سلامتی کا راستہ درمیانی راستہ ہے
دنیا ٹی وی پر جناب کامران شاہد نے اُس متنازع بل پر مباحثہ کرایا جو پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماضی قریب میں پیش کیا ہے۔ دونوں طرف کے شرکاء نے بڑھ چڑھ کر جوہر دکھائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بل کے حق میں جو ٹیم حصہ لے رہی تھی اس میں دو خواتین اور ایک صاحب شریک تھے جبکہ دوسری طرف تینوں کے تینوں شرکا مرد تھے۔ سب نے دلائل دیے، اپنے اپنے نکتہ نظر کا دفاع کیا۔ خوب رونق رہی!
عورت اس ملک میں عرصہ سے زیرِ بحث ہے۔ نہیں معلوم، دوسرے مسلمان ملکوں میں کیا صورتِ احوال ہے۔ پنجاب اسمبلی کے بِل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں فریق پھر آمنے سامنے ہو گئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر، اخبارات و رسائل میں، گھروں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض ہر فورم میں دو مختلف اور متحارب نکتہ ہائے نظر سامنے آنے لگے۔
طے کچھ بھی نہیں ہو رہا، اس لیے کہ ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ میدان سے غائب ہے، اُسے کوئی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ تیسرا فریق وہ ہے جو دونوں فریقوں کو مکمل غلط نہیں کہتا، مکمل صحیح بھی نہیں قرار دیتا۔ دونوں کے دلائل میں وزن ہے اور دونوں ہی کے کچھ دلائل بے وقعت ہیں۔ سلامتی کا راستہ درمیانی راستہ ہوتا ہے۔ اعتدال کا اورتوازن کا راستہ! مفاہمت اور لچک کا رویّہ! افسوس ہم ہر معاملے میں انتہا پر رہتے ہیں۔ ایک فریق پنجاب اسمبلی کے بِل کو صحیفہ سمجھ کر اس کا دیوانہ وار دفاع کر رہا ہے۔ دوسرا فریق اُسے ایک شیطانی کاغذ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں! تیسرا فریق جو خاموش بیٹھا ہے، اس لیے کہ اس کی کسی کو ضرورت نہیں، سمجھتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ دونوں غلط ہیں نہ دونوں حق پر!
ایک فریق شاکی ہے کہ بیٹی کو باپ کے سامنے اور بیوی کو شوہر کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کر دیا گیا ہے تو اس بات میں وزن ہے۔ ایک فقرہ جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دونوں پر اکثر و بیشتر سننے میں آرہا ہے یہ ہے کہ ’’میری اپنی زندگی ہے۔ جس طرح چاہوں گزاروں‘‘۔ اپنی زندگی تو مرد کی بھی نہیں ہے! وہ بھی مکمل آزادی سے نہیں گزار رہا‘ نہ گزار سکتا ہے۔ خاندان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بیٹی تو بیٹی ہے، بیٹے کو بھی باپ کے سامنے نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔ باپ کو یہ احساس ہی نہیں ہونا چاہیے کہ بیٹا مخاصمت پر تلا ہے۔ باپ کے سامنے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا طریقہ قرآن حکیم میں بتایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ باپ کو بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں۔ باپ دھمکی دیتا ہے کہ تم باز نہ آئے تو پتھر مار مار کر ہلاک کردوں گا۔ اس پر بیٹا کہتا ہے کہ ابا جان! آپ پر سلامتی ہو!
مگر دوسرے فریق کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ کچھ فرائض بھی ہیں جو باپ کے ذمے ہیں اور کچھ حقوق بھی ہیں جو بیٹی کے ہیں اور بیوی کے بھی! یہ درست ہے کہ بیٹی کو گھر سے بھاگنا نہیں چاہیے مگر شریعت یہ بھی تو کہہ رہی ہے کہ بیٹی کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی! اس پر دوسرا فریق بغلیں جھانکنے لگتا ہے!
پھر مغرب کی تقلید کے حوالے سے جس طرح شور مچایا جا رہا ہے وہ بھی محلِ نظر ہے۔ ہمیں صرف مغرب کی عریانی اور آزادی نظر آتی ہے، مغرب نے عورتوں کے حقوق کا جس طرح تحفظ کیا ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہاں کسی کی مجال نہیں کہ قتل بھائی نے کیا ہے تو سزا اس کی پانچ سالہ بہن کو دے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کا نکاح ستر سالہ بوڑھے سے کر دیا جائے۔ وہاں قرآن کے ساتھ شادی بھی نہیں ہو سکتی نہ جائداد بچانے کے لیے بیٹیوں کو بوڑھا کر دیا جاتا ہے نہ ڈنڈے کے زور پر بہنوں سے جائداد میں ان کا قانونی اور شرعی حصہ چھین لیا جاتا ہے۔ ایک صاحب دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’مغرب‘‘ میں 62 فیصد جوڑے نکاح کے بغیر رہ رہے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر ایک ’’سہولت‘‘ یہ ہے کہ اعداد و شمار کچھ بھی پیش کیے جا سکتے ہیں! اوّل تو کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ ’’مغرب‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا مغرب میں جاپان بھی شامل ہے؟ خود یورپ میں ثقافتی اور مذہبی یکسانیت نہیں ہے۔ جنوبی یورپ کے ممالک، جن میں یونان، اٹلی اورسپین شامل ہیں، شمالی یورپ سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ نسبتاً دقیانوسی ممالک ہیں۔ کیتھولک اکثریت ہے۔ خاندانی نظام مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جنرل فرانکو کے زمانے میں تو حالت یہ تھی کہ سڑک پر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کا ہاتھ بھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔ سب سے زیادہ مادر پدر آزادی سیکنڈے نیویا کے ممالک میں ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی نظام مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ 62 فیصد کی تعداد درست نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور کئی دوسرے ملکوں میں چینی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ وینکوور میں ان کی تعدد 48 فیصد ہے۔ چینیوں کے ہاں طلاق کی شرح انتہائی کم ہے۔ خاندانی نظام مستحکم ہے۔
پھر کہا جاتا ہے کہ اتنے عرصہ میں لندن میں یا فلاں مغربی ملک میں اتنی عورتوں پر تیزاب پھینکا گیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان میں بھی تیزاب پھینکا جائے یا جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ درست ہے؟ پھر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہاں سزا کا کیا تناسب ہے؟ تیزاب پھینکنے والوں میں سے کتنے سزا سے بچ سکے؟
یہ شکوہ بھی حق بجانب ہے کہ جب عورتوں پر ظلم ہو رہا ہو تو ہر طرف خموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی نہیں بولتا۔ پھر جب کوئی آواز اٹھتی ہے تو ہر طرف سے شور برپا ہوتا ہے کہ عورتوں کو تو اسلام نے پہلے ہی بہت حقوق دے رکھے ہیں! سوال یہ ہے کہ اسلام نے جو حقوق دے رکھے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ ان پر تو عمل ہی نہیں ہو رہا۔ کیا عورتوں کو میراث میں حصہ مل رہا ہے؟ کیا شادیاں ان کی رضامندی سے ہو رہی ہیں؟ کیا انہیں زد و کوب نہیں کیا جا رہا؟ کیا دفتروں، بازاروں، کارخانوں میں انہیں ہراساں نہیں کیا جا رہا؟ آج تک مذہبی طبقات نے ونی، اسوارہ اور کاروکاری کے خلاف کوئی بات نہیں کی؟ کتنے علماء کرام جمعہ کے خطبات میں اِن موضوعات پر اسلام کے احکام سناتے ہیں؟ رہی اسلامی نظریاتی کونسل تو اس نے اگر آواز اٹھائی بھی ہے تو وہ آواز لاکھوں مسجدوں میں دیے گئے خطبات کا نعم البدل نہیں ہو سکتی!
فریقین سے گزارش ہے کہ ایک دوسرے کو شکست دینے اور ظفرمند ہونے کی دُھن چھوڑ دیں۔ دوسرے کی درست بات تسلیم کرنے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہیے مگر یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ عورتوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“