جمیل جالبی صاحب کا کہنا ہے ۔۔"ساختیات یہودی ڈھکوسلہ ہے" ۔۔
یہ حقیقیت سب کے سامنے عیاں ہے کہ ساختیات اور اس سے متعلقہ ادبی، لسانی، ثقافتی اور عمرانیاتی نظریات کے معروف نظریہ دان اور ناقدین یہودی ہیں۔ جدید ساختیاتی نظرئیے کی نشوونما اصل میں "امریکی ساختیات" سے شروع ہوتی ہے جوکہ بلوم فیلڈ اور نوام چامسکی کے ساسر کے لسانی نظریات پر مباحث کے بعد شروع ہوئی یہ دونوں یہودی تھے۔ ساختیات نظرئیے میں یہ یہودی چھائے ہوئے ہیں۔
عمرانیات ، بشریات اور لسانیات میں ، ساختیات نگاری وہ طریقہ کاریا مناجیات ہے جس میں انسانی ثقافت کے عناصر کو ایک وسیع تر ، بڑے نظام یا ڈھانچے سے تعلقات کے حوالے سے سمجھنا اس کی تفھیم اور تشریح ضروری ہوتی ہے۔ یہ ان ساختوں کو برہنہ کرکے اس افقی اور عمودی معنیات، مفاہیم ، دراکی فکریات سے پردہ اٹھاتا ہے۔ متبادل کے طور پر جو انسان کے ان سب کاموں کو سمجھنے ، سوچنے ، سمجھنے اور محسوس کرنے والے کاموں کو شعور ہوتا ہے ، جیسا کہ فلسفی سائمن بلیک برن کا خلاصہ کیا گیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ساختیاتی ڈھانچہ "وہ عقیدہ ہے کہ انسانی زندگی کا مظاہر ان کے باہمی انسلاکات کے سوا قابل فہم نہیں ہوتا۔ یہ تعلقات ایک ڈھانچہ یا ساخت کی حیثیت سے نمودار ہوتے ہیں اور یہ سطحی مظاہر میں مقامی تغیرات کے پیچھے ثقافت کے مستقل قوانین کے خلاصے کے طور پرموجود ہوتے ہیں"۔ یوروپ میں ساختیات/ اسٹرکچرلزم کی ابتدا 1900 کی دہائی کے اوائل میں ہوئی ، دبستان برائے لسانیات کے فرڈیننڈ ڈی ساسر کی ساختیاتی لسانیات میں۔ اس کے بعد پراگ ، ماسکو اور کوپن ہیگن اسکول برائے لسانیات کے 1950 کی دہائی کے آخر اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں جب ڈھانچہاتی لسانیات کو نوم چومسکی کی طرح سے ساختیات کوشدید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور اس طرح اس کی اہمیت میں معدومیت،اور کسی حد تک وجودی لایعنیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ، تو انسانیت کے علمائے کرام نے اپنے مطالعے کے شعبوں میں ساسر کے نظریات تصورات کا قرض لیا۔ فرانسیسی ماہر بشریات کلاڈ لادیل اسٹراس مباحثہ سے پہلے ایسے اسکالر/ عالم تھے جنہوں نے ساخت پرستی میں بڑے پیمانے پر دلچسپی پیدا کی تھی۔ انھوں نے استدلال کا استدلال کا طریقہ کار شعبوں کی متنوع حدود میں لاگو اور متعارف کروایا۔ ، بشمول بشریات معاشیات ، عمرانیات ، نفسیات ، ادبی تنقید ، معاشیات اور فن تعمیر۔ ساخت پرستی سے وابستگی میں سب سے نمایاں مفکرین میں کلودیل اسٹراس ، ماہر لسانیات رومن جیکب سن ، اور ماہر نفسیات جیک لاکان شامل ہیں۔ ایک فکری تحریک کے طور پر ، ابتدائی ساخت کو نظریہ وجود میں لینا ہی وارث سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ، سن 1960 کی دہائی کے آخر تک ، ساختیات کے بہت سارے بنیادی اصولوں پر فرانسیسی دانشوروں جیسے فلسفی اور مورخ مائیکل فوکالٹ ، فلسفی اور معاشرتی مبصر ژاک ڈیریڈا ، مارکسی فلسفی لوئس التھوسر ، اوردیگر ادبی ناقدین کی ایک نئی لہر نے فکر کے نئے دروازے کھولے۔ رولینڈ بارتھس۔ اگرچہ ان کے لسانی اور ادبی کے عناصر کا لازمی طور پر ساخت نگاری سے تعلق ہے اور ان کو اسی حوالے سے زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ، لیکن ان نظریہ نگاروں کو عام طور پر مابعد جدید ساخت نگار کہا جاتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں ، اس کی سختی اور احادیث پرستی کے لئےمتنی ، مفاہیم ، معنیات کی ساخت پر تنقید کی گئی تھی۔ اس کے باوجود ، ساخت سازی کے بہت سے حامی ، جیسے لاکان ، نے فلسفے پر اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ساختیات /اسٹرکچر ازم کے بعد کے ساختیات کے تنقید نگاروں میں سے کچھ کی بنیادی مفروضات ساخت کے ایک تسلسل میں بیاں کئے ہیں۔ ان سب کا فکری اور نسلی پس منظر یہودی تھا۔
اورنگ زیب نیازی نے اپنے مضمون ،"کیا علمی نظریات بھی یہودی،عیسائی ،ہندو یا مسلمان ہو سکتے ہیں؟" میں لکھا ہے۔۔۔"ویت نام جنگ میں امریکہ کے بہیمانہ ظلم وستم اور قتل وغارت کے خلاف سارتر نے اعلان جنگ کر رکھا تھا ۔ادھر امریکی حکومت سیاہ فاموں کے مظاہروں سے بوکھلائی ہوئی تھی۔زچ ہو کر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے سارتر کا توڑ نکالا،دریدا اور سارتر کی فکری دشمنی کو بھانپتے ہوئے،سرمایہ داروں کے ڈالروں کی مدد سے دریدا کو فرانس سے امریکہ بلوایا جہاں اس نے رد تشکیل کا نظریہ وضع کیا۔اس خدمت کے صلے میں اسے کیلے فورنیا کی لاس اینجلس یونیورسٹی میں ملازمت ملی" ۔۔۔۔{روزن، چھ نومبر 2016}اس پر فضیل جعفری نے تفصیلی مضمون بھی لکھا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کی آخری کتاب ’آبشار اور آتش فشاں ‘میں شامل قریب سو صفحات پر مشتمل دو آخری مضامین’’ساختیاتی کباب میں رَدِّ تشکیل کی ہڈِّی ‘‘اور ’’تھیوری ،امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت ‘‘ ادب کے نام پر اس غیر ادبی خرافات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے ۔ سکندر احمد نے کچھ سال سال قبل ہفت روزہ ’ اعتراف ‘ کے ایک شمارے میں دریدا کے سرقے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ رد تشکیل کی پوری تھیوری دریدا نے حسن بن صباح کی عربی کتاب ’ ’المتونت‘‘ سے اٹھائی ہے۔ وہ چونکہ بہت دنوں تک الجیریا میں رہا تھا اور عربی بہت اچھی جانتا تھا اس لئے یہ کام اس کے لئے کوئی مشکل نہ تھا لیکن اس نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ اس نے ’ رد تشکیل ‘ کا پورا نظام فرقہ باطنیہ کی کتاب ’’ المتونت ‘‘ سے اڑایا ہے۔ حسن بن صباح کے پیروکار قرآنی متون کو اپنے حساب سے Deconstruct کیا کرتے تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ اپنی مرضی کے مطابق جائز کو ناجائز اورناجائز کو جائز قرار دیا جائے ۔ دریداؔ نے فرقہ باطنیہ کے ’ ردتشکیل ‘ کے اس اصول کو تمام متون پر منطبق کر دیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باطنیوں کے پیش نظر صرف قرآنی متون تھے‘ جب کہ مابعد جدیدیت کی ردتشکیل تھیوری کے دائرہ کار میں بغیر استثنیٰ تمام ادبی وغیر ادبی ‘ مذہبی و غیر مذہبی متون شامل ہیں۔ سکندر احمد نے عبدالحلیم شرر کی کتاب حسن بن صباح (مطبوعہ 1931) اور’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ (انسائکلوپیڈیا ) کی جلد سوم (مطبوعہ 1943)کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا۔
عرب یہودیوں' جدید ادبی تھیوری اور بالخصوض ساختیات کی اصطلاح کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں، جس میں ماضی میں بڑے پیمانے پر عرب ممالک میں رہنے والے یہودیوں کی نمائندگی کرنےوالے فلاسفہ اور ادبی نظریہ دانوں کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن دیکر ممالک سے آئے ہوئے ان یہودی اہل فکر 1950 اور 1960 کے دہائیوں میں اسرائیل میں ان کی آمد پر اسرائیل میں سیاسی تشویش اور فکری مغالطعون سے نکالنے کی کوشش کی اور وہ اس میں بھی کامیاب ہوئے۔ جس میں عبرانی مابعد الطبیاتی کو کمال ہوشیاری سے دنیا مین تشھیر کیا گیا۔ .مختصر یہ کہ اس کے بعد 1990 کے دہائیوں میں اس کی سیاسی عدم استحکام، جس میں زیادہ نسل ہم 'عرب یہودیوں' کے اصطلاح کو دوبارہ دیکھتے ہیں، جس میں ماضی میں بڑے پیمانے پر عرب ممالک میں رہنے والے یہودیوں کی نمائندگی کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے، لیکن انھوں نے 1950 اور 1960 کے دہائیوں میں اسرائیل میں ان کی آمد پر سیاسی تشویش سے نکال لیا تھا. ہم سب سے پہلے اس بات کا خاتمہ کرتے ہیں اور اس کے بعد 1990 کے دہائیوں میں اس کی سیاسی عدم استحکام، جس میں زیادہ سے زیادہ نسلہم 'عرب یہودیوں' کے اصطلاح کو دوبارہ دیکھتے ہیں، جس میں ماضی میں بڑے پیمانے پر عرب ممالک میں رہنے والے یہودیوں کی نمائندگی کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے، لیکن انھوں نے 1950 اور 1960 کے دہائیوں میں اسرائیل میں ان کی آمد پر سیاسی تشویش سے نکال لیا تھا. ہم سب سے پہلے اس بات کا خاتمہ کرتے ہیں اور اس کے بعد 1990 کے دہائیوں میں اس کی سیاسی عدم استحکام، جس میں زیادہ سے زیادہ نسل دریا میزراہی دانشوروں اور کارکنوں کی طرف سے کیا گیا تھا ہم 1990 کی دہائیوں کے اس اضافے کا جائزہ لیں گے، جو تصور کے ساختمین اور پوسٹ ساختی تشریحات کے درمیان متصف ہیں، اگرچہ ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اکثر مداخلت کرتے ہیں. ساختی تشریح کے مطابق، 'عرب یہودی' اصطلاح ایک بائنری منطق پر قائم کی گئی تھی جہاں یہودیوں اور عربوں کو ثقافتی اور سیاسی تنازعات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے. پوسٹ ساختی تفسیر بے بنیاد شکل کو مسترد کرتا ہے جس میں ایک ہائبرڈ epistemology، جو 'عرب' اور 'یہودی' کے دو پہلوؤں کے درمیان متحرک تحریک کو متحرک اور قابل بناتا ہے. ہم مشرق وسطی میں سیاسی حالات سے متعلق ان کی مطابقت کے بارے میں تفسیر اور تشریح کے ان دو متغیر طریقوں کے درمیان اختلافات کا اظہار کرتے ہیں. میزراہی {Mizrahi} دانشوروں ، مزاحمت کاراور کارکنوں کا احتجاج اور اختلاف نمایاں تھا۔ اگر ہم 1990 کی دہائیوں بی ان نظریات یا تھیوریز کے اضافے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہجو تصور کے ساختیات اور پس ساختیات کی تشریحات کے درمیان متصف ہیں، اگرچہ ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ لگتا ہے وہ اکثران نظریات میں بے جا اور اعتباتی/ من مانی طورپر مداخلت کرتے ہیں. ساختیاتی تشریح کے مطابق، 'عرب یہودی' اصطلاح ایک متشاباتی منطق پر قائم کی گئی تھی جہاں یہودیوں اور عربوں کو ثقافتی اور سیاسی تنازعات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے. پس ساختیاتی تفسیر، تشریح اور تفھیم بے بنیاد شکل کو مسترد کرتا ہے جس میں ایک مخلوط النسل { hybrid } علمیاتی { epistemology} نوعیت کا ہے جو 'عرب' اور 'یہودی' کے دونوں پہلوؤں کے درمیان تحریک کو متحرک اور قابل عمل اور اطلاقی بناتا ہے. ہم مشرق وسطی میں سیاسی حالات سے متعلق ان کی مطابقت کے بارے میں تفسیر اور تشریح کے ان دو متغیر طریقوں کے درمیان اختلافات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک یہودی مضنف مارکوز بریک میں{ Marcus Berkmann } نے اپنی تحقیقی اور نظریاتی کتاب " ساختیات کی پیدائش"{The birth of structuralism} لکھی ہے۔ یہودی نظریہ دانوں نے تجربیت اور ساختیات کا تنازعہ بھی پیدا کیا۔ اور وجودی ساختیات کا شوشہ بھی چھوڑا۔
ساختیات اور ردتشکیل کے پرسرار مکھوٹے کو بےنقاب کیا کیونکہ یہودی فلاسفہ نے ساختیات ،ردتشکیل اور ادبی ثقافتی اور لسانی تھیوری کی آڈ میں یہودی الہیات اور دیگر مذاہب اور ایقان کو فکری طور پر مٹانا چاھتا ہے۔ جس کا ردعمل اسی کی دہائی میں نئی نوآبادیاتی تھیوری اور عقائدی مزاحمت اور احتجاج کی صورت میں سامنے آیا۔جس کے اثرات دنیا کی محیط ارض سیاست کر عسکریت اور تششدد کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کا خواب رومانیہ نژاد فرانسیسی کے یہودی مارکسٹ عمرانیات دان لوسین گولڈ میں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنے نظریہ " تصور کائنات" میں دیکھا تھا۔ جس کے بطن میں سیاسی اور مخصوس الہایات کے ترویج کا خواب دیکھا تھا۔
یہ فہرست تو بہت طویل ھے۔ مگر کچھ معروف یہودی ساختیاتی نظریہ دانوں کے ناموں پر اکتفا کریں :
کلودیل لیوی اسٹروس،براونسکی، ہیرالڈ بلوم، ایم ایچ ابرہام، ہیلن سیکور، اسٹینلے فش، ژاک دریدا، جیفری ہارٹ میں، ہرچ، رومن جیکب سن، یاری لوٹمیں، لاکان، جوڈتھ بٹلر، والگانگ اسر، مکورووسکی، جیکولین اہر مین، لوسین گولڈ مین، نوام چامسکی، پال ڈی مین، ایواسیڈوک، رچرڈ ھومین، اور ہائی مین وغیرہ، :
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...