سلاجیت ، زمزمہ ، سابو اور نوبل لارئیٹ
( رڈیارڈ کپلنگ پر ایک تعارفی نوٹ )
انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہم لاہوریوں کے لئے کابل جانا معمول تھا اور کابل والے بھی لاہور سمیت دیگر شہروں میں بادام ، گرم مصالحہ جات اور سلاجیت بیچتے پائے جاتے تھے یہ ایسے ہی تھا جیسے بٹوارے سے پہلے میرے والد اور ان کے ہم عصر امرتسر چلے جاتے تھے اور امرتسریے لاہور گھوم پھر واپس لوٹ جاتے۔
میں نے بھی ستر کی دہائی کے اوائل میں انڈین فلمیں دیکھنے اور سمگل شدہ بدیسی اشیاء خریدنے کے لئے کابل کے کچھ چکر لگائے تھے ۔ پہلے ہی چکر میں ایک سلاجیت پیجنے والے نے اسے انمول تحفہِ کابل قرار دیتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ اس کو کھانے سے بندہ ' زمزہ ' بن جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ زمزہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یہ سن کر ذرا حیران ہوا تھا کیونکہ ہمارے لاہور میں تو زمزہ بھنگیوں کی اس توپ کو کہتے تھے جو مال روڈ پر این سی اے کے سامنے الفرڈ کوپر وولنر کے مجسمے کے پاس ایستادہ تھی جسے ہم اپنے ہوش سنبھالنے کے وقت سے دیکھتے آ رہے تھے۔ اسی توپ کا نام میں نے اپنے والد سے ' کِمز گن ' بھی اس وقت سے سن رکھا تھا جب میرے بچپن میں انہوں نے ہم بہن بھائیوں کو سابو دستگیر کی رنگین فلم ' جنگل بک ' دکھاتے ہوئے برطانوی مصنف رڈیارڈ کپلنگ کے بارے میں بتایا تھا جس کی کہانی پر یہ فلم بنی تھی ۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ میو سکول آف آرٹس کا پرنسپل اور لاہور کے عجائب گھر کے کیوریٹر کا بیٹا تھا جس نے ایک ناول ' کِم ' بھی لکھا تھا جس میں اس ناول کے مرکزی کردار ' کِم ' کا لگاوٗ اس توپ سے دکھایا گیا ہے ۔ اس وجہ سے انگریزی ادب میں یہ ' کِمز گن ' بھی کہلانے لگی تھی ۔
رڈیارڈ کپلنگ ، جسے بعد میں ناول ' اینیمل فارم ' اور ' 1984 ' کے مصنف جارج اوویل نے ' برطانوی استعمار کا پیغمبر ' بنا ڈالا تھا ، بمبئی کے جے جے سکول آف آرٹس کے پینٹر و مجسمہ ساز پروفیسر و پرنسپل جان لاکووڈ کپلنگ (John Lockwood Kipling ) اور ایلس میکڈونلڈ ( Alice MacDonald) کے ہاں 30 دسمبر 1865 ء کو پیدا ہوا تھا ۔ جان لاکووڈ کپلنگ خود شمالی یارک شائر (پکرنگ) جبکہ ایلس مغربی یارک شائر ( شیفیلڈ ) میں پیدا ہوئی تھی ۔ ان دونوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی 28 سال برطانیہ میں ہی گزارے تھے اور ریٹائر ہونے پر بھی باقی زندگی امریکہ یا برطانیہ میں گزاری ۔ وفات پر وہ دفن بھی برطانیہ میں ہی ہوئے تھے لیکن نجانے کیوں وہ خود کو اینگلو ۔ انڈین کہلواتے تھے ۔ رڈیارڈ بھی شاید اینگلو ۔ انڈین کہلانے کا مستحق نہیں ہے البتہ کچھ نقاد ان کے اس دعوے کو سچ ہی مانتے ہیں ۔
رڈیارڈ پانچ برس کی عمر میں برطانیہ بھیج دیا گیا تھا جہاں سکول کی تعلیم کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھائی کے لئے سکالرشپ نہ پا سکنے پر جب وہ انڈیا لوٹا تو سولہ سال اور نو مہینے کا تھا اور لاہور کے ایک اخبار ' دی سول اینڈ ملٹری گزٹ ' کی نائب مدیری جس کا بندوبست اس کے باپ نے کیا تھا ، اس کی منتظر تھی ۔ اس کا باپ اس وقت ' میو سکول آف آرٹس ' ( موجودہ NCA ) کا پرنسپل اور لاہور عجائب گھر کا کیوریٹر تھا ۔ وہ 1887 ء تک اس اخبار کے ساتھ وابستہ رہا۔ اس دوران وہ 1885ء میں ' فری میسن ' تنظیم کا رکن رہنے کے ساتھ ساتھ اس تیظیم کی لاجز (Lodge of Hope and Perseverance No. 782 و Lahore Masonic Temple) کا سکریڑی بھی رہا ( اب لاج نمبر 782 میں لیڈی میکلیگن ہائی سکول انارکلی اور میسونک ٹیمپل ، چیئرنگ کراس مال روڈ میں حکومت پنجاب کے دفاتر ہیں ) ۔ دی سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ملازمت کے دوران اس کی تیس سے زائد کہانیاں اس اخبار میں چھپ چکی تھیں ۔ اس کا اگلا پڑاوٗ الہ آباد کا اخبار ' دی پائینیر ' تھا ۔
1888ء کا سال اس کی کہانیوں کے مجموعوں کی اشاعت کے حوالے سے ایک اہم سال تھا ۔ اس برس اس کی کہانیوں کے سات مجموعے شائع ہوئے جن میں سے سب سے ہپلا ' پلین ٹیلز فرام دی ہلز ( Plain Tales from the Hills ) تھا جو کلکتہ سے شائع ہوا تھا ۔ وہ ابھی بائیس برس کا تھا ۔ اگلے برس وہ ' دی پائینیر ' کی پابند نوکری چھوڑ ، اپنی کتابوں کے حقوق بیچ ، رنگون ، سنگاپور ، ہانگ کانگ ، جاپان اور امریکہ سے ہوتا اکتوبر 1889 ء میں برطانیہ لوٹا ۔ راستے میں وہ ' دی پائینیر ' کو اپنے مراسلے بھی بھیجتا رہا جو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے ۔ برطانیہ واپس آیا تو لندن کے ادبی حلقوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی لکھتیں کئی جریدوں میں چھپنے لگیں ۔ 1891 ء تک اس کا ناول ' روشنی جو کام نہ آ سکی' ( The Light that Failed) چھپ چکا تھا اور وہ امریکی لکھاری والکوٹ بلیسٹئیر ( Wolcott Balestier ) کے ساتھ مل کر ناول ' نولکھا؛ مغرب و مشرق کی کہانی ' پر کام کر رہا تھا کہ نروس بریک ڈاوٗن ہونے پر وہ ساوٗتھ افریقہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہوتا انڈیا لوٹ آیا ۔ والکوٹ بلیسٹئیر کی وفات پر وہ لندن واپس لوٹا اور اس نے خود سے تین سال بڑی اس کی 29 سالہ بہن کیرولین سٹار سے جنوری 1892 ء میں شادی کر لی ۔ ہنی مون کے لئے پہلے وہ امریکہ گئے پھر جاپان اور پھر واپس امریکہ ، جہاں وہ ورمونٹ کے بلس گھر ( Bliss House ) میں رہنے لگے ۔ یہیں ان کی پہلی بچی جوزفین پیدا ہوئی اور ' دی جنگل بک ' کا تانا باتا بھی یہیں بُنا گیا ۔ اس گھر کو چھوٹا جان کر اس نے اپنے سالے سے دس ایکڑ زمین خریدی اور نیا مکان کھڑا کیا جس کا نام ' نولکھا ' رکھا جس کی ایک وجہ تو والکوٹ تھا دوسرے لاہور کے شاہی قلعے کا وہ حصہ تھا جو نولکھا کہلاتا ہے ۔ اگلے چار برسوں میں جنگل بک کے علاوہ اس کی دیگر کتابیں بھی سامنے آئیں جن میں اس کی نظمیں 'مینڈالے ' ( Mandalay ) اور ' گنگا دین ' ( Gunga Din ) بھی شامل تھیں ۔
اینگلو ۔ امریکن بحران بڑھا تو رڈیارڈ اور اس کا خاندان بھی اس سے متاثر ہوا اور وہ جولائی 1896ء میں پھر سے برطانیہ لوٹ آیا اس وقت تک اس کی دوسری بیٹی الیزے پیدا ہو چکی تھی، وہ مشہور ہو چکا تھا اور نقاد تو کیا وہ خود بھی اپنی تحریروں کی سیاسی توجیہات پیش کرنے لگا تھا ۔ اگلے برس جون میں ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کا ساٹھ سالہ جشن منایا جانا تھا جس کے حوالے سے اس نے پہلے ' سفید آدمی کا بوجھ ' (The White Man's Burden) نامی نظم لکھی لیکن پھر اسے دوسری نظم ' مراجعتی ' ( Recessional ) سے بدل دیا ۔ بعد میں ' سفید آدمی کا بوجھ ' اس نے اس وقت امریکہ کے نام کر دی جب اس نے فلپائن کو اپنی نوآبادی بنایا تھا ۔ ادھر یہ دونوں نظمیں متنازع ہوئیں ادھر اس کا بیٹا جان اگست 1897ء میں پیدا ہوا ۔ اگلے برس سے وہ ہر سال جنوبی افریقہ بھی جانے لگا ۔ اس کے یہ دورے 1908 ء تک جاری رہے ۔ اس سے قبل 1902 ء میں وہ ڈیوون (Devon) سے مشرقی سسیکس (Sussex) کے ' بیٹمینز ' نامی گھر میں منتقل ہو چکا تھا ۔
1899ء میں اپنی بیٹی جوزفین کے مرنے پر اس نے بچوں کے لئے ایک کتاب مرتب کرنا شروع کی جو ' جسٹ سو سٹوریز ' ( Just So Stories ) کے نام سے 1902ء میں شائع ہوئی ۔ اگلے برس اس کا ناول ' کم ' ( Kim ) بھی شائع ہو گیا ۔ یہ دہائی اس کے عروج کا زمانہ رہی ۔ 1905 ء میں اس کی پہلی سائنس فکشن کہانی ' رات کی ڈاک کے ساتھ ' ( With The Night Mail ) سامنے آئی جبکہ دوسری ' اتنی آسان جیسے اے ، بی ، سی ' ( As Easy As A. B. C ) چھ سال بعد چھپی ۔ ان دونوں کہانیوں کا اثر برطانوی مصنف ایچ جی ویلز ، آرمئنین مصنف مائیکل آرلن اور امریکی مصنف رابرٹ آسن ہائنلائن پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
1907ء میں اسے نوبل انعام برائے ادب دیا گیا ۔ وہ پہلا برطانوی مصنف تھا جسے یہ اعزاز حاصل ہوا تھا ۔ وہ اس وقت صرف بیالیس سال کا تھا ۔ وہ آج بھی سب سے کم عمر نوبل لارئیٹ ہے ۔
پہلی یورپی (عالمی ) جنگ کے دوران اس کا سب ' لکھا ' برطانوی حب الوطنی پر مبنی پروپیگنڈہ مواد تھا ۔ اس جنگ میں اس نے اپنا بیٹا بھی گنوایا جو جنگِ لوس میں کام تو آ گیا تھا لیکن اس کی میت شناخت نہ ہونے کی وجہ سےگھر نہ آ سکی تھی ۔ جان کی لاش کی شناخت کہیں انیس سو نوے کی دہائی میں آ کر ہوئی تھی گو وہ اب بھی متنازع ہے ۔
بیٹے کے اس المیے سے وہ اندر سے ٹوٹ کر رہ گیا تھا ۔ جنگ ختم ہوئی تو اس کا سب ' لکھا ' قبروں کی زیارتوں پر ہی مبنی ہے ۔ اس دور کی نمائندہ کہانی ' باغبان ' (The Gardener ) اور نظم ' بادشاہ کی زیارت' ( The King's Pilgrimage ) کا موضوع بھی یہی کچھ ہے ۔
برطانیہ میں بڑھتے کمیونسٹ رجحانات کو دیکھ کر اس نے ناول نگار ہنری رائیڈر ھیگارڈ اور نو آبادکار لارڈ سیڈن ہیم کے ساتھ مل کر 1920 ء میں ' لبرٹی لیگ ' نامی تنظیم بھی بنائی ۔ وہ امریکی صدر ولسن کے چودہ نکات برائے عالمی امن اور لیگ آف نیشنز کے کردار بارے مشکوک تھا ۔ امریکی روز ویلٹ کا وہ مداح تھا ۔ 1924 ء میں لیبر پارٹی کے برسر اقتدار آنے پر وہ اس کے بڑے مخالفوں میں سے ایک تھا ۔ جب ہٹلر کی نازی پارٹی نے سواستیکا کا نشان اپنایا تو رڈیارڈ نے اسے اپنی کتابوں پر بطور مونو گرام چھاپنا بند کر دیا جسے وہ برس ہا برس تک اپنے لئے خوش قسمتی کا نشان مانتا رہا تھا ۔ وہ میسولینی کا حامی تو تھا لیکن فاشزم کا مخالف بھی تھا ۔
رڈیارڈ کپلنگ مرنے سے سال بھر پہلے تک لکھتا رہا لیکن اب اس کی تحریروں میں جان نہیں رہی تھی ۔ وہ 70 سال کی عمر میں چھوٹی آنت کے السر کے پھٹ جانے کی وجہ سے 18 جنوری 1936ء کو فوت ہوا ۔ شمال مغربی لندن کے گولڈر گرین کریمیٹوریم میں جلائے جانے کے بعد اس کی راکھ ویسٹ منسٹر ایبے کے اس کارنر میں دبائی گئی جہاں چارلس ڈکنز اور ٹامس ہارڈی کی قبریں ہیں ۔
چار ناولوں کے علاوہ اس کے افسانوں کے کئی مجموعے اس کی زندگی اور بعد میں بھی شائع ہوئے، شاعری و بچوں کے لئے کہانیوں کے اور نان فکشن مضامین کے مجموعے و سفر نامے ان کے علاوہ ہیں ۔
ویسے تو رڈیارڈ کپلنگ مغربی نقادوں میں اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے متنازع رہا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں اس کی شخصیت اور فن پر آراء بھی کچھ ایسی ہی ہیں لیکن اس کا اثر بھی کم نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ تو اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ' کِم ' پنڈت جواہر لال نہرو کا پسندیدہ ناول تھا اور اس کی کتابوں ' ڈسکوری آف انڈیا ' اور ' ٹو وارڈز فریڈم ' کے طرز تحریر پر رڈیارڈ کپلنگ کے فن تحریر کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔