[ نوبل انعام یافتہ ’اینی اغنیو‘ کی کتاب ’Mémoire de fille‘ پر تبصرہ ]
فرانس ایک ایسا یورپی ملک ہے جو کبھی سلطنت تھا ، نوآبادکار تھا اور ایک زمانے میں برطانیہ اور یہ مل کر لگ بھگ 95 فیصد افریقہ پر قابض تھے۔ برطانیہ کی اس براعظم میں بائیس نو آبادیاں تھیں جبکہ فرانس نے وہاں بیس قائم کر رکھی تھیں۔ امریکی براعظموں، ایشیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کی بات الگ ہے، کچھ تو اب بھی اس کے زیر تسلط ہیں، جیسے بحر ہند میں ’Réunion‘ اور بحر اوقیانوس میں ’French Guiana‘۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ، یہ 1949ء میں نیٹو ( NATO ) بنانے والے بانی ممالک میں سے ایک ہے۔ نیٹو جو ہم جیسوں کے مفادات کا دشمن ہے ۔ الجزائر اور دیگر نو آبادیوں پر اس کے ڈھائے ظلم و ستم، امریکہ کے بعد دوسری بڑی جوہری طاقت اور دیگر باتیں ایک طرف، یہ ملک اب تک 72 نوبل انعام حاصل کر چکا ہے اگر مادام کیوری کے دو انعام (کیمسٹری اور فزکس) گنے جائیں تو یہ تعداد 73 بنتی ہے اور یہ دنیا بھر میں امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے بعد چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ اس نے اب تک ادب کے میدان میں 16 نوبل انعام اپنے نام کیے ہیں۔ یہاں فرانسیسی ، انگریزی کے بعد دوسری بڑی زبان ہے، جس کے پاس اتنے نوبل انعام ہیں۔ اس کے پاس والتیر، وکٹر ہیوگو، بالزک، موپساں، سیمون دی بووار، ایمل زولا اور ڈوماز جیسے اور بھی جگادری ادیب ہیں۔ فلمی میدان اور دیگر فنون لطیفہ میں بھی یہ ملک بہت آگے ہے۔ ادب میں پہلا نوبل انعام 1901 ء میں ’Sully Prudhomme‘ نے حاصل کیا تھا اور اس مضمون کو لکھتے وقت تک ’اینی اغنیو‘ (پورا نام: Annie Thérèse Blanche Ernaux شادی سے پہلے کا نام : Annie Duchesne ) 2022 ء کی جیتنے والی 82 سالہ نوبل لارئیٹ ہے۔ اس کی ادبی زنبیل میں 15 کتابیں ہیں جن میں سے چھ کے علاوہ باقی سب انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس کی کتاب ’Mémoire de fille‘ سن 2016 ء میں منظر عام پر آئی تھی اور یہ اس کی تیرھویں کتاب تھی۔ اس کے بعد اس کی دو کتابیں اور بھی آئیں جن میں سے آخری ’Le jeune homme‘ (The Young Man) سن 2022 ء میں ہی سامنے آئی ہے۔ ’Mémoire de fille‘ (لغوی مطلب: اک لڑکی کی یادداشت)کا امریکی انگریزی میں ترجمہ کنیڈین ادیبہ اور ترجمہ نگار ایلیسن ایل سٹیریر (Alison L. Strayer) نے 2020 ء میں ’A Girl’s Story‘ کے نام سے کیا۔ یہ برطانوی انگریزی جاننے والوں اور ہم جیسوں کے لیے قدرے ثقیل ہے ۔
میں اگر اس کتاب کو ایک جملے میں سمیٹنا چاہوں تو یہ کتاب واقعات کا پھر سے اُسار اور جذبات و احساسات کو نشتر سے چیرنے کا عمل ہے۔
یہ ایک نوجوان لڑکی کے ہم بستری کے عمل کا پہلا تجربہ ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہے کہ کسی نے اُس کی اچِھا کی۔ اسے اِس میں اپنی ہتک محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی تضحیک کا احساس ہوا لیکن بعد ازاں جب دوسروں نے اس کا مذاق اڑایا۔ دوسرے جو یہ سمجھتے تھے کہ اس نے اپنا کنوار پن گنوا دیا ہے اور اپنا آپ کھو دیا ہے۔ دوسرے، جنہیں وہ اپنا دوست سمجھتی تھی، اسے ایسا سمجھنے لگے کہ وہ کچھ بھی نہیں رہی، اسے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ کیا وہ واقعی شرمندہ ہے؟ یا یہ اس کا عکس اور رد ِ عمل ہے جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی؟
اینی اغنیو اپنی کتاب ’ایک لڑکی کی یادداشت‘ میں لکھتی ہے۔
”58 19ء تک چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری تاویلوں کی توڑ پھوڑکرتے ہوئے انہیں تباہ کر دوں جنہیں میں نے برسوں سے بُنا اور جمع کیا ہے۔“
وہ اس کتاب کے شروع میں یوں بھی رقم طراز ہے:
”ایسے بندوں کی کمی نہیں جو دوسروں کی حقیقتوں جیسے ان کے بولنے کے ، ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھنے اور سگریٹ جلانے کے انداز سے ملغوب ہو جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کی موجودگی میں پھنس سے جاتے ہیں۔ ایک دن،یا شاید ایک رات میں کسی ’ایک‘ کی خواہش اور مرضی کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں جو بھی یقین رکھتے ہیں وہ دماغ سے غائب ہو جاتا ہے۔ وہ تحلیل ہو کر اپنے ہی عمل کے عکس کو دیکھنے لگتے ہیں، اطاعت کرتے ہیں اور انجانے واقعات میں بہے جاتے ہیں۔ وہ ’دوسروں‘ کی مرضی کے پیچھے دُم بنے چلتے رہتے ہیں۔۔۔ وہ جو ہمیشہ ایک قدم آگے ہوتے ہیں، جنہیں کبھی بھی پکڑا نہیں جا سکتا اور جن کی برابری نہیں کی جا سکتی۔“
اسی پیرے میں وہ آگے چل کر لکھتی ہے:
۔۔۔ اور پھر آپ کے گرد چکر لگانا دوسروں کے لیے بچوں کا کھیل ہوتا ہے۔ وہ آپ کے خالی پن میں در کر آتے ہیں اور آپ ان کو کسی شے کے لیے بھی انکار نہیں کرتے۔۔۔ آپ بس ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ منتظر رہتے ہیں کہ ’ماسٹر‘ آئے اور آپ کو چھو کر عزت بخشے۔ آپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بار اور ایسا کرے اور کرتا ہی رہے۔ ایک رات وہ اپنی کامل برتری سے ایسا کر لیتا ہے جس کی بھیک آپ اپنے پورے جسم و جان کے ساتھ، اس سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اگلے روز وہ جا چکا ہوتا ہے لیکن اس کا یہ جانا معانی نہیں رکھتا۔ اس سے دوبارہ ملنے کی تمنا آپ کی حیات کا مقصد بن جاتی ہے ۔۔۔“
یہ پڑھ کر مجھے ’ای ایل جیمز (Erika Mitchell) کی ٹرائلوجی کا پہلا ناول ’سلیٹی رنگ کے پچاس شیڈ‘ (Fifty Shades of Grey) یاد آتا ہے، اس پر بنی فلم اور اس کا گیت بھی ’لو می لائک یو ڈو‘ (Love Me Like You Do) ۔ ایریکا نے یہ ناول 2011 ء میں لکھا تھا اور اس پر فلم 2015 ء میں بنی تھی۔ ناول ایروٹک (erotic) ہے اور اس نے اپنے زمانے میں منفی تنقید کے باوجود بیسٹ سیلر ناولوں میں سب پر بازی جیت لی تھی۔ فلم کا بھی یہی حال ہوا تھا۔ اس نے بھی منفی ریویوز اور ’بد ترین فلم‘ کا خطاب پاتے ہوئے بھی باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔ اینا (انستاشیا) کا کردار کچھ ایسا ہی ہے جو ’دوسرے‘ کو حاوی ہونے دیتا ہے۔ اینا بھی پہلی بار ’ایک‘ (کرسچیئن گرے) کو خود پر چھانے دیتی ہے اور اپنے کنوار پن کو خیر باد کہتی ہے اور پھر بار بار کرسچیئن گرے سے رجوع کرتی ہے۔
ایریکا کا یہ ناول ایک فکشن ہے اور اس پر بنی فلم فنون لطیفہ کا ایک مناسب امتزاج اور اس کے لیے لکھا گیا گیت ایک عمدہ گیت جس کی موسیقی، بول اور گائیگی منفرد کہ یہ اس فلم کے لیے آسکرز کی واحد نامزدگی تھی ۔
لیکن ۔۔۔۔
کیا یہ سب کچھ محرک تھا کہ اینی اغنیو نے ’ایک لڑکی کی یادداشت‘ (Mémoire de fille) لکھی ؟ شاید نہیں۔ اس کے پاس اپنے ماضی کی یادیں اور ساتھ ساتھ بیتتی زندگی کا تجربہ ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے لفظوں کا روپ دیتے دیتے اسے 48 سال لگ گئے ہیں۔ ایریکا کی اینا جیسی بھی معاشرے میں کہیں ہوں گی ، کرسچیئن گرے جیسے بندے بھی ہوں گے لیکن شاید یہ فِکشنی زیادہ ہیں جیسے فرینکن سٹائن، جیکل، ہائیڈ، شرلک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن یہاں تک کہ ’ لو سٹوری ‘ کی جینی اور اولیور بھی ۔ اینی اغنیو کی اینی نہ تو ’اینا‘ ہے اور نہ ہی اس کا ’H‘ کرسچیئن گرے۔ یہ حقیقی ہیں۔ اینی اغنیو خود ہے اور اس کا پردہ بکارت پھاڑنے والا ’H‘ بھی حقیقی ہی ہے۔۔۔ اور حقیقت تلخ اور کھاری بھی ہوتی ہے اور سچ میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ کڑوا بھی ہوتا ہے لیکن اس میں فکشن کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اینی اغنیو نے اپنی کتاب میں بندے کے نام کی طرح اس قصبے کا نام بھی نہیں بتایا، جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور اسے’S‘ کہا ہے حالانکہ جب اور بہت کچھ کہہ دیا ہے تو ان کے ناموں سے کیا شرم۔۔۔ بقول شخصے ’ ماں کے پیٹ سے تو نکل آئے ہو تو پستان سے دودھ پینے میں کیا شرم ‘ ۔ اینی نے جب اپنے ماضی کے دبیز پردے کے پیچھے جانا طے ہی کر لیا تھا اور اس نے اپنی اور اپنی ذات کی ’تاریخ‘ لکھنے کی ٹھان ہی لی تھی تو تاریخ دان کو ناموں سے جھجک کیوں؟
اینی اغنیو کی کتاب ’ایک لڑکی کی یادداشت‘ 1958 ء کے موسم گرما کے گرد گھومتی ہے جب اینی شمالی فرانس کے ایک قصبے ’ S‘ میں کیمپ کاؤنسلر کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے۔ اُس نے، اِس سے پہلے ایک بار ہی اپنے والد کے ساتھ لوغڈس کا سفر کیا ہوتا ہے۔ وہ بھولی بھالی ہے اور اپنے آپ میں سمٹی رہتی ہے۔کیمپ میں اسے ایک بندے ’H‘ جو اسے مارلن برانڈو جیسا دِکھتا ہے پر کرش (crush) ہو جاتا ہے۔
”اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ دوسری کاؤنسلر لڑکیاں اس کے بارے میں کانا پھوسی کرتی ہیں کہ وہ جسمانی طور پر تگڑا ہے لیکن بھیجا خالی ہے۔ وہ اسے ”رئیس الملائکہ“ ہی سمجھتی ہے۔اسے ’H‘ کی طرف یہ خواہش کھینچتی ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ اسے کسی نے بھی یوں ”گہری نظر“ سے نہیں دیکھا ہوتا، ایسی گھوری نہیں ڈالی ہوتی۔ وہ دونوں کاؤنسلروں کی ایک پارٹی میں رقص کرتے ہیں۔ اس پارٹی کے بعد جو ہوتا ہے اس کے لیے ’بہکاوے‘ یا ’جنسی ترغیب‘کا لفظ درست نہیں ہے۔ اینا ان واقعات کو کوئی نام نہیں دیتی بلکہ وہ انہیں ممکنہ حد تک کھول کر بیان کرتی ہے کہ وہ کیسے ’H‘ کے پیچھے پیچھے چلتی اسے اپنے کمرے میں لے جاتی ہے۔ آپ یہاں حیران مت ہوں کہ پیچھے پیچھے چل کر کسی کو اپنے کمرے تک کیسے لے جایا سکتا ہے: ذرا اوپر لکھے گئے اس پیرے پر دھیان دیں جس میں اینی اغنیو پہلے ہی ماسٹر اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اپنا بیان دے چکی ہے۔
”اسے اپنے پیٹ پر ’H‘ کی جینز میں سے اس کاعضو کیسے محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کے لیے کوئی فرق نہیں کہ وہ کیا کرتی ہے اور اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔“
اور پھر جلد ہی
”منی کی ایک موٹی دھار اس کے چہرے پر چھوٹی اور زور سے اس کے نتھنوں میں گھس گئی۔“
زبان کے یہ خالص الفاظ شاید خوش کن نہیں ہیں لیکن اینی اپنے جذبات میں گم اور ’H‘ کے لیے اپنی بیتابی اور اس کی لذت کے امکان میں گم ہے۔
اینی اغنیو ایک غیر معمولی یادداشت رکھتی ہے لیکن اسے اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ وہ واحد متکلم میں لکھتی ہے اور پھر یک دم خود سے دور ہو کر اپنے ہی بارے میں کہنے لگتی ہے۔ ماضی کی اپنی ذات کو ”سن 58 کی لڑکی“ یا ’S‘ کی لڑکی کہنا شروع کر دیتی ہے۔کئی جگہ یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی پرانی تصویر یا فلم کے ایک منظر میں دیکھ رہی ہے۔ ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کہاں اینی اغنیو اپنی کہانی میں گم ہوئی ہے اور کہاں اس کی یادداشت کورے کاغذ کی طرح خالی ہے۔ وہ اپنا ماضی کچھ زیادہ آشکار نہیں کرتی اور وہ یہ بھی نہیں دکھاتی کہ اسے اپنے ماضی تک وہ رسائی ہے جو یقین سے پُر ہو اور اُسے، اِسے کھول کر رکھ دینے پر قدرت ہو۔ یہ تکنیک میرے لیے بہت نئی ہے اور شاید دوسروں کے لیے بھی ایسی ہی ہو۔ ہم ایسی آپ بیتیاں پڑھنے کے عادی ہیں جن میں لکھنے والے پورے یقین سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ یہ کیا تھا۔
گڑھے مردے اکھاڑنے کی اسی کوشش میں اس کی نثر چھوڑنے اور نہ چھوڑنے کے عملوں کا امتزاج پیش کرتی ہے۔ کہیں کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ اسے لکھنے کی عجلت ہے جیسے دماغ میں آئی یادداشتیں کہیں غائب نہ ہو جائیں۔ وہ حیض کے خون، بچہ گرانے کی بات، مانع حمل گولیوں کا ذکر، گندے ہوئے جانگیے کا بیان، جسموں کے تناؤ اور منی جیسا سب کچھ ایک ہی صفحے پر لکھ دینا چاہتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اینی اغنیو اسی عجلت سے کلینک کا یا کہہ لیں ، اپنے قلم کا نشتر سنبھالے اپنے ماضی کا ایسا چیڑ پھاڑ کرتی ہے کہ الفاظ ننگے ہونے کے سوا اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا نشتر چوکتا بھی نہیں اور ماضی پر پڑی جِھلی آرام سے اترتی چلی جاتی ہے۔
کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ وہ ایک ماہر جاسوس کی طرح پرانے خطوط، دیگر اشیاء اور اپنی یادوں کو پھر سے دیکھتی ہے، انہیں پرکھتی ہے اور ان باتوں کاجواب تلاش کرتی ہے جو لکھنے سے پہلے اس کے لیے سوالات کی مانند موجود رہے ہوں۔ ایسی جگہوں پر ہم اسے یہ کہتے سنتے ہیں :
”میں یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔“ اور وہ لکھتی ہے،”میں اندر گھسنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔ میں اس مخصوص لمحے میں وہاں موجود ہونا چاہتی ہوں۔ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد کے لمحوں میں الجھنا نہیں چاہتی اور اسی ایک خاص لمحے کی خالص قادریت چاہتی ہوں۔“
یہ بات ایک حقیقی امر ہے کہ ہماری یادداشتیں کبھی سلسلہ وار لڑی میں نہیں پروئی ہوتیں اور ہم ہمیشہ ان کے اندر نہیں گھس سکتے۔ یہی کارن ہے کہ اینی اغنیو بھی چاہے جب وہ لڑکی تھی یابالغ اس پر قابو نہ پا سکی اور وہ اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے لوگوں کی طرف لوٹ جاتی ہے اور بحیثیت قاری ہم ’S‘ کی لڑکی تک رسائی نہیں کر پاتے جبکہ ہمیں اس کی، اس لمحے شدت سے ضرورت ہوتی ہے۔ایسے میں وہ ساتھی کاؤنسلروں کے بارے میں بات کرنا شروع کر دیتی ہے۔
اس کتاب کو آج کے زمانے میں پڑھتے ہوئے مجھے یہ کھپے اور یادداشتوں کی یہ چال ایک ٹراما میں بدلتی نظر آتی ہے۔۔۔ ایک ایسا ٹراما جو عورتوں بلکہ مردوں کو بھی اپنی زندگیوں کے ماضی تک واپس جانے یا اپنی زندگیوں کی پوری کہانی بیان کرنے سے دور رکھتا ہے۔
ہاں یہ بھی ہے کہ ہمارے لیے ان آئینوں میں نہ دیکھنا آسان بھی نہیں ہوتا جو معاشرہ ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے اوران کے کہے الفاظ ہمارے لیے کانٹے بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اینی اغنیو کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ جب کیمپ سے نکلتی ہے تو اسے ہر وقت کھانے کا ہوکا (hyperorexia) لگ جاتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے حیض آنا بند ہو جاتے ہیں۔
”میں اپنے اس رویے اور جسمانی بدلاؤ کو کوئی نام نہ دے سکی۔۔۔۔ میں یہ سمجھی کہ یہ کوئی اخلاقی گراوٹ کی بات ہے۔ مجھے اس کا یقین نہیں کہ میں نے اسے ’H‘ کے ساتھ جوڑا تھا۔“
اینی اغنو اپنی تحریروں میں ایسی ہی گمشدہ کڑیاں ملانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس نے بیتے اڑتالیس سالوں میں یا شاید اس بھی کہیں پہلے سے ایک ہی کام کیا ہے اور وہ اپنی زندگی کی قبر کی کھدائی کا کام ہے اور وہ چوسنی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جس پر کبھی شہد لگا ہوتا ہے اور کبھی یہ فقط چوسنی ہوتی ہے جو اپنے ہی لعاب ِ دہن سے تر رہتی ہے۔ ہم میں سے اکثر نہ تو کھدائی کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی شہد بھری یا بے ذائقہ چوسنی تک پہنچ پاتے ہیں۔
اینی اغنیو کی کتابیں چھوٹی اور سادہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر سو صفحات سے بھی کم پر ہی محدودہیں ۔ ان میں نظر آتا ہے کہ وہ خود سے ایک سوال ہی بار بار پوچھتی ہے کہ وہ کس طرح یقین کرے کہ اس کی یادداشتیں درست ہیں۔ یوں وہ اپنے قارئین کو بھی اس الجھن میں ڈال دیتی ہے کہ جو انہوں نے پڑھا ہے وہ کتنا سچ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دیگر ادیبوں کی لکھی آپ بیتیوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے ۔
اینی اغنیو نے اپنی کتاب ’ایک عورت کی کہانی‘ ، 1987(Une Femme) اپنی ماں کی موت کے بارے میں لکھی لیکن اس کے دس سال بعد اس نے جو کتاب ’میں اندھیرے میں ہی ہوں‘ (Je ne suis pas sortie de ma nuit)، 1997 لکھی ۔ اس میں، اس نے اپنی ماں کی یادداشت کھو جانے کی لمبی بیماری کا احوال تو لکھا لیکن یہ اقرار بھی کیا کہ اس کی یہ یادداشت نامکمل ہے۔
’ایک لڑکی کی یادداشت‘ کے آخر میں، اینی اغنیو اس بات کا ذکر کرتی ہے کہ اس نے کیمپ چھوڑنے کے کچھ سال بعد، اسے ایک بار پھر سے جا کر دیکھا۔ اسے وہاں سلیٹی دیواروں اور خالی باغات کے سوا کچھ نظر نہیں آیا البتہ اسے یہ جگہ اپنی ملکیت جیسی لگی۔ اسی ملکیت کے احساس نے اسے شرمندگی کی بجائے تحریک دی کہ وہ اپنی ان یادداشتوں کو قلم بند کرے جو اس کیمپ سے وابستہ تھیں۔۔۔ اور اس نے اِنہیں لکھنا شروع کیا تھا۔
’ایک لڑکی کی یادداشت‘ میں آپ اینی اغنیو کو سمجھ بوجھ کے دو ادوار میں سے کبھی ایک میں پائیں گے اور کبھی دوسرے میں۔ یہ ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی مانند جڑے بھی ہیں اور الگ بھی۔ ایک وہ دور ہے جو لگ بھگ بیس سالہ لڑکی کا دور ہے جبکہ دوسرا ایک ساٹھ ستر سالہ عورت
کا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب اینی اغنیو نے کیمپ چھوڑا تھا تو اس کے دس سال بعد ہی مئی 1968 ء کے واقعات رونما ہوئیاور پھر ایک ایسا جنسی انقلاب آیا کہ جنسیت(Sexuality) چھپانے والا عمل نہ رہا،اسے جشن منانے والے عمل کی حیثیت مل گئی۔ ویسے ہی جیسے پاکستان میں بھی اس زمانے کے ایک نعرے جو ولگر نہیں تھا ، نے فیمینسٹ تحریک میں ’ میرا جسم میری مرضی ‘ کی ولگر شکل اختیار کی تھی ۔
مئی 1968 ء کے واقعات کیا تھے اور اس کے بعد فرانس میں کیا کچھ ہوا، یہ جاننے کے لیے میں آپ کو تاریخ پڑھنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ چارلس ڈیگال کے استعفے کی بات نہیں کروں گا ، اس کے مرنے کی بات نہیں کروں گا اور نہ آکٹوپس جیسی آٹھ پہلو رکھنے والی نیو لیفٹ تحریک کی بات کروں گا ۔
اس کے لیے میں مشورہ دوں گا کہ آپ سکاٹش ناول نگار گلبرٹ ایڈئر (Gilbert Adair) کے 1988 ء کے ناول ’مقدس معصوم‘ (The Holy Innocents) پڑھیں اور اسی پر بنی اطالوی فلم میکر برنارڈو برٹولوچی (Bernardo Bertolucci.) کی فلم ’The Dreamers‘ دیکھیں۔ یہ اس نے 2003 ء میں بنائی تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...