ویسے نجم سیٹھی صاحب اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ دیہاتوں میں جھوٹے مقدمات درج کروائے ہی جاتے ہیں، ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن ان کی اردو گرائمر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث فقرہ "ایسا ہوتا رہتا ہے" قصور کے ایک گاؤں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی کے ساتھ جڑ گیا۔ بہت سوں کو جس طرح یہ فقرہ سمجھ آیا ان کو برا لگا لیکن اگر گریبانوں میں جھانکتے ہوئے شرمساری محسوس کرتے ہوئے سوچا جائے تو ہم اگر کہہ نہیں سکتے تو یہ جانتے ضرور ہیں کہ گھٹن والے سماج میں کیا کیا ویسا نہیں ہوتا جس پر کھلے معاشروں نے کڑی قدغنیں عائد کی ہوئی ہیں۔ امریکہ سمیت کئی ملکوں میں جب کوئی "بچہ باز" جیل سے رہا ہوتا ہے تو جس علاقے میں وہ قیام پذیر ہوتا ہے اس علاقے کے تمام باسیوں کو مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے متنبہ کر دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارا حال دیکھیے، ایک چھوٹے سے گاؤں میں گذشتہ کئی برسوں سے یہ سب کچھ ہوتا رہا اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ چلو مان لیتے ہیں کہ بہت زیادہ مبالغہ آرائی برتی گئی ہوگی۔ بچے چاہے چار ہوں یا چار سو، معاملہ معصوم اور کم عمر انسانوں کا ہے۔ مگر ہم کہاں پرواہ کرتے ہیں۔ ہمارے بڑے ایسی ایسی متنوع فحش گالیاں سرعام اپنوں اور دوسروں کے بچوں کے سامنے باآواز بلند بکتے ہیں۔ بچے سنتے ہیں اور گالیاں بکنا سیکھ جاتے ہیں۔ نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ ان میں مضمر اعمال سے متعلق بھی متجسس ہو جاتے ہیں یوں وقت سے پہلے جوان ہو جاتے ہیں۔ اسی قصور کے واقعے میں دیکھ لیں، خبروں کے مطابق زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے بالغ ہو کر خود اس گروہ میں شامل ہو گئے۔
بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کرنا ویسے ہی غیر انسانی ہے اور پھر جنسی زیادتی تو اس قدر افسوسناک فعل ہے جو بچوں کے کچے اذہان پر ہیبت ناک نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ ایسے بچے بہت زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جی ہاں پاکستان میں یہ سب کچھ واقعی "ہوتا رہتا ہے"۔ کبھی عزت کا معاملہ سامنے رکھ کر، کبھی بری بات سمجھ کر، کبھی بچوں کو ناقابل یقین سمجھ کر معاملات ٹھپ دیے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ اس قسم کی حرکتیں، چاہے وہ ابتدائی سطح کی ہوں چاہے انتہائی سطح کی، ماہرین نفسیات کے مطابق وہ لوگ کرتے ہیں جن میں نہ جرات ہوتی ہے نہ خود اعتمادی اور جو اپنی تسکین کی خاطر اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے لیے رجوع نہیں کر سکتے۔ یہ بات ان معاشروں میں تو بالکل درست ہے جہاں جنس کے معاملے کو فطری خواہش سمجھا جاتا ہے لیکن ان معاشروں میں جہاں جنس اور جنسی عمل کو "گناہ اور بری بات" سے مملو کیا جاتا ہو، وہاں جسم میں ہارمونوں کے طوفان پر بندھن نہیں باندھے جا سکتے۔
خیر ہم جنسی نفسیاتی اعمال پر بات نہیں کر رہے بلکہ بات کر رہے ہیں سماجی گراوٹ کے اسباب جاننے کی۔ اسی واقعے کو لیں۔ رپورٹوں کے مطابق اس میں بنیادی مقصد بچوں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ ان کے ساتھ زیادتی کی وڈیو بنا کر انہیں اور ان کے بڑوں کو بلیک میل کر کے رقوم اینٹھنا بڑا مقصد تھا۔ چنانچہ سماجی گراوٹ کا پہلا سبب تو معیشت رہا جی نہیں میں غلط کہہ گیا معیشت میں عدم توازن رہا۔ جب معیشت میں توازن نہیں رہتا تو اخلاقی گراوٹ زور پکڑنے لگتی ہے۔ چوری ہو یا غبن، ڈاکہ ہو یا رشوت ستانی، دھوکہ دہی ہو یا بلیک میلنگ، دہشت گردی ہو یا سرعام لوٹنا یہ سب پیسہ کمانے کے لیے کیے جانے لگتے ہیں۔ اوپر سے معاشی عدم توازن والے ملک میں صارفین کے سماج کا پرچار، اس طرح ہر شخص کو نت نئے گیجٹس اور دیگر سہولتیں پانے کی خواہش آ گھیرتی ہے، جن کے حصول کی خاطر وہ ہر طرح سے پیسہ بنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔
اخلاقی گراوٹ کی دوسری وجہ گھٹن والا سماج ہے۔ ایسے سماج میں دراصل سوچ کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ درست ہے کہ ہر خطے کی اپنی روایات ہوتی ہیں مگر روایات کو بعض اوقات یک لخت اور اکثر اوقات بتدریج تبدیل بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے معاشروں میں کوئی نوجوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی اپنے جنس مخالف کے دوست یا سہیلی کے ساتھ اپنے گھر نہیں آ سکتا، کچھ تعلیم یافتہ گھروں میں اگراس کی اجازت ہے بھی تو وہ ایک کمرے میں تنہا نہیں ہو سکتے۔ وجہ وہی جنسی عمل میں ملوث ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب بھائی کی شادی ہوتی ہے تو کنواری بہنیں، قہقہے لگاتے ہوئے رات کو بھائی کو دلہن والے کمرے میں دھکیل رہی ہوتی ہیں، چند ماہ بعد بیٹی یا بہن اتنا بڑا پیٹ لے کر میکے اتی ہے تب بھی کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی۔
سماجی گراوٹ کی تیسری وجہ شعور کی سطح کا پائیں ہونا ہے۔ کتابیں تو ویسے بھی ڈیجیٹل دنیا بن جانے کے سبب دور ہو چکی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے جیسے معاشروں میں مطالعے کی سطح بہت پائیں ہے۔ علم سے لوگوں کو کچھ تو خدا واسطے کا بیر ہے اور کچھ بنیاد پرستی نے انہیں ماسوائے مذہبی لٹریچر اور وہ بھی اپنے اپنے مسلک کا، اشتعال انگیز اور تنفّر خیز، کی جانب راغب کرکے انسان دوستی اور تمدن و تہزیب سے وابستہ لٹریچر سے دور کر دیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ مذہبی لٹریچر پڑھ کر بھی وہ مثبت کی بجائے منفی اعمال کی جانب راغب ہوتے ہیں۔
اخلاقی گراوٹوں پر قابو پانے کے لیے معاشی خلیج کو پاٹنا ہوگا۔ تعلیم کو عام اور عمومی علم کے حصول کا ذریعہ بنانا ہوگا اور لوگوں کے شعور کی سطح کو بلند کرنے کی خاطر میڈیا میں ٹاک شوز کی نوعیت بدلنی ہوگی۔ ان شوز کو سیاسی کی بجائے سماجی بنانا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سمجھ لیجیے کہ ہم آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1195823060443802&id=100000483586264
“