فیصل آباد سے متعلق ممتاز شاعر ، استاد اور یگانہ روزگارفاضل جناب سلیم بیتاب نے 1974 میں زینہ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہوکر رخت سفر باندھ لیا ۔۔بے لوث محبت , بے باک صداقت ,انسانی ہمدردی اور خلوص و مروت کا ایک عہد اختتام کو پہنچا ۔۔علمی و ادبی روایات کا علم بردار فطین ادیب جواں عمری میں ہماری بزم وفا سے کیا گیا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔۔سلیم بیتاب کا شمار حریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا تھا جنہوں نے زندگی بھر حرف صداقت لکھنا اپنا دستورالعمل بنایا ۔۔ظالم و سفاک موذی و مکار استحصالی عناصر سے اسے شدید نفرت تھی ۔۔انسان کی توہین، تذلیل، تضحیک اور توقیری کے مرتکب زمین کے ہر بوجھ پر لعنت بھیجنا ان کا شعار تھا ۔۔۔
سلیم بیتاب جنہوں نے باکمال شاعری کی اور صرف 34برس کی عمر میں ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا لیا۔تھا ۔۔ 1940 کو ہندوستان کے ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے سلیم بیتاب نے بڑی فکر انگیز شاعری کی۔ ان کی شاعری میں کمال کا تنوع ملتا ہے اور زندگی کے تمام رنگ ملتے ہیں۔ ان کا رومانوی لہجہ بھی سب سے الگ تھلگ ہے۔ ویسے تو ان کی شناخت ان کا ایک شعر ہے
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سلیم بیتاب کو زندہ رکھنے کیلئے یہی ایک شعر کافی ہے لیکن ایسا کہنا مناسب نہیں۔ اس شعر کے علاوہ بھی انہوں نے کئی خوبصورت اشعار کہے۔
جیسے کہ کہتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ شاعر کا ذہنی افق وسیع ہوتا جاتا ہے اور وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کو اپنے فن کا حصہ بناتا ہے۔ لیکن سلیم بیتاب نے جتنی عمر پائی، یقین نہیں آتا کہ ان کی شاعری کا کینوس اتنا وسیع ہو سکتا ہے۔ اگر عمر وفا کرتی تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شعری عظمت میں مزید اضافہ ہوتا۔
ان کے خیال کی قوت جب احساس کی شدت میں ڈھلتی ہے تو شاندار شاعری وجود میں آتی ہے۔ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
چہرے سے دُھل چکی مری بیداریوں کی راکھ
آنکھوں میں کچھ خمار ابھی رتجگوں کا ہے
ان کی شاعری میں وہ تنوع ہے کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ذرا یہ شعر دیکھئے۔
یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
اور یہ شعر تو نہایت اثر انگیز ہے۔
اس ملک میں بھی لوگ قیامت کے ہیں مُنکر
جس ملک کے ہر شہر میں اک حشر بپا ہے
سلیم بیتاب کی شاعری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کے بعض اشعار کا پہلا مصرعہ ہی چونکا دینے والا ہوتا ہے اور قاری واہ واہ کر اٹھتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کی قوت اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے جو اس حقیقت کا غماز ہے کہ ان کے فکر کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر عامیانہ پن کا احساس نہیں ہوتا۔کبھی ان کے خیال کی ندرت، کبھی ان کی تاثریت اور کبھی ان کا اسلوب قاری کو متاثر کرتے ہیں۔
سلیم بیتاب کی شاعری میں لطافت‘ سلاست اور سادگی ہے۔ان کی شاعری براہ راست ابلاغ کی شاعری ہے۔۔سلیم بیتابنے اپنا پہلا مجموعہ کلام 1973 میں " لمحوں کی زنجیر " کے نام سے سے منصہ شہود پر لائے جسے ملک کے ادبی حلقوں کی طرف سے بے حد سراہا گیا اور جب وہ اپنا دوسرا شعری مجموعہ " ہوا کی دستک " لانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ موت نے آن لیا اور یوں پاکستان رائیٹرز گلڈ کا کنوینئر اور انجمن لائل پور کا صدر ۔۔۔۔۔۔بیوی بچوں اور دوستوں کو وراثت میں " ہوا کی دستک " کا مسودہ دے کر 34 سال کی عمر میں 20 جولائی 1974 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا ۔۔۔۔
اردو شعرا میں بھی کچھ ایسے تھے جو کم عمری میں موت کی وادی میں اتر گئے۔ اب یہ قدرت کے فیصلے ہیں جو اٹل ہیں لیکن بہرحال جو لوگ چھوٹی عمر میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں، اُن کی موت کا بہت صدمہ ہوتا ہے۔ ان کے خاندانوں کے پاس سنانے کیلئے ایک نہ ختم ہونے والی داستان الم ہے۔ یہ خاندان زندگی کے نئے معانی سے آشنا ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ غم دوراں اور حسرتوں کا لہو شاید زندگی کا لازمی حصہ ہیں جن کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ کسی شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
غم زمانہ ہو اور چند حسرتوں کا لہو
یہی غذائیں ضروری ہیں زندگی کیلئے
کم عمری میں وفات پانے والے اُردو شعرا میں شکیب جلالی، سارہ شگفتہ، مصطفی زیدی، پروین شاعر، قابل اجمیری، عبدالرحمان بجنوری، حیات امروہی، پنڈت دیا شنکر نسیم (مثنوی گلزار نسیم کے خالق) اور اختر شیرانی شامل ہیں۔ ایک نام اس فہرست میں شامل نہ کیا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی اور وہ ہے سلیم بیتاب جنہوں نے باکمال شاعری کی اور صرف 34برس کی عمر میں موت کو گلے لگا لیا ۔۔
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی
یہ اور ایسے ہی سینکڑوں شہرہ آفاق اشعار اور دل میں اتر جانے والی نظموں کا خالق قلندر ہفت سلیم بیتاب 1940 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوا ۔۔1947 میں جب پاکستان بنا تو یہ سات سال کا بچہ بھی اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آ گیا اور لائل پور کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا ۔۔۔۔ابتدائی تعلیم سینٹ ٹامس اسکول خوش پور تحصیل سمندری ضلع لائل پور سے حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج لائل پور سے گریجویشن کی ڈگری لے کر پنجاب یونیور سٹی لاہورمیں ایم اے ادبیات اردو میں داخلہ لیا ۔۔طبعیت شروع ہی سے شعر گوئی کی طرف مائل تھی ۔۔۔۔۔
عبد الحفیظ ظفر ، اپنے ایک مضمون میں سلیم بیتاب کی فنی عظمتوں کو سراہتے ہوۓ کہتے ہیں کہ "فیصل آباد میں 1940میں پیدا ہونے والے سلیم بیتاب نے بڑی فکر انگیز شاعری کی۔ ان کی شاعری میں کمال کا تنوع اور زندگی کے تمام رنگ ملتے ہیں۔ ان کا رومانوی لہجہ بھی سب سے الگ تھلگ ہے۔ ویسے تو ان کی شناخت ان کا ایک شعر ہی کافی ہے۔۔
¢ میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سلیم بیتاب کو زندہ رکھنے کیلئے یہی ایک شعر کافی ہے لیکن ایسا کہنا مناسب نہیں، اس شعر کے علاوہ بھی انہوں نے کئی خوبصورت اشعار کہے۔"
سلیم بیتاب کے کرام کو اپنے دور میں رکھ کر دیکھئے یا اردو شاعری کے تمام ادوار میں ۔۔یورپ کے کلام کا مسکراتا ہوا انداز ہےدو سے اردو شاعری کے پس منظر کی عام روایات سے بھی ممتاز کرتا ہے الفت اور انفرادی رنگوں کی بھوک المومنین سے بھی ان رنگوں میں شوخی ،سرمستی ، شکر خند اور زہر خند اور بہت سے انداز موجود ہیں ۔۔اگر وہ متانت آمیز متبسمانہ انداز جو سلیم بیتاب کا رنگ ہے اور کہیں نہیں ملے گا ۔۔یہی ایک بات کہ سلیم بیتاب کی شاعری پر گفتگو کرتے رنگ اور ذائقہ کی اصطلاحیں زیادہ قابل فہم معلوم ہوتی ہیں۔۔اس کے مزاج کی طرف کچھ نہ کچھ اشارہ رکھتی ہے ۔۔حسن گفتار پر سلیم بیتاب سے پہلے کسی کی نظر اس قدر نہ تھی جتنی کہ سلیم کی ۔۔
وہ کام ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
سلیم بیتاب کی غزل مخصوص شگفتگی اور رعنائی کی عکاس ہے ۔۔اس میں جوش شباب ،نشہ صہبا اور ہجوم شوق کی بلندیاں ہیں ۔۔ سلیم بیتاب بعض اشعار میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ کہ وہ شعر میں رنگینی اور جوش تغزل چاہتے ہیں ۔۔
سلیم بیتاب نے غزل میں نئے موضوعات داخل کیے اور اسلوب کے نئے زاویے تراشے ۔۔وہ بات سے بات پیدا کرتے تھے
انکی نکتہ آفرینیوں کے نمونے ان کی شاعری میں جابجا ملتے ہیں ۔۔زین کو ایک خیال سے دوسرے خیال تک پہنچانا اور مختلف سیو نی کرو کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط کرنا کہ ان کا مجموعی تاثر وحدت کا تاثر ہو ، آسان نہیں ۔۔کسی نقطہ آفرینی کا محرک صرف اپنی سطحی قسم کی ذہنی برتری اور سبقت کا احساس ہوتا ہے ۔۔ وہ زمانے کی قدر ناشناسی کے شاکی تھےاتنا ٹی آر محرومیوں کی تصویر ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہے ۔۔
اس ملک میں بھی لوگ قیامت کے ہیں منکر
جس ملک کے ہر شہر میں اک حشر بپا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم بیتاب زندگی کو حقیقت سمجھتے ہیں اسی لیے زندگی سے بیزار نہیں ہوئے ۔۔زندگی کی حقیقی قدر و قیمت کا شدید احساس ہے ۔۔اس احساس کے ساتھ ساتھ ان کے حکیمانہ شعور اور احساس مزاج نے ان کو موتی ہونے سے بچا لیا ۔۔اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کے بارے میں ایک مثبت انداز نظر پیدا ہوا چنانچہ قدم قدم پر ان کے ہاں یہ احساس نمایاں ہوتا ہے کہ زندگی خوشی کے ساتھ گزرے یا غموں کی گود میں ،بہرحال قابل قدر ہے ۔۔زندگی کا ہونا ہی بجاے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اس لیے ہر حال میں اسے غنیمت تصور کرنا چاہیے ۔۔ اس کا اعتراف انہوں نے اپنے بعض اشعار میں کھل کر کیا ہے جس سے ان کے اس رجائی نقطہ نظر اور انداز فکر کا ثبوت مہیا ہوتا ہے ۔۔
احمق ہیں جو محفوظ سمجھ بیٹھے ہیں خود کو
اب جو بھی ہے طوفان کی زد پہ وہ نگر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منگل انکشاف حقیقت کے باوجود سلیم بیتاب زندگی سے مایوس اور بددل نہیں ہوتے۔اوکے جوک حیات کی جیسی فراوانی آرزو کا جیسا نور زندگی کی ہما ہمی کا جیسا احساس بیتاب کے یہاں پایا جاتا ہے ویسا اور شاعروں کے یہاں شاید کم ہوتا ہو ۔۔۔
اس کے سیاہ بال سفیدی میں ڈھل گئے
لڑکی کو انتظار کسی دیوتا کا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
سلیم بیتاب کی شاعری محض گل و رخسار کی شاعری نہیں بلکہ اس میںکیا اس میں افادیت کے بھی روشن پہلو پیدا ہوئے ہیں ۔۔ان کی شاعری میں اخلاقی تعلیم نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔۔کی تعلیم کی بدولت سلیم بیتاب کی شاعری اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز اور منفرد ہے وہ محض غم جاناں اور تصور جاناں کا شکار ہو کر رہ گئے تھے ۔۔او کی شاعری میں تعلیم کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن سے سلیم بیتاب کی ذہنی رسائی تنگی اور تجربہ کا بھرپور احساس ہوتا ہے اور خود پڑھنے والا اس تعلیم کے اثرات قبول کرتا چلا جاتا ہے کی بنا پر بعض لوگ سلیم بیتاب کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ بھی کہتے ہیں ۔۔۔
ہم سایہ دار پیڑ کے نیچے ہیں زخم زخم
پتھر کہاں سے ریشمی پتوں میں آ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو شکوہ ہے کہ میں ملنے کے لیے آیا ہی نہیں
رات بھر میں کسی کے در پر دستکیں دیتا رہا
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی "ہوا کی دستک "کے فلیپ پر لکھتے ہیں کہ "سلیم بیتاب کے کلام میں امکانات کے وقت دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔اگر جواں مرگی اس کا مقدر نہ ہوتی تو یقینا افق کی دھڑکن کو بامعنی بنا دیتا ۔اس کے باوجود آپ کی شاعری خاص طور پر غزل اور نظم دونوں میں احساس کی آج اتنی تیز ہے اپنے ماحول اور معاشرے کا شعور اتنا درست ہے کہ اس کے بعض اشعار کو تو روح عصر کی سچی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہونا چاہیے ۔"
منیر نیازی سلیم بیتاب کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سلیم بیتاب جدید شعراء میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ان کی پہلی کتاب" لمحوں کی زنجیر" ان کے خوبصورت خیال کا ایک خوبصورت اظہار تھی ۔اور ان کے ذہنی سفر کا آغاز ،تو اس کے شاعر کو راستے میں ہی موت نے گھیر لیا …۔ ایک علی شاعر کا بھی وژن مکمل نہ ہو سکا۔" ہوا کی دستک" ان کا دوسرا اور آخری مجموعہ کلام ہے ۔دونوں مجموعوں کے مطالعے سے ایک ایسے شاعر کا امیج ابھرتا ہے وہ ایک سنگدل اور غیر غمگسار معاشرے کو رفیق اور ہمدرد بنا دینے اور مسخ انسانی رشتوں کو ایک نئے روپ میں ڈھال دینے کی شدید خواہش میں مبتلا ہے۔کبھی احتجاج کے انداز میں اور کبھی شاعرانہ ملال کی شکل میں ۔۔۔۔
خوبصورت ردیفوں میں کتنی تنہائی تھی گم
اتنے ویرانے ملے جب شہر کھدوائے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم بیتاب کی نظمیں اور غزلیں بھی بے مثال ہیں جس میں شہدائے شکاگو کی یاد میں، لو میرج، وہ شام، آؤ اے میرے سفر کے ساتھی، کیا صبح کو سلام ،چراغ شوق جلے روشنی بکھر جائے ، مقدس دنوں کی یاد ،غنیمت ہے یہ بھی ،خوبصورت لڑکیوں کے نام ،اسم اعظم ،سوچیں ،محنت کشوں کا ترانہ ،آخری تحریر ، اے پاک زمین تو میرے خوابوں کا مدینہ ،تمنا ،اداس لوگوں کے نام ،تعمیر نے کوچہ و بازار کریں گے ، نوانٹری،ہم سب قابیل ہیں ، اے وطن اے مری مادر مہربان ،پرانی لڑکی نیا بدن ،انسانوں کے نام ،دن کی روشنی ،عوام کا گیت اور آسیب زدہ رات ہیں ۔۔۔نظم " لو میرج "کی چار سطریں:
گاڑ دو وہ زندہ اسے سنگ کی دیواروں میں
وہ ہے آوارہ، کہ اس لڑکی نے
اپنی بوسیدہ سی رسموں سے بغاوت کی ہے
اپنی بیمار روایات سے نفرت کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم " سوچیں " کی یہ سطریں ملاحظہ کریں:
سانپ گھس آئے میرے بستر میں
رات بھر خون پییں گے میرا
یہ میری جان کے دشمن، میری نیندوں کے عدو
تا سحر اب تو یہ مہمان رہیں گے میرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم بیتاب کی شاعری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں جذبہ و فکر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔۔کہیں بھی نہ تو جذبے کی لہر فکر پر غالب آتی ہے اور نہ فکر کی خشکی جذبے کو بے لذت ہونے دیتی ہے ۔۔دونوں کا حسین امتزاج سلیم بیتاب کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ان کی شاعری میں موضوع کی اہمیت اور تخلیقی اظہار کا حسن یکجا ہو کر ان کی شاعری کو موثر بنا دیتا ہے۔۔ انہوں نے اپنی شاعری میں شائستگی اور نزاکت کا بے حد خیال رکھا ہے ۔۔انہوں نے اپنی شاعری میں جذبات کی سچی حالتوں کی عکاسی کی ہے۔۔ان کی شاعری میں تصنع اور بے جا تکلف کہیں نہیں ملتا ۔۔
۔۔اں کی ایک اور خوبصورت غزل نذر قارئین ۔۔۔
یہ سبق شہر کے لڑکوں کو پڑھایا جائے
اپنی ہر سوچ کو پاگل نہ بنایا جائے
آشیاں اپنا ہی آجائے نہ اس کی زد میں
دیکھ کر بحث کا طوفان اٹھایا جائے
دیکھ کر اس کو نگاہیں نہ جھکائی جائیں
اپنے احساس کو مجرم نہ بنایا جائے
مجھ کو یوں ظلمتِ زنداں میں چھپانے والے
میں ہو مجرم، تو مرا جرم بتایا جائے
جی میں آتا ہے کہ یہ تجربہ بھی کر دیکھیں
جیت کر اس کو پھر اک بار گنوایا جائے
مدّتیں گزری ہیں دنیا سے جسے بھاگے ہوئے
اب تو اس شخص کو خوابوں سے بلایا جائے
دیدنی ہوتا ہے وہ لمحۂ سفاک کہ جب
اپنے افکار کو سولی پہ چڑھایا جائے
آپ کی ضد سے نہ بُجھ جائے چراغِ دانش
سوچ کر فلسفی کو زہر پلایا جائے
آج بیتابؔ فصیلوں کی ضرورت کیا ہے
شہر کو شہر کے لوگوں سے بچایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"روز یہ منظر دیکھیں"
جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں
سامنے تجھ کو بٹھائیں تجھے شب بھر دیکھیں
بند ہے شام سے ہی شہر کا ہر دروازہ
آ شب ہجر کہ اب اور کوئی گھر دیکھیں
ایسے ہم دیکھتے ہیں دل کے اجڑنے کا سماں
جس طرح داسیاں جلتا ہوا مندر دیکھیں
میرے جنگل میں ہی منگل کا سماں ہے پیدا
شہر کے لوگ مرے گاؤں میں آ کر دیکھی