ندو میاں کا اصلی نام تو نوید تھا مگر ان کے گھر کے لوگ انھیں پیار سے نوید کہتے تھے۔
ندو میاں گہری نیند سوے ہوے تھے، اچانک انھیں اپنے تلوے پر گدگدی محسوس ہوئی۔ ہڑبڑا کر اٹھے تو دیکھا گھر کا پالتو گدھا ان کے پاوں کے تلوے چاٹ رہاہے۔ ندو میاں کی نیند اچٹ گئی تھی، انھوں نے کمرے میں رکھا موٹا سا بید اٹھایا اور تین چار بید گدھے کی پیٹھ پر لگا دیا۔ وہ مارتے جاتے اور چلاتے جارہے تھے۔
“گدھا تو گدھا ہی رہے گا، تو گدھا، تیرا باپ گدھا، تیرا دادا پردادا گدھا، تم گدھوں کو کبھی عقل نہ آے گی۔ حالانکہ تیری عقل بڑھانے کے میں تجھے روزآنہ دو مہینے سے پاو کیلو چنا اور دس عدد بادام بھی کھلا رہا ہوں۔،،
سٹا سٹ بید کی بارش شروع ہوئی تو گدہا ہرن کی طرح چوکڑی مارتے ہوے بھاگا اور گھر کے دروازے پر جا کر کھڑا ہوگیا۔
گدھا بھاگا تو ندو میاں نے پھر چادر اوڑھی، انھیں بہت غصہ آرہا تھا، وہ بہت اچھا خواب دیکھ رہے تھے اس گدھے نے خواب کا مزہ بھی کر کرا کر دیا تھا۔
ابھی وہ پوری طرح سوے بھی نہ تھے کہ انھیں لگا کوئی ان کی پیشانی پر تیل رکھ کر مالش کر رہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے انھوں نے سوچا شائد گدھے کے بعد اب اماں حضور انھیں جگانے کی کوئی تدبیر کر رہی ہیں مگر اگلے ہی لمحے انھیں احساس ہوگیا کہ یہ حرکت بھی احمق گدھے کی ہے۔ انھیں غصہ آیا، سوچا کہ اٹھیں اور گدھے کی اچھی خبر لیں مگر کچھ سوچ کر رہ گئے۔ انھوں نے سوچا رات میں ہی امی نے سمجھایا تھا کہ معاملات بات چیت اور سمجھنے سمجھانے سے حل کرلینا چاہیے۔ لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں ہے۔ کیوں نہ گدھے سے بات چیت کی۔ ویسے بھی یہ گدھا آے دن ایسی ہی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔
بدھو میاں اٹھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر سوچتے رہے کہ کیسے بات شروع کریں، نہ جانے گدھا میری بات سمجھے گا بھی یا نہیں، ہو سکتا ہے سمجھ جاے، ابا تو آے دن کہتے رہتے ہیں کہ تم سے سمجھدار تو یہ گدھا ہے۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
میں انسان اشرف المخلوق اور یہ گدھا۔ ہم دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ اور پھر یہ گدھا کیسے مجھ سے سمجھدار ہو سکتا ہے۔ وہ چپ چاپ بیٹھے یہی سب سوچتے رہے۔ سر کھجاتے رہے، جمائی لیتے رہے۔ وہ سوچ رہے تھے کیا گدھے سے بات کرنا مناسب ہے۔؟
گدھا تھوڑی بہت بات تو سمجھتا ہے، اب یہی دیکھو وہ مجھے جگانے کے لیے میرے تلوے اور پیشانی کو چاٹ رہا تھا، ضرور اسے ابا نے گھاٹ سے کپڑے کا گٹھر لاد کر گھر بھیجا ہوگا ورنہ صبح اندھیرے میں ہی ابو کپڑے لاد کر دھونے کے لیے لے گئے تھے۔ مجھے بھی انھوں نے جگانے کی کوشش کی مگر میں کروٹ بدل کر سو گیا تھا۔
اب اسے گدھے کی سمجھداری نہ کہا جاے تو کیا کہا جاے کہ وہ کپڑے کا گٹھر لے کر آیا تو مجھے بھی جگانے کی کوشش کرنے لگا۔ کپڑے کا گٹھر تو امی نے اس کی پیٹھ سے اتار لیا تھا مگر اس نے شائد مجھے یہ سوچ کر جگانے کی کوشش کی ہوگی کہ ابا تنہا کام کر رہے ہیں، تم اکیلے کیوں سوے ہو؟
ابھی بدھو گدھے سے بات کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ امی آگئیں اور لگیں بے نقط سنانے:
“ندو تجھے شرم نہیں آتی، دن کے دس بجے رہے ہیں اور تیری آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔ تیرا باپ بھوکا پیاسا گھاٹ پر کپڑے دھو رہا ہے اور تو پڑا سو رہا ہے۔ کم سے کم اپنے باپ کو ناشتہ ہی دے آیا ہوتا، ابھی سو کر اٹھے گا پیٹ بھر کھاے گا، موبائل لے کرنکل جاے گا، تیرے آوارہ دوست آوارہ گردی کے لیے تیرے منتظر ہوں گے۔ تیری وجہ سے تو میرے گھر کی برکت بھی ختم ہوگئی ہے، بھلا بتا تو دن چڑھے سوے گا تو برکت کہاں سے آے گی۔ تجھ کو تو پڑھانا لکھانا بھی بیکار ہوا۔ تجھ سے سمجھدار تو گدھا ہے جو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، اب دیکھ کپڑے کا گٹھر اتروا کر خود ہی واپس گھاٹ چلا گیا۔،،
امی تو نہ جانے کیا بڑ بڑاتی رہیں، ندو میاں نے گردن موڑ کر دیکھا کہ گدھا دروازے پر کھڑا ہے یا نہیں؟
مگر دروازے پر گدھا موجود نہ تھا وہ گھاٹ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ ندو میاں سوچنے لگے واقعتا گدھا مجھ سے زیادہ سمجھدار ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...