بھائی وستی رام کی سمادھ شاہی قلعہ لاہور کی بیرونی دیوار کے ساتھ واقعہ ہے. موجودہ دور میں گریٹر اقبال پارک کی پارکنگ میں حیدر سائیں کے دربار کے قریب یہ سمادھ واقع ہے.
بھائی وستی رام ١٧۰۸ء میں پیدا ہوے. وستی رام کے خاندان کا مفصل حال سر لپل ہنری گریفن نے چیف آف پنجاب میں درج کیا ہے. سر گریفن لکھتے ہیں ” اس خاندان میں پہلا شخص جس نے بھائی کا خطاب حاصل کیا، سری گورو گوبند سنگھ جی کا ایک چیلا مسمی بلاقا سنگھ تھا…… اس کے تین لڑکے امولک رام‘ سہائی رام اور بستی رام ہوئے. بستی رام نے اوائل عمر ہی سے اپنے آپ کو علم طب کے مطالعہ کے لئے وقف کر دیا اور جلد ہی کچھ طبی قابلیت اور کچھ اپنی پاک بازی کی وجہ سے مشہور ہو گیا….. رنجیت سنگھ جس نے بھائی کی وفات کے تین سال پہلے یعنی ١۸۰۲ء میں شہر فتح کیا تھا اس کی بڑی عزت کرتا تھا.” جبکہ کہنیالال ہندی نے آپ کے خاندان کا تعارف بہ عنوان روساے لاہور ان الفاظ میں کروایا ہے ” خاندان بھائی صاحبان : یہ خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت سے معزز چلا آتا ہے.
مورث اعلیٰ اس کا بھائی بلاقا سنگھ تھا جس نے گرو گوبند سنگھ کے ہاتھ سے پاہسل لی. اس کے تین بیٹے تھے…. یہ تینوں خدا پرست‘ عابد و زاہد تھے۔ پھر بستی رام کے دو بیٹے بھائی ہرنام و بھائی ہربھج رائے ہوئے.” اور سمادھ کے تذکرے میں بھائی وستی رام کے متعلق لکھا ہے ” بھائی وستی رام ایک نامی گرامی گرنتھ خوان خدا پرست عابد و زاہد شحص تھا. مہارجہ رنجیت سنگھ اس کو اپنا گرو کہتے تھے اور بہت ادب کرتے تھے. لاکھوں روپے نقد نذر کرتے تھے. جاگیریں اور روزینے مقرر تھے ہر ایک امیر و مشیر سے اس کا رتبہ ازروے خدا پرستی کے زیادہ تصور کیا جاتا ہے.” کرپال سنگھ نے بھائی وستی رام پر ایک مختصر سوانحی کتاب بھی تحریر کی ہے جس میں انکی روحانی زندگی کی تفصیل ملتی ہے مثلاً آپ بچپن سے ہی مراقبہ کرتے تھے اور آپ ذات پات کے بہت خلاف تھے. لوگوں کا مفت علاج کرتے اور چاہنے والے جو کچھ آپکی خدمت میں پیش کرتے آپ اسے فوراً تقسیم کر دیتے. سکھ انسائیکلوپیڈیا کے مرتب ہربنس سنگھ کا کہنا ہے ” بہت سے قابل ذکر سکھ روساء آپ کے پاس آتے تھے جیسا کہ جسا سنگھ, بھنگی سردار, لہنا سنگھ, گجر سنگھ, گنڈا سنگھ, جھنڈا سنگھ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ خود آپ کا معتقد تھا بلکہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جنگ بھاسن میں فتح وستی رام کی برکت سے ہوئی.”
رنجیت سنگھ کے وقائع نگار سوہن لال سوری کے بقول ” بھائی وستی رام کی غرباء کے لیے خدمات, عوام میں انکی شہرت اور انکی روحانی قوتوں پر ایک پوری جلد تحریر کی جاسکتی ہے.” آپ کی روحانی طاقتوں کے متعلق بہت سے قصے معروف ہیں. جیسا کہ گریفن لکھتے ہیں ” مشہور تھا کہ اس کی پیشن گوئیاں ہمیشہ پوری اور دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور اس کے پاس ایک کیسہ اس طرح کا تھا کہ خود بخود بھر جاتا تھا.” اسی طرح کرنل بھولا ناتھ نے تحریر کیا ہے ” مہاراجہ رنجیت سنگھ دے ویلے لہور دے قلعے ہیٹھاں ہاتھی ڈبدا سی. ہر ویلے ڈر لگا رہندا سی جو قلعہ ہن رُڑھیا کہ رُڑھیا. کہندے نیں جو قلعہ دے بچاون دی خاطر بھگت وستی رام نے دریا دے کنڈے اتے قلعے دے ہیٹھاں ڈیرے لاے. بھگت ہوراں دے ڈر دا مارا دریا پچھانہہ ہٹ گیا.” آپ کی کرامات سے متعلق لاہور گزٹئیر ١۹٤٧ء کے مرتبین اور گریفن کا بھی کہنا ہے کہ ان میں آپ کی علوم طبیعات سے واقفیت کا بہت عمل دخل تھا.
بھائی وستی رام کی وفات ١۸۰۲ء میں ہوئی بعض نے سن وفات ١۸۰٣ء بھی لکھا ہے. کہنیالال نے آپ کی سمادھ کا تذکرہ یوں کیا ہے ” جب وہ فوت ہوا تو اسی جگہ جلایا گیا جہاں اس کی سمادھ ہے یہ عالی شان مکان قلعہ لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ ملا ہوا ہے اور عمارت سنگ مرمر کی ہے. مکان کا بیرونی دروازہ بہ جانب شمال ہے. جب اس سے اندر جائیں تو ایک وسیع میدان آتا ہے. اس کے وسط میں سمادھ خاص مکان بنا ہوا ہے. خاص سمادھ کے مکان کا دروازہ بجانب شمال کے رکھا گیا ہے اور دروازے کے آگے چبوترے کے نیچے مکان حوض کے طور پر بنا کر اس میں فوارے لگائے گئے ہیں. باہر کی دیواروں کی عمارت سب سنگ مرمر کی ہے جس پر طرح طرح کے بیل بیوٹے بنے ہوئے ہیں. اندر سے مکان کی صورت‘ دربار امرتسر کی صورت پر بنی ہے. چار درجے چار اطراف میں بانٹے گئے ہیں جن کو دو منزلہ کیا گیا ہے اور اوپر کی منزل پر چاروں طرف چارنشست گاہیں سنگین ستون کی تین تین در والی بنائی گئی ہیں. دہن سب کے مرغولی ہیں. نیچے اور اوپر کی چھتیں ان کی بھی محرابی قالبوتی نہایت عمدہ منقش بہ نقوش طلا بنی ہیں. وسط کا درجہ بلند ہے. اس پر قالبوتی سقف خوش نما ہے. اسی درجے میں بھائی وستی رام کی سمادھ سنگین و منقش چبوترے پر ہے. اس چبوترے و سمادہ پر سنگ مرمر کے اندر قیمتی پتھروں کے بیل بوٹے ایسی خوبصورتی کے ساتھ بنائے گئے ہیں کہ جس کو دیکھنے سے روح کو راحت نصیب ہوتی ہے. مکان اندر باہر سے سنگ مرمر کا نہایت مقطع و خوبصورت بنا ہے جس کی تیاری میں بے شمار روپیہ صرف کیا گیا ہے. اس کے علاوہ دواور سمادھیں گنبد دار سنگ مرمر کی ہیں. یہ عورتوں کی سمادھیں ہیں. ان میں سے جو سمادھ بھائی وستی رام کی والدہ کی ہے وہ تمام سرتا پا سنگ مرمر کی ہے اور سمادھیں پختہ چونہ گچ بھی ہیں. سمادھ کلاں سے بہ جانب مشرق ایک مکان بارہ دری پختہ و مکلف بنا ہے اور گوشۂ ککنی میں چاہ ہے. چبوترے سے الگ ایک خورد چبوترہ ہے جس پر جھنڈا نصب ہے اور جنوب کی طرف محاذ بڑی سمادھ کے ایک نشست گاہ مکلف بنی ہے. اس احاطہ میں چند درخت بھی آم وغیرہ کے ہیں. ایک باغ بھی دیوار بہ ودیوار احاطہ میں سمادھ کے ہے جو اس سمادھ کے متعلق ہے.” سید لطیف نے سمادھ کا ذکر یوں کیا ہے ” یہ سمادھ فن تعمیر کا ایک انتہائی خوبصورت و یادگار نمونہ ہے. اس سے ملحقہ بیشمار ایوان اور کمرے بلکل صحیح اور عمدہ حالت میں ہیں.” ندھرا شہباز نعیم صاحبہ نے رنجیت سنگھ کی سمادھی پر اپنے مقالے میں بھائی وستی رام کی سمادھ کے طرز تعمیر پر کافی بحث کی ہے. اس دو منزلہ سمادھ کو حال ہی میں محکمہ آثار قدیمہ نے بحال کیا ہے. اب سمادھ کے ساتھ موجود دیگر عمارات تو موجود نہیں مگر بحالی کے دوران ملبے تلے سے آبشاریں, تالاب اور فورے دریافت ہوے. یہ سمادھ بلند کرسی پر تعمیر کی گئی ہے. اس سمادھ کو پہلے انگریز دور میں نقصان پہنچا پھر سانحہ بابری مسجد کے ردعمل میں سمادھ کو نقصان پہنچایا گیا اور سمادھ پر توجہ نہ دینے کے باعث اسکی حالت ابتر ہوگئی. سمادھ کے اندر خوبصورت کاشی کاری کا کام موجود ہے اور سونے کا پانی بھی استعمال کیا گیا تھا خوبصورت نقش ونگار میں قیمتی پتھر بھی موجود تھے. سمادھ کی بحالی میں لاہور ہیرٹیج کلب اور لاہور شناسائی فاونڈیشن نے کلیدی کردار ادا کیا. خیر اب سمادھی بحال ہوچکی ہے اور بحالی کا کام بھی خاصا اچھا ہوا ہے. اگر ہم فیضان نقوی صاحب کی ۲۰١١ء میں سمادھ کی حالت زار بنائی گی ویڈیو دیکھیں اور پھر ۲۰١۸ء میں جاکر سمادھ کی زیارت کریں تو یقین نہیں آتا کہ یہ وہی عمارت ہے. سمادھ پر پہنچے تو دروازہ بند پایا مجبوراً پھلانگ کر ہی اندر جانا پڑا. وہاں موجود انتظامیہ میں سے کوئی اس سمادھ کی تاریخی اہمیت سے واقف نہیں اور معلوماتی بورڈ بھی ناپید ہیں. یہاں معلوماتی بورڈ لگانے چاہیں اور اسکو سیاح حضرات کے لیے کھولنا چاہیے تاکہ یہ جگہ آباد رہے اور ساتھ ہی نوجوان نسل تاریخی ورثے سے روشناس ہو تاکہ آئندہ یہ جگہ ویران نہ ہو اور نوجوانوں میں تاریخ کا شوق پیدا ہو.