آج کے مشینی دور اور دنیا کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہر انسان بوریت اور دل گھبرانے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے اس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے بوریت کا شکار ہے اور بوریت ایک بیماری کی طرح اس کے سرپر سوار ہے، انسان ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ ہی نکالتا ہے اور اسی علاج کا نام اردو میں گپ شپ اور کمپیوٹر کی زبان میںchat ہے، ویسے اگر غور سے دیکھیں تو دل گھبرانا اور بور ہونا صدیوں پرانا مرض ہے اور علاج بھی صدیوں پہلے ڈھونڈ لیا گیا ہے، طوطا مینا کی کہانی پریوں۔ جنوں۔ بادشاہ اور شہزادوں کی کہانی بھی اسی مرض کا علاج ہے، پھر جب ان سے بور ہونے لگے تو ڈرامہ۔ فلم۔ کارٹون۔ وغیرہ بنے پھر کچھ کٹی پارٹیاں تو دوسری طرف گاؤں میں عورتیں کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر اور مرد چوپال لگا کر بیٹھتے غرض مختلف کھیل ڈانس سب کی پیدائش ہوتی گئی مگر حضرت انسان کا دل نہیں بہلا،
پھر ٹیلیفون کا دور آیا اس پر بھی گپ شپ شروع ہوئی اور کچھ کمپنیوں نے تو اخبار میں باقاعدہ اپنے ٹیلیفون نمبر دے دئیے کہ جب آپ کا دل گھبرائے اور خود کو اکیلا محسوس کریں ہم کو اس نمبر پر کال کریں اور آپ کو آپ کے پسند کے مطابق مرد یا عورت کی آواز میں آپ کے پسندیدہ ٹاپک پر بات کرنے کا موقع ملے گا، رہا کمپیوٹر تو اس میں بھی (chat room) بنا دیا گیا جہاں آپ اپنا کوئی بھی نام بھر کر اپنے پسندیدہ ٹاپک پر بات کر سکتے ہیں،
لیکن ذرا سوچئے بوریت اور دل گھبرانے سے بچنے کیلئے صرف لا یعنی باتیں اور بیکار کام ہی ایک اکیلا واحد حل ہمیں نظر آتا ہے ہم مسلمان ہیں اور ہم اشرف المخلوقات کے لقب سے پکارے گئے ہیں اور ہمارا دنیا میں آنا بھی ایک مقصد کے تحت ہے ذرا اپنا محاسبہ کیجیے کیا ہم نے وہ مقصد پورا کرلیا ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پورے کر لئے جواب ملے گا ہر گز نہیں کوئی انسان کامل ہی نہیں۔ مثال کے طور پر دیکھ لیجیۓ کیا ہماری نماز صحیح معنوں میں قابل قبول ہے، کیا اسی طرح ادا کی جارہی ہے جس طرح ہمیں حکم ملا تھا ؟
در حقیقت دل گھبرانا یہ سب شیطانی فارمولہ ہے، جس کے ذریعہ ہم کسی لایعنی مشغلے میں شامل ہوکر خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں ورنہ اگر مسلمان اپنے فرائض و واجبات سنتوں اور حقوق العباد کو ادا کرنے میں لگ جائے تو اس کو یہ سوچنے کی فرصت بھی نہیں ملے گی کہ بوریت کس چڑیۓ کا نام ہے،بلکہ ہر وقت اپنے ادھورے ہونے کا شدت سے احساس زندہ رہے گا اور اسی کو پورا کرنے میں زندگی تمام ہو جائے گی، ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ ایسی چیز کو چھوڑ دیا جائے جو مفید نہ ہو، اسلام بیکار کی چیزوں کو چھوڑنے کی بھر پور ہدایت کرتا ہے اس طرح حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ احد کی لڑائی میں ایک لڑکا ہم میں سے شہید ہوگیا ہم نے دیکھا کہ بھوک کے سبب اس کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا ہے اس کی ماں اس کے منہ سے مٹی جھاڑ کر کہنے لگی۔ بیٹا۔ جنت مبارک ہو۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ جنتی ہے کیونکہ وہ کلام شاید فالتو کیا کرتا ہو اور جس چیز سے اس کا نقصان نہ ہو وہ اوروں کو نہ دیتا ہو،۔ یعنی شہید ہونے پر بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں فالتو کلام پر پکڑ ہو سکتی ہو،
امام غزالی ایک مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی فالتو میں اپنے سفر کا ذکر کرے اور وہاں کے پہاڑوں، جنگلوں۔ سبزہ زاروں۔ اور آبشاروں کا ذکر کرے اور وہاں گزرنے والے بڑے بڑے کارنامے بتاے تو اگر یہ سچ ہے تو کسی کو کیا فائدہ اور جھوٹ بولتا ہے تو خود کیلئے گناہ مول لیتا ہے، غرض کم بولنے میں ہی فائدہ ہے،
قارئین کرام۔۔۔ ان مثالوں سے ایک ہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کلام بے فائدہ یعنی فالتو کی بک بک مسلمان کیلئے کس قدر نقصان دہ ہے، اور ہم ان باتوں سے بے پرواہ فالتو کلام میں مشغول رہنے ہیں جب تک دوچار کی سن نہ لیں کہ نہ لیں دل ہی ہلکا نہیں ہوتا معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری ہر حرکت خدا کے یہاں نوٹ ہو رہی ہے، ہمیں اطمینان سواے احکام شریعت کے بجالانے میں ہی میسر ہوگی اس کے علاوہ دوسری مصروفیات اور فضولیات میں پڑ کر خود کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،
اپنا ضمیر بھی ہمیں اب ٹوکتا نہیں،
خاموش کیوں ہے اس کی صدا کچھ تو سوچئے،