لغوی معنیٰ :
معجم الوسیط میں ہے کہ [إیقاعهٗ فی الوھم]، یعنی سامع کو وہم میں ڈالنا
اصطلاحی معنیٰ :
کلام میں ایک ایسا لفظ لایا جائے، جو ذو معنیٰ ہو، ایک معنیٰ قریب کا اور دوسرا بعید کا، لیکن شاعر کی مراد معنیٰءِ بعید ہو
انگلش لغات میں اس کا مفہوم یوں بیان کیا جاتا ہے
[An irrational belief arising from ignorance or fear]
ترجمہ : "نادانستہ (کلام میں) غیر معقول معنوی اعتقاد کا پیدا ہونا ایہام کہلاتا ہے"
توجیہ، تخیل، مغالطہ اور ابہام اس کے مترادفات ہیں
چند ایہام گو شعراء کے نام حسبِ ذیل ہیں:
خان آرزوؔ، شاہ مبارک آبروؔ، ٹیک چند بہار، حسن علی شوق، شہاب الدین ثاقب، رائے آنند رام مخلص، میر زین العابدین آشنا، شرف الدین مضمون، شاہ حاتم، محمد شاکر ناجی، غلام مصطفٰے یک رنگ، محمد احسن احسن، میر مکھن پاک باز، محمد اشرف اشرف، ولی اللہ اشتیاق، دلاور خان بیرنگ، شرف الدین علی خان پیام، سید حاتم علی خان حاتم، شاہ فتح محمد دل، میاں فضل علی دانا، میر سعادت علی خاں سعادت، میر سجاد اکبر آبادی، محمد عارف عارف، عبد الغنی قبول، شاہ کاکل، شاہ مزمل، عبدالوہاب یک رو اور حیدر شاہ.
——–
قرآن و احادیث میں اس کی کثیر امثلہ موجود ہیں :
1- حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے میلے میں شرکت کی دعوت دی تو آپ نے فرمایا "إِنِّیْ سَقِیْمٌ" یعنی میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بالکل ٹھیک تھے، آپ کا یہ قول توریہ کی قبیل سے ہے اور اس کی تفہیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے کہ :
[فقال آنی سقیم القلب لما فیہ من الغیظ باتخاذکم النجوم اٰلھۃ و بعبادتکم الأصنام]
(مرقاۃ المفاتيح شرح مشکوۃ المصابيح)
"یعنی آپ نے فرمایا میں تم سب کے ستاروں کی پرستش اور بتوں کی پوجا کرنے کی وجہ سے سخت غیظ و غضب کی حالت میں دل کا مریض ہو گیا ہوں"
"اِنَّیْ سَقِیْمٌ" کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ :
[فأراد بہ إبراهيم علیہ السلام المرض القلبی، وھو کونہ مغموماً و مھموماً لعدم قبولھم إلایمان]
(حاشیہ تلخیص البلاغۃ صفحہ 102)
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سُقم سے مرضِ قلبی کا ارادہ کیا، اور مرضِ قلبی سے مراد آپ علیہ السلام کا ان کے عدمِ قبولیتِ ایمان کی وجہ سے پریشان رہنا ہے
2- سورۃ الأنفال میں غزوۂ بدر کے موقع پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کنکریاں پھینکنے کا واقعہ مذکور ہے، اللّٰہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
[وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی]
رَمٰی کا معنیٰءِ قریب "پھینکنا" ہے اور معنیٰءِ بعید اس کے 2 ہیں
1- زیادہ ہونا، جیسے "رَمٰی الْمَالُ" کا معنی ہے مال زیادہ ہوا
2- پہنچا دینا، تفسیرِ مظہری میں آیۂ مذکورہ کا معنیٰ یہ ہے کہ :
"دشمن کی آنکھوں میں گو بظاہر تم نے (مُٹھی بھر خاک) پھینکی مگر دشمنوں کی آنکھوں میں جھونکنے اور وہاں تک پہنچانے کی تم کو قدرت نہ تھی ‘ اللہ نے وہ خاک اور کنکریاں دشمنوں کی آنکھوں تک پہنچا دی جس کی وجہ سے ان کو شکست ہوگئی" (تفسیر سورۃ الأنفال، آیۃ 17)
3- بخاری شریف میں یہ روایت مذکور ہے کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا :
[يَا سَارَةُ لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي فَلَا تُكَذِّبِينِي]
(صحیح بخاری، راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری ( دینی اعتبار سے ) بہن ہو۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔
4- [أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَةً وَرَّى غَيْرَهَا، وَكَانَ يَقُولُ: الْحَرْبُ خَدْعَةٌ]
(سنن ابی دوؤد، راوی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو جس سمت جانا ہوتا اس کے علاوہ کا توریہ (Hallucination) کرتے اور فرماتے: [جنگ دھوکہ کا نام ہے]
یعنی دشمنوں کو بظاہر لگتا کہ آپ ﷺ فلاں راستے سے آ رہے ہیں جبکہ آپ ﷺ دوسرے راستے سے جا رہے ہوتے
5- مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے دوران ایک اعرابی نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ "إنه هادٍ یھدیني" یعنی یہ ہادی ہے جو مجھے ہدایت دے رہا ہے، لفظِ "ھادٍ" کے معنیٰ کے متعلق علمائے بلاغت نے لکھا ہے کہ :
[فالمعنیٰ القریب للھادی آنذاك ھو الدليل فی الصحراء، و المعنیٰ البعيد ھو الھادی إلی حقائق الدين]
(المختار من علوم البلاغۃ، الدکتور محمد علی سلطانی، صفحہ نمبر 154)
یعنی لفظِ" ھادٍ" کا معنیٰءِ قریب ہے کہ صحراء کے راستے میں یہ میرے راہبر ہیں اور معنیٰءِ بعید ہے کہ یہ دینِ مبیں کی طرف بُلانے والے ہیں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مراد معنیٰءِ بعید سے ہے، اس مفہوم سے انھوں نے توریہ بھی کر لیا اور کذب سے بھی بچ گئے
چند شعری امثلہ
1– قرآں کی سیر باغ پہ جھوٹی قسم نہ کھا
سیپارہ کیوں ہے غنچہ اگر تو ہنسا نہ ہو
سیّد محمد شاکِر ناجی
سیپارہ کے دو مفاہیم ہیں
معنیٰءِ قریب = قرآن پاک کے تیس اجزاء
معنیٰءِ بعید = ٹکڑے ٹکڑے ہونا/کرنا
اور یہاں ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہی مراد ہے
2– زلف لہرا کے وہ جس دم سرِ بازار چلا
ہر طرف شور اٹھا مار چلا مار چلا
نصیر الدین چراغ دہلوی
لفظِ "مار" کے 2 معانی ہیں
معنیٰءِ قریب = ضرب (پٹائی، مار دھاڑ)
معنیٰءِ بعید = سانپ (serpents)، یہاں مراد بھی یہی ہے
——–
ایہام کی اقسام
علمائے بلاغت نے اس کی 3 اقسام بیان کی ہیں
1- مجردہ
یعنی مناسباتِ معنیٰءِ قریب غیر مقصود کو ذکر نہ کیا جائے، مثلاً
[اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی]
اس قطعۂ آیت میں معنیٰءِ قریب کے ملائمات میں سے کچھ بھی نہیں ہے، إِسْتَوٰی بمعنیٰ استقرار معنیٰءِ قریب ہے لیکن یہ مراد نہیں کیوں کہ استقرار و مکانیت کی آمیزش سے ذاتِ باری تعالیٰ پاک ہے، علمائے سلف نے اللہ تعالیٰ کے لیے إِسْتَوٰی کی کیفیت کو مانا ہے مگر بغیر کسی کیفیت اور تشبیہ کے، کیوں کہ اس کا ادراک محال یے
یہاں استوٰی کے 2 معنیٰ ہیں
معنیٰءِ قریب غیر مقصود = مساویت، ہمواری
معنیٰءِ بعید جو کہ مقصود ہے = استیلاء، اختیار، اقتدار، بالادستی، برتری، تسلط، حکومت، غلبہ، قبضہ
صاحبِ معجم الغنی نے إِسْتَوٰی کا معنیٰ "تَمَلَّکَ" کیا ہے
صاحبِ معجم الرائد نے إِسْتَوٰی کا معنیٰ "عَلَا وَ صَعَدَ" کیا ہے
صاحبِ معجم الوسیط نے إِسْتَوٰی کا معنیٰ "تَوَلَّی الْمُلْک" کیا ہے
شعری أمثلہ
1- بستے ہیں تیرے سائے میں سب شَیخ و بَرہَمَن
آباد تُجھ ہی سے تو ہے گھر دیر و حَرَم کا
خواجہ میر درد
سایہ کا قریبی معنیٰ دھوپ کی ضِد، جبکہ معنیٰءِ بعید جو مراد بھی ہے، وہ حمایت ہے، ملاحظہ کیجئے کہ یہاں معنیٰءِ قریب کا کوئی بھی ملائم ذکر نہیں کیا گیا
2- کس کو خبر یہ تھی کہ نہ پوچھو گے بات بھی
ہم نے تو دل دیا تھا تمھاری زبان پر
شاعر نامعلوم
مصرعۂ ثانی میں "زبان" سے مراد "وعدہ" ہے اور یہی معنیٰءِ مراد بھی.
———
2- مرشحہ
یعنی مناسباتِ معنیٰءِ قریب غیر مقصود کو کلام میں ذکر کیا جائے، چاہے مطلوبہ لفظ سے پہلے ہو یا بعد میں. قرآن میں اس کی کثیر امثلہ موجود ہیں، ایک مثال دیکھئیے کہ :
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ* وَّالنَّجْمُ وَالشّجَرُ یَسْجُدَانِ
یہ دو آیات ہیں، پہلی آیت میں سورج اور چاند کا ذکر ہے، اس کے معاً بعد "النجم" کا لفظ شمس و قمر کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے وہم پیدا کر رہا ہے کہ اس سے مراد "ستارہ" ہوگا جو کہ معنیٰءِ قریب غیر مقصود ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ "اَلنَّجْمُ" سے مراد یہاں بغیر تنے والا درخت ہے جو کہ آیۂ کریمہ میں مراد بھی ہے
شعری امثلہ
کہتے ہیں آخری عمر میں مرزا محمد رفیع سودا ؔ دہلی سے ترک سکونت کر کے لکھنو چلے گئے اور نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ایک مرتبہ نواب آصف الدولہ شکار کو گئے سودا ؔ بھی ہمراہ تھے۔ شکار کرتے ہوئے "بھیلوں" کے جنگل میں نواب آصف الدولہ نے ایک شیر مارا۔ اس موقع کی مناسبت سے سوداؔ نے برجستہ کہا
یارو! یہ ابن ملجم پیدا ہوا دوبارہ
شیر خدا کو جس نے "بھیلوں" کے بَن میں مارا
یہاں شیر خدا سے مراد اللہ کی مخلوق شیر ہے۔ نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ.
———
3- مبنیہ
{بعض کتبِ بلاغت میں اسے موشحہ بھی لکھا گیا ہے}
یعنی مناسباتِ معنیٰءِ بعید مقصود کو کلام میں ذکر کیا جائے، مثلاً
1- کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں
میری زبان ہے یہ تمھاری زباں نہیں
مرزا داغ دہلوی
زبان کے 2 معنیٰ ہیں
1- منھ کے اندر کا عضو (tongue)، جس میں قوت ذائقہ ہوتی ہے اور جو نطق کا آلہ ہے۔
2- قول و قرار (asseveration)، شعرِ مذکور میں یہی معنیٰ مراد ہے
ملاحظہ ہو کہ یہاں معنیٰءِ بعید "قول و قرار" کا ملائم مصرعۂ اوّل میں لفظِ "اقرار" موجود ہے
2- یہی مضمون خط ہے احسن اللّٰہ
کہ حسن خوبرویاں عارضی ہے
احسن اللّٰہ خان
یہاں عارضی میں ایہام ہے۔ عارضی کے قریب ترین معانی تو ناپائیدار ہیں مگر شاعر نے اس سے رخسار مراد لیے ہیں اور معنیٰءِ بعید کا ملائم بھی مذکور ہے، یعنی "خط"