جنگل، صحرا، قطبین یا اپنے قرب و جوار کے فلکیاتی اجسام۔ ہم ان سب کو تفصیل سے کھنگال چکے۔ لیکن ہم سمندروں کو کتنا جانتے ہیں؟ ابھی اتنا نہیں۔ سمندر زمین کی سطح کا ستر فیصد ہیں۔ لیکن ہم مریخ کا جغرافیہ ان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن یہ بدل رہا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اب گہرے سمندروں کی تہہ کو سائنسی اور معاشی فائدوں کے لئے کھنگال رہے ہیں۔
ہزاروں سال سے لوگ سمندروں میں جاتے رہے ہیں۔ اس کی گہرائی معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ایک لمبی رسی کے سرے پر وزن لگا کر اس کو سمندر میں پھینکا جاتا تھا۔ دنیا کا سب سے گہرا ترین مقام، ماریانا ٹرنچ، بھی اسی طرح دریافت ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک طریقوں میں بہت جدت آ چکی ہے۔ سیٹلائیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے سمندروں کی تہہ کا نقشہ تیار کیا جا چکا ہے۔ سیٹلائیت سے اس کا نقشہ تیار کرنے کے لئے آلٹیمیٹری کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں جس طرح کی چٹان اور ساخت ہے، اس کی وجہ سے گریوٹی پر فرق پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے سمندر کے لیول میں معمولی فرق آتا ہے۔ اس ڈیٹا کو الگورتھم کی مدد سے پراسس کر لے تہہ کی مناسب تصویر بن جاتی ہے اور یہ تمام دنیا کے سمندروں کی بنائی جا چکی ہے۔
لیکن “مناسب” کافی نہیں۔ سیٹلائیٹ کی میپنگ سے بننے والی تصویر پانچ کلومیٹر کی ریزولیوشن کی ہے۔ یعنی پانچ کلومیٹر بڑے آبجیکٹ تو شناخت ہو جاتے ہیں لیکن ان سے چھوٹے آبجیکٹ اوجھل رہ سکتے ہیں۔ موازنے کے لئے: ہم مریخ کی سطح کا اس سے ایک ہزار گنا بہتر نقشہ تیار کر چکے ہیں۔ یعنی چھ میٹر سے کم ریزولیونش کا۔ چاند اور زہرہ کا نقشہ سو میٹر کی ریزولیوشن کا بنایا جا چکا ہے۔ اتنی اچھے ریزولیوشن کا نقشہ ہمارے سمندر کی تہہ کے صرف پانچ سے دس فیصد حصے کا بن سکا ہے۔
اچھا نقشہ سمندر کا استعمال بدل سکتا ہے۔ سمندری خطرات کی نشاندہی کر کے سفر زیادہ محفوظ بنا سکتا ہے۔ آب ہ ہوا کے اچھے ماڈل تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ سونامی کے خطرے سے آگاہ کرنے میں مدد کر سکتا ہے، موسم کی پیشگوئی کو بہتر کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں تاریں، فائبر آپٹکس اور پائپ بچھانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ سمندر سے قدرتی وسائل ڈھونڈے جا سکتے ہیں جیسا کہ آپ کے موبائل فون میں استعمال ہونے والے رئیر ارتھ میٹیرئل۔ یہ جانا جا سکتا ہے کہ سمندر کی لہروں سے توانائی کہاں سے لی جا سکتی ہے۔
انٹرنیشنل سی بینڈ اٹھارٹی سمندر کی تہہ میں کان کنی کی نگرانی کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ اس کا ایک حصہ حیاتیات کے لئے مختص کئے گئے حصوں کی محفوظ رکھنا بھی ہے کہ وہاں پر کان کنی نہ کی جائے۔ یہ وہ علاقے ہیں جو سمندر کے ایکوسسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کے لئے زیادہ خاص ہیں۔ ان کو اپنا کام ٹھیک طریقے سے سرانجام دینے کے لئے یہ جاننا ہے کہ اس تہہ میں کیا ہے۔
سمندر کی تہہ کی نقشہ بندی دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یہ کہ اس کو سمجھ کر اس کی حفاظت کی جا سکتی ہے بائیولوجی اور جیولوجی کی نئی دریافتیں کی جا سکتی ہیں۔ دوسری طرف یہ کہ اس کے وسائل کو نکالنے کی لئے سمندر کی تہہ کی زندگی اور جیولوجی کو نقصان پہنچایا جانا بھی ممکن ہے۔ لیکن یہ دونوں مل کر اکٹھے بھی کام کر سکتے ہیں۔
یہاں سے تانبا، نکل، کوبالٹ نکالی جا سکتی ہے، تیل نکالا جا سکتا ہے۔ ان دریافتوں کو ڈھونڈنے کے لئے اور ٹھیک مینج کرنے کے لئے نقشے کی ضرورت ہے۔ تو پھر نقشہ ابھی تک بنا کیوں نہیں؟ کیونکہ یہ مہنگا ہے اور وقت لینے والا کام ہے۔ اگر یہ کام ایک بحری جہاز کرے تو دو سو برس میں ہو گا۔ (اگر دو سو بحری جہاز کریں تو ایک سال میں ہو سکتا ہے)۔ اس کا اچھا نقشہ بنانے میں تین ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس کام کو کرنے کے سستے طریقوں پر تحقیق ہو رہی ہے جس میں سے بغیر عملے کے زیرِ سمندر چلنے والے ڈرون شامل ہیں۔ دنیا کے 19 ممالک سے تعلق رکھنے والی ٹیمیں اس ان ڈرونز کے ڈیزائن پر کام کر رہی ہیں۔ اس ڈیٹا کو حاصل کرنے کے بعد اس کا تجزیہ کرنا ایک الگ چیلنج ہے۔
اس چیلنج سے نپٹنے کے لئے بننے والا گروپ سی بیڈ 2030 ہے جس کو جاپان سے تعلق رکھنے والے نپون فاونڈیشن نے شروع کیا اور اب دنیا کے کئی ممالک اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کا مقصد اس کام کو 2030 تک سرانجام دے لینا ہے۔ اس پراجیکٹ کو کرنے والے سائنسدان پرامید ہیں کہ اگرچہ یہ کام آسان نہں لیکن اگر سب کچھ پلان کے مطابق ہوتا رہا تو وہ اس ڈیڈلائن کو حاصل کر لیں گے۔ یہ کام کرنے والے لوگ، بحری جہاز، ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی، عالمی تعاون اور پیسوں کی مدد سے سمندر کی تہہ کو بھی اتنا اچھا جان لیں گے جتنا چاند کو۔