سماج یا معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں۔ معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ لازم نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو۔ انسانی سماج ریاست،آئین،حکومت کی تشکیل کرتا ہے جس میں ارتقائی عمل جاری رہتا ہے آئین سماج اور ریاست کے درمیان ایک قانونی معاہدہ ہوتا ہے جس کی محافظ عوام ہوتی ہے کوئی بھی سماج باہمی طبقاتی، نظریاتی تضادات کے تصفیہ کیلیے ریاست کا قیام کرتا ہے کسی بھی ریاست کی نمائندگی وہاں کی حکومت کرتی ہے حکومتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں مثلاً شخصی حکومت،اشتراکی حکومت،اشرافی حکومت،وفاقی حکومت،جمہوری حکومت وغیرہ
جمہوری طرز حکومت میں گورنمنٹ بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے جو پارلیمنٹ،ایگزیٹو اور عدلیہ ہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاتی ہے عدلیہ قوانین کا معیار سماج کی ضرورت اور آئین کے تناظر میں چیک کرتی ہے اور اگر قانون میں ابہام ہو تو واپس پارلیمنٹ میں بحث کیلیے بھیج سکتی ہے ایگزیٹو ان منظور شدہ قوانین کا بہتر حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے عوامی فلاح کیلیے بیروکریسی کے ذریعے اطلاق کرتے ہیں مندرجہ بالا ادارے جب ادارہ جاتی قوانین کے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے باہمی اشتراک سے عوامل سرانجام دیتے ہیں تو اس کو یکجاء طور پر گورئنس کہتے ہیں گڈ گورنس عوامی فلاح کیلیے بہتر ہوتی ہے جبکہ بیڈ گورنس سے عوامی استحصال ہوتا ہے بہتر سے بہتر منصوبے اور پروگرام غیر فائدہ مند ہوسکتے ہیں جب تک کہ ایک اچھی تربیت یافتہ ایڈمینسٹریٹیو ٹیم نہ ہو یعنی گڈ گورنس اور بیڈ گورنس کا دورومدار بیروکریٹک (انتظامی ٹیم )کی کارکردگی پر ہوتا ہے
انگریزی لفظ بیورو کریسی دراصل فرانسیسی زبان سے مستعار لیا گیا ہے بیورو کریسی دو لفظوں بیورو اور کریسی کا مجموعہ ہے۔ بیورو سے مُراد دفتر اور کریسی سے مُراد نظام ہے جبکہ بیورو کریٹ سے مُراد دفتری سربراہ ہوتاہے پاکستانی بیروکریسی کی جڑیں انگریز سامراج دور میں ملتی ہیں جب انگریز حکمرانوں نے مقامی آبادی کو زیر نگیں رکھنے کیلیے سئول سروس کا آغاز کیا اس بیروکریسی نے مقامی لوگوں کو کیرٹ اینڈ سٹیک سے کنٹرول کیا کیوں کہ یہ سئول بیروکریٹس براہ راست تاج برطانیہ کے ملازم تھے مقامی آبادی میں رعب دبدبہ قائم رکھنے کیلیے انھیں بڑے بڑے بنگلے اور بے پناہ اختیارات سے نوازہ گیا کالونیل سئول بیروکریسی کا مزاج عوام کو انتظامی طور پر کنٹرول کرنا تھا ناکہ جمہوری نمائندوں کے ساتھ مل کر گورنس کرنا جس کی وجہ سے بیروکریسی اور عوام میں دوری پیدا ہوتی گئی جبکہ مقامی آبادی کی بغاوت اور بدامنی کنٹرول کرنے کیلیے فوج کی ضرورت رہتی تھی جس کی وجہ سے سئول بیروکریسی اور ملٹری بیروکریسی میں ایک قدرتی اتحاد قائم ہوگیا تقسیم ہند کے بعد اس مائینڈ سیٹ کے ساتھ سئول بیروکریسی نے پاکستان میں کام آغاز کیا تو اس کا واسطہ بہترین انتظامی امور کے ماہر انگریز کے بجائے نا تجربہ کار مقامی سیاستدان پڑا جن کی کمزوریوں کا فائدہ ان شاطر موقع شناس سئول بیروکریٹس نے اُٹھایا اور اقتدار پر قابض ہوگئے لیکن یہ قبضہ زیادہ دیر قائم نہی رہ سکا کیونکہ اقتدار کی طاقت کا سرچشمہ عوام کے بجائےفوجی بیروکریسی تھی اور وہ خود ہوس اقتدار میں مبتلا تھے فوج اقتدار پر قابض ہوگئ
پاکستان کا سماج بنیادی طور فیوڈل رویہ رکھتا ہے پاکستان کے دو صوبوں کا نظام قبائلی نسل پرستی پر مبنی ہے جبکہ باقی دو کا سماجی ڈھانچہ زمینداری اور جاگیردارنہ ہے معاشی طور پر کچھ علاقے انڈسٹرلائز ہو بھی گئے ہوں، تب بھی ذہنی پسماندگی اُسی سطح پر ہےکوئی ایسی تحریک یہاں نہ چل سکی جو اس جمود کو توڑ سکتی بلکہ سامراجی کالونیل ازم نے اور اس کے بعد کی طاقتوں نے اس ذہنی سوچ کو مزید تقویت دی جاگیردارانہ سماج کی سیاست ہمیشہ اشرافیت اور بادشاہت کی طرف مائل ہوتی ہے جس کی وجہ سے کچھ مفاد پرست خاندان اقتدار سے چمٹ گئے اور اقتدار کی تبدیلی انھی کے بھائی بندوں کے درمیان منتقلی کا نام قرار پائی پاکستانی سماج میں یہ آمرانہ رویے خاندانی سطح تک رائج ہیں ایک خاندان میں مرد ابھی بھی مطلق عنان ہے اسی طرح مساجد میں مولوی اور اسکولز میں اساتذہ آمرانہ رویہ رکھتے ہیں جب تک انفرادی اور خاندانی سطح پر جمہوری رویے قائم نہی ہوں گے سماج میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہی مزید براں پاکستان میں منتخب شدہ جمہوری نمائندوں کی ایڈمینسٹریٹیو بیروکریسی سے مل کر گورنس کے نظام کو ملٹری سئول بیروکریسی کے ایڈمینسٹریٹیو ماڈل میں تبدیل کیا جارہا ہے جس کے لیے مملکت کے سئول محکموں کو فوجی سربراہوں کے سپرد کیا جارہا ہے تاکہ یہ محکمے انتظامی طور پر بہتر ہوجائیں