سلام بمبئے، بچہ ھائے آسمان اور بادلوں کے پار
تبصرہ ؛ قیصر نذیر خاورؔ
میں نے کئی بار بادلوں کے پار جا کر دیکھا ہے لیکن خالی اور سپاٹ آسمان کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔ ایسا ہی میرے ساتھ اس وقت ہوا جب میں نے پچھلے دنوں ’ زی سٹوڈیوز‘ کی پروڈکشن اور مجید مجیدی کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’ بادلوں کے پار‘ ( Beyond the Clouds ) دیکھی جو اپریل 2018 ء میں ریلیز ہوئی گو یہ کئی بین الاقوامی میلوں میں پہلے ہی اکتوبر 2017 ء اور ریلیز سے پہلے ، درمیانی وقفے میں دکھائی جا چکی تھی ۔ مجید مجیدی ایک ایرانی ہدایت کار ہے جبکہ ’زی سٹوڈیوز‘ پر انڈیا کی چھاپ ہے ۔ اس فلم میں ایک اشتراک اور بھی ہے کہ اس فلم کی موسیقی مدراسی ’ اے آر رحمٰن ‘ نے ترتیب دی ہے ۔ یہ اشتراک مجھے اٹھا کر ماضی میں لے گیا ۔
فلم کے میڈیم میں برصیغر ہند و پاک کا ایران کے ساتھ سمبندھ 85 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے ۔ ہمارے ہاں بننے والی پہلی’ ٹاکی‘ فلم عالم آراء تھی ۔ اسے اپنے وقت کے مشہور فلم میکر ، اداکار ، پروڈیوسر سینماٹوگرافر اور تقسیم کار’ اردیشر ایرانی ‘ نے ممبئی میں بنایا تھا ۔ جے جے سکول آف آرٹس کے پڑھے اس انتہائی کامیاب کاروباری پارسی نے ہندی کے علاوہ برصغیر ہند و پاک کی دیگر زبانوں میں فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ ایران کے لئے بھی پہلی ’ ٹاکی‘ فلم ’ دختر لُر‘ بنائی ، جس میں اس کے ساتھ ایرانی عبدالحسین سپنتا بھی شامل تھا جو بعد ازاں ایران کا ایک اہم فلمسازاور ہدایت کار بھی بنا ۔ عالم آراء مارچ 1931 ء میں ریلیز ہوئی تھی اور یہ دو گھنٹے سے زائد دورانیے کی فلم تھی جبکہ ’ دختر لُر ‘ ڈیڑھ گھنٹے کا دورانیہ رکھتی تھی اور یہ اکتوبر 1933 ء میں تہران کے دو سینماﺅں میں ریلیز کی گئی تھی ۔ یہ کسی بھی مسلمان ملک میں بننے والی پہلی ، ایسی فلم تھی جس میں کسی عورت سے اداکاری کرائی گئی تھی ۔ اس فلم میں سپنتا کے مد مقابل صدیقہ سامی نژاد ، فلمی نام’ روح انگیز‘ نے کام کرکے ایران کی پہلی اداکارہ کا نام کمایا تھا ۔’ اردیشر ایرانی ‘ اور سپنتا نے دوسری ٹاکی فلم ’ شیریں و فرہاد ‘ بھی بنائی ۔ یہ صدیقہ سامی نژاد کی دوسری اور آخری فلم تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی ۔
ایسا ہی ایک اشتراک 1967 ء میں دیکھنے میں آیا تھا جب ’ آرٹس کمبائن ‘ کے نام سے کراچی کے محسن شیرازی نے ایک فلم ’ جان پہچان ‘ بنائی تھی ۔ اس فلم کے ہدایتکار فرید احمد تھے اور اس میں پاکستانی اداکار محمد علی کے مد مقابل ایرانی اداکارہ ’ شہہ پارہ‘ نے فلم کی ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا ۔ یہ فلم پاکستان کی پہلی سینما سکوپ اور رنگین فلم تھی ۔ قدرے جاسوسی قدرے تھرِیلر اس فلم نے باکس آفس پر درمیانہ بزنس کیا تھا ۔ یہ اگر کامیاب رہتی تو پاکستانی سینما میں ایسی فلموں کا رجحان تقویت پکڑتا ۔ اس وقت ایران میں رضا شاہ پہلوی کا بیٹا محمد رضا پہلوی برسراقتدار تھا جسے انگریزوں نے اس کے باپ کو ستمبر 1941 ء میں ہٹا کر اسے بادشاہت دلائی تھی ۔
1979 ء میں خمینی انقلاب کے بعد ایرانی سینما خاصے انتشار کا شکار رہا ؛ بہت سے اچھے فلم میکر ملک چھوڑ کر چلے گئے ؛ جو ملک میں رہے وہ کڑے سنسر شپ کے تحت فلمیں بنانے پر مجبور ہو گئے ۔ جوں جوں وقت گزرا تو ایران میں فلم کے میڈیم نے ایک نئی شکل اختیار کی اوراس نے اس صدی میں پہنچ کر دنیا میں پھر سے وہ مقام حاصل کر لیا جو خمینی انقلاب سے پہلے تھا ۔2011 ء کی ’ جدائی نادر از یاسمین‘ ( A Separation) نے ’ بہترین غیر انگریزی فلم ‘ کا آسکر حاصل کیا ۔ جسے اصغر فرحادی نے بنایا تھا ۔ اسی ہدایتکار کی فلم ’ فروشندہ ‘ (The Salesman) نے 2017 ء میں یہی ایوارڈ پھر سے حاصل کیا ۔
مجید مجیدی ایران کا ایک اور مشہور ہدایتکار ہے جس کی شہرت اس کی فلم ’ بچہ ھائے آسمان ‘ ( Children of Heaven) ہے جو اس نے 1997 ء میں بنائی تھی ۔ یہ ’ بہترین غیر انگریزی فلم ‘ کے لئے نامزد تو ہوئی لیکن اطالوی فلم ’ La vita è bella ‘ کے مقابلے میں ہار گئی تھی ۔ اس کی فلمیں ’ رنگ خدا ‘ ، ’ باران ‘ اور ’ بید مجنون‘ بھی اہم ہیں ۔ اس نے اپنی فلم ’ محمد‘ کے لئے انڈیا سے کچھ یوں اشتراک کیا کہ اس فلم کی موسیقی اس نے اے آر رحمٰن سے مرتب کروائی ۔ ’ بادلوں کے پار‘ ( Beyond the Clouds) میں یہ اشتراک اور بھی مضبوط ہوا ہے کہ یہ ’ زی سٹوڈیوز‘ کی پروڈکشن بھی ہے ۔
یہ فلم بہن بھائی، عامر اور تارہ کی کہانی ہے ؛ عامر جو منشیات کے دھندے میں ’ ڈلیوری بوائے ‘ ہے جبکہ تارہ ایک دھوبی گھاٹ پر کام کرتی ہے ۔ وہ اپنے پہلے مرد سے جان چھڑا چکی ہے لیکن اب اس کا ادھیڑعمر کا سیٹھ ’ اکشی‘ اس کی عزت کے درپے ہے ؛ اس نے عامر کو پولیس سے پکڑے جانے سے بچایا بھی ہوتا ہے ۔ عزت بچانے کے عمل میں تارہ اینٹ مار کر’ اکشی‘ کا سر پھوڑ دیتی ہے اوراسے جیل ہو جاتی ہے ۔ ممبئی کی نچلی پرت کے لوگوں کی زندگی ، کوٹھوں پر عورتوں کی زندگی ، عورتوں کی جیل میں زندگی ، اور ان سب زندگیوں میں انسان دوستی بھر ے چھوٹے بڑے احساسات اور چھوٹی بڑی کمینگیوں کا تال میل اس فلم کو لے کر آگے بڑھتا ہے اور بالآخر فلم کو ایک ' کھلے انجام ' پر لے جا کر چھوڑ دیتا ہے جس میں نہ تارہ کے لئے مُکتی ہے اور نہ ہی عامر کے لئے کوئی راستہ ہے ۔
اس فلم کو دیکھ کر مجھے دو فلمیں یاد آئیں ۔ ایک میرا نائر کی ’ سلام بمبئے ! ‘ جو اس نے 1988ء میں بنائی تھی اور پہلی بار ممبئی کی گلیوں کے غریب اور عام بچوں کو لے کر منشیات فروشی اور جرائم کی دنیا کے ارد گرد فلم کا تانا بانا بُنا تھا ۔ دوسری فلم ’ بچہ ھائے آسمان ‘ ( Children of Heaven) ہے جو مجید مجیدی کی اپنی ہی 1997 ء کی فلم ہے جس میں غریب بہن بھائی، زہرا اور علی کی کہانی ، بہن کے ان گلابی جوتوں کی چوری سے شروع ہوتی ہے ، جنہیں بھائی مرمت کرانے کے لئے جاتا ہے ، جوتے کھو جاتے ہیں ، اور یہ آگے اُس چارکلومیٹر کی دوڑ تک جا پہنچتی ہے جس میں علی جیت کر اپنی بہن کے لئے جوتے انعام میں حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ دوڑ جیت نہیں پاتا ۔
’ بادلوں کے پار‘ ( Beyond the Clouds) کی کہانی مجید مجیدی نے خود ہی لکھی ہے جبکہ اس کا سکرپٹ لکھنے میں’ مہران کاشانی‘ اس کے ہمراہ ہے ۔ اس فلم میں عامر کا کردار ’ ایشان کھیتر ‘ نے ادا کیا ہے جو کتھک ڈانسر نیلما عظیم کا بیٹا اور شاہد کپور کا سوتیلا بھائی ہے ۔ تارہ کا کردار’ ملاویکا موہنن‘ نے نبھایا ہے جوملیالم اور کنڑ فلموں کی ابھرتی ہوئی اداکارہ ہے ۔ گوتم گھوش نے اکشی کا کردار ادا کیا ہے ۔ اس فلم کا سینماٹوگرافر’ انیل مہتہ‘ ہے ۔ فلم غالباً اس وقت کے ممبئی میں سیٹ کی گئی ہے جب بریک ڈانس اور گانے ’ مقابلہ مقابلہ ‘ اور اداکار’ پربھو دیوا ‘ کا چرچا تھا اور اس کا اثر ممبئی کی جھوپڑ پٹیوں میں رہنے والے بچوں پر موجود تھا ۔ ’ مقابلہ مقابلہ ‘ غالباً 1994 ء کا گانا ہے جو ’ پربھو دیوا ‘ پر ہی پکچرائز ہوا تھا ۔ 2018 ء میں مجھے 1990 کی دہائی میں کی گئی یہ سیٹنگ خاصی کھلی ؛ کیا آج کے ممبئی میں منشیات کا کاروبار ختم ہو گیا ہے اور ممبئی کے چھوکرے اس کی سپلائی کا دھندا نہیں کرتے ؟ کیا ممبئی میں ' کوٹھے ' اب نہیں رہے ؟ کیا جیلیں عورتوں سے خالی ہو گئی ہیں ؟ کیا سَلمز ( Slums ) وہاں ختم ہو گئے ہیں ؟
’ ایشان کھیتر ‘ ، ’ ملاویکا موہنن‘ اور کئی اداکاروں کی ایکٹنگ کہیں اچھی ہے اور کہیں عمومی ، البتہ فلم کے کچھ ' پیچز ' ( Patches ) اچھے ہیں ۔ سینماٹوگرافی بھی درمیانی سی ہے اور اس میں کچھ اچھوتا پن نہیں ۔ اے آر رحمٰن کی موسیقی بھی کچھ زیادہ کمال کی نہیں ہے ۔ کئی جگہوں پر اس کی مرتب کی ہوئی دھنیں visuals سے لگا کھاتی نظر نہیں آتیں ۔ فلم کا نام اور اس کا بناﺅ سنگھار تو اچھا ہے لیکن دیکھنے میں ، ہندی اور انگریزی میں بنی یہ فلم بالکل سپاٹ اور اندر سے کھوکھلی ہے ویسے ہی جیسے بادلوں کے پار آسمان خالی اور سپاٹ ہوتا ہے ۔
اسے دیکھتے کے بعد مجھے لوٹ کر میرا نائر کی ’ سلام بمبئے! ‘ اورمجید مجیدی کی اپنی ہی فلم ’ بچہ ھائے آسمان ‘ پھر سے دیکھنا پڑیں جو اس فلم سے کہیں بہتر اور عمدہ فلمیں ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔