لُغوی مَعنیٰ :
معجم الغنی میں ہے کہ : [بالغَ فی الکلام : جاوز الحدود المعقولۃ] یعنی مبالغۂ کلام سے مراد (زیادتئِ معنیٰ کے اعتبار سے) حدودِ عقلیہ سے تجاوز کر جانا ہے
اِصطلاحی مَعنیٰ :
[المبالغۃ : وھو أن یدعی لشیءٍ وصف یزید علیٰ ما فی الواقع]
(التلخیص البلاغۃ، صفحہ 106)
ترجمہ : "کسی شَے کے لیے حقیقت سے زائد وصف کا دعویٰ کربا"
کشاف تنقیدی اصطلاحات میں مولانا صہبائی کے حوالے سے مذکور ہے کہ :
"مبالغہ (Exaggeration) یہ ہے کہ کسی وصف کو شدت یا ضُعف میں اس حد تک پہنچا دیں کہ اس حد تک اس کا پہنچنا بعید ہو یا محال ہو، تاکہ سُننے والے کو یہ گُمان نہ رہے کہ اس وصف کی شدت یا ضُعف کا کوئی مرتبہ باقی ہے"
(کشّاف تنقیدی اصطلاحات ،صفحہ 164)
بحوالہ إبن خلکان ابو اسحاق ابراہیم کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ جس میں حد درجہ مبالغہ کیا گیا ہے :
1- حتیٰ إذا طاح عنها المرء من شيءٍ
و الخل بالضم سلك العقد في الظلم
تبسمت فأضاء الليل فالتقطت
حبات مستترٍ فی ضوء منتظم
ترجمہ : "اُس سے ملتے وقت گھبراہٹ سے اُس کی چادر گِر گئی اور بغل گیری کرتے ہوئے اس کے ہار کی لڑی اندھیری رات میں ٹوٹ گئی، وہ ہنس پڑی اور اس کے دندان کی چَمَک سے اتنی روشنی ہو گئی کہ اُس نے بکھرے ہوئے موتیوں کے دانے زمین سے چُن کر اکٹھے کر لیے"
(نمکدانِ فصاحت، صفحہ نمبر 68)
2- دنداں کی تاب دیکھ کے انجُم ہوئے خَجِل
وہ مہ جبِیں جو شب کو لبِ بام ہنس پڑا
بہادر شاہ ظفر
دندانِ محبوب دیکھ کر مہ و انجم کا غیرت کھا جانا امرِ محال ہے
3- یہ صفائی یہ لطافت جسم میں ہوتی نہیں
تُم نے جو دل میں چُھپایا، آشکارا ہو گیا
شیخ ناسخ
بحوالۂ سید نظم اس شعر میں دو وجہوں سے محال ہے. ایک جسم میں ایسی لطافت کا ہونا کہ جو شَے دل میں ہو وہ باہر دکھائی دے، دوسرے راز کا دکھائی دینا کہ وہ دیکھنے کی شَے نہیں
سید علی حیدر نظم طباطبائی لکھتے ہیں کہ :
[ادیب کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مبالغہ کلام کا حُسن ہے لیکن مبالغے میں افراط کہ مضمونِ غیر عادی و محال پیدا ہو جائے، بہ إتفاقِ آئمۂ فن عیبِ قبیح ہے، جس کا نام انھوں نے إغراق و غُلُوّ رکھا ہے. مبالغہ جبھی تک حُسن دیتا ہے جب تک واقعی و امکان اس میں پایا جائے———-اور جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھِنچ جاتا ہے، وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے]
{بحوالہ : شرح دیوانِ غالب، صفحہ 412}
تفضیل (Pre-eminence) اور مبالغہ (Hyperbole) میں فرق :
اسمِ تفضیل میں شَے کا وصف علی سبیل الفوقیت ہوتا ہے یعنی ایک چیز کے لیے دوسری پر ترجیح دیتے ہوئے زیادتئِ معنیٰ کو ثابت کیا جاتا ہے، یا وہ اسم صفت جو دوسری چیز کے مقابلے میں اپنے موصوف کی ترجیح ظاہر کرے جبکہ مبالغہ فی نفسہٖ تعریف و توصیف اور معنوی زیادتی کا نام ہے
(کما فی معجم الرائد و الغنی : في اللغة : صيغة تدل على وصف شيء بزيادة على غيره، والمبالغۃ فِي الكَلاَمِ : أَي تَجَاوُز الْحَد فِيه)
تفضیلِ بعض :
صفت کا وہ درجہ جس کے ذریعے ایک موصوف کی بعض پر ترجیح ظاہر کی جائے
تفضیلِ کُل :
صفت کا وہ درجہ جس کے ذریعے ایک موصوف کی تمام پر ترجیح ظاہر کی جائے
تفضیلِ نفسی :
صفت کا وہ درجہ جس میں موصوف کو کسی اور پر ترجیح اور فضیلت نہ دی جائے بلکہ فی نفسہٖ فضیلت کا بیان ہو، یہ قسم مبالغہ سے قریب تر ہے یعنی اُس سے مماثلت رکھتی ہے
مبالغہ کی دو صورتیں ہیں :
1- مبالغہ فی الاصل:
کسی حقیقت کو استعارہ میں بیان کرنا مبالغہ فی الاصل کہلاتا ہے، مثلاً :
یہ بھی ہے ادا کوئی خورشید نمط پیارے
منھ صبح دکھا جانا پھر شام چھپا جانا
میر تقی میر
یہاں شاعر نے اپنے محبوب کو خورشید سے استعارہ کیا ہے
2- مبالغہ فی الزوائد:
کسی چیز کو بغیر استعارہ سے مگر معنوی شدّت عطا کرنا مبالغہ فی الزوائد کہلاتا ہے
مبالغہ فی الزوائد کی تین اقسام ہیں :
1- تبلیغ :
وہ بات جو ازرُوئے عقل و عادت ممکن ہو، مثلاً :
1- دل درد، جگر درد، دعا درد، اثر درد
میں ہوں ہمہ تن درد، مری شام و سحر درد
جگر مراد آبادی
اس شعر میں درد کی ہمہ گیریت کا مضمون ہے اور خوب مبالغہ کیا گیا ہے، جو کہ عقل و عادت ہر دو اعتبار سے درست ہے
2- دل کے نالوں سے جِگَر دُکھنے لگا
یاں تلک روئے کہ سَر دُکھنےگا
إنشاء
دونوں باتیں ازرُوئے عقل و عادت ممکن معلوم ہوتی ہیں
2- إغراق :
وصف کو اس حد تک پہنچانا کہ باعتبار عقل کے ممکن ہو اور باعتبار عادت کے محال، مثلاً :
جُننشِ ایمائے مِژگاں سے دَرَک جائیں جَبَل
پیشِ رُوئے چشمِ بَستہ بحر و بَر خوار و زَبوں
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
شعرِ مذکور میں ایمائے مِژگاں سے جبال کا لرزنا اگرچہ عادت کے محال ہے مگر عقلاً ممکن ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت بخشی ہے کہ
[نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں]
جب تقدیر بدل سکتی ہے تو پہاڑوں کی لرزش (flicker) کیسے ناممکن؟
3- غُلُوّ :
وصف کی وہ آخری حد کہ وہ محالِ محض ہو، یعنی عقلاً و عادۃً ناممکن و محال ہو، مثلاً :
1- و اخفت أھل الشرک حتی انه
لتخافک النطف التی لم تخلق
یعنی اہلِ شرک کو اس قدر ڈرایا کہ غیر مخلوقہ نُطفے بھی ڈر گئے
صرف و صرف مضمونِ غیر عادی و محال ہے
2- پیدا نہ ہو زمیں سے نیا آسماں کوئی
دل کانپتا ہے آپ کی رفتار دیکھ کر
یاس یگانہ چنگیزی
عقل و عادت سے یہ ممکن نہیں کہ محبوب کی تیز رفتاری سے جو دُھول اُٹھے وہ ایک اور آسمان بنا لے
————
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...