساتذہ نے بھی اپنی شاعری کے فن اور عمر کی ریاضت کو اپنا اثاثہ جانا اور اس کی بدولت اپنے معاشی مسائل میں مدد کے طالب ہوئے۔ پہلے شعرا ان اساتذہ کے ڈیرے پر آتے تھے اور کسب فیض حاصل کرتے تھے، مگر جب مشاعروں کا شہر شہر سلسلہ چل نکلا تو یہ استاد شعرا متحرک ہو گئے اور انہوں نے دوسرے شہروں میں جا کرشاعری کی اصلاح دینا شروع کر دی، گویا استاد شعرا جدید معاشی نظام کے زیر اثر دوسرے شہروں میں اپنے فن کی فروخت کے لئے منڈیوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دوسرے شہروں میں ان کے شاگردوں کے بارے میں کسی کو پتہ نہ چلتا اور استاد اور شاگرد علمی وادبی حلقوں کی تنقید کے نشانے سے بچ جاتے۔
پہلے تو ادبی رسائل میں شعرا کی شاعری بلا معاوضہ شایع ہوتی تھی اور زیادہ سے زیادہ مدیر اُن کو ادبی رسالے کی مفت ترسیل کر دیتا مگر پھر یوں ہوا کہ حکومتی سرپرستی میں رسائل چھپنے لگے۔ ایسے سرکاری رسائل میں شایع ہونے والی تخلیقات پر معاوضہ بھی دیا جانے لگا، اگر چہ یہ معاوضہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھا، مگر صنعتی معاشرے میں جب ہر شے خریدنا پڑ رہی ہو تو ان شعرا کو جہاں سے جو ملتا، قبول کر لیتے۔ سرکار دربار نے ان شعرا کی تخلیقات کو خریدنے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ جب ایک بار اپنی غزلوں اور نظموں اور افسانوں کی اشاعت پر پیسے پکڑنے کا آغاز ہو گیا تو پھر اپنے شاگردوں کے کچے پکے کلام کی اصلاح کی مشقت کا معاوضہ بھی جائز سمجھا جانے لگا۔ اصلاح کے اس کاروبار نے اس وقت گھنائونی شکل اختیار کر لی کہ جب یہی اساتذہ اپنی معاشی مجبوریوں کے سبب سفید کاغذ پر اصلاح دینے لگے۔سفید کاغذ کی اصطلاح’’سفیدہ زمین‘‘ سے ادب میں در آئی۔ ’’سفیدہ زمین‘‘ ایسے قطعہ اراضی کو کہتے ہیں جہاں پہلے تعمیرات نہ کی گئی ہوں۔یہ ایک زرعی زمین کا ٹکڑاہوتا ہے جہاں پہلی بارکچھ تعمیر کیا جارہا ہو۔ شاعری میں’’زمین‘‘ پہلے ہی مروجہ تھا، اس مشابہت کی بنا پر یہ اصطلاح ادب میں خوب مقبول ہوئی۔
شاعروں نے اپنے کلام کی درجہ بندی کی۔یہ بات سچ ہے کہ شاعر کو غزل یا نظم لکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقی سطح کیا ہے، اسے کلام میں شامل کرنا ہے ، مزید بہتر کرنا ہے یا اسے پھینک دینا ہے، اس بات کا فیصلہ شاعر یا تخلیق کار تخلیقی تجربہ سے گزرنے کے بعد کرتا ہے۔ جو پراڈکٹ برائے فروخت قرار دی گئی، اس کی بھی اس بنیاد پر درجہ بندی کی گئی۔ ایسی شاعری جسے مشاعروں میں زیادہ مقبولیت ملنے کی توقع تھی، اسے درجہ اول اور اس حوالے سے بتدریج درجہ دویم اور درجہ سویم کی تخلیقات کی قیمت کا تعین کیا گیا۔ اگر تو تھوک کے بھائو سے غزلیں خریدنا ہیں، یعنی پوری کتاب کا کلام چاہئے تو لاہور میں ایک اوسط درجے کا استاد شاعر فی غزل ایک ہزار روپے لیتا ہے۔ عام طور پر پچاس غزلوں کی کتاب پچاس ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔اگر کم غزلوں کا تقاضا ہے تو یہ ریٹ پندرہ سو روپے سے دوہزار روپے تک چل رہا ہے۔ ویسے اگر کوئی مشاعرے کی پھڑکتی ہوئی غزل ہے تو خواتین شاعرات اسے پانچ سے دس ہزار روپے میں بھی بخوشی خریدلیتی ہیں۔ ایک بار تو ایسی غزل دو شاعرات میں مقابلے کی وجہ سے استاد شاعر نے اٹھائیس ہزار روپے میں بیچی۔ پچاس ہزار کا ایک شعری مجموعہ کچھ استاد شعرا بہت کم قیمت مانتے ہیں اور اور اس بات پر ناراض ہیں کہ اُن کی مارکیٹ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خلیج میں مقیم ایک عرب شاعر کہ جس کے ایک درجن شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں، ان کو لکھ کر دینے والے کے اپنے ابھی تین چار مجموعے شایع ہوئے ہیں، دوست احباب کہتے ہیں کہ اب اپنے لیے بھی شاعری کر لو مگر اس کا جواب ہوتا ہے کہ ہر کتاب اپنے لیے تیار کرتا ہوں مگر وہ کم بخت پیش کش ایسی شاندار کر دیتا ہے کہ اپنی کتاب آئندہ پہ اٹھا رکھتا ہوں۔ ایک ایسا ہی استاد شاعر کہ جومضافات سے لاہور میں شاعری کے ذریعے پیسے کمانے کا منصوبہ ذہن میں لے کر آیا تھا، اس نے ابتدا میں شعری مجموعے کی اصلاح کے لیے دس ہزار روپے سے آغاز کیا تھا۔ پھر پچیس ہزار اور آج کل اس کا ریٹ ایک لاکھ روپے ہے۔ اگر دس بیس غزلیں اپنی طرف سے کہہ کر مجموعے میں شامل کرنا پڑ جائیں تو اس بات کی بھی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ مگر بہت جلد اس شاعر نے پاکستان کی منڈی سے اپنا فوکس ہٹا کر صرف دیار غیر میں مقیم صاحب ثروت لوگوں کی جانب کر لیا۔اس سے مستفید ہونے والوں میں شاعر اورشاعرات دونوں شامل ہیں۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ دو چار غزلیں ایک سے زائد صارفین کو بیچ دی جاتی ہیں ، جب پکڑی جائیں تو بہت جھگڑا ہوتا ہے جس کا علم صرف ان شاعر اور ان کے دو صارفین کو ہی ہوتا ہے۔پچھلے دنوں ایسے ہی ایک جھگڑے کا تذکرہ ادبی حلقوں میں زیر لب ہوتا رہا۔ اقبال ساجد تو اس کام میں بہت بدنام ہو گیا تھا۔ جواز جعفری نے جب اس کا شعری مجموعہ ’’اثاثہ‘‘ شایع کیا تو اس میں ایک دو غزلیں ایسی بھی شامل کیں جو اقبال ساجد کے کاغذات میں سے نکلیں مگر وہ اسلام آباد کی ایک شاعرہ کے شعری مجموعہ میں بھی شامل تھیں۔ اقبال ساجد کا کلام تو پورے ملک میں بکھرا ہوا ہے۔ اگر کبھی اس کو اکٹھا کیا جاسکے تو یہ الگ سے ایک دیوان بن سکتا ہے۔
دیار غیر میں آج کل پروین شاکر کا نام ایک برانڈنیم بن گیا ہے۔ شاعرات استاد شعرا سے تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو ایسی شاعری لکھ کر دیں کہ سامعین انہیں پروین شاکر کے برابر کا شاعر قرار دیں۔ امریکہ میں تو ایسی کئی پروین شاکر پیدا ہو چکی ہیں۔ امریکہ کی ایک مستند شاعرہ نے پچھلے دنوں فیس بک پر بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی علمی و ادبی محفلوں میں پروین شاکر اپنے برینڈ نیم کے حوالے سے پہلے پہنچتی ہے اور اس کے بعد شاعری اس کے نام سے واقف ہونے کے بعد لوگ پڑھتے ہیں۔ آج کل لاہور میں مقیم ایک بزرگ استاد شاعر کو اس بات کا بہت افسوس ہے کہ اس کی لکھ کر دی جانے والی شاعری کی کتاب پر ایک شاعرہ نے حکومتی ادارے سے ایوارڈ بھی حاصل کر لیا ہے مگر وہ اب اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی۔ حکومتی عہدوں پر فائز شاعری کے شوقین افسران کے لیے بڑی سہولت ہے۔ غریب مسکین استاد شاعر نہ صرف ان کو شعر لکھ کر دیتے ہیں بل کہ اس پیکیج میں کتاب پر لکھے جانے والے فلیپ، دیباچے، کتاب کی اشاعت، کتاب کی تقریب رونمائی، اخبارات و رسائل میں کتاب کی تشہیری مہم، سب کچھ شامل ہو تا ہے۔حکومتی عہدوں پر فائز یہ شاعر اور شاعرات ایسے ہی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جیسے دیگر معاملات میں اٹھایا جاتا ہے۔بغیر وجہ کے ان سے مشاعروں کی صدارتیں کروائی جارہی ہیں۔سرکاری مشاعروں میں ان کو اعزازیہ کی رقم عام شعرا سے دس سے بیس گنا زیادہ دی جاتی ہے۔ایسا ہی ایک شاعر جب منیر نیازی کے پاس فلیپ لکھوانے گیا تو منیر نیازی کو یہ خبر پہلے پہنچ چکی تھی کہ اس کو یہ شخص دس ہزار روپے میں بیچ کے آیا ہے۔ منیر نیازی نے پہلے اس سے دس ہزار روپے نکلوائے اور پھر کہا کہ اب اپنی مرضی سے جو چاہے، فلیپ میں لکھ کر میرے نام سے چھاپ دو۔کراچی کا ایک شاعر گیت نگاری میں برینڈ نیم ہے اور وہ ایک گیت کے دو سے تین لاکھ روپے لیتا ہے۔ اب اگر دوسرے شاعر اپنی غزلیں بیچ لیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
آج کل شاعر بننے کے شوقین حضرات کہ جن کی رسائی استاد شعرا تک نہیں ہوتی، وہ شاعری کی کتابیں چھاپنے والے’’ شاعر ناشران‘‘ کی دکانوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ شہر میں موجود یہ آدھ درجن’’ شاعر ناشران‘‘ نہ صرف شعری مجموعہ لکھوا کر دیتے ہیں، بل کہ اس کی طباعت، اشاعت، تشہیر ، تقریب رونمائی، سبھی معاملات میں معاونت کرنے کے لیے ایک پیکیج ڈیل کرتے ہیں جو تین لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ اگر کوئی غزل کمزور لگے تو اس کے بدلے نئی غزل کا مطالبہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ آج کل ایسے شعرا انفرادی کلائنٹس کے پیچھے جانے کے بجائے ایسے ناشران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔یہ ناشران ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، اپنے کلائنٹس کو شعر پڑھنے کی پریکٹس بھی کرواتے ہیں، ان کے تلفظ کو درست کرواتے ہیں۔ کتاب کے آنے سے پہلے کچھ مشاعروں میں ان کو متعارف کرواتے ہیں تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ کتاب بغل میں دبا کر ادبی حلقے میں داخل ہونے والے یہ صاحب کون ہیں۔ایسے ان ناشران کو اپنی مارکیٹ خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک ناشر کی متعارف کی گئی شاعرہ پچھلے دنوں یہ دعویٰ کرتی پائی گئی کہ مجھ سے ایک ناشر نے نعت کی کتاب دنوں میں لکھوائی ہے، اور اب اسے کسی اور کے نام سے چھاپا جارہا ہے،اور کہا گیا تھا کہ اس کا معاوضہ اسے ملے گا ،مگر بعد میں پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ریٹ طے نہ ہونے کے بعد اب وہی کتاب ایک اور شاعرہ نے خرید لی ہے۔ایک ایسے ہی استاد شاعر نے بتایا کہ جس طرح پلے بیک سنگر کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کا گانا کس پر پکچرائز کیا جائے گا تو وہ ایسی آواز میں گاتا کہ ہیرو کی آواز کے ساتھ اس کی آواز مل جاتی، اسی طرح جب ان استاد شعرا سے ڈیل کی جاتی ہے تو یہ بات شرائط میں شامل ہوتی ہے کہ شاعری کا مزاج کیسا ہونا چاہئے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل الگ مزاج کی شاعری شاعر یا شاعرہ کی پہلے سے مقبول شاعری سے مختلف نظر آئے۔ شاعر اور شاعرہ کی تخصیص بھی پہلے سے کر لی جاتی ہے اور پھر اس صنف کے مطابق شعر کہے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری ایک مہارت کا نام ہے، اب یہ ذات کے اظہار تک محدود نہیں رہی، پراڈکٹ بن گئی ہے،طلب اور رسد کے معیشت کے اصول کے تحت، جیسا مال مارکیٹ میں مطلوب ہو گا، ویسا ہی پروڈیوس کیا جائے گا۔
آج سے تیس برس پہلے کے شعرا کتنے معصوم اور پاک باز لگتے ہیں کہ جو خود شعر کہتے تھے اور پھر اساتذہ سے رہنمائی لینے ان کے ڈیرے پر جاتے، استاد کی مرضی ہوتی تو ایک دو شعر اس غزل میں ڈال کر جاندار غزل بنا دیتے۔ ایسے اساتذہ کی ادبی حلقوں میں زیادہ عزت ہوتی تھی۔ لاہور کے ایک استادشاعر ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے شاگردوں سے نقد روپے وصول نہیں کرتے بل کہ ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی مشاعرے کی صدارت کریں تو وہ ان کے لیے پھول اور مٹھائی کے ڈبے لے کر آئیں۔ ایک بار ان کی سالگرہ منائی گئی تو میز پھولوں سے اور مٹھائی کے ڈبوں سے بھر گئی۔ اس تقریب کی تصویر کئی مہینوں تک ان استاد کے فیس بک پر موجود شاگردوں میں شیئر ہوتی رہی۔ لاہور کے ہی ایک اور استاد شاعر کو ایک بیرون ملک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے شاگرد نے اپنے دفتر میں ایک کمرہ رہائش بمعہ طعام دے رکھا ہے۔ استاد اُن کے لیے ایک سال میں ایک شعری مجموعہ لکھتے ہیں، جسے یہ صاحب شایع کروا کر سارا سال اس کی تقریبات کرواتے رہتے ہیں۔ ان استاد کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان ڈاکٹر صاحب کی محبوبائوں کے لیے بھی شاعری کریں، مگر تقاضا یہ ہے کہ اس کا آہنگ نسائی ہونا چاہئے۔ اور پھر یہ محبوب شاعرات مشاعروں میں ان صاحب کے جلو میں شرکت کرتی ہیں۔