صلاح الدین پرویز کے یومِ وفات کا جان کر اپنی ایک نظم “مباک باد اور پُرسہ” یاد آ گئی ۔یہ نظم ان کے رسالہ “استعارہ ” میں چھپی تھی۔1992-1993 کے دوران ان سے متعدد ملاقاتیں رہی تھیں ۔1993 کا نیو ایئر ان کے دہلی والے گھر میں منایا تھا۔اس محدود محفل میں آل انڈیا ریڈیو دہلی والے محمود ہاشمی اور مریم ہاشمی بھی شامل تھے۔صلاح الدین پرویز کی اہلیہ فلم سٹار غزل بھی شامل تھیں جو ان کی فلم کی ہیروئن تھیں, فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی ان کی بیگم بن گئی تھیں ۔ان کا اسلامی نام عائشہ رکھا گیا تھا۔یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بھی شریکِ محفل تھے۔چند اورادبی اور فلمی لوگ بھی شامل تھے۔ایک سٹرگلر آرٹسٹ کا نام یاد نہیں, وہ بھابی صاحبہ کی قریبی دوست تھیں اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی تھیں ۔ان کی شکل جوہی چاولہ سے ملتی جلتی تھی,محفل میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھیں۔صلاح الدین پرویز کے ذریعے ان کے فلم, ادب اور صحافت سے وابستہ ان افراد سے ملاقات میری زندگی کی ایک یادگار تقریب تھی۔اچھا ہوا کہ آج یہ سب یاد آ گیا اور میں نے لکھ دیا۔اس موقعہ پر سب کو پابند کیا گیا کہ سب اپنی پسند کا ایک ایک گانا سنائیں گے۔تب میں نے لتا منگیشکر کا گانا”دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں “….گایا تھا.گانا گانے میں گزارا ہو گیا تھا۔
اب اپنی نظم ” مبارک باد اور پُرسہ بھی پیش کر دیتا ہوں ۔
…………………………………………………………………………………………………………………
حیدرقریشی
مبارک باد اور پُرسہ
(صلاح الدین پرویز کے لئے)
صلاح الدین!
میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے
تمہاری دکھ کہانی کے سبھی کردار
میری داستاں میں صرف اپنے نام کی
تبدیلیوں کے ساتھ آتے ہیں
وہی سفّاک اور بے رحم،
نفرت کے پجاری
زندگی میں زہر سا گھولے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔
دھرتی کو بدل لوں،
سوچ کے انداز کو،ایمان کو اور
زندگی کے گیان کو بھی چھوڑ دوں
تب بھی یہ ظالم لوگ سُکھ کا سانس لینے ہی نہیں دیتے
خدا جانے یہ مجھ سے کس لئے خائف ہیں؟
کیوں مجھ کو ڈراتے ہیں؟
صلاح الدین !
ان سفّاک کرداروں کی سفّاکی سے
اتنا جان پایا ہوں
کہ میں جیسے منو کے دور کا شودر ہوں
اپنے ہر جنم، ہردَور میں،ہر حملہ آور کا نشانہ ہوں
صلاح الدین ،
میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے
تو پھر اس دکھ کا رونا کیوں تمہارے سامنے روؤں
چلو اس دکھ کہانی کے ملن کی اس خوشی میں
میری جانب سے مبارک باد اور پُرسہ !