(Last Updated On: )
سلمیٰ صنم بھارت کی معروف افسانہ نگار ہیں جن کا اصل نام سیدہ سلمیٰ بانو ہے ۔ سلمیٰ صنم نے لکھنے کی ابتدا نوے کی دہائی میں کی اور ان کی پہلی تحریر روزنامہ ’’ سالار ‘‘ بنگلور میں بعنوان’’ گردش ‘‘ شایع ہوئی ۔سلمیٰ صنم کا تعلق بنگلور سے ہے ان کی تصانیف میں ’’ طور پر گیا ہوا شخص ‘‘ ’’ پت جھڑ کے لوگ ‘‘ اور ’’پانچویں سمت‘‘شامل ہیں۔ سلمیٰ صنم کے افسانے گہرے سماجی شعور اور حقائق کی ترجمان ہیں اور ان بے مثال افسانوں کے تراجم پنجابی اورمراٹھی زبانوں میں ہو چکے ہیں ،جب کہ انھیں اپنی شاندار تخلیقی صلاحیتوں پر کئی انعامات و اعزازبھی مل چکے ہیں ۔
’’ قطار میں کھڑے چہرے ‘‘ ان کے مختلف مجموعوں سے کیے گئے افسانوں کے انتخاب کا مجموعہ ہے جسے پاکستان میں دستاویز مطبوعات نے شایع کیا ہے ۔سلمیٰ کا کا ٹ دار قلم سماجی تلخیوں کا آئینہ دار ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریر میں بھارتی تہذیب اور معاشرت کا عکس بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر امجد طفیل:
’’ سلمیٰ صنم نے اپنے افسانوں میں بھارت کی معاشرتی ،تہذیبی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے اس خطے کی روایتی طرز ِ زندگی کی جھلک بھی ہے اور معاشرتی معاملات میں در آنے والی تبدیلیاں بھی اپنی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں ۔ ‘‘
میرے نزدیک سلمیٰ صنم نے افسانوں میں تشبیہ واستعارات کے ذریعے حقائق کو تلخ کر کے پیش کیا ہے ۔ان کا مطالعہ وسیع ہے اور زبان و بیان کے حوالے سے بھی ان کی تحر یر میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔ البتہ اگر ان افسانوی کردار وں کو دیکھا جائے تو وہ ہمیں قدرے غیر مانوس دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ مصنفہ کا بھارتی معاشرے میں قیام پذیر ہونا ہی کہا جا سکتا ہے ۔ بقول نور الحسین :
’’ سلمیٰ صنم اپنے افسانوں میں نہایت خوب صورت اور عمدہ زبان استعمال کرتی ہیں باوجود اس کے کہ وہ کرداروں کو ان کے ماحول اور معیار کے مطابق مکالموں سے سجاتی ہیں ۔ان کے افسانوں میں جگہ جگہ عمدہ تشبیہات کا بھی استعمال نظر آتا ہے ۔
سلمیٰ صنم کے ان افسانوں کے انتخاب ’’ قطارمیں کھڑے چہرے ‘‘ میں بہت سی انسانی المیوں ، مایوسیوں ، تفکرات اورمسائل کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ کہیں کہیں بات کھل کر واضع طور پر بھی کی گئی ہے ۔ لیکن زیادہ تحریروں میں الجھاؤ رکھا گیا ہے کہ یہی اسلوب علامتی تحریروں کا خاصا ہے ۔ سلمیٰ صنم کی تحریر یں جاندار اور پلاٹ مضبوط ہوتا ہے ۔ ان کا کاٹ دار اسلوب پڑھنے والے کو فوری طور پر متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے فکر کی اونچی اڑان تک سفر کرنا پڑتا ہے ۔ سلمیٰ صنم ہر لفظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں اسی لیے ان کے افسانوں کی سطر سطر کسی شاعری کی طرح جادو گری کرتی نظر آتی ہیں اور ان کی تحریر کا سحر مکمل طور پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ آئیے ا کے افسانوں میں سے چند سطور کا مطالعہ کر لیتے ہیں ۔
٭ ’’ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور ثمین کے اندر چیختے سناٹے باہر آنے لیے مچلنے لگے ‘‘ (آرگن بازار)
٭ ’’ فلک پر پورا چاند اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت مسکرا رہا تھامگر وہ تو اندھیروں میں محصور تھی‘‘ ( قطار میں کھڑے چہرے)
٭ ’’ نارسائی کے دکھوں کا نشتر کچھ اس قدر تیز تھا کہ وہ اس کے رگ و پے میں کہیں دور تک بہت گہرا اتر گیا ، چاروں دشائیں چپ سی خاموش رجنی کو لگا وہ ختم ہو چکی ہے مر چکی ہے ۔ ( پانچویں سمت)
٭ ’’ اُف ـ!! یہ رُوح فرسا تغیر ، حوصلہ شکن انقلاب ۔۔۔۔ وقت کی یہ المناک کروٹ آفتاب خاں کو لگا جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا آیا ہو اور ساری کائنات زیر و زبر ہو گئی ہو ۔ وہ خود کو کہاں چھپاتے کیا کرتے۔ ( سورج کی موت)
٭ ’’جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کبھی کبھی یہ زندگی ریاضی کے سوالوں کی طرح بہت الجھی نظر آتی ہے ۔اور مائنس پلس کے چکر میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (مٹھی میں بند چڑیا)
٭ ’’اُف کس بے وفا سے میں نے عمر بھر وفا کی تھی میرا من بہک اٹھا پندار کو زبردست ٹھیس لگی ۔ ان کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہو گیا میرے کون مکاں میں ہلچل مچ گئی‘‘ ( کٹھ پتلی)
٭ ’’ ہم پت جھڑ کے لوگ ہوتے ہی وبالِ جان ہیں کاش یہ پت جھڑ کا موسم آئے ہی نا‘‘ ( پت جھڑ کے لوگ)
٭ ’’ آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہِ طور پر گیا تھا وہ شخص اور شہر کے نامور پارک میں یکا تنہا بیٹھی اس کی بیوی گمراہ ہورہی تھی ۔‘‘ ( طور پر گیا ہوا شخص)
سلمیٰ صنم کے افسانوں میں بہت سے موضوعات ہیں لیکن زیادہ تر تحریریں عورتوں کے مسائل اور ان سے وابستہ حالات ووواقعات کے گرد گھومتی ہیں ۔ چاہیے وہ ’’طور پر گیا ہوا شخص‘‘ ہو وہ ’’ تھکی ہوئی ناری‘‘ ہو یا ’’تتلی ‘‘ ہو ان سب میں عوتوں کے مسائل پر ہی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ شہاب ظفر اعظمی اسی حقیقت کی طرح اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
’’ سلمیٰ صنم عورتوں کے ساتھ عدم مساوات اور اور جانبدارانہ روّیہ سے دلبرداشتہ ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تانیثی رجحان سے مثاتر ہیں اور مرد اساس معاشرہ سے بغاوت کرتے ہوئے بے باکی اور حوصلہ مندی کو اپنا شعار بنا چکی ہیں عورت کے حقوق منواتے ہوئے ان کے لہجے میں سہمنا کی کے نجائے بلا خوفی ہے ۔ اس لیے انھیں ان مراعات سے کد ہے جن سے رحم کی بُو آتی ہے۔‘‘
لیکن اس حقیقت سے پھر انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سلمیٰ صنم کے تمام افسانے اپنی بنت اور تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ ساتھ بات سے بات نکالنے کی خوبیوں سے بھی آراستہ ہیں ۔ ہر افسانے میں انھوں نے علامتی انداز میں قاری کے لیے ایسی سطریں تخلیق کی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے شاعری کا گمان ہوتا ہے ۔ سلمیٰ صنم نے عورتوں کے مختلف مسائل تو اپنی کھلی اور بند آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے دل کی آواز کو دماغ کی لا متناہی قوت سے قرطاس میں بکھیر دیا ہے ۔ ان افسانوں کے کردار ان کے ارد گرد کے ماحول سے ہی لیے گئے ہیں ان کے افسانوں کا لہجہ اور زبان و بیان اور ذریعہ اظہار خوب صورت ہے ۔’’ قطار میں کھڑے چہرے ‘‘ میں کل بیس افسانے ہیں جو مصنفہ کی تمام کتابوں سے منتخب کیے گئے ہیں ۔اوّل تو ہر افسانہ اپنی جگہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن ان افسانوں میں ’’ آگن بازار ‘‘ ، قطار میں کھڑے چہرے‘‘ ، ’’سورج کی موت‘‘، ’’ مٹھی میں بند چڑیا‘‘ ،’’دوسرے مذہب کا آدمی ‘‘وہ دنیا کہاں ہے ‘‘ اور ’’بھیگے کاغذ میں لپٹے لمحات ‘‘خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔سلمیٰ صنم کا قلم ہمہ وقت نت نئے افسانے تخلیق کرنے میں مصروف ہے ۔ اللہ کرے ان کا یہ سفر تا دیر جاری رہے (آمین) آخر میں مصنفہ کے بارے میں یہ حتمی رائے ملاحظہ فرمائیں۔:
’’ سلمیٰ صنم نے عورتوں کے حقوق ان پر ہونے والے مظالم ،عورتوں کے مسئل اور ان کی محرومیوں جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں میں اس خوب صورتی سے برتا ہے کہ جن کی بنیاد پر انھیں عوتوں کے حقوق کی علمبردار اور داعی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
محمد عباس
’’بہائو‘‘ میں شاعرانہ وسائل کا استعمال
کہا جاتا ہے کہ نثرشاعری کی برابری نہیں کر سکتی۔ نثرکا اظہار براہِ راست ہوتا ہے اور اس میں پہلو داری اور حسنِ بیان کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ تشبیہ ، استعارہ ، مجاز، کنایہ، تمثال گری، تجسیم اور محاکات وغیرہ سے احتراز برتتی ہے۔شعرو نثر کے تقابلی جائزے میں نثر کو شعری وسائل سے بیگانہ صنف کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے اور اگر کہیں نثر ان شعری وسائل سے استفادہ کر لے تو اس نثر کو مرصع ، مسجع ، مقفّیٰ اور شاعرانہ نثر کہہ کر ادب کے برہمن طعن و تشنیع کرتے ہیں جیسے کسی شودر نے ویدوں کا پنّا چھو لیا ہو۔ یہ عمل نثر کی کمتری ٹھہرتا ہے کہ جس کے پاس تکمیلِ اظہار کے لیے اپنے حربے نہیں اور وہ شاعری سے مستعار لیتی ہے۔ یعنی الزام یہ ہے کہ نثر شاعرانہ وسائل استعمال نہیں کرتی اور اگر بے چاری ان کو برت لے تو اسے نثر کا احساسِ کمتری قراردے دیا جاتا ہے۔ یہ ایک متعصبانہ رویہ ہے۔نثر اور شعر دونوں کی زبان اپنے موضوع کے اظہار کے لیے ایک سی تخلیقی حسیت کی طلبگار ہوتی ہے ۔ اس کے بغیر شاعری محض نعرہ یا فقط موسیقی ہی رہ جائے اور نثر فارمولا بن جائے۔ طنزو مزاح ہو یا سفر نامہ ، خاکہ ہو یا انشائیہ، افسانہ ، ناول ہوں یا داستان سبھی کی نثر جب تک تخلیقی احساس کے ساتھ گتھ کر نہ آئے تب تک اس میں ادبیت کی شان ہی نہیں پیدا ہوتی اور نہ ہی ایسی نثر اہلِ ذوق کی نظر میں بار پا سکتی ہے۔ نثر تب ہی مقبول ہو گی جب وہ موضوع کو بیان کرنے کے لیے تمام ممکنہ تخلیقی وسائل استعمال کرے گی۔ نثر صرف الفاظ کے حسنِ استعمال ، آہنگ، ترنم یا نغمگی وغیرہ سے اپنا سحر نہیں جگا سکتی اور نہ ہی یہاں زبان مقصود بالذات ہوتی ہے۔ نثر کا مقصد زبان دانی کا اظہار نہیں بلکہ کسی چیز کا بیان ہوتا ہے ، اس بیان میں توجہ اس چیز کی کیفیت پر ہوتی ہے۔ وہ کیفیت جس طرح کی زبان کی متقاضی ہوتی ہے، ادیب اسی زبان کو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر ادیب تشبیہ استعارہ استعمال نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ وہاں اس کی ضرورت نہیں، جہاں اس کی ضرورت ہو وہاں ادیب استعمال کر کے منظر یا واقعہ کو ایک تخلیقی حسن دے دیتا ہے۔ خلاق ادیب مثلاً منٹو، بیدی اور غلام عباس وغیرہ تو ایسی نادر تشبیہ لے کے آتے ہیں کہ شعرا کا تخیل بھی بے اختیار داد دے اٹھے۔شاعری اور نثر دونوں کی زبان میں تخلیقی سطح پر کیا رشتہ ہے، اس کے متعلق وارث علوی لکھتے ہیں:
’’نثر نے بدلے ہوے روپ میں ان تمام حربوں کا کامیابی سے استعمال کیا ہے جو شاعری کے تصرف میں تھے اور جو حربے اس کے لیے کارگر ثابت نہ ہو سکتے تھے، انہیں ترک کر کے ان کی جگہ نئے وسائلِ اظہار ایجاد کیے ہیں۔ تخلیقی نثر کا ارتقا چوں کہ شاعری کے سینکڑوں سال بعد ہوا ، اس لیے نثر نے کم و بیش شاعری کے تمام حربے مستعار لیے۔ حد تو یہ ہے کہ مقفّیٰ اور مسجع نثر تک کے تجربات کیے گئے۔ شاعری کے تمام صنائع لفظی اور معنوی کا استعمال کیا گیا۔ ہماری قدیم داستانوں میں تو استعارات کی افراط ہے۔ فارسی اضافتوں کے ساتھ تراکیب اور بندشوں کی بھی افراط ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے بیشتر چیزیں متروک ہوئیں لیکن بہت سی چیزیں رہ گئیں مثلاً تجنیس، استعارہ اور تشبیہ کہ وہ تخلیق اور تخیل دونوں کے تصرف میں تھے اور وہ ناول اور نثری ڈرامے کے اسالیب کے لیے بھی کارآمد تھے۔ جہاں نثر نے شاعری کے بہت سے ہتھکنڈوں کو ترک کیا ، وہاں اپنے بہت سے ہتھکنڈے ایجاد بھی کیے۔ اگر نہ کرتی تو زبان کا تخیلی استعمال کیسے ہوتا۔ ناول اور افسانہ میں زبان کی مختلف سطحیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ کبھی زبان حد درجہ شاعرانہ ہوتی ہے ، کبھی نثری ، کبھی کھردری بنتی ہے، کبھی نازک اور لطیف۔ کبھی زمین کے قریب رہتی ہے ۔ کبھی تخیل کے پر لگا کر اڑتی ہے ، کبھی اس کا رنگ طنزیہ اور مزاحیہ ہوتا ہے ، کبھی غنائی اور کیف آور، افسانوی بیانہ میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ تاریخی ، دستاویزی اور صحافتی سطح سے لے کر فلسفیانہ ، غنائی اور تجریدی سطح کی انتہائی بلندیوں کو چھو سکے۔ ‘‘٭۱
فکشن کی زبان بظاہر سادہ اور بے رنگ نظر آتی ہے مگر اس کی وجہ محض یہی ہے کہ پڑھتے وقت ہماری توجہ اس کی خصوصیات پر نہیں ہوتی بلکہ اس کے موضوع پر ہوتی ہے، اگر ایک دفعہ ناول یا افسانہ پورا پڑھنے کے بعد دوبارہ اسے پڑھا جائے تب معلوم ہوتا ہے کہ زبان کی روشنی کن رنگوں کی آمیزش سے پھوٹ رہی ہے۔ پہلی دفعہ تجسس کے زیرِ اثر پڑھتے گئے اور دیکھا ہی نہیں ،اب بنا تجسس لطف لے کر پڑھتے ہوے اپنا جوبن دکھاتی ہے ۔ جہاں سے راہرو ارد گرد دیکھے بغیر انجام تک پہنچنے کی چٹک میں تیزی سے گزرتا گیا تھا، وہاں اب ایک ایک قدم پر رک کر راستے کے حسن اور زمین کی نرمی کا مزا لیتا ہے۔ کھردری ، بے رنگ نثر ادبی رنگ میں آ کر مجاز کی ایک پوری دھنک قائم کرتی ہے جو قاری کو مبہوت کر دیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی سحر انگیز نثر ’’بہائو‘‘ کی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اس ناول میں زبان کے خلاقانہ استعمال سے قوسِ قزح بنا کر رکھ دی ہے ۔ تشبیہات کی رنگینی بہار کا سماں باندھتی ہے اورتمثالیں حواس کو مسحور کیے دیتی ہیں۔ استعارے اور کنائے کی بدولت زبان ایک ایسی نوخیز دوشیزہ کی مانند معلوم ہوتی ہے جس کی ہر ادا سے جسم و جاں مہکتے جائیں۔ تجسیم اس قدر جاندار ہے کہ بستی کی گلیوں میں زرخیزی اور خوشحالی کی دیویاں فاقوں مرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معانی جامۂ یک رنگ کی بجائے خلعت ہائے ہفت رنگ میں ملبوس ہر آن ایک نئی چھب دکھاتے ہیں۔حقیقت اپنی اصل شکل میں نہیں آتی بلکہ فن کے اندر ڈھل کر مجازی صورت میںزیادہ دلکش اور مزید دلآویز بن کے سامنے آتی ہے۔اس لیے ضرورت ہے کہ ’’بہائو‘‘ کی زبان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے کہ تارڑ صاحب نے اپنی نثر میں شاعرانہ وسائل سے کس قدر کام لیا ہے اور یہ کہ کیا نثر میں شاعری کے ہتھکنڈوں کا استعمال ناول کے مجموعی بیانیے کے ساتھ مل کر آتا ہے یا پھر علیحدہ سے نثر کو سجانے کی شعوری کوشش ہے۔
سب سے پہلے ہم تشبیہ کا جائزہ لیں گے۔ تشبیہ ادبی زبان کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر کوئی مصنف اچھی تشبیہ نہیں دے سکتا تو اس کا اظہار کبھی بے ساختگی نہیں پا سکتابے شک وہ جتنا بڑا دیب ہو۔ اردومیں اس کی سب سے مناسب مثال قرۃ العین حیدر ہے جس کے پاس گھسی پٹی تشبہییں ہیں اور اسی وجہ سے اس کا بیانیہ بہت بیزار کن لگتا ہے۔ تشبیہ مجہول سے معروف کا سفر ہے۔ جو چیز نہیں معلوم، اس کی کیفیت ،مزاج ، ہیئت بتانے کے لیے اُس چیز کے ساتھ مشابہت دینا جو سب کے مشاہدے یا تجربے میں ہو۔تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں جنہیں پہلے دو کے یکجا کرنے سے چار بھی شمار کیا جاتا ہے۔ طرفین تشبیہ، وجہ شبہ، حرفِ تشبیہ، غرضِ تشبیہ۔ البتہ ضروری نہیں کہ کسی جگہ تشبیہ دیتے وقت یہ چاروں رکن استعمال ہوں۔ تشبیہ میں محض پہلا رکن یعنی طرفینِ تشبیہ (مشبہ اور مشبہ بہ)کا ذکر آ جانے سے ہی تشبیہ قائم ہو جاتی ہے۔ زید شیر ہے، محبوب چاند ہے ، عارض پھول ہیں، لب یاقوت ہیںاورزلف ناگن ہے وغیرہ مکمل تشبیہات ہیں۔ ایک اچھی تشبیہ تخلیق کرنے کے لیے اول تو یہ ضروری ہے کہ جس چیز کو تشبیہ دی جائے ، وہ مجہول ہو، لوگ اس کے متعلق جانتے نہ ہوں، یا پھر اس کی صحیح کیفیت سے آگاہ نہ ہوں، یا فن کار سمجھتا ہو کہ بغیر تشبیہ کے اس کی صحیح کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ دوسرے یہ ضروری ہے کہ مشبہ بہ معروف ہو، اس کے متعلق سبھی جانتے ہوں، نام یا ذکر سنتے ہی قاری یا سامع کے تخیل میں اس کی ساری کیفیت آ جائے، یا اگر سبھی لوگ واقف نہ ہوں تب بھی اتنی سہولت ہو کہ مشبہ کی نسبت مشبہ بہ کی کیفیت بہ آسانی متخیلہ کی گرفت میں آ جائے، جیسے انتظار حسین نے ’’آخری آدمی‘‘ میں لڑکی کو فرعون کی رتھ کی گھوڑی سے تشبیہ دی ہے، ہم دونوں سے واقف نہیں لیکن فرعون کی گھوڑی کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان دو شرائط کے بعد تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں کی مشترکہ خوبی ان کی بنیادی خوبی بھی ہو اور وہی خوبی وجہ شبہ ہو، جیسے ماہ نو، پشتِ فلک، قوسِ قزح، تیرِ شہاب چاروں چیزوں میں سوداؔ نے خم کو مشترک وجہ رکھا ہے اور یہاںان چاروں کی بنیادی خوبی خم ہی ہے۔ اگر بنیاد ی خوبی وجہ شبہ نہ ہو تو پھر وجہ شبہ بتانی پڑے گی جیسے میر صاحب نے بتائی :
؎نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
نازکی کے ذکر کے بغیر ہر گز نہ معلوم ہوتا کہ یہاں وجہ شبہ کیا ہے، کیوں کہ گلاب کی کچھ خصوصیات اور بھی ہیں جو بنیادی خوبی قرار پا سکتی تھیں مثلاًخوشنمائی،نرمی، ندرت، تازگی، خوشبو وغیرہ۔ مگر نازکی کا بطورِ خاص ذکر بتا رہا ہے کہ محض اسی صفت کے لیے لبوں کو گلاب کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے۔ چوتھی شرط کا تعلق فنکار کی فن سے وابستگی اور ذوق سے ہے۔ تشبیہ کا پورا عمل غرضِ تشبیہ کو بہ احسن پورا کرتا ہو۔ جس مقصد کے لیے تشبیہ دی گئی ہے وہ پورا نہ ہو تو تشبیہ ناقص ہے اور اگر مشبہ کو کسی اور مشبہ بہ کے ساتھ تشبیہ دینے سے بہتر اظہار کا امکان ہو تو دی گئی تشبیہ مبتذل قرار پائے گی۔ پانچویں اور آخری شرط یہ ہے کہ تشبیہ نادر ہواور تخلیقی سطح رکھتی ہو ورنہ کشش ہی نہیں کرے گی۔ گھسی پٹی اور سطحی سی تشبیہ فنکار کے عجزِبیان کی دلیل ہو گی۔ مستنصر کے ہاں تشبیہ کا عمل ان پانچوں شرائط کو پورا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل تشبیہ ملاحظہ کیجیے:
’’پانی کو پیاس سے دیکھتے اس(پاروشنی ) نے آسے پاسے دیکھے بغیر اپنے سینے پر کسا ہوا لِیڑا ڈھیلا کر کے کھول دیا، لِیڑے کی پکڑ سے چھوٹنے پر اس کی چھاتیاں پل دو پل کے لیے ایسے تھرتھرائیں جیسے چنکارے ہرن کی پیٹھ پر زہریلی مکھی بیٹھ جائے تو وہ ہلتی ہے۔ تھرتھرائیں اور پھر اپنے بوجھ کو سہار کر پنڈے کا ایک خاموش حصہ بن گئیں۔ دریا کی باس کو ان کی اٹھان نے ایک ناک کی طرح سونگھا اور اپنے اندر رچایا۔‘‘٭۲
چنکارے ہرن کی تشبیہ بہت متحرک ہے بیک وقت حسی بھی اور عقلی بھی ۔ حسی لحاظ سے ملموسات کی ذیل میں ہے۔ ہرن کی پیٹھ پر بیٹھی مکھی نظر آتی ہے مگر نظر آنے کے بعد اس کی پیٹھ کے ہلنے کا تصور عقلی ہے۔ اس تشبیہ کو پڑھتے وقت قاری ایک دفعہ ہرن کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھے تو یہ حسی تشبیہ بنتی ہے۔ ایک لحظے کے لیے تو اپنی پشت تھرکتی محسوس ہوتی ہے، یوں اس تشبیہ کے جادو سے قاری خود کو ہرن سمجھ کر زہریلی مکھی کے مَس سے پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ تو محسوس کرتا ہی ہے، اگلی تشبیہ میں ان چھاتیوں کے ذریعے بہ یک وقت دریا کی ٹھنڈی خوشبو اور یخ لمس کو محسوس کرتا ہے۔ یوں تشبیہ کی غرض پوری ہو جاتی ہے اور پاروشنی کا وجود اس کی تمام تر حرارت، مہک اور تازگی کے ساتھ قاری کی متخیلہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
تشبیہ کی بہت سی اقسام ہیں اور مستنصر نے ان سبھی کواستعمال کیا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ان کی تشبیہات موضوع اور کرداروں کے مطابق ہوتی ہیں یا پھر وہ بلا تفریق جو تشبیہ سوجھتی ہے، اسے بھرتی کرمارتے ہیں۔ مستنصر کے اس ناول میں کوئی تشبیہ ایسی نہیں جو ناول کے ماحول سے لگا نہ کھاتی ہو یا کسی طرح ناول کے اندر سے ہی نہ پھوٹی ہو ۔ ایک تشبیہ تو کمال کی استعمال کی گئی ہے جو ناول کے کل موضوع کو محیط ہونے کے ساتھ غرضِ تشبیہ بھی کامل مہارت سے پوری کرتی ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ ورچن پاروشنی کے اندر کی عورت کو پوری طرح نہ جگا سکا تھا اور وہ اس کے پہلو سے اٹھ کر سمرو کے پاس چلی جاتی ہے۔ ایسے میں ورچن سوچتا ہے:
’’پورن کو اگر میں یہ بتائوں کہ پاروشنی ایک بڑے پانی کی طرح آئی اور مجھ سے دور بہتی ہوئی چلی گئی اور میں سوکھا رہا …یا وہ سوکھی رہی اور چلی گئی تو وہ کیا کہے۔‘‘(ص:۱۲۸)
اگر ناول کا موضوع مدِ نظر ہواور ناول کے اندر بڑے پانیوں کے رُخ موڑنے کے عذاب نے اپنا احساس دلایا ہو تو ورچن کی کیفیت قاری پر پوری طرح واضح ہوتی ہے اور یہ کمال اسی تشبیہ نے دکھایا ہے۔ مستنصر نے اکثر جگہ کردار کے پس منظر کو سامنے رکھ کر ہی تشبیہ دی ہے۔ پاروشنی پانی بھرنے والی عورت ہے اور اسے بڑے پانیوں کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے، ورچن کو پیونا سانپ نے کاٹا ہے اور اس کے عضوِ تناسل کو پیونا سانپ سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے۔ ایک جگہ ڈورگا کے چہرے کا حال بتانے کے لیے انہوں نے جو تشبیہ استعمال کی ہے، وہ عمر بھر اینٹوں کے بھٹے پر کمر توڑنے والے ڈورگا پر پوری طرح جم کر بیٹھتی ہے۔
’’وہ ورچن ایسا ہی تھا، آناسا تھا پر اس کی شکل مورتیوں ایسی سخت پتھر تھی جیسے زیادہ آگ دینے سے اینٹ کھِنگر ہو جاتی ہے۔‘‘(ص:۷۷)
ناول میں انہوں نے بہت سی جگہوں پر تشبیہ کو مفرد کی بجائے مرکب استعمال کیا ہے۔ مرکب تشبیہ دینا زیادہ بڑے تخیل کا کام ہے، دنیا بھر میں مارسل پروست اس فن کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جو جملہ بہ جملہ تلازمے استعمال کرتے تشبیہ کو وسعت دیتے چلے جاتے ہیں۔ مستنصر بھی کسی کیفیت کو بتانے کے لیے تشبیہ کو سیدھی سطح کی بجائے پرت در پرت استعمال کرتے ہیں۔ جیسے پاروشنی کے پانی میں ڈوبے جسم کے ساتھ بوٹے کے لپٹنے کو سرسراتے سانپ کے لپٹنے سے اور اس کے ٹھٹکنے کو نوکدار کانوں والے سیاہ بِلے کے چونکنے سے تشبیہ دی۔ کئی اور جگہوں پر تو بڑی بے ساختگی سے مرکب تشبیہ کو استعمال کرتے ہیں۔
’’میری مرضی تو ادھر تیرے پاس ہے۔ ادھر اس چولہے کے پاس جس میں سلگتے اپلے تیرے مہاندرے کو ایسے لشکاتے ہیں جیسے بادلوں کی چمک سے کالے ہرن کا جُسّہ لشکتا ہے۔‘‘(ص:۱۷۰)
’’مور کے رانگلے پر ڈھیلے پڑ رہے تھے جیسے الگنی پر سوکھتا کپڑا ہو جو ڈھلکتا ہو اور دھوپ سے اس کا رنگ اڑتا ہوتو اس کے رنگ بھی اب پھیکے ہو رہے تھے۔ ‘‘-(ص:۲۰۷)
’’ڈورگا کے مہاندرے میں کچھ اور بھی تھا… جیسے ہرن ڈرا ڈرا ہوتا ہے اور چوکنا کھڑا ہوتا ہے، جیسے سانپ زمین کے ساتھ لگ کر تیزی سے آگے سرکتا ہے اور جیسے پکھیرو کا بوٹ آلنے سے گرے تو جہاں گرتا ہے، وہیں پڑا رہتاہے۔‘‘(ص:۱۰۷)
تشبیہ کا کمال اس میں ہے کہ وہ پہلے کبھی استعمال نہ ہوئی ہو اور اس حوالے سے ندرت رکھتی ہو۔ مستنصر نے کیوں کہ ہر جگہ تشبیہ دیتے وقت ناول اور کرداروں کا پس منظر ذہن میں رکھا ہے تو اس وجہ سے ان کے ہاں جو بھی تشبیہ آتی ہے، بہت نادر ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ایسی تشبیہ پہلے اردو میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوئی ہو گی۔ مثال کے طور پر ذیل کی تشبیہات کو ملاحظہ کیجیے:
’’میں آدھا رہ گیا ہوں‘‘ ڈورگا پورے پیٹ کے ساتھ زور سے ہنسا:’’میں پائوں اٹھاتا ہوں تو جَو کی بالی کی طرح ہلکا لگتا ہے۔اس سے پہلے میں کبھی نہیں نہایا۔ ‘‘(ص:۱۱۲)
’’تم مجھے چھوتے ہو تو میں ایسے تھراتی ہوں جیسے جھیل کی تہہ میں مچھلی کنول کے ڈنٹھل کے ساتھ کھَے کر گزرتی ہو تو … اوپر پانی کی سطح کے اوپر تیرنے والا کنول ہولے سے تھراتا ہے۔‘‘(ص:۱۱۷)
مستنصر کی یہ صلاحیت تمام ناول میں قائم رہتی ہے اور ہر جگہ پر منظر، کردار اور واقعے کی صحیح کیفیات کو پیش کرنے میں بھرپور معاون رہتی ہے۔ پورے ناول میں۸۹ سے زائدتشبیہات استعمال ہوئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ کمزور ، بلاجواز یا غیر فصیح نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک تشبیہ نے بد مزہ کیا ہے، اور جہاں تک میری ذاتی رائے ہے، اس تشبیہ کو ہم ناقص تشبیہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ پاروشنی کی شادی چیتر کے اخیر میں ہوتی ہے اور پھر چیتر بیتنے کے بعد وساکھ میں پاروشنی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوے سوچتی ہے کہ اسے ماگھ پوہ میں آنا ہے۔ چیتر پہلا مہینہ ہے اور پوہ دسواں، ماگھ گیارہواں۔ پوہ کی آخری اور ماگھ کی پہلی تاریخوں میں نو مہینے پورے ہوتے ہیں۔مطلب یہ کہ وساکھ میں ابھی حمل ٹھہرے ہوے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔اس جگہ تشبیہ یوں بتاتی ہے:’’پاروشنی نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا جو دریا میں پانی کم ہونے سے اس کے بیچ کسی ٹاپو کی طرح ابھرتا جاتا تھا۔‘‘(ص:۱۳۱)اتنی صحت مند لڑکی کا پیٹ حمل کے پہلے ہی مہینے کیسے اتنا ابھرسکتا ہے کہ کسی ٹاپو کی طرح نظرآنے لگے۔ سو یہاں دی گئی تشبیہ بالکل نامناسب ہے۔اس تشبیہ کے علاوہ ان کے ہاں کوئی تشبیہ بھی ناقص یا مبتذل نہیں ہے اور جو بھی تشبیہ آئی ہے، وہ ناول کے موضوع اور کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کو پوری طرح سے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بیانیے کا حسن بھی بڑھاتی ہے۔
اب استعارہ کی طرف چلتے ہیں۔ کسی لفظ کو مجازی معانی میں استعمال کرنا، جب کہ لغوی معانی اور معانی مطلوب کے درمیان تعلق تشبیہ کا ہو ، استعارہ کہلاتا ہے۔ استعارہ میں ارکانِ تشبیہ کے چار ارکان میں سے تین؛ وجہ شبہ، حرفِ تشبیہ اور غرضِ تشبیہ تو بالکل حذف کر دیے جاتے ہیں اور پہلے رکن طرفینِ تشبیہ کے دونوں اجزاء میں سے صرف ایک ہی استعمال ہوتا ہے۔ استعارے کی ایک قسم استعارہ بالتصریح میں صرف مشبہ بہ یا مستعار منہ استعمال ہوتا ہے اور دوسری قسم استعارہ بالکنایہ میں صرف مشبہ یا مستعار لہٗ کا ذکر ہوتا ہے البتہ اس کے ساتھ خصوصیات مستعار منہ کی منسوب کر دی جاتی ہیں۔ مستنصر نے اس بیانیے میں استعارہ سے بہت زیادہ کام لیا ہے۔ کہیں براہِ راست استعارہ بنایا ہے اور کہیں استعارہ بالکنایہ استعمال کر کے تجسیم اور Personificationکی ہے۔ ان دونوں کا مطالعہ آگے چل کر کیا جائے گا، سرِ دست تو استعارہ کی چند خوبصورت مثالیں دیکھتے ہیں۔
’’انہیں ہم بڑا بناتے ہیں ، چھوٹی بستیوں والے۔ ادھر گھاگرا کی بستیوں کے میرے جیسے لوگ وہاں گئے تو ان کو سکھایا۔ یہ برتن اور کھیتی کرنے کے ڈھنگ ادھر سے گئے۔ بیج یہاں کا تھا اور پھوٹا وہاں جا کر اور رُکھ ان کے سروں پر چھایا بنا۔ ‘‘(ص:۲۹)
’’اسے معلوم نہ تھا کہ کس طرح اپنے آپ کواس سے چھپائے اور وہ اس کی پیٹھ پر اور سینے پر گرم لُو ایسے سانس لیتا تھا جو اسے پگھلاتے تھے۔ پھر اس نے ایک سیاہ پیونے سانپ کو دیکھا جو کھڑا تھا اور اس نے اس کا سانس پی لیا۔‘‘(ص:۱۱۸)
’’تم دونوں برابر کے باٹ ہو،نہ کم نہ زیادہ۔‘‘(ص:۲۲۰)
مندرجہ بالا مثالوں میں بالترتیب ’بیج، سیاہ پیونا سانپ اور باٹ‘ کے الفاظ استعارتاً استعمال ہوے ہیں اور تشبیہ کے رشتے سے اپنے مجازی معانی ادا کرتے ہیں۔ جملوں سے ہٹ کر ،پورا ناول ہی اپناایک استعاراتی نظام قائم کرتا ہے۔ یہاں بستی دنیا کا استعارہ ہے اور دریا اس بستی کے قدرتی وسائل کا۔ افرادنسلِ انسانی کو پیش کرتے ہیں جو ہر دم اپنی بقا کے لیے حالات سے لڑ رہی ہے۔
استعارے کے بعد مجاز کا مطالعہ ضروری بنتا ہے۔ جب لفظ اپنے غیر لغوی ، وضعی یا مجازی معانی میں استعمال کیے جائیں اور دونوں کے درمیان تشبیہ کا تعلق بھی نہ پایا جائے اور کوئی قرینہ اس بات کی دلیل دے کہ معانی مجازی ہی مطلوب ہیں تو یہ مجاز مرسل ہو گا۔ مجاز کا استعمال ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ کرتے ہیں۔ ۱:دریا بہہ رہا ہے۔۲:آدمی مٹی کا پتلا ہے۔۳: اس کی ٹانگ میں گولی لگ گئی۔۴:میں نے سو مرتبہ الحمد شریف پڑھ لی ہے۔۵:امتِ مسلمہ کی رگوں میں حسینؑ کا لہو دوڑ رہا ہے۔۶:منجھلا بیٹا اُن کا دستِ راست ہے۔
مندرجہ بالا جملوں میں گرامر کی رو سے کوئی غلطی تو نہیں ہے؟جو معنی بظاہر نظر آ رہے ہیں ، ان کے اصل معنی وہی ہیں؟…شاید نہیں۔دریا کا مطلب تو کنارہ، پانی کے نیچے کی ریت اور پانی سب مراد ہوتے ہیں ، یہ سب بہتے نہیں، صرف پانی بہتا ہے۔دریا کے بہنے سے مراد پانی کا بہائو ہی ہے۔ لیکن یہاں پانی کی جگہ دریا لکھا گیا ہے۔آدمی مٹی کا پتلا ہونے سے مراد اس کا مٹی کا بنا ہوا ہونا ہے، لیکن در حقیقت آدمی مٹی کا پتلا تو نہیں ہے۔گولی پوری ٹانگ میں نہیں لگتی، ٹانگ کے کسی ایک حصے میں لگتی ہے۔ الحمد سورۃ فاتحہ کا پہلا حرف ہے، لیکن الحمد شریف کہنے سے مراد پوری سورۃ فاتحہ ہے۔حسین ؑ کا لہو امتِ مسلمہ کی رگوں میںدوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمان ان کے جذبے اور حوصلے کی پیروی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دستِ راست کا مطلب دایاں بازو ہے ، اور دایاں بازو کیوں کہ انسان کی تمام طاقت کا حامل ہوتا ہے، اس لیے یہاں دایاں بازو بول کر مراد ساری طاقت لی گئی ہے۔ ان ساری مثالوں میں لفظ اپنے اصل معنی سے ہٹ کر دوسرے معنی دے رہے ہیں۔ مرادی معنی تک پہنچنے کا یہ راستہ مجاز مرسل یا صرف مجاز کہلاتا ہے۔
مجاز کا مطلب یہ ہے کہ لفظ اپنے اصل معنی کی بجائے کوئی اور معنی دیں لیکن ان میںلغوی معانی اور معانی مطلوب کے درمیان تشبیہ کی بجائے کوئی اور رشتہ ہو۔اس کے بہت سے طریقے ہیں جن کی تقریباً ۲۴ قسمیں ہیں۔ البتہ مشہور یہی ہیں۔ جزو بول کر کل مراد لینا، کل بول کرجزو مراد لینا، سبب بول کر مسبب مراد لینا، مسبب بول کر سبب مراد لینا، بہ اعتبارِ زمانہ آئندہ، بہ اعتبارِ زمانہ سابق، ظرف سے مظروف اور مظروف سے ظرف مراد لینا، مکین سے مکان اور مکان سے مکین مراد لینا۔
مستنصر کے اس ناول میں مجا زکا بھی خوبصورت استعمال ملتاہے۔ بیانیے میں چھوٹی چھوٹی کیفیات کو مجاز کے استعمال سے ابھارتے چلے جاتے ہیں اورپہلی نظر میں محسوس بھی نہیں ہوتا۔ یوں تو بیسیوں جگہوں پر انہوں نے مجاز کا استعمال کیا ہے لیکن ذیل میں ہم صرف وہ مثالیں دیکھتے ہیں جہاں انہوں نے اسے خوبصورتی سے نبھایا ہے۔
’’گرم ہوا کا بھبھوکا اس کی چونچ کو بھربھرا کرتے ہوے منہ میں داخل ہوا اور سُوکھتی زبان کو پھپھولتا حلق میں گیا اور ناگ پھنی کی فصل بوتا، شریانوں اور رگوں میں ببول بن کر چبھتا اٹکتا اس کے پورے بدن میں جڑیں پکڑگیا۔‘‘(ص:۷)
’’پھر مامن ماسا!‘‘ پاروشنی نے رُکھوں سے کہا۔(ص:۵۳)
’’ہاں تم سانس کو مٹی اور پتھر کردیتے ہو۔‘‘(ص:۶۷)
’’جو بھی کھیت میں کام پورا کر لیتا، وہ اپنا چولہا چنگیر اٹھا کر گھاگرا کے کنارے آ بیٹھتا۔‘‘(ص:۱۸۷)
’’اُس رُکھ کی کوکھ میں اس رات دو پکھیرو اترے۔‘‘(ص:۱۲۱)
یہاں رُکھ پاروشنی کا اورپکھیروسمرو اور ورچن کے مجازی معنی دے رہے ہیں ۔ یہ قرینہ اس بیانیے میں خود ہی طے ہو رہا ہے۔
ایک جگہ تو انہوں نے کمال ہی کیا ہے۔ استعارے اور مجاز کو بیک وقت یوں استعمال کیا ہے کہ بیان کی خوبصورتی تعریف سے بالا تر ہے۔ ملاحظہ کیجیے:’’ایک ہی ماہ میں تیسرے بیل کی آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ ‘‘(ص:۲۲۲) اس جملے میںپتھر کا استعمال استعاراتی ہے یعنی آنکھیں پتھر کی طرح بے جان ہوگئیں لیکن اس پورے جملے کا مطلب مجازی لحاظ سے یہ بنتا ہے کہ تیسرا بیل بھی موت کا شکار ہو گیا۔ یوں انہوں نے استعارے کو ایسے استعمال کیا کہ وہ مجاز بھی بن گیا ہے۔
تشبیہ اور مجاز کی ذیل میں ہی ایک اور چیز بھی پائی جاتی ہے، جس کا استعمال مستنصر نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ یہ ہے اضافت استعارہ۔حقیقی اضافت تو ہوتی ہے ، خانۂ زید، اسپِ تازی، امیدِ وصل وغیرہ جس میں دونوں الفاظ کے درمیان تعلق حقیقی ہوتا ہے جب کہ اضافتِ استعارہ اس وقت بنتی ہے جب اضافت کے دونوں الفاظ کے درمیان معنوی رشتہ فرضی، اعتباری یا اضافی ہو۔ مثلاً توسنِ تخیل، دستِ تقدیر، آہوئے فکر، ہجر کا کانٹا وغیرہ۔عابد علی عابد نے اس کے متعلق جلال الدین احمد جعفری زینبی کے حوالے سے لکھا ہے:
’’اضافتِ مجازی وہ ہے جس میں مضاف الیہ کے لیے مضاف محض فرضی طور پر ثابت کیا جائے ۔ جیسے تدبیر کا ہاتھ، خیال کے پائوں، آرزو کی آنکھ، د ل کا کنول۔ اس اضافت کو اضافتِ استعارہ بھی کہتے ہیں۔استعارے کے معنی ہیں ’مانگ لینا‘ ۔ چونکہ اس اضافت میں مضاف ایک اصل چیز سے عاریتاً لیا جاتا ہے ، اس لیے اس کو استعارہ کہتے ہیں۔ ‘‘٭۳
اس اضافت کی دو اقسام ہیں۔ اضافتِ تشبیہی اور اضافتِ مجازی۔ اضافتِ تشبیہی تب قائم ہو گی جب دونوں الفاظ کے درمیان تشبیہ کا رشتہ ہو جیسا کہ بحرِ علم، آتشِ غضب، تیرِ تشنیع، تیغِ مژہ۔ اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ ان دونوں الفاظ کے درمیان حرفِ تشبیہ لگا کر دیکھا جاتا ہے ، اگر جملہ صحیح بنے تو یہ اضافتِ تشبیہی ہو گی۔ مثلاً سمندر جیسا علم، آگ کے مانند غصہ، تیر کی طرح طنز، تیغ کے جیسی مژگاں۔ اضافتِ مجازی سے مرادایسی اضافت جس کے دونوں الفاظ کے درمیان حقیقی رشتہ نہ ہو اور تعلق کی نوعیت تشبیہ کی بجائے مجازی ہو، مثلاً تیغِ اجل ، گوشِ ارادت، چشمِ آرزو، آبشارِ مسرت وغیرہ جن میں تشبیہ کا تعلق نہیں اور معانی کا تعین داخلی قرینہ ہی طے کرتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اضافتِ استعارہ کی یہ دونوں اقسام استعمال کی ہیں ۔ ذیل میں اضافتِ تشبییہی کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’وہ دیوار کے ساتھ پکی اینٹوں کے ایک چبوترے پر بیٹھا پانی کی اس چمکتی چادر کو دیکھ رہا تھا جو دریامیں سے نکل کر پھیلتی جا رہی تھی۔‘‘(ص:۵۱)
’’اور چاند کا تھال جب پورا ہو جاتا تو زمین کو چھوڑ کر اوپر ہی اوپر اٹھتی جاتی۔‘‘(ص:۷۱)
اور یہ اضافتِ مجازی کا حسنِ استعمال :
’’ماتی کی شکل پر جو دُکھ کی کالک تھی،وہ اور گہری ہوئی۔‘‘(ص:۵۴)
’’ان کے کڑھنے اور برائی کی باس آتی ہے۔ ‘‘،’’کبھی اُس کی تھکاوٹ کی باس آئی۔‘‘(ص:۹۷)
اور ذیل کی اضافت تو قابلِ دا د ہے۔
’’دھروا لگتا نہیں تھا کہ سا نس لیتا ہے پر ابھی اس میں حیاتی کا اُپلا سلگتا تھا۔‘‘(ص:۲۵۷)
اسی ضمن میں ترکیب کا ذکر بھی بنتاہے۔ اس ناول میں زمانہ ما قبل از تاریخ کی زبان کی وجہ سے فارسی اور عربی زبانوں کا اثرو رسوخ نہیں تھا، اس لیے یہاں مرکبِ اضافی تو نہیں بن سکتا تھا، سادہ شکل میں دو حرفی ترکیب ہی بن سکتی تھی۔ مستنصر نے یہ دو حرفی تراکیب ہی بنائی ہیں لیکن اس سادگی میں بھی ایک فنکاری نظر آتی ہے۔ پیڈا پینڈا، ڈوبو مٹی، یم کتے، بڑے پانی، مرد کا میل، جیاجنت، زہر پانی،ہڈ پیر، سیت پالا، انگ ساک، چپ پکھیرو۔ یہ تراکیب زبان کی حد درجہ سادگی کے باوجود قدیم زبان پر ماہرانہ دسترس کی بنا پر ہی وجود میں آئی ہیں اور مستنصر نے اپنے فنی شعور سے اس زبان کو دوبارہ تخلیق کر دیا ہے جو شاید کبھی یہاں بولی جاتی رہی تھی۔
علم البیان میں چوتھی چیز کنایہ ہے۔ جب لفظ اس طرح استعمال ہو کہ مجازی معانی مقصود ہوں اور لغوی اور مجازی معانی میں نہ تو تشبیہ کا رشتہ ہو اور نہ ہی کوئی اور قرینہ ہو تو اسے کنایہ کہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ کنائے میں لفظ کے لغوی اور مجازی دونوں معانی مراد ہوتے ہیں اور اصل مقصود مجازی معانی ہوتا ہے جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ صرف مجازی معانی بھی اگر مراد ہوں تو کنایہ قائم ہو جاتا ہے ۔ اس معاملے میں عابد علی عابد نے حتمی دلیل دی ہے:
’’نجم الغنی کے بیان کے مطابق کنایہ اس لفظ سے مراد ہے جو اپنے معنی موضوع لہٗ میں مستعمل ہو، لیکن مقصود وہ معنی نہ ہوں، جو اِن پہلے معنی کے ملزوم ہوںاور ان دوسرے معنی کا مقصود ہونا معنی موضوع لہٗ کے ارادہ کرنے کے منافی نہیں … پس کنائے میں لازم یعنی موضوع لہٗ بھی مراد ہوتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ یہ بالعرض مراد ہوتا ہے اور دوسرے معنی جو ملزوم ہیں، وہ بالذات مراد ہوتے ہیں۔ پھر وہ خاص طور پر اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جب امیر نے ’’طائرِ کم پر‘‘کہاتو مراد اُڑنے والا جانور لی لیکن اگر اس مراد کے ساتھ پروں کی مقدار کا تھوڑا ہونا مراد ہو تو وہ بھی ہو سکتا ہے، اسی طرح دوسری مثالوں میں بھی انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن بحث کے دوران میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو تنگ چشم کہیں اور مراد اس سے کنجوس آدمی ہو ، گو شخصِ مذکور کی آنکھیں نہ ہوں ، اگر ہو ں تو بڑی بڑی ہوں توبھی کنایہ وجود میں آ جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے ہوس کا شعر کیا ہے ، اس میں قدِ خمیدہ سے عالمِ پیری مراد لی ہے اور کہا ہے کہ گو قائل کا قد بظاہر سیدھا ہو، اس سے تو مراد یہ ہوئی کہ کنایہ میں لغوی معانی مراد لیے ہی نہیں جا سکتے اور صرف معانیِ لازم و ملزوم مطلوب ہوں گے۔ بات یہ ہے کہ کنائے میں دونوں موقف درست ہیں ۔ یہ صورت بھی پیدا ہوئی ہے اور وہ صورت بھی کہ لغوی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔‘‘٭۴
خیر ہمیں غرض ہے مستنصر کے بیانیے سے ،تو یہاں تشبیہ اور مجاز کی طرح ہی کنایے کی بھی رونق نظر آتی ہے اور کنایے میں چونکہ حقیقی معانی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں اس لیے یہ بہت سی جگہوں پر نظر انداز ہو جاتا ہے۔ یقینا راقم کی نظریں بھی بہت سی جگہوں پر چوک گئی ہوں گی۔ البتہ جہاں کہیں بھی کنایہ نظر آیا، ایک ماہرانہ خوبصورتی کے ساتھ تھا۔ ذیل میں کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے:
’’ہر دھاگہ ایک ایسی عورت نے باندھا تھا جو خشک تھی اور فصل چاہتی تھی۔ ‘‘(ص:۱۰)
’’چارہ بیلوں کے آگے ڈالنا دھروا کا کام تھا اور اُن کی لید کو صاف کرنا اور اگر وہ ڈھیلے پڑ جائیں تو اُن کو خاص بوٹیاں کھلا کر پھر سے ہٹا کٹا کرنا یہ سب اس کا کام تھا۔‘‘(ص:۵۲)
’’کسی کے سامنے جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ آپو آپ بندھ جاتے ہیں۔ ‘‘(ص:۱۰۷)
’’تم دونوں یہ سمجھ رہے ہو کہ میں سر میں ذرا کچی ہوگئی ہوں؟‘‘(ص:۲۴۰)
کنایے کا کمال ناول کے آخر میں جا کر دکھائی دیتا ہے۔ پاروشنی اپنے گھڑے میں موجود کنک کی معمولی سی تعداد کو امید کا آخری سہارا قرار دیتی ہے اور اس کے بچا کے رکھنے پر بضد ہے۔ پوری