سماجی مسائل کا سیاست سے تعلق
ایک اچھے گھر، جس کا سربراہ ایک مناسب سرکاری افسر ہے، کی پڑھی لکھی لڑکی کو محض اس لیے امام مسجد سے بیاہ دیا گیا کہ وہ لڑکی کی ماں کا رشتے دار ہے۔ لڑکی ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے پر مصالحت کر سکتی تھی، اپنے مقدر پر تکیہ کر سکتی تھی مگر موصوف تو حق ازدواج ادا کرنے سے قاصر تھے۔ وجہ جسمانی معذوری تھی یا جنس مخالف سے گریز، مگر لڑکی مہینے گذر جانے کے باوجود کنواری کی کنواری۔ کچھ بھی ہو انسان کی ضروریات انسانی ہوتی ہیں اور عورت کی سب سے بڑی خواہش ماں بننا۔ ساس مسلسل پوتے پوتی کی آرزو کا اظہار کرے مگر بہو کیسے کہے کہ اماں بچہ ہوا کھانے سے تو پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ایسے شوہر سے چھٹکارہ کیسے حاصل کرے۔ والدین سے ایسی "فحش" بات کیسے کہے کہ شوہر کا اس سے جسمانی بندھن نہیں ہے۔ اوپر سے شوہر کا یہ تقاضا بھی کہ وہ ملازمت نہیں کرے گی۔ وہ ٹیچر ہے، بچوں کو پڑھانا اس کی لگن ہی نہیں بلکہ اس کی واحد مصروفیت ہے جو اسے اپنا دکھ بھلا دینے کا موقع دیتی ہے ورنہ گھر کی جھاڑو بھارو، ہنڈیا روٹی کرتے ہوئے تو سو وسوسے اور خیال پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بالآخر لڑکی کے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ اسے ڈیپریشن کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اس کا کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا بلکہ دل کرتا ہے کہ بچوں کو پڑھانا بھی چھوڑ ہی دے مگر پھر۔
ایک اور گھر کا لڑکا اپنی من پسند لڑکی کو بیاہ کر لایا۔ پہلے اس کی بیوی کو بچے کی پیدائش سے متعلق پیچیدگیوں نے پریشان کیا۔ پیارا سا بچہ پیدا ہوا پہلے دو سال عام بچہ تھا پھر اس میں ہائیپر ایکٹیویٹی کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ لڑکا خاصا عرصے بیروزگار رہا پھر اس نے جو پیشہ اختیار کیا اس میں جسمانی مشقت بہت زیادہ تھی۔ وہ ڈوپنگ استعمال کرنے لگا۔ اس کے کسی عمل سے کسی کو کچھ علم نہ ہو سکا کہ ایسا کوئی مادہ استعمال کرتا ہو جس سے جسمانی پھرتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جہاں کام کرتا تھا، وہ کام بند ہو گیا۔ خاص دوا کی لت لگ چکی تھی۔ جسمانی طاقت کا اظہار بیوی کے ساتھ لڑائی مارکٹائی میں ہونے لگا۔ بچہ مزید متاثر ہوتا گیا۔ بالآخر بیوی بچے کو لے کر میکے جا بیٹھی۔ مخصوص دوا کے منفی اثرات نمایاں ہو گئے۔ وہم و گمان بڑھ گئے۔ اپنے باکمال ہونے اور سب کے ہیچ ہونے کی سوچ بڑھ گئی۔ شک ہونے لگا کہ لوگ اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ماں اور بہن سے رویہ متشدد ہوتا چلا گیا۔ نیند غائب، کھانے کی فکر نہیں، مسلسل بولے جانا، ماں بہن پریشان۔ لڑکا جانتا ہے کہ مواد چھوڑ دے تو ذہن معمول پر آ جائے گا۔ چھوڑتا ہے تو طلب ہونے لگتی ہے، جو اسے مزید جھنجھلا دیتی ہے۔ ڈاکٹر اس دوا کے استعمال کو اس طرح کا نشہ نہیں مانتے جیسا کہ ہیروئن وغیرہ۔ مگر کوئی غلط اشیاء یا ادویہ کا استعمال تب ہی چھوڑ سکتا ہے جب وہ خود اسے چھوڑنے سے متعلق قائل ہو مگر ایسا شخص جس کو دوا کے استعمال سے برتری کا مسلسل احساس ہو وہ اسے بھلا کیوں چھوڑنے کا سوچے۔ اپنی زندگی تو خراب کی اپنے ارد گرد والوں کی زندگی بھی عذاب بنا ڈالی۔
ایک لڑکی جس کا گھرانہ ان پڑھ ہے پڑھ گئی۔ ایم اے کر لیا مگر مناسب ملازمت نہیں مل پا رہی۔ جیسی کیسی بھی ملازمت کرتی ہے، اپنا پورا کرتی ہے، کچھ نہ کچھ ماں کی مدد بھی کر دیتی ہے۔ باپ بہت پہلے سے ہیروئن کا عادی تھا، جس کے بعد اس نے ٹریلر چلانا چھوڑ دیا تھا۔ دونوں بھائی ٹریلر چلانے لگے۔ بڑا بھائی بھی ہیروئن کا عادی ہو گیا۔ وہ بہن پر زور دیتا ہے کہ ہم نشئیوں کے گھر کون رشتہ لے کر آئے گا تم پھوپھی زاد سے بیاہ کر لو، جو نہ صرف کہ کم پڑھا ہوا ہے بلکہ ایک بیوی کو پہلے طلاق دے چکا ہے اور اس نے کہیں ایک کینٹین کھولی ہوئی ہے۔ لڑکی پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ خوش شکل اور حاضر جواب بھی ہے۔ وہ استدلال دیتی ہے تو بھائی گالیاں دیتا ہے۔ بے عزتی کرتا ہے اور بعض اوقات پیٹ بھی ڈالتا ہے۔ بات تو وہ درست کرتا ہے کہ نشئیوں کے گھر رشتہ کون لینے آئے گا۔ شادی صرف لڑکی سے نہیں بلکہ پورے گھرانے سے ہوتی ہے۔ مگر لڑکی کا کیا قصور اگر باپ بھائی نشئی ہیں۔ اس کے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر بھائی غصہ ہو کر کہتا ہے کہ پڑھ گئی ہے تو زبان دراز ہو گئی ہے۔
یہ تین مثالیں اس لیے دی ہیں تاکہ سماجی مسائل کا ملکی سیاسی معاملات سے تعلق واضح کیا جا سکے۔ سوچیے کہ سماجی مسائل کب پیدا ہوتے ہیں؟ سماجی مسائل پیدا ہونے کی دو ہی وجوہ ہوتی ہیں روزگار نہ ہونا، آمدنی کم ہونا یا روایتی بندھن ۔ ملکی سیاست اگر صحیح طور پر استوار ہو تو ملک کی معیشت بھی رو بہ ترقی ہوتی ہے۔ روزگار کے مواقع بھی ہوتے ہیں اور لوگوں کی آمدنی بھی مناسب ہوتی ہے۔ سیاست کی نہج درست ہو تو ملک میں مناسب قوانین بنتے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ سماجی مسائل کا حل کیا جاتا ہے۔ تعلیم نہ صرف عام کی جاتی ہے بلکہ لوگوں کو تعلیم کی جانب راغب کیا جاتا ہے اور تعلیم کے لیے وسائل کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
لوگوں کو تفریح کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ہے، تفریح کا سامان ہوگا تو لوگ اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونگے یوں وہ ذہنی کیفیت کو مبدل کرنے کی غرض سے منشیات یا ذہنی حالت تبدیل کرنے والے کسی اور مواد کا سہارا نہیں لیں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ جہاں سب درست ہو وہاں لوگ منشیات خوری کا شکار نہیں ہوتے مگر ایسے ملکوں میں لوگوں کا منشیات کے عادی افراد کی جانب رویہ مثبت کیا جاتا ہے اور ترک منشیات کے مراکز قائم کرکے ان تک لوگوں کی رسائی سہل بنائی جاتی ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ اگر کوئی فرد کسی مواد کا عادی ہو چکا ہے اور علاج کی جانب راغب نہیں تو ماہرین نفسیات گھر پہنچیں یا ایسے شخص کو ہسپتال لے جانے کا قانون ہو۔
سیاسی ماحول سازگار ہو تو وہاں عورتوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عورت کو حقوق اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ روایتی بندھنوں کے اساطیر توڑے جاتے ہیں جن سے نکل کر عورت اپنے طور پر باعزت زندگی گذارنے کے قابل ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں باوا آدم نرالا ہے۔ گھر کے مرد نشئی ہو جائیں تب بھی گھر کی عورتوں پر اختیار ان کا ہی ہے اور وہی ان کے مقدر طے کرتے ہیں جو عموما" غلط کرتے ہیں۔ اگر عورتیں ان کی نہ مانیں تو یہ جاہل منشیات خور اپنی بہنوں کو قندیل بلوچ کے بھائی کی طرح قتل کرکے غیرت کی بنیاد پر سربرآوردہ ہونے کی سعی کرتے ہیں۔
یہ کہ سیاسی ماحول کیونکر درست ہوگا اور سیاستدان کب ایسے ہو سکیں گے جب وہ عام آدمی کے سماجی مسائل کے حل پر غور کرنے کے قابل ہون۔ اس سوال کا جواب ملک میں جمہوری عمل کا تسلسل اور باقاعدگی سے انتخابات کرائے جانا ہی ہے۔ لوگ اس عمل سے مناسب امیدواروں کو سامنے لانے کی جانب مائل ہونگے۔ مختصر راستہ کوئی نہیں ہے۔
کرپشن کرپشن کا شور مچانے والے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے کم اور اقتدار پا لینے کے زیادہ خواہاں ہوتے ہیں۔ کیونکہ براہ راست کرپشن میں عوام کی اکثریت شامل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کا شکار ہوتی ہے اگرچہ وہ اس عفریت کا پیٹ بھرنے کی خاطر کمائی کرنے کی غرض سے خود بھی بددیانتی پر مبنی اعمال کی مرتکب ہوتی ہے جو بذات خود ایک طرح کی کرپشن ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بدعنوانی نہ ہو۔ کرپشن کی مالا جپنے والے سیاستدان ان کی اس آرزو اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ شاید وہ کسی حد تک خود بھی کرپشن تمام کرنا چاہتے ہوں لیکن جب مقتدر ہو کر اس مخصوص نظام کے بطن میں پہنچتے ہیں تو بے دست و پا کر دیے جاتے ہیں۔
غرض کوئی بھی مسئلہ سماجی ہو یا معاشرتی، مذہبی ہو یا عمومی سب کا تعلق ملک میں رائج نظام سے ہے جس کا براہ راست تعلق ملک میں ہونے والی سیاست کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک سیاست کا قبلہ درست نہیں ہوگا تب تک کوئی مائی کا لال چاہے کتنا ہی دبنگ کیوں نہ ہو سماجی مسائل ختم نہیں کر سکتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“