صلاح الدین پرویز کی یاد میں :
آج صلاح الدین پرویز کی پانچویں برسی ہے۔ اس خوبصورت شاعر اور دوست کے ساتھ کئی یادیں وابستہ ہیں۔ صلاح الدین پرویز کے ساتھ یہ تصویر غالباً 1992/93ء کی ہے۔
صلاح الدین !
تم انتم یدھ میں
اتنی آسانی سے پسپا کیوں ہو گئے
جانتا ہوں تم لڑنا نہیں چاہتے تھے
پھر ہر یدھ میں ہیرو کیوں بن جاتے تھے
مجھے دیکھو، میں بھی لڑنا نہیں چاہتا
لیکن مسلسل حالتِ جنگ میں ہوں
اور لگاتار پسپا ہو رہا ہوں
کیونکہ میں اپنے علاوہ کسی پر حاوی نہیں ہو سکتا
لیکن تم ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
سمجھ گیا
تمہاری کوئی محبوبہ تم سے ناراض تھی
اور تم اس کے ہاتھ میں دل رکھے بغیر شہر پناہ سے نکل آئے تھے
تم تو جیسے برقی رتھ پر سوار تھے
کائنات کی حدیں پار کرتے ہوئے بھی مڑ کر نہ دیکھا
کہ رجزیہ اشعار پڑھنے والیاں کب کی خاموش ہو چکی تھیں
اتنا بھی نہ سوچا
کہ تمہاری محبوبائیں اور تمہاری نظمیں ایک دوسری کی کایا کلپ ہیں
جنہیں جدا جدا کرنے کے لیے
نئی سیمیا، نئے کیموس کی ضرورت ہے
انہیں ایک ساتھ چھوڑ دینا
کہاں کی اذیت ناکی ہے!
اب وہیں رکو، جہاں تک پسپا ہو چکے ہو
اس سے آگے موت تمہارا پیچھا نہیں کرے گی
رکو جب تک کہ جنگ ختم نہ ہو جائے
لیکن یار، جنگیں اور نظمیں ختم کہاں ہوتی ہیں
یہ تو چلتی رہتی ہیں
جب تک وقت ہتھیار نہ ڈال دے
تم بھی اب رکو اور انتطار کرو
جب تک کہ تمہاری ساری محبوبائیں
اپنا اپنا انتطار نہ تج دیں
اور میں، تمہارا جنگل ڈھونڈ کر
تمہارے پاس نہ آ جاؤں
پھر ہم مِل کر
وہاں چلیں گے
جہاں کوئی یدھ ہے نہ شترتا
جیت ہے نہ شکست
پسپائی ہے نہ پیش قدمی
صرف ایک ملکوتی حسن ہے،
تمہارے اور میرے پسندیدہ خواب کی ابدیت ہے
آسمانی آبناؤں پر بنے ہوئے نیلگوں راستے ہیں
جن پر ہم باتیں کرتے، نظمیں سنتے سناتے
جوگرز پہنے بنا، ملگجی پاؤں اٹھائے بغیر، دائمی واک پر نکل جائیں !!
نصیر احمد ناصر
صلاح الدین پرویز کی یاد میں لکھی طویل نظم "جنگیں اور نظمیں ختم نہیں ہوتیں" سے مقتبس
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1212212602173534&id=100001544169182
“