“شائی کرک واحد لعمہ “( چچا کے لئے ایک کڑک چائے)
چھوٹے سے ریستوران کے مصری مینیجر نے آواز لگائی۔ کڑک یا کرک اب عربی کا لفظ بن گیا ہے ۔ ہندوستانی یا پاکستانی دودھ والی چائے کو یہاں کڑک کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ان بہت سے اردو، ہندی الفاظ میں سے ہے جو اب متحدہ عرب امارات کی عربی میں شامل ہوگئے ہیں جیسے، “سیدھا” یا “ بچہ” بھی عام عربی بول چال کا حصہ ہیں۔عرب شاید آپس میں نہ بولتے ہوں لیکن ہندوستانیوں ، پاکستانیوں اور بنگالیوں سے بات چیت میں ہندی اردو ملی عربی بولتے ہیں۔
ہوا یہ کہ میں نے کچھ شاورما سینڈویچ اور ایک فلافل سینڈویچ کا آرڈر کیا تھا ۔ میری اہلیہ گاڑی میں میری منتظر تھیں۔ لیکن بہت دیر ہوگئی تھی اور مجھے اب تک یہ چیزیں نہیں ملی تھیں۔ مینیجر نے بتایا کہ فلافل تازہ بنائے جاتے ہیں اس لئے دیر لگ رہی ہے۔ جب تک آپ یہاں بیٹھ کر چائے پئیں۔
یہ کوئی اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل میں اپںی بیٹی اور نواسہ، نواسی کے ساتھ ایک لبنانی ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا۔ ابھی ہم نے آرڈر بھی نہیں کیا تھا کہ بیرا ہماری میز پر “ کنافہ” کی پلیٹ رکھ گیا۔ یہ ایک عربی میٹھی ڈِش یا حلوہ ہوتا ہے۔ میں نے ویٹرکوبلایا اور بتایا کہ ہم نے یہ آرڈر نہیں کیا ہے۔
“اوہو۔یہ غلطی سے یہاں آگیا۔ خیر کوئی بات نہیں ۔رہنے دیں۔ یہ میری طرف سے ہے” اور وہ آگے بڑھ گیا۔
اور ایک صبح ہم دفتر کے وقت سے بہت پہلے پہنچ گئے۔ میرے ساتھ میری دو ہندوستانی ہم کار بھی ہوا کرتی تھیں۔ صبح شارجہ سے جبل علی ایک ڈیڑھ گھنٹے کا سفرہوتا تھا۔ ہم منہ اندھیرے گھر سے نکلتے تھے کہ وقت پردفتر پہنچ سکیں۔ کبھی جلدی پہنچ جاتے تو کہیں رک کر چائے ، کافی پی لیتے۔
“ کیا خیال ہے ناشتہ نہ کرلیا جائے۔ ابھی بہت وقت ہے” ایک نے تجویز پیش کی۔
ہم سب جبل علی فری زون میں واقع ایک ملباری ریسٹورنٹ چلے گئے۔ میں گھر سے ناشتہ کرکے چلتا ہوں ، صرف ان کا ساتھ دینے کے لیے شامل ہوگیا۔ ہم نے مسالہ ڈوسا آرڈر کیا تھا۔ آدھے سے زیادہ ناشتہ بچ گیا۔ ہم ںے ایک ویٹر سے کہا کہ بچا ہوا ناشتہ پیک کردے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ بقیہ کھانا دفتر میں بعد میں کھالیں گے یا کسی اور ساتھی کو دے دیں گے، یہ ہم اکثر کیا کرتے تھے۔
بیرے نے مسالہ ڈوسا تو وہی پیک کیا لیکن “سانبھر” اور ناریل کی دونوں چٹنیاں نئی پیک کردیں۔
“ ارے وہی رہنے دیتے۔دوسری کیوں پیک کردیں” ہم میں سے کسی نے کہا۔
“ نہیں ۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ سانبھر اور چٹنی کی قیمت ہی کیا ہے” ملباری ویٹر نے پیکٹ ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
بظاہر یہ بہت چھوٹی سی، معمولی سی باتیں ہیں۔ لیکن یہ گاہک کا دل جیت لیتی ہیں۔ گاہک ایسی جگہوں کے بارے میں ہمیشہ کے لیے ایک خوشگوار تاثر قائم کرلیتا ہے۔ لبنانی، ایرانی اور ہندوستانی یہ گر اچھی طرح جان گئے ہیں ۔ رہے ہمارے پاکستانی بھائی تو ان کے لیے پیسہ زیادہ اہم ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ۔
کھانے پینے کے آداب، مہمان نوازی کا سلیقہ، میزبانی کا قرینہ یہ سب مختلف قوموں کے رہن سہن، تہذیب اور رکھ رکھاؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہاں امارات میں بہت سا وقت گذارنے کے بعد کچھ دلچسپ مشاہدے ہوئے۔ کچھ اچھے، کچھ بہت اچھے تو کچھ اتںے اچھے نہیں۔ خلیج میں مختلف قومیتیں رہتی ہیں اور یہاں آزادی سے ایک دوسرے کے رہن سہن کا مطالعہ کرنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔میرا مشاہدہ اور ان سے اخذ کردہ نتیجہ شاید وہ ںہ ہو جو کسی اور کا ہو۔ لیکن “دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دوں” تو ایسا کوئی حرج بھی نہیں۔
دوبئی اور خلیجی ممالک کا طرز زندگی بھی اب بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں دنیا بدل رہی ہے اور دوبئی تو جتنی تیزی سے بدلا ہے شاید اس کی مثال ہی کہیں اور ملے۔ سن تراسی میں جب میں یہاں آیا تو یہاں کی فضا اپنے کراچی کی طرح خاصی غریب پرور تھی۔ رہائش بہت سستی ، زود یاب، کھانا پینا بہت ہی سستا ،قوانین نسبتا نرم تھے ، شہر چھوٹا سا تھا۔ ٹریفک کے ہنگامے ویسے نہیں تھے جیسے آج ہیں ۔ شام کو بہت وقت مل جاتا تھا جو فیملی یا دوستوں کے ساتھ گذارا جاسکتا تھا۔ ہم جیسے چھڑے چھانٹ بھی یہاں آسانی سے رہ لیتے کہ “ شئیرنگ” یعنی شراکتی رہائش پر کوئی قدغنیں نہیں تھیں۔ ہوٹلوں میں ڈھائی تین درہم سے لے کر تو ڈھائی تین ہزار تک میں کھایا جاسکتا تھا۔
جی ہاں دو ڈھائی روپے میں کم از کم دال روٹی کھا سکتے تھے۔ ملباری ہوٹلوں میں تین ساڑھے تین روپے کا “ باریک یا موٹا سیٹ” پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے۔ یہ “ سیٹ” یا “تھالی” بہت خوب ہے۔ اس میں مختلف خانے بنے ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑے خانے میں موٹے یا باریک چاول ( موٹا چاول ساؤتھ انڈینز کو زیادہ مرغوب ہے۔ پاکستانی باریک چاول کو ترجیح دیتے ہیں )۔ بقیہ خانوں میں دال، سبزی، سالن ، اچار، پاپڑ اور اکثر تلی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا بھی ملتا ہے۔ اس میں مقدار کی کوئی قید نہیں۔ دال ، سالن یا سبزی کچھ کم ہوجائے تو ٹرے میں مزید ڈال دیتے ہیں اس کے لئے پوچھنا نہیں پڑتا، الٹا بیرے ہاتھ میں میں مختلف کٹوریاں یا پیالے لئے میزوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں اور گاہکوں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ “ اور چاہئیے”۔ چاول کم ہوجائیں تو گرما گرم مزید چاول ڈال دیتے ہیں۔ میں چاول سے اجتناب کرتا تھا کہ دفتری اوقات میں چاول سے غنودگی چھا جاتی تھی۔ مجھے اس کے بدلے گرما گرم تندوری روٹی مل جاتی تھی۔
ان تھالیوں کے علاوہ آپ کوئی بھی سالن، قیمہ، سبزی ، دال وغیرہ الگ سے بھی آرڈر کرسکتے ہیں۔ تب ان کی قیمت چار پانچ درہم سے زیادہ نہیں تھی اور اب بھی بہت زیادہ نہیں بڑھی ہے۔ ایک اور دلچسپ اور غریب پرور طریقہ یہ تھا کہ بیک وقت قیمہ اور دال یا سبزی بھی آرڈر کیا جاسکتا تھا اور وہ پلیٹ میں دونوں چیزیں آدھی آدھی ڈال دیتے ہیں۔ قیمت اتنی ہی رہتی ہے۔ میں نے سالہا سال ان ملباریوں کا نمک کھایا ہے اور انہیں دعائیں دی ہیں۔ آج بھی جب پرانے اور ڈھابے نما ریسٹورنٹ غائب ہوتے جارہے ہیں اور نئے علاقوں میں مزدوروں اور غریبوں کے لئے “ سب وے”۔ میکڈانلڈ یا کے ایف سی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، صنعتی علاقوں اور پرانے محلوں میں یہ ملباری ہوٹل غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
پاکستانی ہوٹلوں کا طریقہ کار ذرا مختلف ہے۔ ان میں بھی کئی اقسام ہیں۔ کچھ ہوٹل ملباریوں کی طرح عوام الناس کا پیٹ بہت سستے میں بھر دیتے ہیں تو “ لال قلعہ” اور “باربی کیو ٹو نائٹ” جیسے مہنگے ریسٹورنٹ بھی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے پاکستانی ریسٹوران مقبولیت میں ہندوستانی ریسٹورنٹس سے آگے نکل گئے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ہوٹلوں کے کھانوں کے ذائقے کے بھارتی بھی گرویدہ ہیں خصوصا وہ گوشت خور جن کے گھروں میں صرف دال سبزی کا چلن ہے وہ یہاں قورمہ، نہاری اور حلیم اڑاتے ہیں ۔ اسی طرح ساؤتھ انڈین مسالہ ڈوسا کی طرح پاکستانی ناشتے ہندوستانیوں کو بھی بہت مرغوب ہیں اور چھٹی کے دن کراچی دربار جیسے ریسٹورنٹس میں ہندوستانی بھی پاکستانیوں سے کم نہیں ہوتے۔
کراچی دربار ، ہوٹلوں کی ایک مشہور “چین” ہے۔ پورے امارات میں شاید ان کی پینتیس یا چالیس شاخیں ہیں۔ سنا ہے ان کا مشترکہ کچن ہے چناچہ آپ کسی بھی برانچ میں کھائیں، ذائقہ ایک جیسا ملے گا۔ ان کے علاوہ “دہلی نہاری ” “ ڈیلی” “راوی” اور “ پاک غازی” کی بھی کئی شاخیں ہےں۔ ڈیلی اور دہلی میں نہاری کھانے والوں کے نزدیک کراچی کی جاوید، زاہد اور صابر کی نہاری کچھ بھی نہیں ہے۔ “ راوی “ریسٹورنٹ کے تکے کباب کے گرویدہ پاکستانی، ہندوستانیوں سے زیادہ ، جمیرا جیسے علاقوں کے گورے ہیں ۔
ان ہوٹلوں کے دو حصے ہوتے ہیں ایک عوامی اور دوسرا “ شرفاء” کا۔ دوسرے حصے کو فیملی روم نہیں کہتے کہ یہاں صرف مرد بھی آسکتے ہیں۔ فرق دونوں حصوں میں یہ ہوتا ہے کہ عوامی حصہ عام ہوٹلوں جیسا ہوتا ہے۔ اور کھانوں کی قیمتیں بھی کم ہوتی ہیں۔ منرل واٹر کی جگہ نل کا پانی جگ میں بھرا رہتا ہے۔ رائتہ جسے یہ “ چٹنی” کہتے ہیں اور سلاد جس میں پیاز، ککڑی اور لیموں وغیرہ مکس ملتے ہیں، مفت دئے جاتے ہیں۔ ناشتے میں “ حلوہ” یا “ سوئیوں کی کھیر” بھی مفت ملتی ہے۔
لیکن اگر آپ بیوی بچوں کے ساتھ دوسرے “ ڈیسینٹ” حصے میں بیٹھے ہیں تو انہی کھانوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ساتھ ہی منرل واٹر کی بوتل اور سلیقے سے سجے ہوئے سلاد کی پلیٹ بھی آپ کی میز پر رکھ دی جاتی ہے۔ کٹوریوں میں رائتہ بھی لاکر رکھ دیا جاتا ہے پھر پوچھا جاتا ہے کہ کیا کھائیں گے، کھانا آنے تک آپ سلاد اور رائتے سے شغل کرتے رہتے ہیں رائتہ عموماً مفت ہوتا ہے لیکن سلاد اور پانی جن کا آپ نے آرڈر نہیں کیا ہوتا ہے، آپ کے بل میں شامل کردئیے جاتے ہیں۔ عوامی حصے میں کھانا کھاکر آپ کاؤنٹر پر بل ادا کرکے باہر آجاتے ہیں۔ خصوصی یا خواصی حصے میں بیرا بل میز پر لاکر دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کو ٹپ بھی دینی چاہئیے۔
ان ہوٹلوں کے عوامی یا خصوصی کسی بھی حصے میں آپ کچھ بھی آرڈر کریں اس کا وہی مطلب لیا جاتا ہے اور صرف اور صرف وہی مہیا کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے “سیخ کباب” منگوایا ہے تو بیرا ایک پلیٹ میں چارسیخ کباب آپ کے سامنے پٹخ کر چلا جائے گا۔ پلیٹ میں کبابوں کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
لیکن یہی کباب آپ کسی لبنانی یا شامی ریسٹورنٹ میں منگوائیں تو پلییٹ یا ٹرے میں کبابوں کے علاوہ خبز (روٹی) جس پر سرخ چٹنی لگی ہوگی، پارسلے ( دھنیا نما) چھڑکا ہوگا، چند آلو کے قتلے (فرنچ فرائز) لہسن کی پیسٹ، grill کی ہوئی پوری پیاز اور دوچار اور چیز یں بھی سجی ہونگی۔ اور یہی وہ “ سلیقہ” ہے جو فرق ہے ہم میں اور ان میں۔
ان عربی ( شامی یا لبنانی) ریسٹورنٹ کا ایک مخصوص انداز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کی قیمت کھانے کی قیمت میں شامل کرتے ہوں لیکن گاہک کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ( قرینہ اور کسے کہتے ہیں )۔ جیسے ہی آپ اپنی نشست سنبھالتے ہیں بیرے آکر مہمانوں کی تعداد کے مطابق ایک ٹوکری میں تازہ روٹی ( خبز) ، سوپ کے پیالے، ایک پوری ٹرے سلاد کی جس میں ٹماٹر، ککڑی، مولی، سلاد کے پتے اور چھری لاکر دے دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی سر کے میں ڈوبے ہوئ سبزیاں یا pickle بھی وافر مقدار میں میز پر رکھ دیے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ مفت، جی ہاں بالکل مفت۔ ہم جیسے کم خوروں کا تو پیٹ سوپ پی کر اور سلاد کھاکر ہی بھر جاتا ہے۔ اس کے بعد کہیں آکر بیرا آپ کا آرڈر پوچھتا ہے۔ کھانے کے دوران بھی خبز کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ بہت سے ہوٹلوں میں “حمص” بھی مفت دیا جاتا ہے لیکن آج کل بہت سے اسے “ چارج” بھی کرتے ہیں۔ اکثر ریسٹورنٹ میں کھانے کے بعد بے حد خوش ذائقہ سبز چائے ( قہوہ) بھی مفت پیش کیا جاتا ہے۔ اور جو کچھ بھی آپ کے آرڈر کئے بنا مہیا کیا جاتا ہے اس کی قیمت نہیں لی جاتی جب کہ ہمارے پاکستانی ریسٹورنٹ ہم سے پوچھے بغیر چیزیں رکھتے ہیں اور ساتھ ہی قیمت وصول کرتے ہیں ( جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں)۔
شارجہ سے عجمان جاتے ہوئے سمندر کنارے ایسا ہی ایک شامی ریسٹورنٹ تھا جس کے ہم مستقل گاہک تھے کہ اس کی قیمتیں عام عربی ہوٹلوں سے بہت کم تھی لیکن معیار کسی سے کم نہیں تھا۔ سوپ، سلاد، اچار ، روٹیاں اور چائے جتنی چاہے منگوالو ایک پیسہ نہیں لیتے تھے۔ ایک درمیانی عمر کا ویٹر ہمارا آرڈر پہچانتا تھا اور ہمارے کہے بغیر ہی ہماری مطلوبہ چیزیں لے آتا تھا۔ ایک بار فیملی کے ساتھ جاتے ہوئے میں گھر سے پیسے لے جانا بھول گیا۔ ہوٹل پہنچ کر مجھے یاد آیا تو میں بچوں سمیت باہر جانے لگا کہ کسی قریبی “اے ٹی ایم” سے پیسے نکلوالوں گا کہ مصطفے ( وہی ویٹر) نے دیکھ لیا۔ اسے پتہ چلا کہ میں پیسے لینے جارہا ہوں تو ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا کہ پیسے آتے رہیں گے آپ کھانا تو کھائیں۔ اور جب کھانے کے بعد میں باہر سے پیسے نکلوا کر واپس آیا تو سخت ناراض ہوا کہ آج کے آج ہی آنا کیا ضروری تھا۔ یہ اپنائیت ہوتی ہے جو گاہک کو اپنا گرویدہ بناتی ہے اور عربوں کی مہمان نوازی تو ویسے ہی ضرب المثل ہے۔
ایک اور غریب نواز ہوٹل دیرہ دوبئی کے عین قلب میں تھا۔ یہ جگہ ناصر اسکوائر کہلاتی ہے۔ یہاں پہلے ایچ ایس بی سی کاجسے اس وقت برٹش بنک اور اس سے پہلے برٹش بنک آف دی مڈل ایسٹ کہتے تھے ، ہیڈ آفس تھا۔ اس کے داہنے جانب ، روؤف ریسٹورنٹ” تھا۔ یہ شاید لبنانی ریسٹورنٹ تھا ۔ اس کا شاورما بہت مشہور تھا جو ان دنوں صرف دو درہم کا ملتا تھا۔ یہ ریسٹورنٹ ہمیشہ ائرلائن کریو سے بھرا رہتا تھا۔ قریب ہی دوبئی انٹرکان ، کارلٹن، ریویرا اور شیرا ٹن ہوٹل ہیں۔ رؤف شاید اب نہیں ہے۔ ائرلائن کا عملہ عموماً نئی جگہوں پر اپنا روزینہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رؤف ایسے لوگوں کا مائی باپ تھا۔ ریسٹورنٹ میں ایک بہت بڑا “ سلاد بار” تھا جہاں بے تحاشا مختلف قسم کے سلاد کے علاوہ بڑے شیریں اور رسیلے تربوز کی قاشیں اور گرما گرم چنے کا حلوہ ( جیسا اپنے ہاں شبرات وغیرہ پر بنتا ہے) اور یہ سب بالکل مفت۔ آپ چاہیں تو صرف ایک شاورما منگالیں یا کوئی عربی ڈِش اور کباب وغیرہ لیکن سلاد، تربوز اور حلوہ بالکل مفت۔ جب کبھی کم پیسوں میں زیادہ کھانے کا موڈ ہوتا تو ہم رؤف کا رخ کرتے۔
کم پیسوں میں زیادہ کھانے کے لئے ہندوستانی “ تھالی یا ویجیٹیرین “ ریسٹورنٹ بھی بہت مقبول تھے۔ اب ان میں سے اکثر نے تزئین نو کے بعد تھالی کا سسٹم ختم کرکے مہنگے “ بوفے” کا طریقہ شروع کردیا ہے لیکن اب بھی کچھ گجراتی اور ساؤتھ انڈین تھالی ریسٹورنٹ باقی ہیں جہاں تھالی میں گرما گرم پھلکے، چاول، کئی طرح کی دالیں، سبزیاں، اچار، چٹنیاں، پاپڑ، پکوڑے اور چھاچھ ( لسی) لا محدود مقدار میں ملتی ہیں۔ ساتھ ہی گلاب جامن یا کھیر وغیرہ بھی ملتے ہیں ۔ ویٹر جس انداز میں بار بار آکر پوچھتے ہیں اور آپ کی دال سبزی کی کٹوریاں بھرتے رہتے ہیں اس سے گھر کی یاد آجاتی ہے۔ یہ آپ کو جی بھر کے کھلاتے ہیں اور قیمت ایک ہی رہتی ہے۔ دراصل تھالی کی کٹوریاں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ چند نوالے ہی بنتے ہیں ۔اسی طرح پھلکے اور پراٹھے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ کئی بار منگوانے کے باوجود وہ ہماری پاکستانی یا افغانی تندوری روٹیوں کی آدھی ہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ پیش کرنے کا انداز اور سلیقہ ہے کہ گاہک کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت سارا کھانا مفت یا کم پیسوں میں کھا رہا ہے۔
آج کل پاکستانی ریسٹورنٹ باربی کیو ٹو نائٹ اور لال قلعہ وغیرہ بہت مقبول ہیں لیکن ان کا تصور مہنگے ہوٹلوں کا ہے۔ ان کے ہاں بوفے میں کئی طرح کی ڈشز اور کباب وغیرہ ہوتے ہیں لیکن گاہک کو احساس رہتا ہے کہ وہ مہنگا کھانا کھا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ بہت مقبول ہورہا ہے جس کا نام Absolute Barbequeہے۔ اس کا طریقہ واردات بہت دلچسپ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کسی گجراتی ، مارواڑی یا سندھی ہندو کی ملکیت ہے کہ ایسے منافع بخش خیالات انہیں ہی آسکتے ہیں۔
اس ریسٹورنٹ میں میزوں میں ہی چولہے نصب ہیں جن پر گرما گرم کبابوں کی سیخیں لاکر رکھی جاتی ہیں۔ لیکن ٹھہرئیے ابھی سے کباب کہاں کھانے بیٹھ گئے۔
ریسٹورنٹ کے ہال میں داخل ہوتے ہی “ پانی پوری” گول گپے”، گولا گنڈا اور آلو چھولے وغیرہ کے اسٹال ہیں جو اسی مینو کا حصہ ہیں اور “ مفت” ہیں۔ کھانا آنے میں ابھی دیر ہے۔ پانی پوری دیکھ کر اکثر کا جی مچل جاتا ہےاوروہ ایک پلییٹ بنوا کر اپنی میز پر لے جاتے ہیں ۔اس دوران بیروں کا کہیں اتا پتہ نہیں ہوتا۔ خیر ان کی پروا بھی کسی ہے۔ آپ گول گپے یا آلو چھولے اٹھا لاتے ہیں۔ اس طرح کی دوتین مفت چیزوں کے بعد “ گولا گنڈے” کا لطف اٹھاتے ہیں۔
اب کچھ دیر بعد یکے بعد دیگرے ویٹر حضرات تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے ایک ویٹر تازہ بتازہ ایک نئے انداز سے بھنے ہوئے مکئی کے دانے آپ کی پلیٹ پر ڈالتے چلے جاتے ہیں اور جب تک آپ منع نہ کریں آپ کی پلیٹ بھر چکی ہوتی ہے۔ دوسرا ویٹر ایک نئے انداز سے گرل کیا ہوا انناس آپ کی پلیٹ میں ڈالتا ہے۔ یہ اتنی عجیب سی چیز ہے کہ آپ اشتیاق کے مارے منع نہیں کرپاتے۔ تیسرا ویٹر اسی قسم کے بھنے ہوئے آلو پلیٹ میں رکھنے لگتا ہے۔ ایک اور بیرا “ گرل” کیا ہوا تربوز بھی ڈال دیتا ہے۔ اب یہ ایک عجیب وغریب سی چیز ہے حالانکہ اس کا ذائقہ نہایت ہی واہیات ہے۔ آپ یہ انواع و اقسام کے “ اسٹارٹر” دیکھ کر شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک بیرا اطلاع دیتا ہے کے عقب میں ، بوفے، کی ڈشز ہیں ۔ آپ اب تک پانی پوری، گول گپے، گولا گنڈا اور ان بھنی ہوئی چیزوں سے پیٹ بھر چکے ہیں۔ بوفے کی ڈشز میں قورمہ ، کڑاہی گوشت، بگھارے بیگن، بریانی وغیرہ گھی میں تر ترا رہے ہیں اور اتنی خوش نظر ڈشیں ہیں کہ آپ بے تحاشہ اپنی پلیٹ بھر لیتے ہیں۔ لیکن ذرا سا کھاکر آپ کی طبیعت سیر ہوچکی ہے۔
اب بیرے وہ باربی کیو آئٹمز لاتے ہیں جن کی وجہ سے آپ اس ریسٹورنٹ میں آئے ہیں اور اتنا مہنگا بل ادا کررہے ہیں۔ یہ یقیناً بہت خوش ذائقہ اور لذیذ ہیں ۔ یہ ایک ایک سیخ میں تین تین چار چار پروئے ہوئے مختلف طرح کی بوٹیاں، کباب، تکے اور مچھلی وغیرہ ہیں لیکن اب آپ میں مزید کھانے کی ہمت ہی نہیں ہے چنانچہ دوتین بوٹیوں کے بعد آپ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ویٹر بھی دوبارہ “ سرو” نہیں کرتے۔ اور آپ ریڑھے، ٹھیلے، کھوکھے والی چیزوں سے پیٹ بھر کر پنج ستارہ ( فائیو اسٹار ) ہوٹل کی قیمت دے کر خوش خوش گھر آجاتے ہیں۔
خیر یہ تو یونہی برسبیل تذکرہ قصہ چھیڑ دیا۔ میں نے کوئی اچھوتی یا انہونی باتیں نہیں بتائیں۔ آپ سب اس طرح کے یا ان سے ملتے جلتے تجربات سے گذرتے ہوں گے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ ایک ذرا سا کام کرنے کا سلیقہ، چیزوں کو برتنے کا قرینہ آپ کو دوسروں سے ممتاز اور کامیاب کردیتا ہے۔ یہ سلیقہ عام زندگی میں بھی آپ کو نمایاں کرتا ہے اور کاروباری دنیا میں تو ہے ہی بہت اہم۔یہ لبنانی، ایرانی، ہندوستانی فوری منافع سے زیادہ ساکھ اور نیک نامی کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک بار نام ہوجائے تو کاروبار دن دوگنا رات چوگنا ترقی کرتا رہتاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عام زندگی ہو یا کاروباری دنیا یا معاملات مملکت، ہم ہر جگہ “ کام چلاؤ” “ ڈنگ ٹپاؤ” قسم کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں بھارتیوں کی تعداد ہم سے دوگنی ہے۔ ہم غیر ملکیوں کی دوسری بڑی آبادی ہیں۔ یہاں کا تقریباً تمام تر کاروبار ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سارے بڑے اور جدید ہسپتال، فارمیسی، تعلیمی ادارے بھارتیوں کی ملکیت ہیں۔ تمام سپر مارکیٹس، شاپنگ مال اور کیا کچھ نہیں ہے جہاں ان “ بنیوں” کا قبضہ نہیں۔ہماری تعداد دوسرے نمبر پر ہے لیکن ہم کہیں نہیں ہیں۔ ہاں چھوٹے موٹے کام یعںی ٹیکسی ڈرائیور، حجام، درزی اور گوشت کی دکانوں پر ہماری اجارہ داری ہے۔ ہمارے لیے یہاں بھارتیوں سے زیادہ مواقع تھے۔ یہاں کا انفراسٹرکچر بنانے میں ہمارا ہم کردار ہے۔ بھٹو کی ابوظہبی کے شیخ زاید سے اور ضیاءالحق کی دوبئی کے شیخ راشد سے ذاتی قربت کی وجہ سے یہاں کےبجلی، مواصلات، بینکنگ، انشورینس ، دفاع ، پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں پاکستانی چھائے ہوئے تھے۔ ہم مذہب ہونے اور عربی پڑھنے کی آسانی کی وجہ سے ہم ان عربوں سے زیادہ قریب ہوسکتے تھے۔ لیکن ہم نے ایک ایک کرکے سارا وقار، ساری عزت گنوادی۔دوسری قوموں نے وقت کی نبض کو پہچانا۔ حالات کا درست ادراک کیا اور مواقع سے فائدہ اٹھایا۔ ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں ہیں کہ ہمیں عزت نہیں دی جاتی، منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ قومیں کسی کی خیرات یا نظرالتفات سے نہیں ترقی کرتیں۔ قومیں اپنی صلاحیتوں ، محنت اور سلیقے اور قرینے سے اپنا مقام بناتی ہیں۔
بات کھانے پینے سے شروع ہوئی اور کہیں اور جا نکلی۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ ہم میں وہ کچھ کیوں نہیں ہے جو دوسروں کے پاس ہے۔ ہم کیوں ہر وقت جلتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔ آج کا دور مقابلے کا دور ہے۔ کمزور، ، کاہل ، سست اور کم ہمتوں کے لیے آج کوئی جگہ نہیں ۔ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔