اردو فکشن میں بطور معروف افسانہ نگار سلمی صنم صاحبہ کا نام محتاج تعارف نہیں۔ ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور سے تعلق رکھنے والی سلمی صنم صاحبہ پیشہ سے لکچرر ہیں لیکن اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار اپنے قلم کے جوہر دکھاتے ہوئے اہم شناخت بناچکی ہیں۔ موصوفہ فخر کرناٹک ہی نہیں فخر اردو فکشن ہیں۔ان کے فن و شخصیت پر نہ صرف ملک کے مختلف جامعات میں تحقیقی کام ہوچکے ہیں، بلکہ پاکستان کی جامعات میں بھی ان کے افسانوی فن پر تحقیقی مقالات لکھے جاچکے ہیں۔
افسانوں کےاسلوب کی انفرادیت اور موضوعات کا تنوع انھیں معاصرین میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔انھوں نے زندگی کے تقریبا ہر شعبہ سے متعلق متنوع موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ان کے افسانے بے شک تانیثی نظریات سے مملو نہیں،لیکن بیشتر افسانوں کا موضوع عورت ہی ہے۔لیکن ان کے یہاں عورت اپنے مختلف روپ اور رویوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔یہ وہ عورت نہیں جو صدیوں پرانی روایتوں میں جکڑی ہوئی،سمٹی ہوئی،بے بس و مجبور ہے۔بلکہ یہ دور جدید کی باہمت،بااعتماد عورت ہے۔یہ وہ عورت نہیں جو رسم و رواجوں،اندھے عقائد،مذہب، غیرت اور عزت کے نام پر اپنی ہستی کو مٹادے بلکہ یہ جدید دور کی جدید حقائق سے آگاہی رکھنے والی،اپنی ہستی میں ڈوب کر سراغ پانے والی، مرداساس معاشرے میں اپنے وجود کو منوانے والی،ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی، احتجاج کرنے والی بے باک ،نڈر اور حوصلہ مند عورت ہے۔جسے یہ احساس ہے کہ وہ بھی انسان ہے اور اسے بھی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک مرد کو ہے۔
سلمی صنم کے افسانوں کی ایک خوبی ان کے سادہ سلیس خوبصورت تشبیہات سے سجی زبان ہے۔جس میں ان کے منفرد بیانیہ نے چار چاند لگا دیے ہیں۔
ان کے افسانوں کا آغاز قارئین کو متوجہ کرنے والا تو انجام قاری کے ذہن میں سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔
ان کے اب تک تین افسانوی مجموعے "طور پر گیا ہوا شخص "،"پت جھڑ کے لوگ" اور "پانچویں سمت " منظر عام پر آکر قارئین سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔پیش نظر سلمی صنم صاحبہ کا افسانوی مجموعہ "قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں " میں شامل افسانوں کا فنی و موضوعاتی تجزیہ ہے۔بیس افسانوں پر مشتمل اس مجموعہ کو موصوفہ نے اپنے والدین سے منسوب کیا ہے۔جس پر اردو فکشن کی مایہ ناز ہستی محترم نورالحسنین صاحب نے پسندیدگی کی سند اپنے مضمون بعنوان "نئی فکر نئی اڑان" کے تحت عطا کردی ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر شوکت محمود شوکت اور شہاب ظفر اعظمی صاحبان نے زیر مطالعہ کتاب میں شامل افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے،سلمی صنم صاحبہ کے فن پر مختلف حوالوں سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔کتاب کے بیک کور پر ماہرین فکشن کے توصیفی کلمات نے سلمی صنم کے فن کی اہمیت و افادیت کو مزید روشن کیا ہے۔ان ماہرین میں قمر رئیس دہلی، شموئل احمد بہار،نسیم انجم کراچی اور ناصر ناکاگوا جاپان شامل ہیں۔
سلمی صنم کے افسانے عصر حاضر کے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔جس میں انسانی رشتوں کی بے حرمتی، تقدس کی پامالی، باشعور شہری کی تڑپ ، عورتوں کی وفا شعاری اور بے بسی سے باہمتی کے سفر کی داستان منفرد پیرائیہ میں رقم کی گئی ہے۔
عورت کی یہ باہمتی کا سفر افسانے "آرگن بازار "،"کٹھ پتلی "،پانچویں سمت"،میں واضح نظر آتا ہے۔جہاں ایک عرصے تک صبر و شکر کرنے کے بعد بھی مرد کی بے وفائی، مفاد پرستی اور زور زبردستی سے تنگ آکر "آرگن بازار "کی ثمن "پانچویں سمت"کی رجنی اور "کٹھ پتلی "کی آسیہ ایک نئے جوش و جذبے سے اپنے وجود کومنواتی ہیں۔
ثمین، امیر کو اپنا گردہ دینے کے باوجود اس سے شادی سے انکار کردیتی ہے۔یہ انکار امیر کی مطلب پرستی، جہز کے نام پر ثمین کے جسم کا حصہ خریدے جانے کے خلاف پرزور احتجاج کی صورت سامنے آیا ہے۔
وہ امیر کو دھتکار کر اپنے وجود کی اہمیت جتاتی ہے کہ وہ اتنی بےضرر نہیں کہ شادی کے لیے اپنے جسم کا ایک عضو بیچ کر، عمر بھر اسی خود غرض مرد کی غلامی کرے،وہ شخص جسے اپنے پیسوں پر زعم تھا۔جس کے نزدیک ثمن کی حیثیت مخمل میں لگے ٹاٹ کے پیوند جیسی تھی۔لیکن بدلے حالات نے امیر کو اسی ٹاٹ کے پیوند کو مستقل اپنے جسم کا حصہ بنانے پر مجبور کردیا تھا۔خدا نے اسی مفلس منگتر کو اسکی جان بچانے والی بنادیا۔ثمن اپنے ہتک اور بےعزتی کا بدلہ امیر کو ریجیکٹ کر کے لیتی ہے۔
"آرگن بازار" یہ افسانہ جہز جیسی لعنت پر کڑا طنز تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی انسانی رشتوں کا المیہ، غریبوں کی لاچاری و بے بسی،امیروں کی سفاکی کا بھی عکاس ہے۔
افسانہ دور جدید کے مادیت پرست انسانوں کے چہروں پر چڑھے رشتوں کی قعلی اتاردیتا ہے۔افسانہ نگار نے ایک روایتی موضوع میں سائنسی ترقی ، عضو کی پیوند کاری کے عمل کو شامل کرتے ہوئے جدت پیدا کردی ہے۔ایک زمانہ ایسا بھی آئےگا جس میں باضابطہ "آرگن بازار "قائم ہوجائیں گے۔لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنا من پسند عضو بآسانی خرید لیں گے۔ پھر چاہے اس بازار میں کتنے ہی دلہنوں کے ارمان جل کر خاک کیوں نہ ہوجائیں۔لیکن کاروبار چلتا رہے گا۔افسانے کے یہ جملے ثمن کی ذہنی کیفیات کے عکاس ہیں۔
"وہاں تو بس آگ ہی آگ تھی۔شعلے دہکتے ہوئے، چنگاریاں سلگتی ہوئیں۔وہ بے معنی انداز میں شعلوں کو گھورنے لگی۔دفعتا اسے لگابھڑکتے شعلے کسی پیکر میں ڈھل رہے ہیں۔وہ ایک دلہن تھی سرخ جوڑے میں لپٹی۔جس کا ہیولی انگاروں پر کانپ رہا تھا،مگر یہ کیا؟ ثمین کا ذہن بھک سے اڑگیا۔دلہن تو انسانی اعضا سے سجی ہوئی تھی۔"
افسانہ امیروں کا انسانی اعضا کی پیوند کاری کے عمل کے ساتھ جہز کے نام پر ایک لڑکی کے ارمانوں کے قتل کی داستان بھی بیان کر ریاہے۔افسانے کی خوبی اس کا غیر متوقع انجام ہے۔جو جہز جیسی لعنت اور امیر جیسے مطلب پرست کے منھ ہر زوردار طمانچہ ہے۔
سلمی صنم کے افسانے کی عورت وفا شعار، عجز و انکسار کا پیکر ہے۔لیکن جب مرد کی چالاکی،ظلم، مفاد پرستی بڑھ جائے، پانی سر سے اونچا ہوجائے،برداشت کے آخری حد پار کر جائے تو پھر وہ سیتا مایا سے کالی کا روپ دھارن کرنے میں دیر نہیں کرتی۔
"افسانہ "پانچویں سمت "کی رجنی صدیوں سے چلی آرہی پرتھا "نیوگ" کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔وہ اپنی ماں بننے کی خواہش کو قربان کر اکیسویں صدی کی باہمت عورت بن کر مہاراج کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔ دور سے آتی بھجن کی آواز اسے اپنی اندر پوشیدہ پانچویں سمت کا پتہ دے جاتی ہے۔
افسانہ "کٹھ پتلی" سیدھی سادی زبان میں عورت کی کٹھ پتلی بننے کی داستان ہے۔جس میں آسیہ ایک ماں اور بیوی کے روپ میں وفا شعار، صبر و شکر کا پیکر بنی اپنے تمام ذمہ داریوں کو "کٹھ پتلی" کی طرح انجام دے رہی ہے۔
آسیہ ایسی عورت ہے جو شوہر کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے۔یہاں تک کہ شوہر کے سیاسی کھیل کا ایک اہم مہرہ بنی تمام غلط کاموں کی معاون بھی بن جاتی ہےحالانکہ اس کے اندر کی عورت اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہے کہ
"پندار کو ٹھیس لگتی ہے۔انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہوجاتا تو کون ومکان میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ۔۔نہیں ۔۔آسیہ نہیں۔"
لیکن ہر بار بزرگوں کی ہدایت ،نصیحت کہ " شوہر تو مجازی خدا ہے۔اس کے آگے عورت کی انا۔۔۔۔بے معنی ہے۔"
بس پھر آسیہ کی انا بھی اپنے آپ مر جاتی۔لیکن شوہر کی زیادتی اور بے وفائی پر آسیہ کا پر اعتماد مزاحمتی عمل سامنے آتا ہے۔
"نہیں آسیہ نہیں ۔۔تم اس puppet Show کی کٹھ پتلی نہیں۔"
یہ آج کی عورت کا وہ روپ ہے جسے اپنے وجود کی اہمیت کااحساس ہے۔یہ احساس اس کے اندر ایک نئی آواز ،نئی امید اور نیا اعتماد پیدا کرتا ہے۔
اکیسویں صدی کی عورت کا یہ اعتماد ہمیں "یخ لمحوں کا فیصلہ "کی ثانیہ کے پاس بھی نظر آتا ہے جو اپنی کوکھ میں سانس لیتی چوتھی ننھی کلی کے لیے ڈھال بن جاتی ہے۔جسے اس کا باپ جدید ترین ٹکنالوجی کا سہارا لے کر قتل کرنا چاہتا تھا۔لیکن ثانیہ ایک ماں بن کر لمحوں میں فیصلہ کرلیتی ہے کہ
"تم گھبراو مت۔شاید تمہارے ابو کو تمہاری وجہ سے جنت بدر کیے جانے کا خوف ہو لیکن میں تم سے خوفزدہ نہیں ہوں۔تم تو میری جان ہو۔میں تمام مخالفت کے باوجود تمہیں جنم دوں گی اور اس زمیں پر پروان چڑھنے کا حق بھی۔۔۔اس کو لگا بچی نے خوشی سے ایک کلکاری ماری ہو۔ثانیہ کے چہرے پر ممتا کا نور پھیل گیا۔"
افسانہ "طور پر گیا ہوا شخص "دورحاضر کے تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے جہاں لڑکیاں سالوں اپنے طور پر گئے شوہر کے منتظر سسرالی عزیزوں کی خدمت کرتی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کا بہت اہم مسئلہ ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کے روشن مستقبل کے لیے دیار غیر میں ملازمت پیشہ لڑکوں سے شادی کو ترجیح دےرہے ہیں۔ جو محض چند دن کی آسائش اور عمر بھر کی مسافت ثابت ہوتی ہے۔افسانے کا اقتباس دیکھئے:
"متوسط طبقے میں جانے یہ کیسی وبا پھیلی ہوئی تھی۔آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہ طور پر جانے والے لڑکوں سے اپنی لڑکیوں کو بیاہ کر انھیں دیا رغیر دھکیلنے کی یا اپنی سر زمین پر انتظار کی تپتی ریت پر آبلہ پا بھٹکنے کی۔۔۔۔۔جودیار غیر سے لدے پھندے آتے کتنی سحر آفریں ہوتی تھی ان کی شخصیت، جن میں ان کا وجود کم اوران کی چیزیں ذیادہ نمایاں نظر آتی تھیں۔"
سلمی صنم صاحبہ نے اس افسانے میں معاشرے میں پھیلی اس وبا کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔جو اب تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کو روکنا اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا ،بہت ضروری ہوگیا ہے۔ والدین کی یہ سوچ کہ دیار غیر میں کام کررہے لڑکے ہی ان کے بیٹیوں کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔لڑکیوں کو لامتناہی غم میں مبتلا کر نے کی وجہ بن رہی ہے۔والدین تو بیٹی کو بیاہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں،شوہر بھی اپنے اور اپنوں کے خواب پورے کرنے دیار غیر کی خاک چھاننے چلا جاتا ہے۔پیچھے رہ جاتی ہے تو لڑکی، جو اب کسی کی بیوی، بہو ،بھابی ہے۔اس کی دل جوئی، وقت گزاری کے لیے سسرال کے نہ ختم ہونے والے کام اور طعنے تو ہیں۔جو اس کی روح و جسم کو ہر لمحہ زخمی کرتے ہیں لیکن ان رشتوں کی ڈور میں باندھنے والا اس کا ہمسفر، اس کے زخموں پر پیار و وفا کا مرہم رکھنے والا شوہر، میلوں دور ہوتا ہے۔
اس افسانے میں معاشرے کے اس رویے پر بھی طنز کیا گیا ہے جو عورت کو مادی آسائشیں دے کر، فطری خواہشوں اور ضرورتوں کو مارنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اس عمدہ افسانے میں افسانہ نگار نے شوہر سے دور تنہائی کا درد سہتی عورت کے احساسات کی ترجمانی کمال ہنر مندی سے کی ہے۔جس میں عورتوں کا فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر کسی سامری کے جال میں پھنسنے کی طرف بھی اشارہ ہے۔افسانے کایہ اقتباس معنی خیز اور اہم ہے۔
"وہ جو بے وطنی کے کوہ طور پر آگ لینے گیا تھا۔وہ پیغمبری لے کر ضرور لوٹتا مگر اس کے بیچ اگر کوئی سامری آجائے تو پھر کیا ہو؟؟ زینت گھبرا کر سوچتی اور ہاتھ مل کر رہ جاتی"
گر واقعی کوئی عورت اپنی فطری جبلتوں سے مجبور ہوجائے اور کسی سامری کے جال میں پھنس جائے تو؟
یہ سوال بہت اہم ہے گر ایسا ہوجائے تو پھر ہم اس کا قصوروار کسے ٹھہرائیں گے۔دیار غیر کے امیر لوگوں کو جو انسانوں کو امپورٹ کرتے ہیں،یا والدین کو جو اپنی بیٹی کے شاندار مستقبل کی خام خیالی میں مگن ہیں، یا وہ جو اپنے بیٹوں کو صرف پیسہ چھاپنے کی مشین سمجھتے ہیں۔
افسانہ نگار نے کوہ طور،آگ ،سامری،جیسی خوبصورت معنی خیز علامتوں کے سہارے معاشرے میں پنپ رہی ایک اہم برائی کو افسانوی پیرائیہ میں ڈھالا ہے۔
افسانہ مختصر ہوتے ہوئے بھی وسیع مفاہیم کا احاطہ کرتا کامیاب ہے۔
انسان کو اپنی خودی کی پہچان کراتا افسانہ "تڑپتا پتھر"بھی مختصر لیکن موضوعی اور معنوی اعتبار سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔جس میں انسان کو خود شناسی کا درس دیا گیا ہے یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان "میں" کو نہ مار دے۔تب تک اسے دنیا اور دنیا کی حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔خود شناسی کے لیے "میں" کا خاتمہ ضروری ہے۔خود شناسی ہی خدا شناسی تک پہنچنے کے پہلی سیڑھی ہے۔
افسانے"قطار میں کھڑے چہرے " اور "بھیگے کاغذ میں لپٹے ہوئے لمحات" میں موذی بیماریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس مرض کا شکار ہوئے افراد کے اہل خانہ کی تکلیف، اپنوں سے بچھڑنے کا درد افسانوں کے ہر سطور سے عیاں ہے۔اول الذکر میں "ایبولا"بیماری کے بڑھتے اثرات، نسل در نسل منتقل ہوتی بیماری کے ڈر کو فطری انداز میں موثر پیرائیہ میں پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے کے مطالعے سے موجودہ کرونائی حالات کی درد ناک تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔جہاں ہر طرف لامتناہی اموات کا سلسلہ، ایک ایک کرکے اپنوں سے دور ہونے کا غم، رشتوں میں آتے فاصلے،عزیزوں کے تڑپنے کا کرب سب کچھ خودپر گزرتا محسوس ہوتا ہے۔
آخر الذکر افسانے میں "الزائمر"کے مرض میں مبتلا مریض اور اس سے جڑے رشتوں کی تکلیف نمایاں ہے۔ یہ افسانہ سائنس و ادب کےحسین امتزاج ہے۔جس میں الزائمر کے جینٹک بیماری ہونے کی تفصیل دلچسپ افسانوی انداز میں اس طرح پیش کی گئی ہے کہ قاری نہ صرف بیماری کی وجوہات، مضر اثرات سے واقف ہوتا ہے بلکہ اس بیماری میں مبتلا مریض اور اہل خانہ کی ذہنی و دلی کیفیات، کرب کو بھی دل سے محسوس کرتا ہے۔
مجموعے میں شامل دیگر افسانوں میں "پت جھڑکے لوگ"عورت کی بے لوث محبت کی داستان ہے جس میں نئی نسل کی خود سری پر بھی چوٹ کی گئی ہے۔"پگلا" اپنے موضوع اور پیش کش کے اعتبار سے کامیاب افسانہ ہے۔جس میں مفلسی،بے بسی،جواریوں کی غیر مستقل مزاجی، معصوم بچے کی اپنے بھائی کی روح کو سکون پہنچانے کی کوشیشوں کو افسانوی پیرائیہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ یہ افسانہ اور اس کا "بوڑھا "کردار اپنے خود غرضانہ فعل کے باعث پریم چند کے افسانہ "کفن" کے کردار "گھیسو اور مادھو"کی یاد دلاتے ہیں۔
ان کرداروں کی سوچ،بےبسی،خود غرضی، وقتی خوشی،ندامت، ڈھیٹ پن ،وہ مشترکہ خصوصیات ہیں۔ جو قارئین کے دل میں ان کرداروں سے نفرت کے باوجود ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
افسانہ "مٹھی میں بند چڑیا "عورت کی بے بسی اور مرد کی مردانگی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔افسانے میں چائلڈ ابیوز کو موضوع بنایا گیا ہے۔شعاع ایک ایسی بے بس چڑیا ہے ،جو کم عمری میں پہلی بار سراج کی بند مٹھی میں مسلی گئی۔پھر یہ سلسلہ کئی بار چلتا رہا،لیکن ہر بار مٹھی میں بند چڑیا، پھڑپھڑاکر،تڑپ کر،سسک کر رہ گئی۔شعاع کو سراج کا ،معاشرہ کا ڈر خاموش رہنے پر مجبور کرتارہا۔لیکن سراج کے مہلک بیماری ایڈز میں مبتلا ہونے کی خبر شعاع کو دلی سکون عطا کرتی ہے۔
افسانے میں جہاں لڑکیوں کی جنسی استحصال کی درد بھری کہانی پیش کی گئی ہے وہیں، لڑکوں کے جنسی بےراہ روی کے خطرناک نتائج ایڈز جیسی مہلک بیماری کی صورت سامنے لاکر،اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
افسانہ "سورج کی موت " چڑھتے سورج کی موت محاورہ پر مکمل صادق آتا ہے جس میں لیاقت خاں کے ساہوکاری ختم ہوجانے کے بعد بھی اپنے نام نہاد "میں پن" کے زعم میں رہنا،ایسے کئی جاگیرداروں، نوابوں کی یاد دلارہاہے۔جو چاہ کر بھی اپنے سنہرے ماضی کو بھولنا نہیں چاہتے،زمینداری، جاگیرداری ختم ہوجانے کے باوجود، اپنے بڑائی کا بھرم رکھنا چاہتے ہیں۔انھیں یہ حقیقت قبول کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ اب ان کے نوابی ٹھاٹ نہیں رہے،گاوں میں اب کم طبقہ کے افراد اپنی تعلیم سے ،ان سے بڑا عہدہ حاصل کر،ان سے زیادہ مال دار بن گئے ہیں۔
افسانہ لیاقت خان کی دلی کیفیت اور بدلے حالات اور رویوں کا عکاس ہے۔
افسانہ "میری"سائنس کی ترقی،ڈونر "پرائی کوکھ " کا وضاحتی اشارہ ہے۔جس میں ایک ماں کے احساسات کی ترجمانی ملتی ہے۔افسانے کا مرکزی کردار میری اپنے کوکھ میں کسی اور کے بچہ کو سینچتی تو ہے لیکن جسم سے جدا ہوتے ہی،اپنی گود خالی کر کسی اور کی گود بھرنے پر مجبورہو جاتی ہے۔ایک ماں کا اپنے بچے کو خود سے جدا کرنا،تکلیف دہ عمل ہے۔افسانہ اسی تکلیف دہ جذبات و احساسات کا عمدہ عکاس ہے۔
مجموعہ کا آخری افسانہ "میرے محافظ "اسلوب اور کردار نگاری کے اعتبار سے فیبل کے زمرے میں آتا ہے۔جس میں دو بوڑھی گائے اہم کردار ہیں۔افسانہ عصر حاضر کے ایک اہم موضوع یا مسئلہ " گئو رکھشک اور ان کے فرقہ وارانہ نظریات " کی حقیقت بیان کرتا کامیاب افسانے ہے۔جہاں بے زبان جانور اپنے گاوں سے محافظوں کی تلاش میں در در بھٹکتی پھرتی ہیں۔لیکن ہر جگہ سے ٹھکرائی جاتی ہیں۔ان کے نام نہاد محافظ کا کہیں کوئی نشان نہیں ملتا، تھک ہار کر،قسمت سے وہ اسی در پر پہنچتی ہیں، جس در کو محافظوں نے (گئو ماتا کے) قاتل قرار دیا ہے۔رحیم خان جو پیشہ سے قصاب ہے۔لیکن ان دنوں ملک میں آئے نئے قانون اور گئو رکھشکوں کے ڈروخوف کی وجہ سے بے روزگاری کی مار جھیلنے پر مجبور ہوگیا ہے۔اسی کو بوڑھی گایوں کی کمزوری ،بد حالی پر رحم آتا ہے۔وہ ان کے لیے چارہ اور پانی کا انتظام کرتا ہے۔لیکن اس کی بیوی ساجدہ گئو محافظ کی قہر سے اس قدر سہمی ہوئی ہے کہ وہ ان گایوں کو گھر سے نکال دیتی ہے۔
اگلی صبح رحیم خاں کی یہ نیکی اس کے قتل کی وجہ بن جاتی ہے۔ اقتباس
"وہ محافظ جن کی تلاش میں وہ گلی گلی بھٹکتی پھر رہی ہیں، صبح ہوتے ہی انھوں نے رحیم خان کے گھر پر ہلابول دیاتھا انھیں خبر ملی تھی کہ رات رحیم خاں کے گھر دو گائیں دیکھی گئی تھیں ۔جن کو دن کے اجالوں میں نہ پاکر انھوں نے سمجھا کہ رحیم خاں نے انھیں ذبح کرڈالاہے۔ان گئو رکھشکوں نے رحیم خاں کو زدوکوب کیا اور گئو ہتھیا کے جرم میں اس کے گھر کو آگ لگادی۔"
افسانے کا یہ اقتباس ہمارے ملک کی درد ناک تصویر پیش کررہا ہے۔جہاں انسان سے زیادہ جانوروں کی زندگی اہم ہوگئی ہے جہاں گئو رکھشکوں کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے۔جہاں رحیم خان جیسے کئی مظلوموں کو صرف شک کی بنیاد پر زندہ جلایا جارہا ہے،ماب لینچنگ کی جارہی ہے۔لیکن گئو کو اپنی ماتا سمجھنے والے ان محافظوں کی گئو شالائیں خود ان گائیوں کی موت کا سبب بن رہی ہیں، وافر مقدار میں غذا نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ رہی ہیں۔لیکن ہمارے ملک کی زعفرانی سیاست نے انسانوں سے زیادہ جانوروں کو اہمیت دی ہے۔انسانی خون اس قدر سستا ہوگیا ہے کہ وہ جانوروں کے تحفظ کے نام پر بآسانی بے دردی سے کہیں بھی بہایا جاسکتا ہے۔
اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ افسانہ دو بوڑھی گائیوں کے دکھ درد سے شروع ہوتا ہے اور انجام دو معصوم، اصل محافظوں ل کے خاتمہ پر اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
ان دنوں ماب لینچنگ اور گئو ہتھیا کے الزام میں کئی بے گناہوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا جارہاہےعصرحاضر کے اس اہم اورسماجی موضوع کو فاضل افسانہ نگار نے جانوروں کی زبانی پر اثر پیرائیہ میں بیان کیاہے۔یہ افسانہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ سلمی صنم صاحبہ اپنے اطراف کا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔چاہے وہ سیاست ہو یا مذہب یا تاریخ ، ادب یا سائنس،ان کا مشاہدہ وسیع ہے جس میں وہ اپنے تجربات ،احساسات کی گھلاوٹ سے افسانوی رنگ دے کر دلکش اور پر اثر بناتی ہیں۔
سلمی صنم کے اسلوب کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں کا راوی اکثر خود کلامی کے چند جملے بار بار دوہراتا ہے۔یہ جملے معنی خیز اور افسانے کی جان ہوتے ہیں۔جو قاری کے لیے موضوع کی گہرائی اور گیرائی تک رسائی حاصل کرنے میں معاون بھی ہیں۔اس کے علاوہ افسانوں کے پرتجسس آغاز اور غیر متوقع انجام ،قاری کو چونکنے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
سلمی صنم صاحبہ کی تشبیہات، استعارات اور علامتوں سے سجی، رواں عام فہم زبان نے ان کے افسانوں کو مزید دلکش اور پر اثر بنادیا ہے۔
مجموعی طور پر"قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں"میں شامل سلمی صنم صاحبہ کے افسانےعصر حاضر کے متنوع موضوعات کا احاطہ کرتے،کامیاب افسانے ہیں۔جس میں معاشرے اور معاشرتی رویوں اور مسائل کی تئیں ان کی فکر متشریح ہے۔
قارئین عصر حاضر کے حالات اور افسانہ نگار کے منفرد اسلوب سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو اس مجموعہ کو ضرور پڑھیں ۔
اس اہم مجموعے کی اشاعت پر سلمی صنم صاحبہ کو مبارکباد مستقبل کے لیے نیک خواہشات
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...