مجھے سمیوئل بیکٹ کے ڈرامے ” گوڈوٹ کا انتظار” کا یہ مکالمہ کبھی نہیں بھولتا۔ جس میں انسان کی لاچارگی، فرد کی آہیں اور قبر کے نیچے ایک دوذخ کا وجود ایک ازیت ناک اور لایعنی رموز ہے۔ جو جدید انساں کی زندگی کا سوال بھی ہے۔ یہ مکالمہ ملاخطہ کریں۔
” ایک قبر کی سیر اور ایک مشکل جنم۔ گڑھے میں نیچے، دیر تک، قبر کھودنے والا فورپس پر رکھتا ہے۔ ہمارے پاس بوڑھا ہونے کا وقت ہے۔ ہوا ہماری چیخوں سے بھری ہوئی ہے۔”
گذشتہ دنوں میرا ایک ہفتہ بیکٹ کے ملک آئر لینڈ میں گزرا ۔ وہاں میں نے وہ مقامات ، کیفے، کتب خانے اور ٹرنیٹی کالج بھی گیا جہاں بیکٹ کی زندگی کا بڑا حصہ گذرتا تھا اور ان ادبی نقادوں اور محقیقین سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے بیکٹ کے فکریات اور ڈ راموں کی ماہیت پر کام کیا اوران اہل فکر سے بہت سی نایاب اور معلومات کا انکشاف ہوا۔اور بیکٹ کی کئی نئی فنکارانہ اور فلسفیانہ جہتیں دریافت ہوئی۔ میں ٹرنیٹی یونیورسٹی بھی گیا جہاں سے بیکٹ فارغ التحصیل ہیں۔ وہاں ہر بیکٹ پر لوگ تحقیق کررہے ہیں۔ اور بیکٹ پر شعبہ ادبیات میں خصوصی مطالعے اور تحقیقات ہورہی ہیں۔ اس دورے میں ” آئرش مہاجریں کے عجائب خانے میں بھی گیا جہاں بہت ہی اچھا بڑا نایاب مواد اور تصاویر دیکھنے کو ملی ۔ میں جس ہوٹل میں ٹھرا ہوا اس کے جن قدم کے فاصلے پر ندی کے اوپر” شمالی ڈاک بی” پر کچھ دن قبل سیموئل بیکٹ نام کا ایک خوبصورت پل بنایا گیا ہے ۔ جس پر موسیقی کے آلے ” آرپ ” کو بھی بنایا گیا ہے۔ یہ موسیقی کا آلہ بیکٹ کو بہت پسند تھا۔ { تصاویر ملا خطہ کریں } ۔
سیموئل بارکلے بیکٹ (13 اپریل 1906 – 22 دسمبر 1989) ایک آئرش ڈرامہ نگار، ناول نگار اور شاعر تھے۔
بیکٹ کا کام سخت، بنیادی طور پر کم سے کم، اور انسانی فطرت اور انسانی حالت کے بارے میں گہری مایوسی کا حامل ہے، حالانکہ مایوسی کو مزاح کے ایک عظیم اور اکثر چنچل احساس سے کم کیا جاتا ہے۔ اس کا بعد کا کام اس کے تھیمزیا موضوع کو تیزی سے خفیہ اور کشیدہ انداز میں دریافت کرتا ہے۔ انہیں 1969 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا اور 1984 میں” آسدانہ کے ساؤ” انھیں منتخب کیا گیا۔
بیکٹ خاندان (اصل میں بیکیٹ) ہیوگینٹ اسٹاک کے رہنے والے تھے اور 1685 میں نانٹیس کے حکم کی منسوخی کے بعد فرانس سے آئرلینڈ چلا گیا تھا۔ بیکٹ خاندان آئرلینڈ کے چرچ کے رکن تھے۔ خاندانی گھر، فاکسروک کے مضافاتی ڈبلن میں کولڈریناگ، ایک بڑا گھر اور باغ تھا جو ٹینس کورٹ کے ساتھ مکمل تھا اور اسے بیکٹ کے والد ولیم نے 1903 میں بنایا تھا۔ گھر اور باغ، آس پاس کے دیہی علاقوں کے ساتھ جہاں وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ پیدل جاتے تھے، قریبی لیپرڈسٹاؤن ریسکورس، فاکسروک ریلوے اسٹیشن اور لائن کے سٹی ٹرمینس پر واقع ہارکورٹ اسٹریٹ اسٹیشن یہ سب بعد میں ان کے نثر اور ڈراموں میں نمایاں ہونے کے لیے تھے۔
پانچ سال کی عمر میں، بیکٹ نے ایک مقامی کنڈرگارٹن میں تعلیم حاصل کی جہاں اس نے پہلے موسیقی سیکھنا شروع کی اور پھر ہارکورٹ اسٹریٹ کے قریب شہر کے مرکز میں واقع ارلس فورڈ ہاؤس اسکول میں چلا گیا۔ 1919 میں، بیکٹ انیسکلن، کاؤنٹی فرماناگ (آسکر وائلڈ کا پرانا اسکول) میں پورٹورا رائل اسکول گیا۔ ایک قدرتی ایتھلیٹ، اس نے بائیں ہاتھ کے بلے باز اور بائیں ہاتھ کے درمیانے تیز گیند باز کے طور پر کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں، اس نے ڈبلن یونیورسٹی کے لیے کھیلنا تھا اور نارتھمپٹن شائر کے خلاف دو فرسٹ کلاس کھیل کھیلے۔ نتیجے کے طور پر، وہ واحد نوبل انعام یافتہ بن گئے جنہوں نے وزڈن، کرکٹ بائبل میں داخلہ لیا۔
*** بیکٹ کی ابتدائی تحریریں ***
انھوں نے 1923 سے 1927 تک ٹرنیٹی کالج، ڈبلن میں فرانسیسی، اطالوی اور انگریزی، ایکول کی تعلیم حاصل کی، بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے فوراً بعد ” ڈنگلیش” لیکچرار بن گئے۔ ۔ وہاں رہتے ہوئےبیکٹ کا تعارف جیمز جوائس سے تھامس میک گریوی نے کرایا۔ اس ملاقات کا نوجوان پر گہرا اثر ہونا تھا۔ بیکٹ نے مختلف طریقوں سے جوائس کی مدد کرتے ہوئے اپنا تحریری کیریئر جاری رکھا۔ 1929 میں اس نے اپنی پہلی تصنیف “Whoroscope” شائع کی، جو Rene Descartes کی سوانح عمری سے اخذ کی گئی تھی۔ جسے بیکٹ اس وقت پڑھ رہے تھے جب اسے جمع کرانے کی ترغیب دی گئی۔ جوائس خاندان کے ساتھ بیکٹ کے تعلقات اس وقت ٹھنڈے پڑ گئے جب اس نے جوائس کی بیٹی لوسیا کی پیش قدمی کو مسترد کر دیا۔
وہ 1930 میں ٹرینیٹی کالج میں بطور لیکچرر واپس آئے، لیکن دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد وہاں سے چلے گئے اور یورپ کا سفر کرنے لگے۔ اس نے لندن میں بھی وقت گزارا، وہاں 1931 میں پراسٹ کا اپنا تنقیدی مطالعہ شائع کیا۔ دو سال بعد، اپنے والد کی موت کے بعد، اس نے ڈاکٹر ولفرڈ بیون کے ساتھ دو سال کی جنگی سائیکو تھراپی شروع کی، جو اسے جنگ کا تیسرا ٹیوسٹاک سننے لے گئے۔ لیکچرار شپ کے دوران ایک ایسا واقعہ جسے وہ کئی سال بعد بھی یاد رہا۔ 1932 میں انھوں نے اپنا پہلی ۔ مختصر کہانیوں ” ویگینٹ” کا مجموعہ شائع کیا تھا اور پھر ایک ناول بھی لکھی۔
بیکٹ نے 1934 میں نظموں کی ایک کتاب شائع کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ انھون نے اس وقت کےاپنے بکھرے ہوئے بہت سے مضامین اور جائزوں کو جمع کرکے بھی شائع کیا، جن میں ہیومنسٹک کوئٹزم (دی ڈبلن میگزین میں میک گریوی کی نظموں کا ایک جائزہ، 1934 بھی شائع ہوئے۔ ۔ ان دو جائزوں میں میک گریوی، برائن کوفی، ڈینس ڈیولن اور بلانائیڈ سالکلڈ کے کام پر توجہ مرکوز کی گئی، انھوں نے امریک شاعر ایزرا پاونڈ کا موازنہ ان کے سیلٹک ٹوائی لائٹ ہم عصروں کے ساتھ کیا گیا ۔ فرانسیسی علامت نگار پیش رو کے طور ٹی ایس ایلٹ اور ایزرا پاونڈ کے ساتھ کیا۔ پر۔ ان شاعروں کو ‘آئرلینڈ میں ایک زندہ شاعری کا مرکز’ بنانے کے طور پر بیان کرتے ہوئے، بیکٹ نے ایک آئرش شاعرانہ جدیدیت سے متاثر ہوکر کی ننیا جدیدیت کی توپ کا خاکہ تلاش کیا۔ حیرت کی بات نہیں، یہ جائزے 1970 کی دہائی کے اوائل میں The Lace Curtain میں اس متبادل روایت کو بحال کرنے کے لیے اس جریدے کے مدیران کی شعوری کوشش کے حصے کے طور پر دوبارہ شائع کیے گئے تھے۔
نے 1938 میں ان کی ناول “مرفی” شائع ہوا اور اگلے سال یعنی 1935 میں مصنف فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔ اپنی ماں کے ساتھ جھگڑے کے بعد انھون نے پیرس میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 1939 میں جنگ شروع ہونے کے بعد اس شہر میں واپس آئے۔ بیکٹ کے الفاظ میں میں ‘فرانس ایٹ وار ٹو آئرلینڈ غیر جانبدار’ کو ترجیح دی۔ دسمبر 1937 کے آس پاس، اس کا پیگی گوگن ہائیم کے ساتھ ایک مختصر عرصے کا تعلق رہا۔
جنوری 1938 میں، جب پیرس کے ایک بدنام زمانہ دلال (جو ستم ظریفی سے پروڈنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا) کی درخواستوں سے انکار کرتے ہوئے، بیکٹ کو سینے میں چھرا گھونپ دیا گیا اور تقریباً ہلاک کر دیا گیا۔ جوائس نے ہسپتال میں ایک پرائیویٹ کمرے کا انتظام کیا جس میں اسے لے جایا گیا تھا۔ اس تشہیر نے سوزان ڈیشیوکس-ڈومسنیل کی توجہ مبذول کرائی، جو بیکٹ کو پیرس میں اپنے پہلے قیام سے جانتی تھی، لیکن اس بار، دونوں زندگی بھر کے ساتھی بن جائیں گے۔
ابتدائی سماعت میں جب بیکٹ سے چھرا گھونپنے کے مقصد کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے حملہ آور نے اتفاق سے جواب دیا “جی نی سائس پاس، مونسیئر”: “مجھے نہیں معلوم، جناب” اور حملہ آور کا یہ بیان ایک مکالمہ بن گیا، اگر موضوعی نہیں تھا۔ ان کے کئی ڈراموں میں یہ سطر بھی قابل غور ہے یہ سطر بیکٹ اکثر دوھرایا کرتے تھے۔
*** بیکٹ کا ادب یاسلوب اور موضوعات ***
بیکٹ نے دعویٰ کیا کہ اس کے سب سے زیادہ اثرات تخلیقی ادبی اثرات جوائس اور ڈینٹ کے تھے، اور وہ خود کو پین یورپی ادبی روایت کا حصہ سمجھتے تھے۔ وہ آئرش مصنفین کے ساتھ گہرے دوست تھے جن میں جوائس اور یٹس بھی شامل تھے، جس نے ان کے انداز کو متاثر کیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے تنقیدی پیداوار کے بجائے فنکارانہ سے اس کی وابستگی کو تقویت دی۔ اس کی دوستی بھی تھی اور وہ بصری فنکاروں سے متاثر ہوا تھا جن میں مشیل ڈوچیمپ اور البرٹو جیاکومٹی شامل تھے۔ جب کہ نقاد اکثر بیکٹ کے ڈرامائی کاموں کو 20ویں صدی کی تحریک، تھیٹر آف دی ایبسرڈ میں مرکزی شراکت کے طور پر دیکھتے ہیں، بیکٹ نے خود اپنے کام پر تمام لیبلز اور عنوانات کو مسترد کر دیا۔
بیکٹ کے لیے، زبان ان خیالات کا ایک مجسمہ ہے جس کی یہ نمائندگی کرتی ہے، اور آواز کی پیداوار، سمعی تفہیم، اور اعصابی فہم کا جسمانی میٹھا تجربہ۔ اس کا تبادلہ کرنے والے فریقین کے ذریعہ اسے جامد یا مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس کی کم سے کم مضحکہ خیزی یا لایعنی ادبی فنون کے رسمی خدشات – لسانی اور بیانیہ کی غلطیوں – اور ان تضادات کے مقابلہ میں معنی سازی کے انسانی خدشات دونوں کو تلاش کرتی ہے۔ بیکٹ آئر لینڈ میں تحریر کی سخت پابندیوں اور مذہبی حکومت سے پریشان ہوکر وہاں سے پیرس چلے گئے۔ کیونکی وہ نفی دانش اور بنجر پن کے داعی ہیں۔ جب انھون نے محسوس کیا کی گذشتہ دو سال سے ان کا معاشرہ بیمار ہے ۔ وہ انسانیت سےکسی قسم کی امید نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ بقول ان کے ان کا ماحول ایک لمبی تاریخی میں ڈوبا ہوا ہے۔ معاشرتی کرب کا حل بیکٹ کے انسان کے پاس نہیں ہے۔ فطرت نے انسان سے اس کی سچائی چھین کر اس کے ہاتھوں میں قنوطیّت کا تاج دے دیا ہے۔ لہذا وہ اس بات کو سچ کرتے ہیں کی انسان کو تنہا چھوڈ دینا چاہیے۔ تمام فلسفیانہ موشگافیاں انسان کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ یوں انسان کے پاس جو تھوڑی بہت صداقتیں رہ گئی ہیں وہ ان کو چھوت سمجھتا ہے۔ مگر بیکٹ یہ بھول جاتے ہیں کی وہ جس دنیا میں سانسین لے رہے ہیں کہ یہی دنیا ہے اس سے باہر کوئی دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مگر وہ اپنے اردگرد دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کا نظارہ کرہے ہیں۔جو ” لایعنی” نہیں بلکہ ” بامعنی” ہے۔ جس میں بے رحم خدا نہیں اور اس میں انسان کے تمام افعل بانعنی اور سچے ہیں۔ معاشرے کو اس کی حدود سے باہر رہ کر دیکھنا ایک مابعد الطبیاتی طرز عمل ہے جو انحراف تو ہو سکتا ہے مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ لا حاصل میں حاصل تلاش کرنا ایک التباس ہے ایک دھوکہ ہے۔ جو بیکٹ کے یہاں نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ پولینڈ کے ایک نقار کان کاٹ شیکسپیر کے ڈرامے کنگ لیئر کا مطالعہ اورتجزیہ بیکٹ کے ڈرامے ” دی اینڈ گیم ” کے ساتح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بیکٹ نے بہت سے خیالات ” کنگ لیئر” سے لیے ہیں۔ بیکٹ کے لایعنی ڈرامے ایک نجی فلسفیانہ نظام پر قائم ہیں۔
۔*۔*۔*۔*۔
بیکٹ نرسنگ ہوم میں میں داخل ہوئے۔ جہاں ان کا اگست، 1989 میں انتقال ہو گیا۔ بیکٹ کی صحت اس وقت تک اچھی رہی جب تک کہ اسے سانس لینے میں دشواری نہ ہوئی اور 22 دسمبر 1989 کو اپنی موت سے کچھ دیر پہلے ایک ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
۔*۔*۔*۔*۔*
*** پس نوشت***
اس خاکسار کی کتاب “جدید تھیٹر” { ادارہ ثقافت پاکستاں اسلام آباد، پاکستان فروری 1985} میں ‘ لایعنی تھٹر’ کے عنوان کے تحت سیموئیل بیکٹ کے ڈرامائی اور فکری مزاج اور فکریاتی رسائی پر تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میں میرا بیکٹ پرایک مضمون اردو کے موقر ادبی جریدے ” ادب لطیف ” لاہور ، مارچ 1990 کی اشاعت میں بعنوان ” لوگ لاعلم بندر ہیں” شامل ہے۔
*۔*۔*۔ {احمد سہیل} *۔*۔*
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...