سماجی ڈائیلاگ کی انتھک وکیل سبین محمود
گزشتہ روز 24 اپریل کا دن تھا،یعنی عظیم سماجی کارکن اور سماجی ڈائیلاگ کی انتھک وکیل سبین محمود کی تیسری برسی تھی ۔۔۔چوبیس اپریل دو ہزار پندرہ کو کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز ٹو میں نامعلوم موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے سبین محمود کی گاڑی پر فائرنگ کردی تھی جس سے سماجی کارکن سبین محمود شہید اور ان کی والدہ زخمی ہوگئی تھیں، سبین کو وحشی دہشت گردوں نے پانچ گولیاں ماری تھیں۔سبین محمود روشنیوں کے شہر کراچی میں سول سوسائٹی کی ایک اہم کارکن کے طور پر جانی جاتی تھیں ،جو ڈیفنس کے علاقے میں ‘دی سیکنڈ فلور’ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم چلاتی تھی ۔۔۔کراچی میں کئی برسوں سے آرٹس اور فن کے پروگراموں کیلئے سرگرم تنظِم 'دی سیکنڈ فلور' نامی تنظیم سبین کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔۔۔اب بھی یہاں سینکڑوں کی تعدادمیں خوبصورت انسان آتے ہیں ،ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں ،قوالیاں سنتے ہیں ،اور سبین کے فیض سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔۔خوبصورت لڑکی سبین محمود پنک فلاورز کی عاشق تھی اور قوالی کی دیوانی تھی،
اس لئے ہفتے میں دو روز ہمیشہ دی سیکینڈ فلور پر قوالی کی مجلش ہوتی اور چاروں اطراف پنک فلاورز اپنی دلکشی پھیلا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیتے ۔۔۔ایک ایسی سماجی رہنما جو قوالی اور پھولوں کی دیوانی تھی ،اس قدر بہادر تھی کہ جہاں بھی اقلیتیوں کے ساتھ بے انصافی دیکھتی ،وہاں مظبوط اور طاقتور ارادے کے ساتھ پہنچ جاتی اور احتجاج کرتی ۔۔۔خوبصورت اور حسین سبین محمود کا خوف کے بارے میں ایک جملہ ہے جو میں آپ کو سنا دیتا ہوں ،وہ کہتی ہیں کہ خوف انسان کے دماغ میں لکیر کی طرح ہے ،یہ فیصلہ انسان کو کرنا ہے کہ اسے لکیر کے کس طرف کھڑا ہونا چاہیئے ۔۔۔سبین محمود دو ہزار چودہ میں لال مسجد کے سامنے سول سوسائیٹی کے ساتھ صف اول میں کھڑی تھی اور یہ سوال کررہی تھی کہ یہاں سے دہشت گردی کی حمایت کیوں کی جارہی ہے ؟وہ ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ دنیا کے تمام مسائل گفتگو اور ڈائیلاگ سے حل کئے جاسکتے ہیں ۔۔۔وہ کہتی تھی کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں گفتگو سے لڑنی چاہیئے جو جنگ گفتگو اور ڈائیلاگ سے لڑی جاتی ہے ،اس سے انسان اور انسانیت تباہ و برباد نہیں ہوتے بلکہ مزید ترقی کرتے ہیں ۔۔۔وہ شعور پھیلا رہی تھی ،وہ آگہی اور ڈائیلا گ کا مشن لیکر آگے بڑھ رہی تھی ۔وہ انسانیت کے درمیان ڈائیلاگ کی سب سے بڑی وکیل تھی ،وہ کہتی تھی کہ ڈائیلاگ سے ہمیشہ مثبت چیزیں بر آمد ہوتی ہیں ،یہی اس کا خواب تھا ،اور شاید اسی خواب کی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا ۔۔۔وہ ایسا پنک فلاور تھی جسے پودے سے الگ کرکے مسل دیا گیا ،لیکن ظالموں کو کیا معلوم ایسے لاکھوں پھول کاٹ بھی دیئے جائیں تو پھر بھی بہار کو نہیں روکا جاسکتا ۔۔عظیم فلاسفر پابلو نیروڈا کا ایک قول ہے کہ ،“You can cut all the flowers but you cannot keep Spring from coming.”ہمارے جون ایلیا سبین کے بارے میں کچھ یوں کہہ گئے کہ
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پہ اس کا جانے کیا نئیں
بچھڑ کے جان تیرے آستاں سے
لگایا جی بہت پر جی لگا نئیں
جدائی اپنی بے روداد سی تھی
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں
سبین محمود کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ دی سیکنڈ فلور میں گمشدہ بلوچ افراد کے عنوان سے ایک سیمینار ختم کرکے گھر واپس آ رہی تھیں۔۔۔۔دی سیکنڈ فلور کراچی کے عام شہریوں کیلئے ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سماجی عنوان سے متعلق پروگرام منعقد کئےجاتے ہیں اور ان پروگراموں میں ہر کسی کو اپنی رائے پیش کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔کراچی میں کئی برسوں سے آرٹس اور فن کے پروگراموں کیلئے سرگرم تنظِم 'دی سیکنڈ فلور' کا نام دنیا بھر کی ان غیرسرکاری تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، جسے کئی مرتبہ عالمی ایوارڈ کیلئے نامزد کیا جاچکا ہے ۔دی سیکنڈ فلور شہر میں ثقافت کو فروغ دینے کیلئے کام کر رہا ہے جہاں فن، ادب موسیقی گو کہ شہر کی ثقافت اور معاشرے سے جڑے مختلف عنوانات پر پروگرام اور بحث و مباحثے منعقد کئےجاتے ہیں۔فن ،ادب ،موسیقی اور بحث و مباحثے کے میلے ٹھیلے سجا کر وہ نئی سوچ ،شعور اور آگہی کا مشن لیکر سفر کی جانب گامزن تھی کہ ظالموں نے انہیں قتل کردیا ۔۔۔۔قتل تو اس نے اس بدبودار معاشرے میں ہونا ہی تھا کیوںکہ وہ سوال کررہی تھی اور جواب کہیں سے نہیں آرہا تھا ،پھر درندوں نے گولی سے جواب دیا ۔۔۔۔۔پنک فلاور کا قتل کرکے انہوں نے سمجھا اب یہ کبھی اس زمین پر نظر نہیں آئیں گے ،لیکن یہاں تو اب بھی کڑوروں پنک فلاورز ہیں ،ظالمو کتنے پھولوں کا قتل کرو گے ،کیا پھولوں کو خوشبو پھیلانے سے آج تک کوئی روک سکا ہے ۔۔۔سنا ہے ہر روز جنت کی کسی کھڑکی میں بیٹھ کر سبین محمود اس ملک میں سجے پھولوں کو دیکھتی ہے اور مسکراتی رہتی ہے ۔۔۔سنا ہے جنت میں اس کا گھر گلابی ہیروں اور پھولوں سے سجایا گیا ہے جہاں وہ حسین انسانوں کے ساتھ بیٹھ کر نصرت فتح علی خان کی قوالیان سنتی ہے۔۔۔۔سنا ہے منٹو صاحب کے ساتھ اس کی گفتگو اور ڈائیلاگ ہوتا ہے ،سنا ہے وہ وہاں بھی فیض صاحب کے ساتھ ملکر فیض میلہ سجاتی ہے۔۔۔۔وہ مہکتا گلاب تھی ،وہ چہکتی بلبل کی مانند تھی ،وہ اس حسین زمین کی خوبصورتی اور افسانوی خیال تھی ،سنا ہے جنت میں جاکر وہ اسی خوبصورت محفلیں سجا رہی ہیں کہ جس سے جنتی انسان بہت خوش ہوتے ہیں ۔۔۔۔وہ زمین پر بھی خوشی ،محبت اور امن کی سفیر تھی اور جنت میں بھی خوشیوں اور محبتوں کے میلے سجائے ہوئے ہے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔