::: " سامراج سے نوآبادیاتی نظریاتی ، فکری اور ادبی تنقید کا سفر: کچھ باتیں" :::
۱۹۹۹ میں خاکسار کی کتاب " ساختیات { تاریخ، نظریہ اور تنقید} شائع ہوئی۔ اس کتاب میں " نوآبادیات" اور خاص طور پر میں نے اپنا ایک نیا نظریہ اور فکریہ بعنوان ۔۔" سابقہ نو آبادیاتی نیوکلیائی مخاطبہ" ۔۔۔ سامنے رکھا۔ اس پر دوستوں اور اپنے اہل علم دوستوں سے خاصا بحث ومباحثہ بھی رہا۔ مگر اس موضوع پر شدت اس وقت سامنے آئی۔ جب "رد ںو آبادیاتی" حوالے سے میرے کئی مضامین جرائد میں شائع ہوئے۔ خاص طور پر لاہور کے ادبی جریدے " ادب لطیف" کے خاص نمبر۔۲ {۲۰۱۲} کے صفحہ ۱۱پر میرا ایک مضمون۔۔" نو آبادیات، بئی نوآبادیات اور ردّ نو آبادیات" ۔۔۔ شائع ہوا۔ جس میں ہلکے انداز اور سلیس زبان میں مختصرا اردو ادب کے حوالے سے نو آبادیت پر بات کی گئی تھی ۔
پہلے ایک بات سمجھ لی جائے کہ "سامراج" ۔۔ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد " نو آبادیات" کے نام سے جانی گئی۔ نوآبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور ان کا سیاسی، معاشرتی، ثقافتی استحصال کیا جاتا ہے۔ اور فوجی قوت اور سازشوں سے مقامی اداروں اور ثقافت کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ یہ مقامی زیر تسلط خطے کو " سونے کی چڑیا" تصور کرتے ہیں۔
جدید نو آبادیاتی تنقید اور فکر میں مورخین کا ایک بڑا اھم کردار ادا کیا۔ جنھوں نے نو آبادیات کے معروضی حقائق اور حرکیات کو واضح کیا۔ اور ادبی تنقید کی بساط ہر نوآبادیاتی متن کو نئے فریم ورک، اس کی درجہ بندی کو نئے فکری مطالبات کے ساتھ مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ اور نو آبادیاتی نظریات کی اور اس کی باقیات کی ثقافتی یلغار اور فاسد اور سازشی آگاہیوں سے قاری کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان نو آبادیاتی تحریروں میں اختلاف اور نا اتفاقی بھی پائی جاتی ہے۔ جس طرح برصغیر کی تاریخ کو مقامی ہندوستانی تاریخ کو فرنگی نو آبادت کے اشارروں پر لکھی جس میں منجمدار، بادل سرکار اور جادو ناتھ پیش پیش تھے۔
نو آبادیات شکن نظریات اور پس نوآبادیاتی نظریات پر دوستون سے اکثر نرم و گرم مباحث ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں میرا جواب ہمیشہ نظریاتی، تاریخی اور ثقافتی حوالے سے ہوا کرتا تھا۔ جو جغرافیائی سیاق میں پروان چڑتی ہے، نوآبادیات کو مزاج مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ مگر جعرافیائی تناظر میں اس کی نوعیت ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی نوآبادیاتی صورتحال سے مختلف ہوتی ہے۔ ہندوستاں مِیں " لا نو آبادیت" یا نو آبادیات شکنی کا مطالعاتی میدان ہندوستان کوھی تصور کیا جاتا ہے۔ مگر لاطینی امریکہ کی رد نو آبادیاتی حرکیات اور سکونیات کا مطالعہ بھی ایک علم و دانش کے لیے دلچسپ اور فکر انگیز رہا۔ جس میں ایک گروپ پیش پیش تھا اس کا نام {MODERNIDAD/ DECONIALIDAD} تھا۔ اس حوالے سے ۔۔" کوجانو' ۔۔ اور میگنو" ۔۔ کے نام سے جا نے جاتے ہیں۔
ادب میں سامراجی قوتوں جیسے برطانیہ، فرانس، پرتگال، اسپین اور ولندیز کے مرتب کردہ ادبی متنوں کو عصری سیاق اور تناظر میں اس کی نئی اور انحرافی فکری تشکیل ہوئی۔ جس میں صدیوں بعد کئی سامراجی ادبا اور فلسفیوں کو بے نقاب بھی کیا گیا۔ خاص طور پر ہندوستان افریقہ کے علاوہ جزائر غرب الہند اور انڈونیشاہ کی ولندیزی کالونیوں پر ۱۹۵۰ کے بعد بہت ہی عمدہ ادبی متنوں اور نئی تعبیرات کے ساتھ نو آبادیات کے تازہ کار رویّے شامل ہوئے۔
نو ابادیات اور ثقافتی تسلط کو سیاسی حوالے سے تخلیق، ضبط، اختیار اور تقسیم کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے ۔ جو بشریاتی نقطہ نظر سے اصل میں نو آبادیاتی غیرملکی قوتوں او مقامی لوگوں کا تصادم ہوتا ہے۔ اس تنقیدی نظرئے کو "آئیڈیالوجی" سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔ جس میں تاریخ ، سیاسیات، فلسفہ، عمرانیات، بشریات، انسانی جغرافیہ، اور ثقافت کو موضوعات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ثقافتی سطح پر خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم سے لے کر ادب اور لسان کو ئئے رجحانات اور نئی فکریات سے روشناس کروایا۔ جو اصلی میں ثنوئی قوتوں کے انسکالات کے عنوانات کو توسیع دیتے ہیں اور اس میں توازن بھی پیدا کرتے ہیں لیکن اصل میں یہ نو ابادیاتی حاکموں اور مقامی باشندون کا مقامی تصادم اور ٹکراو ہوتا ہے۔
اس تصادم نے پچاس/ ۵۰۰ کی دہائی میں دنیا کو ۔۔" تیسری دنیا" ۔۔۔ کی اصطلاح سے متعارف کروایا۔ جو خود شناسی کا بیانیہ تھا۔ اس پر " سیاسی شناخت" کا نظریہ حاوی تھا۔ جس سے مقامی طور پر نئے ثقافتی موضوعات نے جنم لیا۔ جس سے "مخلوط النسئل " {HYBRIDITY} کی تحدیدات کے مسائل پیدا ہوئے.
سامراجی اور نو آبادیاتی مطالعوں اور مخاطبے میں فرنٹاس فینٹن،، مائیکل فوکو، ایڈ ورڈ سعید، گاتری اسپوک، ہومی کے، بھابھا، آ رشیوکمار، ڈپش چکرورتی، ڈیرک جارجی، امر ارچریو، ، ہیلن گلبرٹ، جوہانہ ٹامپکن اور جوزف ارنسٹ دیاناں کے نام نمایاں ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔