“اوئے تم لوگ یہ جملہ لکھ لو۔ سارے مضمون اسی سے شروع کرنے ہیں۔ “ ہمارے انگریزی کے استاد نے اردو میں سمجھایا۔ ہم سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔
“ مین از اے سوشل اینیمل” (Man is a social animal) سر نے بورڈ پر انگریزی میں جملہ لکھا ۔ہم سب نے فورا” نقل کرلیا۔
یہ جملہ ہماری انگریزی انشا پردازی کی کلیدکامیابی تھی۔ ہر مضمون ہم اس جملے سے شروع کرتے۔
مثلاً ہمیں مضمون دیا گیا” سمندر کنارے پکنک” (Picnic at seaside). ہم شروع کرتے “ انسان سماجی جانور ہے، پچھلے ہفتے ہمارے اسکول کے طلبہ کلفٹن پر پکنک منانے گئے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان ۔۔الخ”
مضمون چاہے چڑیا گھر کی سیر پر ہو، یوم آزادی کے جلسے پر ہو ، کرکٹ میچ پر ہو، اس کی ابتدا لازما” مین از اے سوشل اینیمل” سے کرتے۔ اور چونکہ یہ مضمون اسی استاد کو پہنچتا تھا چنانچہ نمبر پورے ملتے جو انگریزی کی استعداد کے کم لیکن استاد کی تابع داری کے زیادہ ہوتے۔
بس ایک مشکل یہ ہوگئی تھی کہ ہم اپنے استاد ، جو پنجاب کے کسی شہر سے آئے تھے، کا نام بھول گئے۔ ہم انہیں سوشل اینیمل پکارنے لگے۔ ایک دن بڑی آپا یعنی اسکول کی سخت گیر ہیڈ مسٹریس جو اسکول کی مالکن بھی تھیں ، ہماری کلاس کی طرف آنکلیں۔ اس وقت کوئی استاد کلاس میں نہیں تھا۔ اورآپ جانتے ہی ہیں کہ جب استاد کلاس میں نہ ہو تو کیا ہوتا ہے۔
“ کس کا پیریڈہے؟” ہماری دھماچوکڑی کے بیچ بڑی آپا کی کرخت آوازگونجی۔
“ وہ، وہ مس وہ، سوشل۔۔۔” بڑی آپا کی اچانک آمد سے ہمارے ساتھی کی سٹی گم ہوگئی تھی اور اسے انگریزی کے استاد کا نام ہی یاد نہیں آرہا تھا۔
“ سوشل اسٹڈیز کا پیریڈ ہے؟” وہ گرجیں۔
“ نہیں مس۔۔انگلش کا” یہ ہماری کلاس کا مانیٹر تھا۔
“ اشفاق صاحب کا ہے” بڑی آپا بولیں۔
“ جی ، جی مس، انہیں کا” مانیٹر کی یاد داشت بھی واپس آگئی۔
دراصل ہم اردو میڈیم لوگ اسی کینڈے کے ہوتے ہیں۔ اور ہم تو اس بری طرح اردو میڈیم تھے کہ کیا بتائیں۔ محکمہ تعلیم کی مہربانی سے کچی پہلی سے پانچویں تک انگریزی کا ایک حرف تک ہمارے نصاب میں نہیں تھا۔ نہ صرف اے، بی ، سی، ڈی بلکہ انگریزی گنتی یعنی ون ٹو تھری تک نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ چھٹی جماعت سے انگریزی کا مضمون شروع ہوتا جس کی ابتدا “ This is Ali, That is Nasima” سے ہوتی اور آٹھویں بلکہ شاید نویں دسویں تک علی اور نسیمہ اور ان کے ابا مسٹر جمیل ہمارے ساتھ تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں کراچی بورڈ سے میٹرک کرنے والے میرے احباب اس بات کی گواہی دیں گے۔ ہمارے لئے دنیا میں انگریزی میں علی اور نسیمہ اور مسٹر جمیل کے کوئی نہیں بستا تھا۔ ایسے میں اگر اشفاق سر نے “ مین از اے سوشل اینیمل” جیسا بھاری بھرکم جملہ سکھادیا تو اسے ہم نے اپنے کلیجے سے لگا لیا۔
یہ تو یونہی “ آپڑی ہے مقطع میں سخن گسترانہ بات” ( آپس کی بات ہے، مجھے سخن گسترانہ کے معنی بھی نہیں معلوم)۔ میں دراصل اس سوشل اینیمل یعنی “ سماجی جانور” کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ انسان واقعی سماجی جانور ہے اور تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ ہی اس نے مل بیٹھنے کے اور مل جل کر کام کرنے کے کئی طریقے ڈھونڈ لئے ہیں۔ انسان کا گذارہ انسان کے بغیر نہیں۔ کام کاج کے جھنجھٹوں سے فراغت ملتے ہی وہ آدم بو کہتا ہوا دوسرے انسان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ گئے دنوں میں کسی برگد کے نیچے چوپال، یا کسی چوک میں ، دکان کے تھڑوں پر، قہوہ خانوں میں ،ہوٹلوں میں یا حجام کی دکان وغیرہ پر اپنی بیٹھک جماتے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہندوستان میں ہمارے گاؤں کے ہر گھر کی دہلیز کے ساتھ چھوٹی سی برساتی نما بیٹھک ہوتی تھی جہاں ایک بنچ یا کرسیاں دھری ہوتی تھیں اور گاؤں کے بزرگ شام کے وقت وہاں بیٹھے گپ شپ کرتے نظر آتے۔ یا کسی بڑے گھر یا حویلی کے سامنے چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں پنچایت جمتی اور درمیان میں حقہ گردش کرتا رہتا۔
چوپال اور بیٹھک کا رواج اب تقریباً ختم ہی ہورہا ہے کہ اب لوگوں کو وقت گذاری کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ٹیلیویژن بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب تو وہ بھی ہماری مرضی کا غلام ہوگیا ہے۔ اسمارٹ ٹی وی پر جس چینل سے چاہے خبریں سن لو، ڈرامہ دیکھ لو یا اپںی مرضی کی فلم، گانا، کھیل کود دیکھ لو۔ اب کیا ضرورت ہے پڑوسی کو آواز دے کر گلی کے نکڑ پر بلا کر گپیں ہانکنے کی۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی۔ اب آپ پوری دنیا سے رابطے میں ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے قریبی لوگوں سے اتنا ہی دور ہوگئے ہیں۔
مل بیٹھنے کی یہی خواہش تھی جس نے انسان کو انجمن آرائی کا شوق دیا، ہم ذوق اور ہم شوق لوگوں نے مختلف طرح کے کلب اور انجمنیں بنالیں۔ اب یہ کلب نہ صرف مل بیٹھنے، گپ شپ کرنے، کھانے پینے اور سیروتفریح اور کھیل کود کے لئے قائم کئے جاتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے سماج سیوا اور رفاہ عامہ کے بہت سے کام بھی انجام دئے جاتے ہیں۔ یہ انجمنیں یا ادارے نہ صرف مقامی اور ملکی سطح پر ہیں بلکہ بہت سے کلب بین الاقوامی طور پر بھی قائم ہیں۔
مجھے دنیا بھر کے، یہاں تک کہ پاکستان کے بھی ایسے تمام اداروں کا علم نہیں۔ میری مار صرف اپنے شہر کراچی تک ہی ہے جہاں آج ، اس گئے گذرے وقت میں بھی ایسے بے شمار کلب اور ادارے موجود ہیں جہاں ہم مزاج اور ہم خیال لوگ مل بیٹھ کر نہ صرف وقت گذاری کرسکتے ہیں۔ اپنے مشاغل انجام دے سکتے ہیں ، بلکہ معاشرے کے لیے بہت سے مفید کام کرسکتے ہیں۔ آج ایسے ہی چند کلبوں اور انجمنوں کی بات ہے اور بات ذرا لمبی ہوجائے گی کہ صرف شہر ناپرساں کراچی میں بھی اتنا کچھ کرنے کے لئے ہے کہ آپ یک رنگی اور بوریت کی شکایت نہیں کرسکتے۔ مجھے ان انجمنوں کے بارے میں صرف وہی کچھ پتہ ہے جو چلتے پھرتے دیکھا یا اخباروں میں پڑھا۔ یہ کوئی تحقیقی یا معلوماتی مضمون نہیں ہے۔ صرف اپنے شہر والوں کو یہ بتانا ہے کہ اگر آپ اپنے شوق، اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال چاہتے ہیں تو کیا کچھ کرسکتے ہیں۔
ان کلبوں میں جو پہلا کلب ذہن میں آرہا ہے اس کی یاد یا ذکر اتنا خوشگوار نہیں ہے۔ کالج کے دنوں میں اپنے کالج سے، جو پی آئی ڈی سی ہاؤس کے سامنے واقع ہے صدر کی جانب آتے ہوئے کبھی میٹھا رام ہوسٹل سے ایوان صدر روڈ ( موجودہ گورنر ہاؤس) کی جانب مڑجاتے جہاں سڑک کے اختتام پر یعنی ریکس چوک ( یا میوزیکل فاؤنٹین) سے کچھ پہلے ایک پرانی عمارت تھی جس کی سرخ چوبی سیڑھیاں فٹ پاتھ سے ہی نظر آتی تھیں۔ یہ “ فری میسن لاج “ تھا۔
فری میسن ( Freemasonry)کی یہ انجمن دنیا بھر میں قائم ہے۔ بظاہر تو اس کا مقصد بلا معاوضہ خدمت ہے۔ اس کے اراکین ایک دوسرے کے کاروبار اور ملازمتوں میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ یہ زیادہ تر بہت متمول اور بااثر لوگ ہوتے ہیں جو اپنی باہمی محفلوں میں گپ شپ کے دوران سرکاری افسران پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اپنے جائز ، ناجائز کام وغیرہ کرواتے ہیں۔
یہ وہ کچھ ہے جو میں نے فری میسن کے بارے میں سنا ہے۔ شاید وہ کچھ اور بھی کام کرتے ہوں اور کوئی اچھے کام بھی کرتے ہوں لیکن یہ انجمن یا تنظیم پراسراریت کے بے شمار پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ کم از کم ہمارے ملک میں اس کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس کی رکن سازی کا طریقہ کار، اراکین کے آپس میں ملنے اور خفیہ اشاروں اور جملوں ( کوڈ ورڈز) وغیرہ کے بارے میں بہت سی کہانیاں سننے میں آتی ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ جو چیز اسے مشتبہ اور نا پسندیدہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس تنظیم کے ڈانڈے مبینہ طور پر صہیونیت سے جا ملتے ہیں ۔
مٹی پاؤ جی اس تنظیم پر۔ لیکن ہمارے ہاں اور بھی کچھ انجمنیں ہیں جو بہت بہترین کام کررہی ہیں لیکن چونکہ ان کا بنیادی تعلق مغرب سے ہے اور ان کی شاخیں دنیا بھر میں قائم ہیں چنانچہ حسب عادت شکوک و شبہات کے سائے ان پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہمیں کچھ یوں لگتا ہے کہ وہ انجمن سازی اور خدمت خلق کی آڑ میں کچھ اور مقاصد بھی سرانجام دیتے ہیں۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے۔ خیر جی سانوں کی۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، ہم بہت ہی سخت قسم کے اردو میڈیم تھے۔ اسی کا شاخسانہ تھا انگریزی کے وہ الفاظ جو اردو میں لکھے جاتے ، انہیں ہم عجیب وغریب طرح سے پڑھتے۔ آپ نے گاڈز آف اگے پت (Gods of Egypt) کا بورڈ دیکھا ہوگا، وہ ہمارے ہی کسی اردو میڈیم بھائی کا کارنامہ ہے۔ یہی معاملہ کچھ روٹری کلب کے ساتھ پیش آتا۔
روٹری کلب ( Rotary Club) کی سرگرمیوں کی خبریں تواتر سے آتی رہتیں۔ ہم حیدرآباد سے کراچی آنے والوں سے سنتے کہ ٹرین روہڑی پر لیٹ ہوگئی ( بقول جون ایلیا۔۔” یہ کم بخت روہڑی جنکشن ہر جگہ آجاتا ہے”) یا یہ سنتے کہ کوٹری سے بہت سے مسافر چڑھ گئے تو رش ہوگیا۔ اب یہ روہڑی اور کوٹری سنتے سنتے ہم روٹری کو ان دونوں کے ساتھ گڈ مڈ کردیتے ( ہم سے مراد “ میں “ ہوں)۔ بہت دنوں تک یہی سمجھتے رہے کہ یہ بھی سندھ کے شہر “ روٹری” کا کوئی کلب ہے، وہ تو ذرا انگریزی کی شدھ بدھ ہوئی اور Rotarian جیسے الفاظ پڑھنے سے سمجھ میں آیا کہ معاملہ کوئی اور ہے۔
تفنن برطرف، یہ روٹری کلب بھی ایک بین الاقوامی کلب ہے اور اس کی شاخیں دنیا بھر کے اہم شہروں میں موجود ہیں۔ اس کلب کے زیر اہتمام نہ صرف ثقافتی اور سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں بلکہ یہ فلاح عامہ کے ان گنت کام بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی اعضا کی پیوند کاری، پولیو، پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم اور ان جیسے بے شمار مسائل کے لئے یہ انجمن بے حد سرگرم رہتی ہے۔ کراچی میں اس کا مرکزی دفتر یا کلب شاید ڈیفینس سوسائٹی میں کہیں واقع ہے۔
لائنز کلب ( Lions Club) بھی ایک بین الاقوامی انجمن ہے اور اس کی سرگرمیاں اور اغراض و مقاصد تقریباً روٹری کلب جیسے ہی ہیں۔ پاکستان میں آنکھوں کے عطیات کے لئے لائنز کلب نے قابل قدرکام انجام دئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے وہاں کنویں کھودنے اور پانی کے پمپ وغیرہ مہیا کرنے کے علاوہ دیگر سماجی اور ثقافتی تقریبات بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔ سعود آباد کالا بورڈ کے پاس ان کا مرکزی دفتر ہے۔
روٹری کلب اور لائنز کلب سے بہت بعد میں تعارف ہوا۔ ایک ادارہ جسے میں نے بچپن سے دیکھا اور جس کے نام سے ہمیشہ ایک خوشگوار اور دوستانہ تاثر ابھرتا ہے وہ ہے وائی ایم سی اے۔ Y.M.C.A یعنی Young Men’s Christian Association بظاہر نام سے ایک مسیحی ادارہ نظر آتا ہے لیکن جہاں تک میں نے کراچی یا دنیا بھر میں اسے دیکھا ہے اس میں کوئی مشنری یا مسیحیت کی تبلیغ کا شائبہ تک نظر نہیں آیا۔
چوتھی جماعت میں تھا جب وائی ایم سی اے گراؤنڈ میں امریکن کلچر سینٹر کی جانب سے “ سرکا راما” دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اپنے ڈیفینس کی گول مسجد کی طرز کا چمڑے اور ترپال کا بنا ہوا ایک تھیٹر یا سنیما تھا جہاں چاروں طرف گھوم پھر کر فلم دیکھ جاتی تھی، سرکا راما کی تفصیلات پھر کبھی، بات وائی ایم سی اے کی ہورہی تھی۔ وائی ایم سی اے گراؤنڈ میں ہم نے ہاکی کے میچ بھی کھیلے ہیں۔ وائی ایم سی اے کے زیر اہتمام ایک پولی ٹیکنیک میں مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ ان کے اسکول بھی ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں وائی ایم سی اے کی سب سے بڑی پہچان ان کے یوتھ ہوسٹل ہیں جو ہر قابل ذکر شہر میں موجود ہیں اور نوجوانوں کے لئے بہت سستی اور آرام دہ رہائش مہئیا کرتے ہیں اور جہاں تک میرا خیال ہے اس کے لئے مسیحی ہونے کی شرط نہیں ہے۔
ایک اور بین الاقوامی انجمن جو دنیا کے ہر بڑے شہر میں موجود ہے لیکن کراچی میں اس کا شہرہ کم ہے وہ ہے ٹوسٹ ماسٹرز کلب Toast Masters Club. مجھے بھی اس کے بارے میں پہلی بار بحرین میں علم ہوا۔ ٹوسٹ ماسٹر کلب کے زیراہتمام تقریبات منعقد ہوتی ہیں جہاں ممبران کو گفتگو اور تقریر کا فن سیکھنے میں مدد دی جاتی ہے۔ ان کی نشستوں میں پبلک اسپیکنگ، ٹیم بلڈنگ، لیڈر شپ اسکلز وغیرہ میں مدد کی جاتی ہے ( انگریزی کے لئے معذرت، لیکن اردو کی بہ نسبت یوں بات آسانی سے سمجھ آتی ہے) ۔
ویسے تو ایک بین الاقوامی کلب ، الکحالک انانی مس Alcoholic Anonymous بھی ہوتا ہے جو عادی شرابیوں کو اپنی عادت پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے لیکن شکر ہے اتنے شرابی کراچی میں نہیں ہیں کہ اس کا تذکرہ کیا جائے۔ ویسے ضرورتمند حضرات کے لئے عرض ہے کہ یہ کلب بھی کراچی میں موجود ہے۔ رہے چرس اور ہیروئن اور دیگر نشہ باز تو ان کا خاطر خواہ علاج ایدھی سینٹر میں ہوجاتا ہے۔
یہ قصہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا جارہا ہے لیکن کیا کریں بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ کراچی میں اور بھی غیر ملکی ادارے ہیں جن سے شہر والے مستفید ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ( یا ہوا کرتے تھے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ اب موجود ہیں یا نہیں۔ ان میں سے اکثر ان معقول چیزوں میں سے ہیں جن پر ہماری نا معقولیت غالب آگئی ہے)۔
یہ شہر جہاں اب تقریباً ہر بڑی سڑک پر سوائے کھانے پینے کی دکانوں، ریسٹورنٹس، ڈھابوں کے اب کوئی اور سرگرمی نظر نہیں آتی۔ جہاں کبھی لائبریریاں، ہیلتھ کلب، اسپورٹس کلب وغیرہ کی بہتات تھی ان کی جگہ اب کباب ہاؤس، نہاری ہاؤس، ، مچھلی، حلیم، بریانی، چرغہ اور سجی وغیرہ نے لے لی ہے اور کراچی والے اب شعروادب ، فنون لطیفہ، کھیل کود اور علم و فن کی جگہ صرف کھانے پینے یا سیاست کی بات کرتے پائے جاتے ہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
اس شہر کے بیچوں بیچ یعنی پاکستان چوک پر ایک خوبصورت عمارت “ برٹش کونسل” کی ہوا کرتی تھی جہاں نہ صرف علم وادب کا خزانہ موجود تھا بلکہ وہاں انتہائی آرام دہ اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر مطالعہ بھی کیا جاسکتا تھا۔ برٹش کونسل سے اگر شمال کی جانب چلتے جائیں تو پی آئی ڈی سی اور کراچی انٹرکان ( اب شاید پرل کانٹینینٹل) کے سنگم سے اگر بائیں جانب مڑ جائیں تو اگلے چوراہے سے دائیں جانب امریکن کلچرل اینڈ انفارمیشن سینٹر کی عظیم الشان لائبریری تھی۔ اتنی آرام دہ، ایرکنڈیشنڈ اور آراستہ پیراستہ لائبریری کراچی میں کہیں اور نہیں تھی۔ اللہ جانے اب وہ ہے یا نہیں ( سنا ہے ختم ہوگئی تھی اور اب غالبا” دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ اللہ کرے یہ سچ ہو)۔
کچھ اور انجمنیں، کلب اور انسٹیٹیوٹ جن کی سرگرمیوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنی رہتی تھیں وہ غیر ملکی سفارت خانوں اور مشنوں سے منسلک تھے جن میں “ گوئٹے انسٹیٹیوٹ “ نمایاں تھی ( اب بھی شاید موجود ہے)۔ یہاں شاید ڈاکٹر این میری شمل نے بھی اقبال پر کئی لیکچر دئیے ہیں ۔
فرانسیسی سکھانے کے حوالے سے الیونس فر نسے Alliance Francois بھی کافی متحرک ہے۔ ایک زمانے میں شاہراہ فیصل پر لال کوٹھی کے قریب واقع “ پاک روس ایوان دوستی” میں بھی تقریبات ہوتی تھیں اور فیض، حبیب جالب، سبط حسن جیسے اشتراکی حضرات کے دیدار یہاں نصیب ہوا کرتے تھے۔ کالج کے زمانے میں ہمارا ایک کام گاہے بگاہے چینی قونصل خانے میں جانا ہوتا تھا جہاں سے ان کا رنگین رسالہ ( نام بھول گیا ہے) مفت ملتا تھا، ساتھ ہی چین کے بارے میں بہت سارے رنگین پوسٹ کارڈ ( یا View Cards)مفت ملا کرتے تھے۔ لیکن ہماری اصل دلچسپی وہ سگریٹ ہوتے تھے جو مہمانوں کے لیے رکھے جاتے تھے اور ہم مختلف حیلے بہانوں سے انہیں اپنی جیبوں میں منتقل کرتے اور استقبالیہ پر موجود چینی اہلکار بے چارگی سے ہمیں دیکھتا رہتا۔ یہیں شہر میں خانہ فرہنگ ایران بھی تقریبات منعقد کرتا رہتا تھا۔
غرضیکہ شہر میں ہر ذوق اور خیال کے لوگوں کے لئے بہت کچھ تھا اور وقت گذاری کے لئے بہت معیاری مصروفیات موجود تھیں اور اب بھی بہت سی موجود ہیں لیکن اب ہماری ترجیحات اور شوق بدل گئے ہیں۔ اس قصے کو فی الحال یہاں روکتے ہیں۔ آپ بھی اکتا گئے ہوں گے ( ویسے اگر بور ہوگئے ہوتے تو یہاں تک نہ پڑھا ہوتا)۔
اب یوں بھی نہیں تھا کہ گوروں اور باہر والوں کے سوا شہر میں علاج تنگئ داماں بالکل نہیں تھا۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ پہلے بہت کچھ تھا اور اب بہت کم رہ گیا ہے۔ اور یہ کہ معیار میں فرق آگیا ہے۔ اب زندگی اس قدر مصروف اور تیز رفتار ہوگئی ہے کہ فرصت کا وقت اچھے انداز میں گذارنا مشکل ہوگیا ہے۔ انگریزی میں جسے کوالٹی ٹائم کہتے ہیں، اب ناپید ہے۔
ہم لاہور کے پاک ٹی ہاؤس اور عرب ہوٹل کے قصے بہت سنتے تھے۔ سنا ہے کہ پاک ٹی ہاؤس اب تزئین نو کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ لیکن یہاں اٹھنے بیٹھنے والے انتظار حسین، اے حمید، ناصر کاظمی اور شہزاد احمد وغیرہ کو کہاں سے لائیں گے۔ عرب ہوٹل مولانا چراغ حسن حسرت کی بیٹھک ہوا کرتا تھا۔ لیکن ایسے لوگ دوبارہ نہیں پیدا ہوتے۔ کراچی میں بھی سنا ہے ائرپورٹ کے قریب کوئی کراچی کافی ہاؤس ہوا کرتا تھا (جو تقسیم سے قبل شاید انڈیا کافی ہاؤس تھا اور بعد میں شہر میں زیلن کافی ہاؤس کے نام سے منتقل ہوگیا تھا۔ ) یہاں کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دوست عمر قریشی، جمشید مارکر، عمر کے بھائی ابو قریشی، قرت العین حیدر، ضیاء محی الدین، محمد حسن عسکری جیسے لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ فیض صاحب بھی جب کراچی آتے تو ان کا ٹھکانہ بھی یہی کافی ہاؤس ہوتا۔ اس زمانے میں کافی ہاؤس میں صرف چائے کافی ہی نہیں ہوتی تھی۔ ارباب ذوق کے لئے بادہ ہائے ناب گوارا کا بھی بندوبست ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ شہر میں کیفے فریڈرک، کیفے جارج، شاہجہاں ریستوران جیسے کچھ سستے ریستوران اور کافی ہاؤس وغیرہ تھے جہاں شاعر ، ادیب، دانشور، سیاستدان وغیرہ جمع ہوا کرتے تھے جن میں ابراہیم جلیس، حبیب جالب، حمید کاشمیری، رفیق چوہدری، سلیم احمد، منہاج برنا، علی مختار رضوی اور معراج محمد خان کی قبیل کے لوگ پائے جاتے تھے۔
ان کے علاوہ بڑے لوگوں کے لئے سروسز کلب، سندھ کلب اور کراچی کلب ، کراچی جمخانہ وغیرہ موجود تھے۔ لیکن یہ پیسے والوں کو چونچلے تھے۔ عام آدمی کو نہ تو اس کی ممبر شپ ملتی تھی نہ اس کی اتنی اوقات ہوتی تھی۔ آج بھی یہ کلب موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ ڈیفینس سوسائٹی وغیرہ میں سی ویو کلب قسم کے بہت سارے کلب وجود میں آگئے ہیں جن کی رکنیت کی فیس پندرہ بیس لاکھ ( سالانہ) سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں حاضری دینے والے زیادہ تر حس جمال سے عاری قسم کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد کھانا پینا ( بعض جگہوں پر پینے کا خفیہ، اور کہیں کہیں علانیہ انتظام بھی ہوتا ہے)، سوئمنگ پول، ناچ گانا، کھیل کود وغیرہ ہوتا ہے۔
یا پھر وہ کلب یا جمخانہ ہیں جو مختلف برادریوں کے لئے مخصوص ہیں جیسے آغا خان جیمخانہ، بوہرہ جیمخانہ، ہندو جیمخانہ، مسلم جیمخانہ، کراچی پارسی انسٹی ٹیوٹ، کراچی گوونز ایسوسی ایشن۔ ان کی رکنیت صرف ان کے اپنے لوگوں کے لیے ہے البتہ آمدنی بڑھانے کے لئے یہ کلب دوسروں کو بھی کرایے پر دئے جاتے ہیں۔ میں نے آغا خان جیمخانہ، مسلم جمخانہ، کے جی اے گراؤنڈ میں کرکٹ کے میچز کھیلے ہیں اور کے پی آئی ( پارسی انسٹیٹیوٹ ) میں ہاکی کے میچ کھیلے ہیں۔ یہ سارے کلبز تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ کے پی آئی کے کرکٹ گراؤنڈ میں لٹل ماسٹر حنیف محمد نے ۴۹۹ کا فرسٹ کلاس کرکٹ کا ریکارڈ اسکور بنایا تھا۔ کے جی اے گراؤنڈ میں ۱۹۷۴ میں غالبا” پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس کا حال میں پہلے کہیں لکھ چکا ہوں۔ یہیں میری ملاقات حنیف محمد، مشتاق محمد، اکرام الہی اور محمد مناف کے کوچ ، ماسٹر عزیز، سے ہوئی تھی، مسلم جمخانہ میں ہمارے کالج کی پریکٹس ہوا کرتی تھی اور میدان کی دوسری جانب کے نیٹس میں جاوید میانداد کھیلا کرتا تھا جس کے والد اس کلب کے عہدیدار تھے۔ یہ سب کلب اب بھی موجود ہیں لیکن عام لوگوں کے لئے نہیں۔
البتہ شہر میں کچھ خاص مقامات پر کچھ خاص تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں۔ حکیم سعید مرحوم کی زندگی میں “ شام ہمدرد” نہ صرف کراچی بلکہ لاہور، پنڈی، پشاور اور اسلام آباد میں بھی باقاعدگی سے بپا ہوا کرتی تھی۔ جنگ اخبار والے بی “ جنگ فورم” کے زیر اہتمام اسی قسم کی مکالماتی شاموں کا انعقاد کیا کرتے تھے۔
جمیعت الفلاح ( میں شاید اصل نام بھول رہا ہوں ، فریر روڈ کے پاس کہیں یہ ہال ہے) میں ڈاکٹر اسرار احمد اور غلام احمد پرویز کے دروس ہوا کرتے تھے۔
عالمگیر روڈ پر میرے گھر کے قریب رابطہ عالم اسلامی کے زیر انتظام ، رباط العلوم اسلامیہ ، کی لائبریری شاید آج بھی موجود ہے جہاں موتمر عالم اسلامی کے بانی صدر انعام اللہ خان کے علاوہ پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد ، مولانا ظفر احمد انصاری ، خالد اسحاق، اے کے بروہی جیسے اہل علم اور دانشوروں کے دیدار ہوتے تھے۔ یہ لائبریری شاید اب بھی موجود ہے لیکن اس جگہ کی شہرت اب کھانے پینے کے اڈے کی ہوگئی ہے۔ یہاں لوگ دور سے صرف لچھے دار پراٹھے اور نہاری وغیرہ کے لیے آتے ہیں اور نہاری پائے کے شوقین کس قماش اور ذہنی سطح کے لوگ ہوسکتے ہیں ، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
فنون لطیفہ کی سرپرستی کے لئے آرٹس کونسل جیسا ادارہ آج بھی سرگرم ہے۔ یہاں ہر طرح کے اہل فن جمع ہوتے ہیں جن میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے فنکار، قلمکار، شاعر، ادیب ، مصور وغیرہ جمع ہوتے رہتے ہیں اور باقاعدگی سے ادبی اور ثقافتی محفلیں ہوتی رہتی ہیں البتہ مجھے آرٹس کونسل کے الیکشن کی خبریں زیادہ شد و مد سے نظر آتی ہیں۔ اس کے اراکین اس الیکشن میں عام انتخابات سے زیادہ پرجوش اور سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔
“ انجمن سادات امروہہ” ایک نہایت فعال انجمن ہے ( یا ، تھی، مجھے اب کے حالات کا علم نہیں) ۔ اس انجمن کے زیر اہتمام بڑے اعلا پائے کے مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے، شاید اب بھی ہوتے ہیں۔ مشاعروں پر یاد آیا کہ کسٹم کلب میں بڑے شاندار مشاعرے ہوتے تھے لیکن ان مشاعروں کے سامعین کو ٹی وی پر دیکھ کر بہت مایوسی ہوتی تھی۔ اکثریت پتھر جیسا چہرہ بنائے بے حس بیٹھی نظر آتی گویا انہیں یہاں زبردستی لایا گیا ہو۔
ایک اور ادبی انجمن جس کا ذکر اخبارات کے ادبی صفحات میں نجانے کب سے پڑھتے ہیں، “حلقہ ارباب ذوق” ہے۔ اب تو میرے کئی دوست بھی اس کے رکن ہیں لیکن مجھے بذات خود کبھی حلقے کی نشستوں میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا۔ بہت پہلے میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا جو چکوال یا نارووال وغیرہ سے آیا تھا اور جسے “ شیر و شیری” (شعر و شاعری) کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن کرتا پاجامہ اور واسکٹ پہنے کہیں جا رہا تھا۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ “ ہلکا اربابے ذوک” میں آج وہ اپنی شاعری سنائے گا۔
مذاق برطرف ، حلقہ میں سنجیدہ قسم کی ادبی محافل منعقد ہوتی ہیں جس کا اندازہ مجھے ایک ویڈیو دیکھ کر ہوا۔ ایک بڑے سے کمرے میں ایک لمبی سی میز کے اردگرد کوئی آٹھ دس مرد اور دوتین خواتین براجمان تھیں۔ ایک خاتون کوئی افسانہ پڑھ رہی تھیں۔ افسانہ شاید علامتی افسانہ تھا۔ کچھ حضرات اونگھ رہے تھے، ایک صاحب نے ایک طویل جماہی لی۔ ایک صاحب بہت مستعدی سے کچھ نوٹ کررہے تھے۔ افسانہ ختم ہوا تو ان صاحب نے اس پر تنقیدی تبصرہ پیش کیا جسے دوسرے بہت بیزاری اور حیرت سے سن رہے تھے۔ حیران ہونے والوں میں افسانہ نگار خاتون بھی شامل تھیں۔
لیکن بہرحال میں اس قسم کی انجمنوں اور اداروں کے حق میں ہوں۔ کراچی میں ایک ایسی ہی انجمن T2F یعنی The Second Floor ہے۔ میرا بس چلے تو شہر کی ہر پچاس ہزار آبادی میں ایک ایسی انجمن قائم کروں۔ یہ بظاہر ایک کیفے ہے جو شاید ڈیفینس میں کسی عمارت کی دوسری منزل پر واقع ہے۔ یہاں مختلف فنکار جن میں ادیب، شاعر، موسیقار، مصور، سنگتراش اور دانشور وغیرہ جمع ہوتے ہیں۔ مختلف سرگرمیوں پر بات چیت ہوتی ہے۔ ملکی معاملات اور حالات حاضرہ پر مکالمہ ہوتا ہے۔ یہ سوچنے والوں کی انجمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس انجمن کی بانی اور روح رواں ،سبین محمود ،کی سوچ کو کچھ کم ظرف برداشت نہ کرسکے اور اسے خون میں نہلا دیا۔
میرا یقین ہے کہ ایسی انجمنیں ہوں تو قوم میں برداشت ، رواداری اور باہم مکالمے کا ماحول پیدا ہوگا ۔ فی الوقت تو آزادانہ سوچ اور اظہار رائے کا نتیجہ اعلا حلقوں کی مہمان نوازی اور شمالی علاقہ جات کی سیر کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اگر دوسری منزل تک رسائی مشکل نظر آتی ہے تو پاک ٹی ہاؤس جیسے کسی قہوہ خانے یا ڈھابے پر ہی ارباب و احباب ذوق جمع ہوکر بزم آرائی کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ نہاری، پائے، حلیم، بریانی، کڑاہی گوشت، چرغہ، سجی اور کبابوں کے خمار سے باہر آسکیں۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...