نوٹ: ہمارے ہاں عام طور پر علمی اختلاف رائے کو بھی’’ توہین‘‘ اور’’ ناموس‘‘ کے زمرے میں شمار کر لیا جاتاہے اور پھر مخالفین کو کوئی علمی جواب دینے کی بجائے ماردھاڑ اور توڑپھوڑ کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے جو قتل و غارت کی حد تک بھی چلا جاتا ہے۔میں نے اس مضمون کے ذریعے کسی اشتعال انگیزی کی بجائے علمی سطح پر رہ کر مخالفین کے اعتراضات کے جواب دئیے ہیں۔میرے نزدیک یہ طریق بہتر ہے کہ ایسے حساس موضوعات پر علمی زبان میں مدلل جواب دئیے جائیں۔یہی میں نے کیا ہے۔بلکہ اس مضمون اور اس میں مذکور مکالمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ توہین اور ناموس کے مسئلہ پر لکھنے والے بیشتر معترضین دانستہ طور پر اشتعال پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے عوام عام طور پراس کے نتیجہ میں عموماََ بھڑک اٹھتے ہیں۔بہر حال یہ ایک علمی کاوش ہے ۔اس میں علمی طور پر مزید مکالمہ کی راہ نکلی تو حسبِ توفیق مزید بھی کچھ لکھوں گا۔وما توفیقی الا باللہ۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر میں مقیم ترکی نژاداسماعیل احمد ادہم ۱۹۱۱ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۴۰ء میں وفات پا گئے۔ان کے اردو ترجمہ نگارعمر فاروق ہیں۔آپ چودہ سال تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادمیں عربی پڑھاتے رہے ہیں۔آج کل کینیڈاکے شہر ٹورانٹوکے قریب مقیم ہیں۔ان کے مطابق اسماعیل احمد ادہم نے اپنی۲۹ سال کی کُل عمر میں ریاضی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کر لی تھی۔ عربی، ترکی، فارسی، جرمن ، روسی ،اطالوی،انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ کتاب’’سامی عربی تاریخ سے چند حقائق‘‘ کے چوتھے مضمون ’’محمد حسین ہیکل کی کتاب حیاتِ محمدؐ پر نقد و تعلیق‘‘سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل احمد ادہم نے اُس زمانے کے سوویت یونین کی روسی سائنس اکیڈمی سے پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام کیا تھا۔ کم عمری میں وفات پا گئے اور ان کی وفات کے بعد ان کے کام اور نام کو بھلا دیا گیا۔تاہم لگ بھگ تیس سال کے بعدایک دوست کی توجہ سے ان کے مضامین کے مجموعے شائع کیے جانے لگے۔اسماعیل احمد ادہم کے اردو ترجمہ نگار نے ان کی کتاب قضایا ومناقشات میںسے چار مضامین منتخب کیے اور انہیں اردو میں ترجمہ کرکے عنوان بالا کے تحت شائع کیا۔مجھے ان کی طرف سے اس کتاب کی ان پیج فائل اور پی ڈی ایف فائل ملی ہیں اور انہیں کی بنیاد پر میں اس کے مضامین کا جائزہ لے رہا ہوں۔کتاب میں شامل چار مضامین کے عنوان یہ ہیں۔
۱۔عربوں کا علم الانساب: ایک تجزیاتی مطالعہ
۲۔واقعۂ عام الفیل اور رسولِ اسلامؐ کی ولادت
۳۔قدیم دور میں اسرائیلیوں اور عربوں کے تعلقات
۴۔محمد حسین ہیکل کی کتاب حیاتِ محمدؐ پر نقد و تبصرہ
کتاب کے شروع میں ہی مصنف کی جانب سے اپنے قارئین سے یہ تقاضا کیا گیا ہے۔
’’تاریخِ عروبہ و اسلام کے بارے میں سنجیدہ علمی تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت حتی الامکان اپنے اپنے روایتی نظریات اور موروثی تعصبات سے الگ ہو کر، ان افکار میں مقید ہوئے بغیر اس کا مطالعہ کریں جو کچھ اوپر ہزار سال سے مشرق کی رگوں میں پیوست ہیں، اور اسے تہذیبِ انسانی کا ساتھ دینے سے روکے ہوئے ہیں‘‘۔
(اسماعیل احمد ادہم)
سنجیدہ علمی تحقیق کا مطالعہ کرتے وقت اور سنجیدہ علمی تحقیق کرتے وقت ہر طرح کے نظریات و تعصبات سے بالا رہناچاہئے۔لیکن اپنے مضامین میں اسماعیل احمدادہم خود سنجیدہ تحقیق کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھ سکے .ان کے کام کی نوعیت سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ منظم طور پر اسلام کے خلاف ایسا کنفیوژن پھیلاناچاہ رہے ہیں جس کا مقصد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے کی بجائے قارئین کو بھول بھلیاں میں لا کر چھوڑ دیناہے۔اس کتاب کے ترجمہ نگار عمر فاروق بھی اپنی کسی ’’روحانی‘‘نسبت کے باعث نہ صرف اسی مزاج کے حامل ہیں بلکہ اتنے سنجیدہ اور حسّاس موضوعات پر مکالمہ کرتے ہوئے نہ صرف سنجیدہ غوروفکر کی طرف یکسر توجہ نہیں کرتے بلکہ اپنے دہریانہ افکارکو زبردستی منوانے کے لیے طنزیہ و استہزائیہ انداز اختیار کرتے ہیں ۔اگر انہیں ان کے منفی رویے کی طرف توجہ دلائی جائے توکسی ایک آدھ جگہ دوسرے موقف کا اعتراف توکر لیتے ہیں لیکن اسی لمحہ میں غیر مہذب اور ایک رنگ میں دھمکی آمیز روش اختیار کر لیتے ہیں۔ترجمہ نگارعمر فاروق کا یہ سارا طرزِ عمل ہمارے مکالمہ’’ادب،تاریخ ،جدیدعلوم اور الہٰیات کے تناظرمیں،۲مارچ ۲۰۱۶ء سے ۱۴مارچ ۲۰۱۶ء تک ہونے والامکالمہ‘‘میں محفوظ ہے۔بہر حال میں اپنے اس مضمون میںاسماعیل احمد ادہم کے مذکورہ چاروں مضامین کا مختصراََ جائزہ لوں گا اوراس جائزہ میںآگے چل کر ظاہر ہوگا کہ تاریخ اور تحقیق کے نام پر مصنف اور ترجمہ نگار دونوں عربوں،مسلمانوں اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف خود اپنے ’’عقائد‘‘کو مسلط کرنے کے لیے اپنے نظریات اور تعصبات کے بُری طرح اسیر ہیں۔
’’عربوں کا علم الانساب: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘مضمون کا لُبّ لباب یہ ہے کہ عرب خانہ بدوش قبائل میں خانہ بدوشی کے باعث مادری نظام رائج تھا۔اس کے تحت عورت کے ایک سے زائد خاوند ہوا کرتے تھے۔اس لیے بچوں کا نام باپ کی نسبت سے نہیں بلکہ ماں کی نسبت سے جانا جاتا تھا۔سو عربوں میں نسب نامہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اس کی بنیاد پڑی اور پھر بتدریج نسب نامہ کی روایت مستحکم ہوتی گئی۔مصنف کے اپنے الفاظ میں:
’’ یوں اولاد کو بجائے باپ کے عام طور پر قبیلے، اور کبھی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ انساب کے وہ سلسلے جنھیں قدیم عربوں سے متعلق سمجھا جاتا ہے، زمانۂ ماقبلِ اسلام کے عرب ان سے واقف نہیں تھے۔ انساب کے یہ سلاسل (یعنی شجرہ ہائے نسب/ Genealogical Lines) دوسری صدی ہجری میں راویوں اور نسب بیان کرنے والوں (نسَّابین) کی اختراع ہیں۔
انساب کا یہ تصور اس وقت سامنے آیا جب عمر بن خطَّاب نے اپنے زمانۂ خلافت میں محکمہ محصولات (دیوان الخراج) کا آغاز کیا، اور ناموں کے اندراج میں لوگوں کی دینی اور نسبی حیثیتوں کو پیشِ نظر رکھا۔ یہ بات کوئی ایک صدی بعد شجرہ ہائے نسب وضع کرنے کی تمہید بنی۔‘‘۱؎
’’ زمانۂ ماقبلِ اسلام کے عرب مادری نظام (Matriarchy) کے قائل تھے، اور بچوں کی نسبت ماں یا قبیلے کی طرف کی جاتی تھی۔‘‘ ۲؎
اس بارہ میں جب ترجمہ نگار نے میرے ایک خط پر اعتراض کیا تو میں نے اپنی وضاحت پیش کرنے کے ساتھ انہیں یہ بھی لکھا:
’’میرا خیال ہے کہ ذات پات کے حوالے سے ہم ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔لیکن ہماراسوچنے کا انداز قدرے مختلف ضرورہے۔اسماعیل صاحب نے جو کچھ عربوں کے نسب کے حوالے سے لکھا ہے وہ سارا کچھ دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے اور کسی بھی قوم پر اس سے کہیں زیادہ منطبق کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس حوالے سے میں اپنے تبصرے میں کچھ عرض کر سکوں گا۔‘‘ ۳؎
اس کے جواب میں ترجمہ نگار نے لکھا:
’’نسب انساب کی حقیقت یقینا سب کے ہاں تقریبا ایک سی ہے۔ بس اپنی حقیقت چھوڑ کر عام روش یہی ہے کہ دوسرے کی حقیقت بتائی جائے اور اپنے لیے تسکین دل کا سامان بہم پہنچایا جائے۔‘‘ ۴؎
ایک علمی حقیقت کا اعتراف و اقرارکرلینے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ ترجمہ نگارمزید سنجیدگی اختیار کرتے لیکن اس کے برعکس وہ اسی مکتوب میں ہی جھلاہٹ کا شکار ہو کر’’توتڑاک‘‘ پر اُتر آئے۔میں نے انہیں اس غیر علمی اور غیر مہذب رویے کی طرف توجہ دلائی تو اسے گدگدی قراردینے لگے۔اس ساری تفصیل کو جاننے کے لیے ہماری مراسلت ’’ادب،تاریخ ،جدیدعلوم اور الہٰیات کے تناظرمیں،۲مارچ ۲۰۱۶ء سے ۱۴مارچ ۲۰۱۶ء تک ہونے والامکالمہ‘‘کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
اب میںزیرگفتگو مضمون کے بارے میں اپنا موقف بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ انسان کی ابتدا اور انجام کی بابت ایک موقف مذہبی کتب کا ہے۔جن کے مطابق خدا نے آدم کو تخلیق کیا،پھر ان کا جوڑا بنایا اور نسلِ انسانی کی ابتدا ہوئی۔دنیا میں اچھے اور برے اعمال کی بنیاد پر آخرت میں جزاسزاکے عمل سے گزرنا ہوگا۔
مذہبی روایات کے متوازی جدید علوم کے ذریعے بھی حیاتِ انسانی کی ابتداکو جاننے کی کاوشیں جاری ہیں۔ابھی تک حیاتِ انسانی کی دلچسپ داستان کا سارا تحیّر اس راز میں ہے کہ اس داستان کے ابتدائی صفحات اور آخری صفحات غائب ہیں۔سو زندگی کا کھوج لگانے والے ماہرین اپنی اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق انکشافات کرتے رہتے ہیں۔وہ انکشافات مکمل حقیقت ہونے سے زیادہ مختلف امکانات ہوتے ہیں۔ممکن ہے ایسا ہوا ہو،ممکن ہے ویسا ہوا ہو۔بعض ماہرین کے اپنے اپنے ذہنی پس منظر کے باعث اپنی اپنی ترجیحات بھی کہیں کہیں کام کر جاتی ہیں یا ہاتھ دکھا جاتی ہیں۔سو جب پورے کرۂ ارض پر حیاتِ انسانی کی ابتداکے حوالے سے ایک ہی جیسا حال ملتا ہے تو محض عربوں کے ہاں مادری نظام کا انکشاف کیوں؟
اسماعیل احمد ادہم نے جس انداز سے قدیم ادوارکودیکھنے کی کوشش کی ہے،میں اسی انداز کو ملحوظ رکھتے ہوئے،ان کے تھیسس کے برعکس نتیجہ پیش کردیتا ہوں۔
جب اسماعیل احمد ادہم عربوں کو خانہ بدوش کہتے ہیں تو وہ اصولاََ اپنے بنیادی تھیسس کو خود ہی رد کردیتے ہیں۔ قدیم خانہ بدوش اور زرعی معاشرہ میں فرق کوواضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔خانہ بدوش زندگی کا سارا انحصار روشنی پرہوتا تھا۔دن میں سورج کی روشنی،رات میں چاند کی روشنی،ستاروں کی روشنی، پھرروشنی کے ان آسمانی مظاہر کی نسبت سے آگ کی روشنی۔روشنی کا بنیادی مظہر آسمانی ہے۔آسمان دھرتی کے مقابلہ میں مردانہ خواص رکھتا ہے۔جبکہ دھرتی عورت کے خواص کی مظہر ہے۔اسی لیے قدیم زرعی معاشرہ نے دھرتی ماتا اور مادرِ وطن جیسے احساس کو اجاگر کیا۔زمین بیج کو اپنے اندر جذب کرکے ماں کی طرح پودے کو جنم دیتی ہے اور پھر اس کی نشوونما کرتی ہے،جبکہ سورج کی روشنی دھرتی اور بیج دونوں کے لیے مردانہ حرارت کی مظہر ہے۔دنیا میںاہم اور بڑے خانہ بدوش قبائل کے ہاں دیوتاؤں کا تصور ملتا ہے جبکہ زرعی معاشرے میں دیویوں کا تصور ملتا ہے۔جو معاشرے خانہ بدوشوں کو رُکنے پر،ٹھہراؤ پر مجبور کردیتے تھے وہاں دیویوں اور دیوتاؤں کا ملاپ عقیدے میں شامل ہوجاتا تھا۔ اگراسماعیل احمد ادہم کے نزدیک عرب خانہ بدوش تھے تو پھر ان کے ہاں تو مزاجاََ ہی مردانہ بالا دستی موجود تھی۔سو عرب معاشرے میںعورتوں کے تعدد ازدواج کی صورت میں عورت کی بالادستی کا مضمون اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اِدھر ہندوستان کی قدیم سوسائٹی کو ہی دیکھ لیں۔آریا خانہ بدوش تھے اور دیوتاؤں کے ساتھ ہند میں وارد ہوئے تھے۔ہندوستان کے مقامی لوگ دراوڑ،بھیل اور دیگرسب زرعی معاشرہ کے لوگ تھے۔ان کے ہاں دیویاں ہی دیویاں تھیں۔یہاں تک کہ خدائے واحد(ایشور)بھی عورت تھی۔لیکن دونوں کے ملاپ سے پھر ہندآریائی تہذیب ابھری۔
ہند کی دھارمک روایات میں ارجن کا دروپدی کو جیتنا اور پھر ماں کے کہنے پر(ماں کے کہنے پر اہم نکتہ ہے)پانچوں بھائیوں کا دروپدی کو بیوی بنا کر رکھنامذکور ہے۔اس سے کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قدیم ترین دور میں جب وہاں عورت ایک سے زائد شوہر رکھا کرتی تھی ،یہ داستان اسی کثرت ازدواج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔لیکن یہ قدیم زرعی معاشرہ میں ہوا تھا۔سوعورتوں کا ایک سے زیادہ مرد وں سے شادی کرناقدیم زرعی معاشرہ میں تو رواج پا سکتاتھا،کہ زرعی معاشرہ عورت ہی کا ترجمان معاشرہ تھا،لیکن خانہ بدوش قبائل میں ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ ان کا مزاج مردانہ ہے۔
جہاں تک حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں محکمہ محصولات کے ذریعے نسب نامہ کی روایت کو فروغ ملنے کا قیاس ہے،اگر اسے کسی حد تک درست مان لیا جائے تب بھی قرآنی تعلیم میں سورہ الحجرات کی آیت ۱۳ میں صریحاََ یہ فرمان موجود ہے۔
’’اے انسانو!ہم نے تمہیں مرد اور عورت تخلیق کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم آپس میں پہچان رکھ سکو۔بے شک فضیلت اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔بے شک اللہ جانتا ہے اور خبر رکھتا ہے۔‘‘
بے شک مسلمانوں میں اس واضح فرمان کی عملی صورت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے لیکن دنیا بھر کے ہر مذہب اور ہر معاشرے میں ذات پات کا نظام کسی نہ کسی رنگ میں موجودہے۔اس کے لیے صرف عربوں کو مطعون کرنا مناسب نہیں ہے۔تاہم اس بات کا عربوں میں مادری نظام کے رواج والے الزام سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔اسی طرح اسماعیل احمدادہم نے اپنے مضمون میں طوطمیت کے حوالے سے بھی جو بحث کی ہے،اس کا بھی ان کے بنیادی موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں بنتا،ٹوٹم کا ذکرمحض مضمون کو طویل کرنے اور اپنے مطالعہ کو ظاہر کرنے کی کاوش ہے۔دنیا بھر کے قدیم قبائلی معاشروں کے مطالعہ میں ٹوٹم کا ذکر مل جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ٹیبوز کا بھی ذکر ملتا ہے۔اسماعیل احمد ادہم نے جیسے ٹیبوز کو نظرانداز کیا ہے ویسے ہی ٹوٹم کو بھی نظر انداز کر سکتے تھے۔کیونکہ ان کے ذکر سے ان کے بنیادی موضوع کو کوئی تقویت نہیں ملتی۔مجموعی طور پرمضمون’’عربوں کا علم الانساب: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘سنجیدہ علمی تحقیق کے نام پرایک غیر سنجیدہ اور غیر علمی تگ و دو ہے۔مفروضوں کی بنیاد پرتحقیق کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔اس مضمون میں مضمون نگار کا اپنا تعصب ظاہرہوتا ہے۔ایک تو اُس زمانہ میں وہ سوویت یونین کے کیمونزم کے دہریت والے پہلوسے متاثر دکھائی دیتے ہیں،جو سرمایہ دار مغرب سے تمام تر اختلاف کے باوجود ان کے لبرل حلقوں سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔دوسرے مستشرقین یورپ کے افکارکاان پر غلبہ ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے نتیجہ میں عربوں کا عمومی طرزِ عمل شاید اتنا مناسب نہ تھا اور اس حوالے سے ترک قوم کو عربوں سے جو شکوے شکایات ہوں،وہ بڑی حد تک درست بھی کہی جا سکتی ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی ترک نژاداُٹھے اور پوری عرب قوم سے بدلہ لینے کے لیے اس قسم کی تحقیق پیش کرنے لگ جائے۔تحقیق کی آڑ لے کر یہ محض اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا گیاہے۔ یہ اسماعیل احمد ادہم کا ذاتی فعل اور ذاتی کردار ہے،ورنہ ترک قوم اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود عالمِ عرب اور عالمِ اسلام سے محبت کا تعلق رکھتی ہے۔
زیرِ گفتگو کتاب کا دوسرا مضمون’’ واقعۂ عام الفیل اور رسولِ اسلامؐ کی ولادت‘‘ ہے ۔ اس مضمون میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ابرہہ خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے کوئی چڑھائی کرنے نہیں آیا تھا۔اسے رومن شاہ کی طرف سے ترغیب دی گئی تھی کہ وہ ایران پر حملہ کرے تاکہ ایران کی توجہ منقسم ہو اور رومن سلطنت ایرانی دباؤ سے نکل سکے۔ابرہہ کو ایرانی سرحد تک پہنچنے کے لیے ارضِ حجاز سے ہوتے ہوئے گزرنا تھا۔چنانچہ جب اہلِ مکہ نے اس لشکر کو آتے ہوئے دیکھا تویہ باور کر لیا کہ ابرہہ خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے آرہا ہے۔لیکن جب بادِ سموم کے چلنے اور چیچک کی وبا پھیلنے کے باعث ابرہہ کا لشکر واپس چلا گیا تو اہلِ مکہ نے اسے نصرتِ خداوندی قرار دے دیا۔جبکہ ابرہہ تو ایرانی سرحد کی طرف جانا چاہ رہا تھا۔اس موضوع کو نبھانے کے لیے مصنف نے پھر زیادہ تر اہلِ مغرب کی تواریخ کا سہارا لیا ہے۔کچھ مفروضے اپنے طور پر قائم کیے ہیں۔اس کے باوجود جب وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں:
’’واضح رہے یمن سے فارس کے لیے روانہ ہونے والی حبشی فوج اپنی راہ میں آنے والی کسی بھی بستی کو روندتی ہوئی وہاں سے اپنا زادِ راہ حاصل کرتی آگے بڑھتی۔ لمبی صحرائی مسافت کے بعد حجاز اس فوج کے راستے میں آنے والی پہلی آبادی تھی۔ لازم بات ہے کہ وہ اس آبادی کو زیر کرتی آگے نکلتی۔ مگر وہاں تک پہنچتے پہنچتے صحرا کے سفر سے نامانوس اہلِ حبشہ کی یہ فوج بادِ سموم اور وبائی مرض کا شکار ہو گئی۔ یہی وہ عنایتِ الٰہی تھی جس نے اہلِ حجاز کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔‘‘ ۵؎
مصنف خود تسلیم کر رہے ہیں کہ بے شک لشکر کا اصل نشانہ خانہ کعبہ نہ تھا لیکن جب اس نے اس علاقہ سے گزرنا تھا تواسے روندتے ہوئے اور زیرکرتے ہوئے گزرنا تھاتواس کے بعدکسی بھی دور کی کوڑی لانے کی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟
ابرہہ کی نیت کیا تھی؟اس نے کہاں جانا تھا؟اسماعیل احمد ادہم کے سارے مفروضے درست مان لیے جائیں پھر بھی یہ تو ان کی اپنی تحریر سے واضح ہو گیا کہ ابرہہ کے لشکر نے مکہ شہر کو روندتے ہوئے اور زیر کرتے ہوئے گزرنا تھا۔ایسے لگتا ہے کہ اسماعیل احمد ادہم محض کنفیوژن پھیلانے کی غرض سے خود ہی متضاد باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔یہ مثالیں دیکھیں:
’’عربی مصادر کے مطابق اہلِ حبشہ کی مکہ کی جانب پیش قدمی کا سبب لوگوں کو کعبہ سے روگرداں کرنے کی خاطر یمن کے دارالحکومت صنعا میں ابرہہ اشرم کا تعمیر کردہ ایک ہیکل تھا۔(18) جب کہ مسیحی مصادرِ تاریخ میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ملتا کہ ابرہہ نے Arabia Felix میں کوئی ہیکل تعمیر کیا تھا۔(19) مزید برآں، مؤرخ اوزیٹ اپنی (تاریخِ کنائس) میں عرب کے نصاریٰ، ان کے پادریوں اور معروف لوگوں کے ضمن میں ابرہہ اور صنعا میں اس کی جانب سے ہیکل تعمیر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔(20)
یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ یمن کے بعض علاقوں اور نجران میں عیسائی آباد تھے۔ نیز اہلِ حبشہ کے عرصۂ حکومت کے دوران یمن میں عیسائی پادری بھی موجود تھے۔(21) یہ پادری حضرات، جو بلا شبہہ اپنے لوگوں کے مذہبی معاملات کی پاسبانی کا فریضہ ادا کرتے تھے، یمن کے دارالحکومت میں اپنے لیے کوئی نہ کوئی ہیکل یا کنیسہ ضرور رکھتے تھے، اور بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ کنیسہ ہی عربوں کی مذکورہ روایات کی بنیاد بنا۔ عین ممکن ہے کہ اہلِ حبشہ، جو یقینا نصرانی تھے، نے حاکمِ ملک ہونے کی رعایت سے اس کنیسہ کو اپنے مطابق زیب و زینت دی اور آراستہ کیا ہو۔ یہی بات صحرائے عرب کے بدوؤں اور اہلِ حجاز کے ہاں حبشہ والوں کی طرف سے اپنے ہیکل کو کعبے کے مقابل لانے کی کوشش سمجھی گئی۔ ۔۔۔۔بدیں وجہ عرب راویوں کی بیان کردہ حجاز پر حملے کی بات ہمارے نزدیک کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔(22)‘‘ ۶؎
اس اقتباس کے اندر موجود تضادات سے قطع نظر جب ایک قاری نے مصنف مذکور کو قرآن مجید کی سورۃ الفیل کی طرف توجہ دلائی تو موصوف کی طرف سے صفحہ نمبر ۵۲ پر لکھی گئی پہلی بات کو دہرا تے ہوئے یہ جواب دیاگیا۔
’’سورۂ فیل کی آیات اور عنایتِ خداوندی کے لحاظ سے واضح رہے یمن سے فارس کے لیے روانہ ہونے والی حبشی فوج اپنی راہ میں آنے والی بستی کو روندتی ہوئی وہاں سے اپنا زادِ راہ حاصل کرتی آگے بڑھتی۔ لمبی صحرائی مسافت کے بعد حجاز اس فوج کے راستے میں آنے والی پہلی آبادی تھی۔ لازم بات ہے کہ وہ اس آبادی کو زیر کرتی آگے نکلتی۔ مگر وہاں تک پہنچتے پہنچتے صحرا کے سفر سے نامانوس اہلِ حبشہ کی یہ فوج بادِ سموم اور وبائی مرض کا شکار ہو گئی۔ یہی وہ عنایتِ الٰہی تھی جس نے اہلِ حجاز کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔‘‘ ۷؎
اسماعیل احمد ادہم نے کئی صفحات اس تحقیق پر ضائع کر دئیے کہ ابرہہ کے لشکر میں ہاتھی نہیں تھے۔وہ ہاتھی کہاں سے لاتے،اور کیسے لاتے۔وغیرہ۔لیکن جب وہ سورۃ الفیل میں مذکور عنایات خداوندی کی براہِ راست تکذیب سے بظاہر پہلو بچاتے ہیں تو پھریہاں قارئین کوسورۃ الفیل میں مذکور حقائق کا یاد دلاناضروری ہوجاتا ہے۔
’’شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا کیا۔کیا ان کی تدبیر کو برباد نہیں کردیا۔اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے جو ان پرپتھر پھینکتے تھے۔پھرکرڈالا انہیں کھائے ہوئے بھُس کی مانند۔‘‘
اب سیدھی سی بات یہ ہے کہ وہ اعلانیہ طور پر قرآن مجیدکی اس سورۃ کی براہ راست تکذیب سے تو دامن کو بچاتے ہیں لیکن ان کے اخذکردہ نتائج سب کے سب اس سورۃ کی تکذیب کرتے ہیں۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
موصوف لکھتے ہیں۔
’’ نجاشی نے، از رہِ مروت، یمن پر مقرر اپنے عامل ابرہہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی فوج کی کچھ ٹکڑیاں شمال کی جانب فارس کی حدود پر حملے کے خیال سے روانہ کر دے۔ یمن سے فارس تک کا لمبا قدرتی راستہ مکہ سے گزر کر قدیم دور میں دریائے فرات کو بارش کا پانی مہیا کرنے والی وادیِ رمہ (وادي الرُّمَّۃ) میں پہنچ کر ختم ہوتا تھا۔(14) اہلِ حبشہ کی یمنی فوج نے یقینا شمال کو جانے والا یہی راستا اختیار کیا۔ لیکن روانہ کردہ یہ فوج حجاز کے پاس پہنچ کر بری طرح تھکن کا شکار ہو گئی۔ بہت سے لشکریوں کو بیماری چاٹ چکی تھی۔ چیچک کے وبائی مرض نے ان کا ستیا ناس کر دیا تھا۔(15) چنانچہ حبشہ والے مجبور ہو گئے کہ اپنی فوج واپس بلا لیں اور رومیوں سے اپنے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے آگے جانے سے معذرت چاہیں۔ ادھر حجاز کے باشندے (اپنے خیال میں) اہلِ حبشہ کے اس ٹھاٹھیں مارتے لشکر کی پیش قدمی سے بری طرح خائف ہو گئے تھے، اور اسے خود پر حملہ آور تصور کرنے لگے۔ مگر جب یہ لشکر وبائی مرض کا شکار ہوا، تو عرب (اہلِ حجاز) اسے اپنے لیے عنایتِ خداوندی سمجھے جس نے انھیں حبشہ والوں کے شر سے محفوظ رکھا*۔(16) یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس کے گرد (سفرِ فیل) سے متعلق عربوں کی تمام روایات کا تانا بانا بنا گیا۔ ‘‘ ۸؎
’’عرب مؤرخین اہلِ حبشہ کے اس حملے کو بالاتفاق (سفرِ فیل) کا نام دیتے ہیں، جو حبشی فوج میں ہاتھیوں کی موجودگی سے منسلک ہے۔(23) لیکن یہ بات ہمیں (تحقیقی نتائج پر اثر انداز ہونے والے) اہم نقطہ ہائے نظر کی جانب لے جاتی ہے، جن کے مطابق بعض مغربی مؤرخین حبشی فوج میں ہاتھیوں کی موجودگی سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں(24)، بایں سبب کہ ان کے خیال میں ہاتھیوں کو یمن میں بحفاظت رکھنا اور نجران کے صحراؤں میں چلانا امرِ محال کے ذیل میں آتا ہے۔‘‘۹؎
’’ان تمام نتائج کے پیشِ نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہلِ حبشہ کا (یمن سے ابرہہ کی قیادت میں) کسی اور غرض سے نہیں، بلکہ کعبہ ڈھانے کی نیت سے نکلنے کا قصہ اس وجہ سے ماقبلِ اسلام دور کا قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس میں خاصی غرابت پائی جاتی ہے۔ اس قصے کو زمانہ مابعدِ اسلام کی پیداوار کہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ہمارے پیش کردہ تاریخی حقائق (اور واقعاتی قرائن) سے ثابت ہو جاتا ہے کہ عربی کتب میں مذکور یہ قصہ دراصل تخیل ہی کا کرشمہ ہے۔‘‘ ۱۰؎
ابرہہ کو اس کے جرم سے بری کرنے کے ساتھ اسماعیل احمدادہم نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ عام الفیل کی مصدقہ روایت کو بھی مشکوک بنانے کی اپنی سی کوشش کرڈالی ہے۔روایات میں مذکور ہے کہ اصحابِ فیل کا واقعہ حضرت محمدﷺ کی پیدائش کے قریب دنوں میں ہوا تھا۔اس وجہ سے اسے آنحضرتﷺ کی صداقت کے نشان کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔اب اسماعیل احمد ادہم نے یہ کیا ہے کہ اپنے مغربی مستشرقین پر انحصار کرتے ہوئے ابرہہ کے لشکر کی آمد کوآنحضرتﷺ کی پیدائش سے تیس سال پہلے کا واقعہ قرار دے ڈالا ہے۔ لیکن اس معاملہ میں بھی ان کی تحقیق کتنی کنفیوزڈ ہے ،اس اقتباس سے ہی ظاہر ہوجائے گا۔
’’اہلِ حبشہ کا (سفرِ فیل) کے نام سے معروف یہ حملہ 540ء میں وقوع پذیر ہوا(37)، جیسا کہ مذکورہ بالا تحقیقی نتائج سے ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ پیغمبرِ اسلام کی ولادت محققین کے نزدیک 570ء میں ہوئی۔(38) اس لحاظ سے عام الفیل (سفرِ فیل کے سال) اور پیدائش رسولؐ کے مابین کوئی تعلق نہیں بنتا۔ دونوں کے درمیان کوئی تیس برس کا فرق ہے، جو انھیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ بعض عرب مؤرخین بھی اس زمانی بعد کا ذکر کرتے ہیں، جیسے مفسر بغوی نے لکھا ہے کہ: (سفرِ فیل) ولادتِ رسولؐ سے تقریبا چالیس برس قبل پیش آیا(39)۔ جب کہ محمد بن سائب کلبی نے اسے تئیس برس کا عرصہ بتایا ہے(40)۔ دوسری طرف ہم تاریخی لحاظ سے یہ بھی جانتے ہیں کہ ابرہہ کے جانشینوں نے یمن پر تقریباً اکتیس سال حکومت کی(41)، اور 570ء میں قدس کی افواج یمن سے اہلِ حبشہ کو نکالنے کے لیے پہنچیں(42)۔ اس طرح ابرہہ کی یمن پر حکومت کا سال 540ء کے لگ بھگ ہی بنتا ہے۔ کچھ عربی مصادر میں بالواسطہ طور پر اس بات کی تائید کی گئی ہے۔‘‘ ۱۱؎
اس تحقیق کے مطابق سفرِ فیل آنحضرت ﷺ کی ولادت سے تیس سال پہلے پیش آیا۔چالیس سال پہلے پیش آیا۔تئیس سال پہلے پیش آیا۔مقصدصرف اتنا ہے کہ واقعۂ اصحاب فیل اور آنحضرت ﷺ کی ولادت اگر ایک ساتھ ثابت ہو گئی تو یہ عربوں اور مسلمانوں کے لیے ازدیاد ایمان کا موجب بنی رہے گی،اس لیے اس معاملے کو بھی کنفیوز کردو۔تاریخ اور تحقیق کے نام پر جہاں تہاں سے مواد اکٹھا کرلو،بس جن لوگوں سے متعلق روایت ہے،ان کے ہاں متفقہ اور مصدقہ روایات بھی ہیںتوان کا حوالہ بالکل سامنے نہیں لاؤ۔اسماعیل احمد ادہم کا یہی طریقۂ واردات ہے اور وہ آخر تک اسی طریق پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ اگر یہ روایت غلط ہوتی تو سب سے پہلے کفارِ مکہ نے ہی شور مچانا تھا کہ ایسا کب ہوا۔کفارِ مکہ کی طرف سے ایسا کوئی اعتراض نہ کیا جانا بجائے خود ان مصدقہ اسلامی روایات کی توثیق کرتا ہے جن میں اصحابِ فیل کے واقعہ کو عام الفیل کہا گیا ہے۔
پس کفارِ مکہ کی طرف سے سورۃ الفیل کے نزول پر اورعام الفیل کی مصدقہ روایات کے ہوتے ہوئے کوئی اعتراض نہ کرنا بجائے خود عام الفیل کی صداقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور اس عملی شہادت کے سامنے اسماعیل احمد ادہم کے سارے مفروضے اور سارے کنفیوزنگ حوالے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس کتاب میں شامل تیسرے مضمون کا عنوان ہے ’’قدیم دور میں اسرائیلیوں اور عربوں کے تعلقات‘‘۔اس مضمون میں بنیادی طور پر اسرائیلیوںکو موضوع بنایا گیاہے۔عربوں سے ان کے تعلقات کو محض فلسطینیوں سے تعلقات کی حد تک رکھا گیا ہے۔یا پھر ایک جگہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ یہودیوں کے میل جول کا ذکر ہے۔سامی النسل ہونے کے حوالے سے اسرائیلی قوم کو پہلے عرب اقوام میں بیان کیا گیا ہے پھر انہیں طورانی الاصل بتایا گیا ہے۔اسرائیل کے عروج و زوال کو مذہبی پس منظر کی بجائے سماجی اور سیاسی پس منظر کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں چند حوالہ جات سے مصنف کا موقف کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔پہلے اسرائیلیوں کو عربوں کی طرح سامی النسل قرار دینے کے چند حوالے دیکھیں۔
’’ نوعِ انسانی کی انھی چند نسلوں میں سے ایک سامی نسل ہے، جس میں اسرائیلی قوم شامل ہے۔‘‘ ۱۲؎
’’ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ابتدائی سامی نسل، جو صحرا نشین بدؤوں پر مشتمل تھی، اوّلاً جزیرہ نمائے عرب میں آباد ہوئی، اور وہاں سے دیگر علاقوں میں پھیلی۔ یہ ماقبلِ تاریخ کے کسی قدیم تر دور کی بات ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے صحراؤں میں سکونت پذیر ہونے کے باعث، ابتدائی سامی نسل کے ان صحرا نشین بدؤوں کو جب بھی رزق کے وسائل میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا، تو وہ قبائل کی شکل میں دجلہ و فرات کے طاسوں اور انھیں سیلابی پانی مہیا کرنے والی وادیوں، نیز دریائے نیل کے طاس کا رخ کیا کرتے۔ ان میں سے کچھ متمدن زندگی کی طرف چلے جاتے اور اس میں ضم ہو کر جزیرہ نمائے عرب کے سامیوں سے الگ ہو جاتے۔‘‘۱۳؎
’’اسرائیلی صحرا نشین بدو تھے، اور بدویت ہی ان کی ثقافت کی اساس تھی۔ لہٰذا، وہ قبائل کی شکل میں زندگی گزارتے تھے، اور قبیلہ ہی ان کے محسوسات و خیالات کا آئینہ دار تھا، اور اسی سے ان کا وجود قائم تھا۔ اسرائیلیوں کے ہاں مذہب کا تصور ان مؤثرات و عوامل کے تحت پروان چڑھا جن کے مطابق وہ ابتدائی انسانی گروہ تشکیل پایا جس سے اسرائیلی قوم وجود پذیر ہوئی۔‘‘۱۴؎
اسرائیلیوں کودوسرے عربوں کی طرح سامی النسل قرار دینے کے بعداسماعیل احمد ادہم انہیں طورانی نسل سے بیان کرنے لگ گئے۔اس سلسلہ میں بھی ان کے چند اقتباس پیش کر دیتا ہوں۔
’’یہ بات سامنے آنے پر ترک محققین اس بات کے شواہد بہم پہنچانے لگے کہ عبرانی قوم سامی النسل نہیں، بلکہ وہ طورانی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘۱۵؎
’’ اس تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ یہودیوں اور طورانی اقوام کے درمیان اس نوعیت کا خونی تعلق پایا جاتا ہے۔‘‘۱۶؎
’’ اسرائیلی تاریخ کے بارے میں تازہ تحقیقات ترک محققین ہی کے نقطۂ نظر کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ اسرائیلی قوم ورانی الاصل ہے۔‘‘۱۷؎