اس کہانی کے دو کردار ہیں۔ پہلے ان کا تعارف
1۔ ویرئیو فشرائی۔ ایک بیکٹیریا ہے جو کہ روشنی دے سکتا ہے۔
2۔ ہوائین باب ٹیل سکوئیڈ۔ ہوائی کے ساحلی علاقے میں رہنے والا آبی جانور۔
اس سکوئیڈ کے جسم میں دو چیمبر ہیں جہاں ان بیکٹیریا کا بسیرا ہے۔ جب یہ بیکٹیریا ایک خاص تعداد میں ہو جائیں تو یکایک تمام کے تمام روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ روشنی سکوئیڈ کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ اتھلے پانی میں رہتا ہے جہاں پانی دو فٹ سے زیادہ گہرا نہیں اور رات کو شکار پر نکلتا ہے۔ دن کے وقت یہ اپنے آپ کو یہ ریت میں دبا کر سو جاتا ہے۔ جن راتوں میں چاند زیادہ روشن ہو، وہاں پر اس اتھلے پانی میں چاند کی روشنی پہنچتی ہے۔ جس کمرے میں بیکٹیریا رہائش پذیر ہیں، وہاں پر دو پردے ہیں جن کو یہ ہٹا سکتا ہے۔ اس کی کمر پر روشنی کے ڈیٹیکٹر ہیں جن سے یہ محسوس کر سکتا ہے کہ کتنی روشنی پانی میں داخل ہو رہی ہے جبکہ بیکٹیریا سے نکلنے والی روشنی کا رخ سمندر کی تہہ کی جانب ہے۔ یہ اپنے پردے اتنے ہی کھولتا ہے کہ اتنی روشنی خارج ہو جتنی کہ کمر کی طرف سے آ رہی ہے۔ اوپر سے آنے والی اور بیکٹیریا کی پیدا کردہ نکلنے والی روشنی کے بالکل یکساں ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب اس کا سایہ بالکل نہیں بنتا۔ اب یہ اپنے شکاریوں کی نظروں سے غائب ہو گیا ہے۔ دوستی کی اس رشتے کی وجہ سے اب یہ ایک سٹیلتھ بمبر کی طرح بے خوف و خطر پھر سکتا ہے۔
اگلا دن آ گیا، سکوئیڈ واپس ریت میں چلا گیا۔ اب اس کو ایک مسئلہ اور ہے وہ یہ کہ بیکٹیریا بڑھتے جا رہے ہیں اور جگہ ختم ہو رہی ہے۔ اس کا بھی اس کے پاس علاج ہے۔ اس کے پاس ایک پمپ لگا ہے جو اس کے سرکیڈئین ردھم سے جڑا ہے یعنی چوبیس گھنٹے میں ایک خاص وقت پر ایک خاص دورانئے کے لئے یہ پمپ چلتا ہے۔ جب یہ چلا تو اس نے پچانوے فیصد بیکٹیریا کو باہر نکال دیا۔ اب بیکٹیریا کے تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے ان کی بتی بجھ گئی اور ہمارا سکوئیڈ سکون سے سو گیا۔ دن ڈھلتا گیا، بیکٹریا بڑھتے گئے اور جب پھر جب اس کے جاگنے کا وقت ہوا تو اس وقت تک بیکٹیریا کی تعداد اتنی ہو گئی تھے کہ یہ بتی پھر جل اٹھی۔ نیا دن اور پھر نئے شکار اس روشنی کی مدد سے۔
بائیولوجی میں اس قسم کے رشتے کو میوچل ازم کا نام دیتے ہیں، جس کی اپنی کئی ذیلی اقسام ہیں۔ ان کے تعارف کے لئے
زندگی کی یہ باہمی تعاون کے زبردست رشتے بنتے کیسے ہیں؟ ان کی وجہ کوایوولیوشن یعنی کہ انواع کے باہمی ارتقا کا عمل ہے۔ اس کے تعارف کے لئے