سمندر پار پاکستانیوں کوووٹ کا حق دیا جائے
جمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ایک سازش لگتی ہے“جس سائیٹ پر میں نے یہ کلپ دیکھا اس پر کئی لوگوں کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ اس میں کچھ ناقابلِ اشاعت ہیں۔ چند ایک معمولی قطع برید کے بعد آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔عدنان اعظم نے لکھا ”سب سے بڑی سازش توآپ خودہیں جو اسلام کا لبادہ پہن کر اور اسلام کا نام لے کر ذاتی مفاد کی سیاست کرتے ہو۔پچھلے تیس برس سے مختلف حکومتوں میں بیٹھ کرآپ نے اسلام کی کیا خدمت کی ہے۔اتنے عرصے سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ بن کر مالی فائدہ اٹھا رہے ہو، اب تک کشمیر کی آزادی کے لئے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ایک جانب اسلام کا نام لیتے ہو دوسری طرف سرمایہ دار نواز شریف اور سیکولر زرداری کی گود میں بیٹھے ہو۔ آپ کی سیاست مفاد پرستی، کرپشن اور دھوکا دہی پر مشتمل ہے۔ آ پ نے پہلے ایم ایم اے بنا کر کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا تھا جو اب دوبارہ لوگوں کو دھوکا دینے نکل پڑے ہو۔آپ لاکھوں پاکستانیوں کی اس لئے دل آزاری کر رہے ہو کیونکہ وہ آپ کے ووٹر نہیں ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے جس کا راگ الاپتے رہتے ہو۔“
افضال احمد نے لکھا ”مولانا کی سیاست پیسہ بنانے کی حد تک ہے جس کے لئے وہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ انہیں سمندر پار پاکستانیوں کا بھیجا ہوا پیسہ اچھا لگتا ہے مگر پاکستانی نہیں۔ اس لئے وہ انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں“
علی احمد نے کہا ”اگرافغانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی بات ہو تو یہ اسے آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیں گے لیکن پاکستانیوں کو یہ حق دینے کے لئے تیا ر نہیں ہیں۔ جن علاقوں میں ان کا زور ہے وہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔کس آئین اور ضابطے کی یہ بات کرتے ہیں“
جمشیدملک لکھتے ہیں ”میرے خاندان کے ستر فیصد افراد بیرونِ ملک کام کرتے ہیں۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر تے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، عزیز و اقارب اور نادار افراد کی مدد کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کی سیاست میں بھر پور حصہ لتے ہیں۔کیا ان کو ووٹ ڈالنے کا حق دینا سازش ہے۔مولانا ہوش کے ناخن لیں“
نوشین نے یوں تبصرہ کیا ” جس طرح ڈیزل فضا میں کثافت کاموجب بنتا ہے اسی طرح مولانا کی سیاست بھی پاکستان کی سیاست میں آلودگی باعث بن رہی ہے۔اس ڈر سے کہ یہ ووٹ تحریکِ انصاف کو مل سکتے ہیں وہ لاکھوں اوور سیز پاکستانیوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔ اسی گندی سیاست کی وجہ سے وہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم نہیں ہونے دے رہے۔ وہ مذہب کا نام بیچتے بیچتے کروڑ پتی ہو گئے ہیں لیکن ان کا پیٹ ابھی تک نہیں بھرا ہے۔ آخر شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔“
اس عوامی ردعمل کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے مولانا صاحب کے بیان پر میں خود کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔تاہم اوورسیز پاکستانیوں کی عددی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی اہمیت پر تھوڑی سی روشنی ڈالنا چاہوں گا۔اس وقت رجسٹرڈ اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد نوے لاکھ سے زائد ہے۔ اگر ان پاکستانیوں کو شامل کیا جائے جن کے پاس نادرا کا شناختی کارڈ نہیں ہے تو یہ تعداد بلوچستان کی کل آبادی سے بڑھ جاتی ہے۔ اتنی بڑی تعدا د میں پاکستانیوں کو آپ انتخابات میں کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔کیا ان کی ووٹ کے بغیر یہ انتخابات جائز اورقانونی اور درست ہوں گے۔
اس وقت زرِ مبادلہ جس کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چلتاکے حصول کا دوسرا بڑا ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیل شدہ رقوم ہیں۔صرف 2017 میں سمندر پار پاکستانیوں نے سولہ بلین ڈالر سے زائد رقوم پاکستان ارسال کیں۔پہلا ذریعہ برآمدات ہیں۔ اس میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کا کافی کردار ہے کیونکہ دیارِ غیر میں کاروبار کرنے والے پاکستانی پاکستان سے درآمدات کرتے رہتے ہیں۔ کوئی آسٹریلین یا امریکن پاکستان کے آم، بیڈ شیٹ یا تولیے لے جانے سے تو رہا۔یہ پاکستانی تاجروں کا کام ہے۔گویا رقوم کی ترسیل کے ذریعے یا برآمدات کے ذریعے اوورسیز پاکستانی پاکستان میں زرِ مبادلہ لانے کا سب بڑا ذریعہ ہیں۔
سمندر پار پاکستانی، پاکستان میں روزگار کے وسائل، سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان میں فلاحی اداروں کی آمدنی کا بڑا حصہ سمندر پار پاکستانی ہیں۔ان بے شمار اداروں کو بھیجی جانے والی سالانہ رقوم کا حجم بہت بڑا ہے جس کا فائدہ پاکستانی عوام اور حکومت کو ہوتا ہے۔ شوکت خانم اسپتال کو دی جانے والی ڈونیشن کا اسی فیصد باہر سے آتا ہے۔ یہی حال ایدھی ٹرسٹ اور دیگر اداروں کا ہے۔ علاوہ ازیں وطنِ عزیز کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک سے بھیجی گئی عزیز و اقارب کی مدد سے گزارا کر رہا ہے۔ بے شمار غریب، نادار، بیوائیں، یتیم، مساکین اور دوسرے لوگ اس امدادسے مستفید ہو رہے ہیں۔ گویا اوورسیز پاکستانی، پاکستان کی معیشت،اس کی خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔انہی محبِ وطن پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا سازش قرار دیا جا رہا ہے۔
میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اقوامِ عالم سے پاکستان کے روابط کا اہم ذریعہ ہیں۔ ایک تقریب میں آسٹریلیا کے سابق وزیرِ خارجہ فلپ راڈرک نے خود مجھ سے یہ بات کہی ” پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ہمارے لئے سب سے اہم آسٹریلین پاکستانی ہیں۔ ان کے جذبات اور ان کی خدمات کے پیشِ نظر ہم پاکستان سے خوشگوار تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں“ واضح رہے کہ آسٹریلیا میں پاکستانیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی یورپی ممالک اور امریکہ میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے وزیرِ اعظم نے پاکستان کے دشمن کو برطانیہ کا دشمن قرار دیا تھا۔یہ صادق خان کے لندن کا مئیر بننے کے فوراََبعد کی بات ہے۔ اسی طرح ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں ایک پاکستانی ڈاکٹر اور اس کی اہلیہ اس کے ساتھ ہوتی تھیں۔آسٹریلین پاکستانی آسٹریلیا کے حکومتی حلقوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور انہیں پاکستانیوں کو ویزے دینے میں آسانی پیدا کرنے، پاکستان سے تجارتی اور اور دوسرے روابط رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔
آخری بات جو میں عرض کروں گا کہ سمندر پار پاکستانی پڑھے لکھے، باشعور اور محب وطن ہیں۔ وہ دیارِ غیر میں رہ کر بھی پاکستان کا علم بلند کئے رکھتے ہیں۔اس کی ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں۔انہیں کوئی لالچ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے بھی اہل نہیں ہیں۔ ان محبِ وطن پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا سراسر زیادتی ہے۔ اوپر سے اسے سازش قراد دینا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔مولانا نے اپنے ایک جملے سے کروڑوں لوگوں کا دل دکھایا ہے۔ انہیں اپنے الفاظ اور اپنے رویے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اور انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ اتنے اہم طبقے کو انتخابی عمل سے دور نہ رکھا جائے اور انہیں ِ رائے دہی کا جمہوری اور قانونی حق دیا جائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔