ایک بھیگے بھیگے سے دسمبر میں ساہیوال کے سرکاری کوارٹر کی زرد رو دیواروں سے باہر اس گلی کے موڑ پر جس کے بارے میں ہمارے شاعر کو قلق تھا کہ کل کو ’جب میں ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا‘ اپنے ’نہ ہونے کی ہونی‘ کے اندیشوں میں بھٹکتے، اپنی محبوبہ شالاط سے دوری کے غم کو ٹہلاتےبہلاتےاورپھُسلاتے، فاصلوں کی کمند سےآزاد، مجید امجد کو الہام ہوا تھا کہ چونکہ شالاط کے شہر میونخ میں آج کرسمس ہے تو برف گرتی ہوگی اور ساز بجتے ہوں گے
رودبارِ عسار کے پُل پر
جس جگہ برف کی سلوں کی سڑک
فان کاچے کی سمت مڑتی ہے
قافلے قہقہوں کے اترتے ہیں
ایسے ہی ایک ٹھٹھرتے کہر بار دسمبر میں خدِمخ کی سرمئی دیوی کی پرچھائیں تلے ٹل کی ایک سنسان سڑک پر دل کو ٹہلاتا، بہلاتا اور پھُسلاتا مانی سات سمندر پار کی دوری پر اپنی شالاط کے شہر مونٹریال کو یاد کرتا تھا کہ اس رات وہاں کرسمس تھی سینٹ لارنس کی آبی گزرگاہ سے پرے
جہاں ڈی لا بار کی بل کھاتی سڑک
لانگوئل کے گھروندوں کی سمت مڑتی ہے
وہیں کہیں اس قریۂ شراب کے لوگ ایک مئے نشاط کی سرمستی میں بازاروں میں امڈ آئے ہوں گے، باہیں باہوں میں، ہونٹ ہونٹوں پر مگر سات سمندرپار اِدھر ٹل کی اس سنسان شب مانی کو قلق تھا
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
کہتےہیں ہمارے مجید امجد کو ہزیمتوں کا عرق اٹھائے، ایک مفتوح قوم کی بیٹی، پارۂ ناں کا حیلہ کرتی سندھو کی قدیم تہذیب ہڑپہ کے کھنڈروں میں ملی تھی۔
وہ جسے ہمارا شاعر شالاط کے نام سے یاد کرتا ہے اور جس کے چلے جانے کے غم میں اس نے نظمیں کہیں ہم اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ صاحبو شاعروں کی محبوباؤں کے بارے میں ان کے کلام سے باہر زیادہ کی کھوج رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
سو اپنی شالاط کی کہانی کے بارے میں اتنا ہی عرض کرنا کافی ہوگا ہم کراچی کے مضافاتی جنوبی سندھ کی بھربھری مٹی کے ٹیلوں میں زندگی کرنے والوں کا ایک ’مفتوح قوم‘ کی بیٹی سے ٹاکرہ شاہ فیصل کی گلیوں کے ایک حسیں موڑ پر ہوا تھا۔ ہمارے یارِ غار عارف ستار کو یاد ہوگا کہ آدمجی کے دنوں میں گرومندر سے گلشنِ حدید کو پلٹتے بس کالا بورڈ کے سٹاپ کو کچھ پیچھے چھوڑتی تو اس کا دوست اسے ٹہوکا دے کر یاددہانی کروا دیتا کہ اس کی زندگی کا نازک موڑ آیا ہی چاہتاہے۔ عارف ستار سٹیل ٹاؤن کی ‘پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیوں میں’ ہمارے اول اول کے عشق، گرومندر کی ایک سٹریٹ پر بہار دکھاتی مٹسوبشی لانسر پر ہماری فریفتگی اور کالا بورڈ کی ہمسائیگی میں ہماری زندگی کے نازک موڑ، ان سب کا عینی شاہد ہے۔
کہانی آگے چلتی ہے تو ہوتا اس طرح ہے کہ عروس البلاد کی گلیوں سے نکلتی زندگی جب کاکول کی گھاٹیوں سے دم پخت ہوکر کسی ٹھکانے لگی تو شاہ فیصل کا حسیں موڑ نانِ جویں کا حیلہ کرنے شمالی سفید برِعظیم کے شہر مونٹریال سدھار گیا۔ مجید امجد تو چند سیر چشم صحبتوں کی یاد زادِ راہ میں باندھے اپنی شالاط کو الوداع کہنے کوئٹہ کے بارڈر تک چھوڑنے آئے تھے۔ ہم تو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک بھی نہ جاسکے، کیا کرتے کہ عین اس سمے اگوکی کے ریلوے سٹیشن کے پار یونٹ کے بیچلر آفیسرز کوارٹر کے ایک کمرے میں اپنا جستی ٹرنک کھولے کھڑے تھے۔
اگوکی، ظفروال، شکرگڑھ اور پھر ٹل کی حسین اور اداس شاموں میں مونٹریال کی کرسمس کو سوچتے جہاں کہ اپنے مجید امجد کے لفظوں میں برف گرتی تھی اور ساز بجتے تھے کتنے ہی سال بیت گئے۔ اور پھر یوں ہوا کہ شالاط پلٹی تو ایک ہی جست میں سیدھا مونٹریال سے ٹل پہنچ کر دم لیا۔ ٹل جو کرم اور وزیرستان ایجنسیوں کے سنگم پر صوبہ سرحد کی آخری انتظامی حد تھی۔ ایک چھوٹا گیریژن جس پر ہمہ وقت پری چہرہ پہاڑ خدِمخ اپنا سایہ کیے رکھتا۔
شالاط اسے خدِمخد کہتی تھی کہ ایک فرنچ آموختہ زبان پر خدِمخ ٹھیک طرح سے چڑھتا نہیں تھا۔ ایک نانِ جویں کے پرباش تجربے سے آسودہ، گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر شالاط جو پلٹی تھی تو ٹل میں بہت سے حیرتیں اس کی منتظر تھیں۔ جس پارۂ ناں پر وہ لات مار کر آئی تھی اس کا محبوب ایکسچینج ریٹ کے پلڑے کی تقیسم کے اس طرف اس کا لگ بھگ ایک چوتھائی کماتا تھا۔ لانگوئل کے قریۂ شراب کی خوش آرائیوں اور خوش گمانیوں سے پلٹنے والی کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں تھی بلکہ پتھریلی روشوں پر قدم بوسی کو بےتاب کوئے خدِمخ کے نیم تاریک گھروندے تھے۔
مگر ہمارے پاس وقت تھا، اور بیش بہا تھا ایک دوری کے مابین بکھرے مہ وسال کی ان گنت کہانیاں تھیں۔ کوئی کینچلی کاکول کے پہاڑوں کی، کچھ دفینے سینٹ لارنس سے، کچھ ٹھیکریاں شکر گڑھ بلج کی اور لانگوئل سے درآمدہ ایک نازک بیاض پر لکھا میرا نام۔
سادہ، آسان اور ٹکاؤ گھریلو سالنوں کی ترکیبوں کی آڑ میں آئےدن کھانوں کا بیڑہ غرق کرتے، افسر میس کے گیسٹ روم مینو کا آسرا کرتے، گیریژن کلب کےکورٹ میں چڑی چھکاکھیلتےاور کوئےخدِمخد پرٹہلتےہم بھی گونجتے قہقہوں میں ایک قریۂ شراب کےلوگ تھےکہ خوشی ہمارے مہاندروں سے چھلکتی تھی
پھول ایک طاقچے پہ ہنستے ہیں
گرم انگیٹھی کے عکسِ لرزاں سے
آگ اک آئینے میں جلتی ہے!
اور پھر جب اس رفاقت کو ایک سال پورا ہوا تو مانی اور شالاط نے سمانہ جانے کا سوچا۔
قبائلی علاقہ جات کی سرحد پر سمانہ کی پہاڑی ہنگو کے قصبے کے پس منظر میں رنگ بھرتی ہے۔ وہی ہنگو، اگر آپ کوہاٹ سے ٹل کی نیت کریں تو آدھا راستہ اِدھر آدھا اُدھر لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر آتا ہے۔
آج کے خیبر پختونخواہ صوبے میں سمانہ کا پہاڑ اورکزئی اور ہنگو ضلعوں کی حدِ فاصل ہے۔ گوروں کے دور میں جبکہ یہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کہلاتا تھا تب یہ پہاڑ گوروں کے زیرِ انتظام ہنگو کو قبائلی علاقہ جات سے جدا کرتا تھا۔ سمانہ کے شمال اور شمال مغرب میں اورکزئی اور آفریدی جبکہ شمال مشرق میں مہمند قبائل آبادتھے۔ سمانہ پہاڑی پرگوروں کی فوج کی چوکیاں قائم تھیں جو سامنےپڑنےوالےتیراہ کےناقابلِ اعتبارعلاقے پرنظر رکھتی تھیں۔ وہی علاقہ جہاں انیسویں صدی کےآخرمیں تیراہ کی خون آشام جنگ لڑی گئی تھی۔
1897کا ذکر ہےکہ آفریدی قبائل نےجو درہ خیبرکا انتظام سنبھالتے تھے اور انگریز سرکار سےملنے والےمشاہرے کے عوض درے سے گزرنے والے تجارتی و عسکری قافلوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے پابند تھے، سرکار کےخلاف بغاوت کا سوچا۔ اور صاحبو قبائلی جو سوچتے ہیں کسی دوسرے خیال کے آنے سے پہلے کر گزرتے ہیں۔ بہت جلد انہیں اورکزئی قبائل کی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی اور پھر ایک بڑا قبائلی لشکر گوروں کی گوشمالی کے لیے سمانہ کی طرف بڑھے گا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کےبعد یہ ایک دوسری بڑی آزادی کی لہر تھی جو شمالی قبائلی علاقہ جات سےپھوٹنےوالی تھی۔ ہمارےلشکری پہلے مرحلے میں ہنگو کو دیکھتی سمانہ کی پہاڑی پر قائم گوروں کےدو قلعوں کوگھیرے میں لےلیں گے۔
دو بڑے قلعوں کے بیچ ایک چھوٹی مواصلاتی چوکی بھی ان کا نشانہ بنے کی، جہاں اکیس سکھ سپاہی اور ایک مسلمان مشقتی ہتھیار ڈالنے کے مقابلے پر لڑ مرنے کو اُٹھ کھڑے ہوں گے۔
شالاط اور میں 2003 کےاگست میں اسی سمانہ پہاڑی پرآئے تھے۔ شادی کی پہلی سالگرہ منانےکو سمانہ کاہل سٹیشن برا نہیں تھا۔
یہاں گوروں کےزمانوں کی یادگار کچھ پرانے قلعوں کے نشان تھے، ڈویژن کا بیٹل سکول تھا، کچھ گیسٹ روم تھے اور ایک چلڈرن پارک تھا۔ مجید امجد کے میونخ کی طرح گوکہ برف گرنے کا موسم نہیں تھا، مگر پھول طاقچوں میں کھلتے اور ساز بجتے تھے۔ ہنسی کی ایک جلترنگ کا تو سمانہ چلڈرن پارک بھی گواہ ہے۔
باغوں میں پڑے جھولے تھے اور سجاد علی کی تان میں بھولنے بھلانے کے نہیں بلکہ یاد کرنےاور یاد رکھنےکےدن تھے۔ دور تک نگاہوں میں کھلےپھولوں سےآگے دو پرانےقلعوں فورٹ لاک ہارٹ اورفورٹ گلستان کی باقیات تھیں اور وہیں کہیں کوئےسمانہ کےگھروندوں سےایک پگڈنڈی ایک اونچےمنارے کی اور مڑتی تھی۔
ایک اونچے پلیٹ فارم پر ٹیکسلا کے نکلسن آبلیسک سے ملتا جلتا انتہائ اونچا مینار جس پر میل خوردہ پیتل کی ایک تختی پر مجھے یاد ہے کچھ اکیس سکھ سپاہیوں کا ذکر تھا جو سرکارِ انگلشیہ کی علاقہ غیر کو چھوتی اس سرحد پر ایک قبائلی لشکر کے سامنے ڈٹ کھڑے ہوئے تھے۔
سمانہ کے منارے کی اس تختی کے انوسار وہ سارے اکیس کے اکیس سپاہی آخری آدمی اور آخری گولی تک لڑتے ہوئے کام آگئے تھے۔
سمانہ کے قریۂ شراب کی خوش رنگ ساعتوں میں جبکہ مانی ایک منارے کے سامنے پوز بنائے کھڑا تھا اور شالاط ایک تصویر کھینچنے کو کیمرہ کلک کرتی تھی، ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ یہ سکھ سپاہی کون تھے اور جب ایک معرکے میں سارے کے سارے ختم ہوگئے تھے تو ان کی کہانی کہنے کو کون بچا تھا۔ کوئی بچا بھی تھا یا نہیں۔
ـــ
جاری ہے ۔۔۔