سمندر کبھی ساکن ہوا؟
بعض اوقات سمندر بظاہر پرسکون دکھائی دیتا ہے لیکن سمندر کی نچلی تہوں میں اضطراب اور تحرک جاری رہتا ہے۔ گرم اور سرد پانی کی روئیں چلتی ہیں۔ آبی جاندار محو خرام رہتے ہیں۔ زندگی کے لیے جنگ چلتی رہتی ہے۔ آبی روئیں موسموں کا تعین کرتی ہیں۔ سطح پر رواں کشتیوں کی قسمت کا فیصلہ لکھتی ہیں۔ پھر ایک روز یا چاند چودھویں کا ہو جاتا ہے جس سے سمندر میں جوار بھاٹا شروع ہو جاتا ہے یا فضا کی ہواؤں میں تندی آ جاتی ہے جو سمندر کی پرسکون موجوں کو تڑپا کے رکھ دیتی ہیں یوں سمندر میں طوفان کا موجب بنتی ہیں۔ دیکھنے والوں کو وہی دکھائی دیتا ہے جو وہ دیکھ سکتے ہیں لیکن سطح کے نیچے سمندر کبھی پرسکون نہیں رہا کرتا۔
ریاستیں بھی سمندر کی مانند ہوتی ہیں۔ کبھی پرہیجان اور مبنی بر خلفشار لیکن بیشتر وقت میں بظاہر پر سکون پر بباطن فعال و متحرک۔ کبھی ٹرمپ کی مزاحیہ حرکتوں کا تذکرہ عام ہوتا ہے تو اس کے بعد دنیا کے بڑے بادشاہ کی جانب سے اس کے فقیدالمثال استقبال اور بھاری رقوم کی سودے بازی کا ذکر غالب آ جاتا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں کبھی پانامہ پانامہ کی بین بجتی ہے تو کبھی موجودہ وزیر اعظم اور سابق صدر کے دعاوی عام ہو جاتے ہیں۔
ان معاملات میں جزوی حقائق کے علاوہ اگر کچھ زیادہ ہوتا ہے تو وہ بھی ایک کاروبار کا رنگ ہوتا ہے جسے میڈیا کا کاروبار کہنا کچھ عجیب لگتا ہے مگر الیکٹرونک میڈیا جو صارف پسندی کو فروغ دیے جانے کی خاطر چلائے گئے اشتہارات پر پلتا ہے، بھی کاروبار کا ہی حصہ ہے۔ کہیں لوگ ایسا کاروبار ڈھنگ سے کرتے ہیں تو کہیں بے ڈھنگے پن سے۔ مغرب ڈھنگ سے کرتا ہے اور برصغیر و اس کے ارد گرد میں بھدے طریقے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں بالواسطہ سبھی شریک ہوتے ہیں، صحافی، سیاستدان، طاقت سے وابستہ ادارے، سیاست کے کھیل کو کھیلنے والے پس پردہ کردار اور دیگر کئی مزید۔
نہ تو عالمی سیاست خاموش ہے اور نہ ہی کسی بھی ملک بشمول پاکستان کی داخلی سیاست۔ فی الحال جو کچھ ہو رہا ہے سہجے سہجے ہو رہا ہے۔ ولایت فقیہہ آیت اللہ خامنہ ای سعودی عرب کو امریکہ کی دودھیلی گائے قرار دے دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت نواز شریف اور دیگر زعماء کو تقریر کا موقع نہ دیے جانے پر معذرت پیش کر دیتا ہے۔ سابق جنرل راحیل شریف کی اکتالیس ملکی اتحادی فوج کی سربراہی چھوڑنے کی افواہ گرم ہو جاتی ہے۔ پوتن مسکراتے ہوئے بھی پریشان لگتے ہیں۔ فرانس کے نئے صدر امریکی صدر سے سختی سے مصافحہ کرنے کو علامت قرار دے دیتے ہیں۔ کس بات کی علامت اس پر وہ جو بھی جواز پیش کریں گے ہمیں یہی لگے گا کہ " حسن کرشمہ ساز" کا سا ہے۔ غرض سب کہہ رہے ہوتے ہیں سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں یا کچھ نہیں بھی کر رہے ہوتے مگر لوگوں کو خاص طور پر ان ملکوں کے لوگوں کو جہاں زندگی کا لطف لینے کو نہ وسائل ہوں نہ سوچ، کچھ بڑا ہو جانے کی امید ہی نہیں خواہش بھی ہوتی ہے جیسے کہ اگر سعودی عرب کی بادشاہت الٹ جائے تو، جب کہ ایسا فوری طور پر ہونا ممکن نہیں ہوتا یا جیسے اگر نواز شریف کو ہتھکڑی لگ جائے تو مزہ آ جائے۔ فوری طور پر ایسا ہونا بھی ممکن نہیں اور نہ ہی ایسی خواہش رکھنے والوں کی یہ امید بر آنا کہ عمران خان وزیر اعظم بن جائے تو پھر نہ قرضے لیں گے اور ملک بھی پلک جھپکتے میں سان مارینو یا لکسمبرگ جیسا امیر ملک بن جائے گا۔ ایسا ہونا تو بالکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ پہلے تو جو قرض موجود ہیں انہیں اتارنا ہوگا، نہیں اتاروگے تو سود تو بہر طور دینا پڑے گا۔ امیر بن جانے کے لیے ہن تو برسنے سے رہا، محنت کرنی ہوتی ہے مگر محنت کرے ہماری جوتی یا کریں وہ جو دہاڑی دار مزدور ہیں، ہم تو کار میں سفر کریں گے، چم چم کرتے جوتے پہنیں گے، دھوپ کا برانڈڈ چشمہ لگائیں گے، ہاتھ میں قیمتی موبائل پکڑیں گے اور شام کو کسی فائیو سٹار ریستوران یا پوش کلب میں ڈنر اڑائیں گے۔ بس انقلاب آ جائے گا۔
ہونا کچھ یوں ہے شاید کہ جی آئی ٹی رپورٹ گول مول ہوگی۔ الیکشن اپنے وقت پر ہونگے اگر کسی کو یونہی ٹانگ اڑانے کا شوق نہ چرایا تو۔ پاکستان میں "ہنگ پارلیمنٹ" بنے گی۔ حکومت غالب امکان ہے کہ انہیں کے پاس رہے گی جن کے پاس ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ اگر شام میں جنگ کو تیز کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پائیں گے کیونکہ پوتن ارادے کا بہت سخت اور فیصلہ لینے میں "شیر" ہے اس لیے کہ اسے روسی قوم کا ساتھ حاصل ہے جو اپنی آن کے لیے صبر اور جبر دونوں کو انتہا تک سہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایران اپنی طاقت میں اضافہ کرتا رہے گا لیکن براہ راست جنگ میں ملوث ہونے سے گریز کرے گا۔ امریکہ کی معیشت کو اس برس بھی دو چار جھٹکے لگیں گے جس سے عالمی معیشت میں مدوجزر کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکہ خود بھی کہیں مزید جنگی کھیل شروع کرنے سے گریز کرنے پر مجبور ہوگا کیونکہ وہاں کے لوگ جنگ کو ویسے ہی ناپسند کرنے لگیں گے جیسے وہ ویت نام کی جنگ کو ناپسند کرنے لگے تھے۔ ٹرمپ اپنی مدت پوری کرے گا لیکن اس کے اعمال و افعال سے ریپبلیکن خوب بدنام ہونگے اور اگلی دو مدتوں کے لیے ایک بار پھر ان کا کوئی رکن امریکہ کا صدر نہیں بن سکے گا۔
آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ساری پیشین گوئیاں بے مزہ ہیں۔ کوئی ہنگامہ نہیں کوئی تھرل نہیں کوئی انہونی نہیں ۔ بیشتر لوگ ان باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے کیونکہ وہ ناشناس ہیں کہ:
انہونی کی آس میں پیارے ہونی بھی نہ ہوئے
کالے کوس دنوں کا سایہ آنکھ میں یاس سموئے
رینا ناری بال بکھیرے، خونی دیدوں گھورے
دن کا پنچھی اڑنے کو ہے، پنجے لہو بھگوئے
سینہ چڑھتا زہری دریا، انگ انگ نیلے چھالے
اللہ مارا روگی لوگو پھر کس کروٹ سوئے؟
ہم سب انہونی کی آس رکھتے ہیں۔ ہم سب کے دن وحشی اور راتیں ڈائنیں ہیں۔ ہم سب کے سینے ریڑھے، جھیڑے، ونج مہانے سے بھرے ہوئے ہیں، ہم سب روگی ہیں، ہم سب چین کی نیند سونے سے عاری ہیں۔ ہم سب بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ ہم سب، میں، آپ، وہ ،تو اور تم۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“