صلائے ’آم‘ ہے… میری ذاتی رائے میں جس بندے کو شوگر ہو اور وہ بہت زیادہ سیاسی پوسٹس لگاتا ہو ‘ اسے روزانہ چھ سات ہٹے کٹے آم ضرور کھانے چاہئیں‘ اس سے اس کے پڑھنے والوں کا بہت بھلا ہوگا۔ہر خوش ذوق انسان کی طرح مجھے بھی آم پسند ہیں لیکن فی الحال میری قسمت میں لگ بھگ چھلکے ہی آرہے ہیں۔ ملازم کو ہدایت تھی کہ جب بھی آم کاٹے‘ مجھے گٹھلی نہ دیا کرے۔ وہ چالاک انسان اب اس طرح آم کاٹتا ہے کہ سارا آم گٹھلی کے ساتھ لگا رہ جاتا ہے اور چھلکے میرے نصیب میں آجاتے ہیں۔اللہ نے اسے ایسے معاملات میں وافر عقل عطا کی ہے۔ ایک دفعہ رات کو ایک ڈرامے کا سکرپٹ لکھتے ہوئے مجھے اچانک بہت بھوک محسوس ہوئی‘ میں نے اسے مارکیٹ بھیجا کہ دو شوارمے لے آئو‘ ایک اپنے لیے‘ ایک میرے لیے۔آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو خالی ہاتھ تھا۔ وجہ پوچھی تو اطمینان سے بولا'اُس کے پاس صرف میرا ہی شوارما بچا تھا ‘ وہ میں کھاآیا ہوں‘ آپ کا شوارما نہیں ملا۔‘ اس موسم میںدو ہی قسم کے بندے ہیں جو آم کی لذت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو وفات پاچکے ہیں اور دوسرے وہ جو پیسے ہونے کے باوجود خریدنے سے پہلے آم کو اتنا سونگھتے ہیں کہ پیٹ بھرجاتا ہے۔ہائے…کیا دن تھے جب ابا جی سائیکل پر گھر آتے تھے تو ہینڈل کے ساتھ آموں کا ایک تھیلا بھی لٹکا ہوتا تھا۔ بالٹی میں برف ڈال کر آم ٹھنڈے کیے جاتے تھے اور پھر دستر خوان بچھا کر سارا گھر یہ خوشی انجوائے کرتا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرنہایت سلیقے سے کٹا ہوا آم چھری کانٹے سے کھاتے ہوئے ایسا لگتاہے جیسے کوئی 'فرائی آم‘ کھایا جارہا ہے۔ آم وہی جو 'پولا‘ کرکے کھایا جائے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں کسی دنیا دار کی نظر نہ پڑے۔میں اس مقصد کے لیے گاڑی کی پچھلی سیٹ استعمال کرتا ہوں ۔ گاڑی میں بیٹھ کر آم کھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ٹشو پیپر کی ضرورت نہیں پڑتی۔میرے ایک دوست کی بھی یہی طبیعت ہے لیکن چونکہ اس کے پاس گاڑی نہیں لہٰذا وہ فریج کے خالی ڈبے کے اندر منہ دے کر اپنا شوق پورا کرلیتا ہے۔ مجھے قطعاً پتا نہیں کہ زیادہ میٹھاآم کون سا ہوتا ہے؛ تاہم میں ہر دفعہ میٹھے آم خریدنے میں کامیاب ہوجاتاہوں‘ وجہ صرف یہ ہے کہ پھلوں کی دکان پر پڑے آم اٹھا کر اتنے غور سے دیکھتا ہوں کہ دکاندار کو یقین ہوجاتاہے کہ یہ بندہ کوئی 'آم آدمی‘ ہے۔آم کے متعلق لوگوں نے عجیب و غریب باتیں مشہور کر رکھی ہیں‘ مثلاً یہ کہ آم بہت گرم ہوتاہے۔ ٹھیک ہے کہ جب آپ اسے خریدتے ہیں تو یہ گرم ہوتاہوگا لیکن جب آپ سے فریج میں ٹھنڈا کرلیتے ہیں تو پھر یہ گرم کیسے ہوگیا؟ میں نے تو جب بھی کھایا ٹھنڈا آم ہی کھایا…لیکن پتا نہیں جب بھی آٹھ دس آم اکٹھے کھالوں تو دل 'کھرونڈے‘ مارنے کو کیوں کرنے لگتاہے؟ میرا خیال ہے یہ دردِ شقیقہ کی علامت ہے۔ کسی آئی سپیشلسٹ سے ملنا پڑے گا…!! آم کے مختلف استعمال ہیں۔ چوس لیں‘ کاٹ لیں‘ اچار بنا لیں‘ ملک شیک بنا لیں…لیکن ایک استعمال ایسا بھی ہے جو شائد آج تک کسی کے دماغ میں نہ آیا ہو۔ اس کے موجد میری گلی کے واجد صاحب ہیں۔ موصوف دو کلو آم خرید کرلاتے ہیں اور اپنے گھر کے اندر لگے جامن کے درخت کے ساتھ مختلف جگہوں پر دھاگے سے باندھ دیتے ہیں۔ باہر سے کوئی میرے جیسا راہگیرگزرتا ہے توپکے ہوئے آم لٹکتے دیکھ کرللچا جاتاہے۔ جونہی دیوار کے قریب ہوکر آم توڑتا ہے ‘یہ اپنے موبائل سے جھٹ اس کی تصویر بناتے ہیں اور پکڑلیتے ہیں کہ تم میرے گھر میں چوری کررہے تھے۔ راہگیر گھبرا جاتاہے اور تھوڑی سی منت سماجت کے بعد دو سوروپے دے کر جان چھڑاتاہے۔ واجد صاحب بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ اِس بار عید کا سوٹ اور جوتی انہوں نے اپنی اسی 'حق حرام‘ کی کمائی سے خریدی ۔ جولائی میں تقریباً ہر آم ہی میٹھا ہوتا ہے لیکن اس کی طبعی عمر بہت کم ہوتی ہے۔فریج میں رکھتے ہی اس کی واپسی کا سفر شروع ہوجاتاہے لہٰذا جتنی جلدی اس سے لطف اندوز ہوسکیں اتناہی بہتر ہے۔چونکہ آم کا موسم ہے لہٰذا ہر دوسری سڑ ک'شارع آم‘ بنی ہوئی ہے اور جگہ جگہ 'آمیانہ پن‘ کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔میرے ایک ہمسائے کو ہر کامیاب انسان سے نفرت ہے لہٰذا وہ سڑک پر چلتے پھرتے آم چوستے ہیں اور جس گھر کی بھی صاف ستھری دیوار نظر آتی ہے چھلکا اُس پر زور سے دے مارتے ہیں۔ان کے اس عمل کے نتیجے میں کئی گھروں کی دیواروں پر 'قتل ِ آم‘ کے نشانات دور سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ آپ کبھی غور کیجئے گا‘ خواتین عموماً آم شوق سے نہیں کھاتیں‘ اس کی ایک وجہ موٹاپے سے پرہیز بھی ہوسکتا ہے اور دوسری وجہ شوہر حضرات۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں آم آئیں تو سب سے پہلے شوہر حضرات ہی اس پر ہلہ بولتے ہیں۔آم کے 'آفٹر شاکس‘ سے بچنے کا طریقہ اطباء یہ بتاتے ہیں کہ بعدمیں کچی لسی ضرور پی جائے ۔ یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ کئی لو گ ڈھیروں آم کھانے کے بعد بلبلارہے ہوتے ہیں کہ 'شکیلہ!کنگھی پھڑا…کمر وچ کھرک پے گئی اے‘۔یہ جو آپ بازاروں میں اکثر ایک لکڑی کا لمبا سا ڈنڈا دیکھتے ہیں جس کے آخری سرے پر ایک ہاتھ بنا ہوا ہوتاہے یہ کمر کھجانے کا وہ آلہ ہے جوزیادہ آم کھانے والوں کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتاہے۔مجھے آج تک اس کا نام نہیں پتا چلا‘ یقینا 'آلہء کھجاہٹ‘ ہوگا۔ اب میں ایک بہت سیانی بات کرنے لگاہوں‘ لازم ہے کہ اسے غور سے سنا اور سر دھنا جائے…زندگی بھی آم کی طرح ہے‘ میٹھی بھی اور ترش بھی۔ یہ زیادہ میٹھی ہوجائے تو چبھنے لگتی ہے ‘ اس کی گٹھلی اس کی روح ہے اور…ایک منٹ…میرا خیال ہے مثال غلط ہوگئی ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں‘ بڑے بڑے سیانوں سے بھی کبھی کبھار بونگیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس سے ایک بات کنفرم ہوتی ہے کہ ضروری نہیں ہر موضوع کا کوئی دردناک انجام ہی نکلے۔ اب بھلا آم کو میں کس سے تشبیہ دوں؟ چیزیں تو بڑی ہیں لیکن رونے پیٹنے والی نہیں‘ لہٰذا میری طرف سے معذرت کیونکہ…ایک منٹ…بات بن گئی! ماشاء اللہ ایک مثال دماغ میں آگئی ہے۔ ہاں…تو آم اور عوام کی قسمت بالکل ایک جیسی ہے۔دونوں سختیاں برداشت کرتے ہیں… دونوں اندر سے میٹھے ہوتے ہیں… دونوں استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں… دونوں اپنی مٹھاس سے خود فائدہ نہیں اٹھاسکتے… دونوں کی تاثیر گرم ہے… دونوںکو کوئی اور اٹھا لے جاتاہے…دونوں کسی کا رزق بن جاتے ہیں …دونوں کی منڈی لگتی ہے…دونوں پلپلے ہوجائیں تو کوئی نہیں پوچھتا…دونوں سڑکوں پر‘ گلیوں میں‘ بازاروں میں جابجا پائے جاتے ہیں…دونوں کو پولا کیا جاسکتا ہے‘ دونوں کو کاٹا جاسکتاہے…دونوںکی رنگت پیلی ہوتی ہے …اور دونوں بولنے سے قاصر ہوتے ہیں…!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“