بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگالی میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا
ہماری عالمی سطح کی اس ڈھٹائی اور بے حسی اور تاریخ ساز شکست کو دیکھ کر احمد فراز مرحوم بھی چپ نہ رہ سکے اور سقوطِ ڈھاکہ کے نام سے اپنے جذبات کا کچھ اس طرح سے اظہار کیا
اب کس کا جشن مناتے ہو۔۔۔۔۔۔۔
اب کس کا جشن مناتے ہو
اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کا گیت سناتے ہو
اس تن من کا جو دونیم ہوا
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ
ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکرے ٹکرے
گلیوں میں بے توقیر ہوا
اس پرچم کا جس کی حرمت
بازاروں میں نیلام ہویی
اس مٹی کا جس کی حرمت
منسوب عدو کے نام ہویی
اس جنگ کا جو تم ہارچکے
اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا
اس جان کا جو واری بھی نہیں
اس خون کا جو بدقسمت تھا
راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بے قیمت تھا
آنگھن میں کھلایا بن میں رہا
اس مشرق کا جس کا تم نے
نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے
جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
ان معصوموں کا جس کی لہو
سے تم نے فروزاں راتیں کی
یا ان مظلوموں کا جن سے
خنجر کی زباں میں باتیں کی
اس مریم کا جس کی عفت
لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسا کا جو قاتل ہے
اور شامل ہے غم خواروں میں
ان نوخہ گروں کا جن نے ہمیں
خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہی دم ساز ہویے
ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
ان بھوکے ننگھے ڈانچوں کا
جو رقص سر بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا
جو بھیس بدل کر وار کرے
یا ان جھوٹے اقراروں کا
جو آج تلک ایفا نہ ہویے
یا ان بے بس لاچاورں کا
جو اور بھی دکھھ کو نشانہ ہویے
اس شاہی کا جو دست بدست
آیی ہے تمھارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو
کیا رکھا ہے اس قصے میں
آنکھوں میں چپھایے اشکوں کو
ہونٹوں پہ وفا کے بول لیے
اس جشن میں شامل ہوں میں بھی
نوخوں سے بھرا کشکول لیے
ڈھاکہ سے واپسی پر فیض احمد فیض کی غزل
فیض احمد فیض ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ ایک ثقافتی وفد کے ساتھ ڈھاکہ گئے، سقوط ڈھاکہ سے پہلے فیض احمد فیض مشرقی پاکستان میں بھی مشہور تھے ۔ان کے بہت سے دیرینہ دوست وہاں مقیم تھے ۔1974 میں ڈھاکہ میں قیام کے دوران جب فیض نے اپنے ان بنگالی دوستوں سے ملنے کا ارادہ کیا تو ان میں سے اکثر نے فیض سے ملنے سے انکار کر دیا، جس پر فیض بہت دلبرداشتہ ہوئے اور ڈھاکہ سے واپسی پر اپنی یہ مشہور نظم لکھی… جو اسی واقعہ کے پسِ منظر میں لکھی گئی ہے ۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
سقوط ڈھاکہ پر نصیر ترابی کی غزل
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھیکہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھینہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملالشب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھیمحبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھاشکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھیعداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہتبچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھیبچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزلغزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھیکسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دنصدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھیکبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہتکبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھیعجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔوہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
سقوط ڈھاکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نصیر ترابی کہتے ہیں کہ ’یہ غزل میں نے سقوط ڈھاکہ پر کہی تھی۔‘انہوں نے کہا کہ ایک دن جب دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے سقوطِ ڈھاکہ کی خبر دن کے گیارہ بجے ملی۔نصیر ترابی کا کہنا تھا کہ مجھے جب یہ خبر ملی تو ایک دم ہی میں ٹپ ٹپ رونے لگ گیا۔
وہ نظم جو نصیر ترابی نے سانحہ سقوط ڈھاکہ پر کہی انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ ہمارے لیے بڑا جذباتی مسئلہ تھا، تو بس اسی وقت میں نے ایک غزل ترتیب دی۔یہ غزل ناصرف اس وقت مشہور ہوئی بلکہ آج بھی زبان زد عام و خاص ہے، اسے ڈرامہ ’ہمسفر‘ کے او ایس ٹی کیلئے قراۃالعین بلوچ نے گایا جس سے اسے مزید شہرت ملی۔
سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئی۔۔۔امجد اسلام امجد کی نظم
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے بیتاب قصے لکھےپھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھےتیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھےجن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے، ہم وہ سالار ہیں ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہےتیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہینِ غمِ دل رہےظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہےحشرآور دنوں میں جو سوئے رہے، ہم وہ بیدار ہیں ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
جاگتی آنکھ سے خواب دیکھے، ان کو اپنی مرضی کی تعبیر دیتے رہےہم تیرے بارآور موسموں کے لئے بادِصرصر میں تاثیر دیتے رہےہم اندھیرے مناظر کو روشن دنوں کی امیدوں سے تنویر دیتے رہےتیرے ساحل کی آزادیوں کے لئے ہم تلاطم کو زنجیر دیتے رہےجو ہمیشہ تجھے آرزو کے جھروکے سے تکتے رہے، ہم وہ فنکار ہیں ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کو مہکتی شفق کی ضرورت پڑی ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں تیری خوشبو سکُوں کی تمنا لئے آندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی ہم نے روکا نہیں تیری مٹی نگاہوں میں بادل لئے خشک موسم کی راہوں میں بیٹھی رہی ہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی بولیوں میں بکی ہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن!تجھ کو تو علم ہے، لوگ کیوں درِ راہِ ملامت ہوئےجن محافظ دشمنوں کے علم تیرے روشن لہو کی شہادت ہوئےہم بھی ان کی سیاست کے نخچیر ہیں،آستینوں کے جو سانپ ثابت ہوئےہم بھی تیری طرح سازشوں کی ہوا کے گرفتار ہیں ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی
اب محافظ نما دشمنوں کے علم ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم تیرے دامن کے رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گے ہم آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
تیری آنکھوں میں اے نگارِ وطن! شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گےہم کو تیری قسم اے بہارِوطن اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے
گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکا کیا ،وہ کوئی بھی ہواس کے رستے کی دیوار بن جائیں گےجان دے کر تیرا نام کر جائیں گے
اے زمینِ وطن ۔۔۔ اے زمینِ وطن
اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں ! سقوط ڈھاکہ پر دستاویزی تحریر “حمودالرحمن کمیشن رپورٹ” کو عوام اور نئی نسل سے چھپانے والے ہی اصل مجرموں کے وارث ہیں –