:::" ساختیات " کی اصل ماہیت اور مزاج کیا ہے؟ نو ساختیات اور اس کا پھیلتا ہوا آفاق ،سیا ق اورتناظر " :::
ساختیات کو سادے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ھے کہ یہ مظاہر کا تجزیاتی مناجیات/ طریق عمل کاعلم یا سائنس ھے اس کا بنیادی مکالمہ "انسانی مظاہر" سے ھی ھوتا ھے۔ ساختیات کے مظہر میں ثنوئی اختلافات کا نظام موجود ھوتا ھے۔ جس میں افترقات کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جاتا ھے اور ساخت سے معنویت/ معنیات اخذ کی جاتی ھیں۔ جو اصل میں فکر کا طرز نظر اور رسائی ھوتی ھے۔ اس نظرئیے کو سب سے پہلے ارسطو نےچھیڑا ۔ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ – فارسی زبان میں اسم 'ساخت' کے ساتھ فارسی قوائد کے مطابق 'ی' لاحقۂ نسبت اور 'ات' بطور لاحقۂ جمع مونث لگانے سے 'ساختیات" بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٨٣ء، کو "نئی تنقید" میں مستعمل ملتا ہے۔ ادبی تخلیق کی پرکھ یا تنقید کی ایک شاخ جس میں الفاظ و تراکیب کی حرفی و نحوی ساخت کو بہت اہم خیال کیا جاتا ہے، "اسی طرح ساری جدید ادبی و فکر تحریکیں خواہ . کونکریٹ پوئٹری، لسانی تشکیلات ساختیات یا اسلوبیات ہو، ہمارے ادب کے وجود کا حصہ بنی ہیں یا بن رہی ہیں۔" ( ١٩٨٣ء، نئی تنقید، ١٠٧ )
ساختیاتی تنقیدی نظرئیے کے چار (4) مزاج ہیں۔
(1) تاریخی تنقید ( طربیہ، المیہ، موضوع کا خلاصہ)
(2) علامتی، نسلی تنقید (ادبی تشریات،ہیتی، اساطیری )
(3) اساطیری/ ارکی ٹائپ تنقید (طربیہ، المیہ، رومانی، طنز و مزاح)
(4) اصناف اور بلاغتی تنقید ( نثر، ڈرامہ،شاعری)
سوئس ماہر لسانیات فرینڈڈ ساسر (1857۔ 1913) جن کو جدید لسانیات کا بانی کہا جاتا ھے۔ انھوں نے لسانی تصورات کا خلاصہ و
خاکہ پپش کیا۔ ساختیاتی مباحث میں ساسر نے زبان کی ثقافتی مظہریت سے بحث کرتے ھوئے لسانی عناصر کی نشاندھی کی اور کہا کہ لسانی نظام میں معروضی حقائق شناخت نہیں کئے جاسکتے۔ ساختیاتی مطالعوں میں "ادب" کو دوسرے درجے کا نظام فکر تصور کیا گیا ھے۔ مارکسزم ،مظریات، فرائڈین ازم اور وجودیت کے خمیر سے ساختیات کا فکری اور مناجیاتی ڈھانچہ تشکیل پایا ھے۔ احمد سھیل نے اپنی کتاب میں ان مکاتیب فکر کو ساختیات کی مباحث میں شامل کیا ھے۔
"باختن دبستان، پراگ دبستان، جینوا دبستان، کوپن ہیگن دبستان،روسی ہیت پسندی، ییل کا دبستان، شکاگو دبستان، کیمرج دبستان، ماسکو ٹرٹو دبستان ۔"
(احمد سھیل، " ساختیات، تاریخ، نظریہ، تنقید" ۔ تخلیق کار پبلیشر، دہلی، 1999)
ساختیات کے نظریاتی، فکری ،لسانی، تنقیدی اور تحریکی کے حوالے سے ان موضوعات پر مباحث ایک عرصے سے جاری ھے۔
ایبانک تنقید،بالائی ساختیات، ردتشکیل، متنی تنقید، قاری اساس تنقید،ثانیثی تنقید، اقلیتی مخاطبہ، قبل متن نظریہ، آرکی ٹائپ تنقید،فیوجی ٹیو تنقید، تفھیمات، مارکسی ساختیاتی تنقید ، وطائفی تنقید،نئی ساختیات، مظریت، پس نو آبادیاتی تنقید،، لزبن اور گے تنقید،پس ردتشکیل، پس بالائی ساختیات، رد نوآبادیاتی تنقید، نیوکلیائی مخاطبہ، نو ساختیات، سیاقیت، بدیعیاتی تنقید، نشانیات، ٹروپ (ٹروپ لوجی)، زبانی شبیہ کاری، یک کلامیہ تنقید،، مخاطباتی تجزیات، نامیاتی تنقید، نظریہ قبولیت، متنی تنقید، قاری اساس تنقید،ثانیثی تنقید، اقلیتی مخاطبہ، قبل متن نظریہ، آرکی ٹائپ تنقید،فیوجی ٹیو تنقید، تفھیمات، مارکسی ساختیاتی تنقید ، وطائفی تنقید،نئی ساختیات، مظریت، پس نو آبادیاتی تنقید،، لزبن اور گے تنقید،پس ردتشکیل، پس بالائی ساختیات، رد نوآبادیاتی تنقید، نیوکلیائی مخاطبہ، نو ساختیات، سیاقیت، بدیعیاتی تنقید، نشانیات، ٹروپ (ٹروپ لوجی)، زبانی شبیہ کاری، یک کلامیہ تنقید،، مخاطباتی تجزیات، نامیاتی تنقید، نظریہ قبولیت، متنی اور تحریری تنقید، تاریخ کار تنقید، عمل کلام کا نظریہ، کوئر نظریاتی تنقید اور رواجی تنقید وغیرہ۔۔۔۔۔۔
گذشتہ چند برسوں سے اردو کے ادبی جرائد میں ساختیات STRUCTURALISM کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اردو میں یہ اصطلاح قدرے نئی ہے لٰہذا جو بھی اس موضوع پر لکھا جا رہا ہے وہ نہ جانے کیوں آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا۔ ساختیات کی بحث اتنے روکھے، خشک غیر جمالیاتی انداز سے ہوئی کہ قارئین کے ہر بات سر کے اوپر سے گزر گئی۔ ہماری پیشہ ور تدریسی نقادوں سے اس سلسلے میں جو بقاطی جھاڑی اس سے پڑھنے والے ذرہ برابر نہ متاثر ہوئے اور نہ ہی مطمئن ہوئے۔ کیونکہ یہ فاضل نقاد جو دور کی کوڑی لائے ان کو پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ مختلف فاموس المعلوم کی نہایت عللمی اور فلسفیانہ حوالے ہیں۔ یہ بھاری بھرکم حوالے ان نقادوں نے حرف بہ حرف ترجمے کر دئیے بڑے بڑے مغربی فلاسفر اور دانشوروں کے حوالوں کا سہارا لیتے ہوئے ان حضرات نے اپنی بے معنی کاوشوں کو سکہ رائج الوقت بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی تنقیدی اور علمی بقراطی کا سکہ قارئین پر بٹھانے کی کوشش کی مگر قارئین اس ادبی اور تنقیدی ساخت کو با آسانی سمجھ لیتے جبکہ ہمارے ان ساختیاتی نقادوں نے اپنی افلاطونی باتوں سے اس قدر الجھا دیا کہ ایک طرف تو وہ خود اپنی ہی باتوں میں الجھ کر رہ گئے بلکہ قارئین بھی ان کے ساتھ انہی کے بنے ہوئے تانے بانوں میں الجھ کر دھڑام سے گر پڑے۔
اردو تنقید پر ہمیشہ تدریسی تنقید کا مہیب اور شیطانی سایہ رہا ہے۔ یہ پیشہ ور قسم کے نقاد اپنے قارئین کو بھی کمرہ جماعت میں بیٹھا ہوا طالب علم تصور کئے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
ساختیات تنقید کے سلسلے میں یہ غلط تاثر بھی عام ہے کہ جامعات اور کالجوں کے اساتذہ ہی اس کو سمجھا سکتے ہیں کیونکہ اس کام میں تمام کا تمام ’’لائبریری ورک‘‘ ہوتا ہے۔ لٰہذا ساختیاتی تنقید کو پران چڑھانے کے لیے متن TEXT کے نقادوں کو عنانِ ساختیات سنبھال لینی چاہیے۔ یعنی جو متن یا سیاتی تنقید نہیں لکھ سکتا وہ ساختیاتی تنقید میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اب تو معاملہ اتنا بگڑ چُکا ہے کہ ست پوچھیں، ہمارے یہاں کے ساختیاتی نقاد خود ہی تنقید لکھتے ہیں اور خود ہی خوش ہوتے ہیں۔ ان لوگون نے اتنی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں کہ وہ دوسروں کو کیا وہ اپنے آپ کو ہی ساختیات کا مفہوم سمجھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ساختیات کا تعلق کسی تخلیق کی ظاہری ساخت یا بنارٹ سے نہیں ہوتا بلکہ موضوعی سطح پر جو تخلیقی اظہار ہوتا ہے اس کا مطالعہ ساختیات کرتی ہے۔ تخلیق کا ظاہری ڈھانچہ اور لسانی رنگ و روپ اور اس کی ہیت سے ساختیات کا کوئی علاقہ نہیں۔
ساختیات تنقید ہمارے یہاں لسانی ماڈل کے حوالے سے روشناس کروائی گئی۔ خاص کر لیوی اسڑوس کے بشریاتی ماڈل کو لے کر ہمارے یہاں اسی ماڈل کے حوالے سے ادب کو پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش نہایت ہی احمقانہ تھی۔ کیونکہ اسٹروس کے بشریاتی ماڈل کو سمجھنے سے پہلے اس کے ریاضیاتی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔ ہمارے یہاں نقادوں کے سامنے جہاں ریاضی کی بات ہوتی ہے تو ہمارے نقاد صاحبان کے قلم ٹھہر جاتے ہیں اور ’’ذہن‘‘ سوچنے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ میں نے آج تک ان نقادوں سے لیوی اسٹروس کے ریاضیاتی ماڈل کی بابت نہیں سنا جس کے بغیر ساختیاتی تنقدی کا کوئی جواز ہی نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ان نقادان فن نے لسانیات اور ادب کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر کے جس قسم کا بھونڈا انداز اپنایا ہے اس سے اردو تنقید کو نقصان پہنچا ہو یا نہ ہو مگر ان کے غیر تخلیقی اور غیر تنقیدی ذہن کے نیچے پن کی قلعی ضرور کھل گئی۔
شروع کے چند سال ہمارے قارئین کو ان نقادوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ساختیات کیا ہے؟ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک تھی کہ اس موضوع پر شروع میں بنیادی نوعیت کے مضمون لکھے جائیں اور پھر ترتیب وار اس موضوع کو اردو کے حوالے سے توسیع دی جائے مگر ہوا اس کے برعکس۔ وہ یوں کہ ان نقادوں نے شروع میں ہی اتنے سخت، نوک دار اور خشک پتھر برسائے کہ خدا کی پناہ۔۔۔ اور اپنی دقیق اور بے معنی باتوں سے لوگوں کو منتفر کر دیا۔
یہ امر اپنی جگ مسلمہ ہے کہ ساختیات کا علم صرف لسانیاتی علم (حوالہ) ہی نہیں بلکہ عمرانیاتی، بشریاتی، طبعیاتی، نفسیاتی، حیاتیاتی، حیوانیاتی، نباتاتی، ریاضیاتی، شماریاتی اشارہ فہمی کے علوم بھی ساختیات کے اہم موضوعات ہیں۔ مگر جب اردو کے حوالے سے ساختیات کی بات کی جائے تو نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم ثقافتی بشریات اور نظری عمرانیات کے موضوع پر تھوڑی بہت نظر رکھتا ہو۔ یوں تو روائتی طور پر ہمارے تمام تنقیدی ڈھانچہ تاثراتی ہے مگر ساتھ تھوڑی سی عملی تنقید بھی لکھی گئی یا مفروضے تشکیل دے کر یا نظریاتی حوالے سے ادبی تخلیقات کو پرکھا اور جانچا گیا اور یوں فن ان تنقیدی تحریروں سے غائب ہو گیا اور نظرئیے کی بازگشت ہر طرف سنائی جانے لگی۔
میرا سوال ان نقادوں سے یہ ہے کہ ان لوگوں نے ساختیات تنقید کے موضوع پر بڑے بڑے پائے کے فلسفیوں اور دانشوروں کے حوالے سے مضامین لکھے مگر کوئی ان سے پوچھے کہ پہلے تنقید ہوتی ہے یا تخلیق۔۔۔۔ یعنی یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے، ان اصحاب نے ساختیاتی تنقید پر بڑی بقراطی جھاڑی مگر ساختیات ادب اور تخلیق کے متعلق بات نہیں کی۔ حالانکہ پہلے ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ نقاد پہلے اردو کے ساختیاتی ادب کی نشاندہی کرتے پھر بعد میں ساختیاتی تنقید کی بات کرتے۔ مگر اس سلسلے میں یہ تمام لوگ کلی طور پر ناکام رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ساختیاتی مباریات کو سمجھنے کے لیے ثقافتی بشریات اور نظری عمرانیات پر گہری نظر ہونی چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تاثراتی اور نظریاتی تنقید کا جادو ہماری تنقیدی روایت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کو سر سے اتارنا مشکل ہے۔
ہر ادب میں ساختیاتی عنصر ملتا ہے دنیا میں ایسی کوئی تخلیقی اور علمی تحریر نہیں جو اپنی ساختیاتی جواز نہ رکھتی ہو۔ یہ ناممکن ہے لسان و زبان، جمالیات، تشیہات، استعارے، علامات، فلسفیانہ متن، معاشرتی اور سیاسی بے چینی اور تخلیق کار کی ذاتی واردات اپنے ساختیات پیکر میں قارئین کے ذہن میں نہ آتے ہوں۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ساختیات کا علم بغیر علم انسان اور عمرانیات کے مکمل نہیں ہوتا یعنی ’’ادب کی عمرانیات‘‘ سے کامحقہ آگاہی ہونی چاہیے کیونکہ توانا ادب معاشرے میں ہی لکھا جاتا اور یہیں پروان چڑھتا ہے۔ جہاں ثقافت معاشرتی جمالیات، ابلاغ، معاشرتی عقائد، رسم و رواج اور اس کی معاشرتی حرکات ادب کی تخلیق کا سبب ہوتی ہیں۔ مابعد الطبعیاتی مسائل بھی ادب میں آتے ہیں جن کو ساختیاتی تنقید اپنے مطالعے میں شامل کرتی ہے مگر نامیاتی عنصر کے ساتھ ۔۔۔۔ لٰہذا ساختیاتی ناقدوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں نامیاتی نقطہ نظر کو بھی مدِ نظر رکھیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ کسی ادبی شہ پارے کا ساختیاتی مطالعہ کرنے سے پہلے نامیاتی تجزیہ کر لیا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ اس سے تخلیق کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ خاص کر موضوعی نوعیت کے مسائل کو نامیاتی پہلوؤں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لٰہذا میرا ساختیات کے بارے میں نقطہ نظر ہمیشہ نامیاتی حوالے سے رہا ہے اور آج ہم جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ساختیاتی ادب کا نامیاتی حوالہ ہے۔
جب ہم سوچ بچار کرتے ہیں یا گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کا ڈھانچہ یا کاکہ یا تجرید ہوتی ہے مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ساختیاتی ذہن سے پیدا ہونے والا ادب نہ خالص ہوتا ہے اور نہ ہی کلی طور پر منطقی اور نہ ہی استدلالیت سے پُر ہوتا ہے۔ مگر جب بھی خوابوں، علامتوں اور اشاروں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ وطائفی {فنگشنل} نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لیکن عمل اور فکر میں انسانی صورتحال سب سے اہم ہوتی ہے۔ جہاں فرد اشیاء اور اپنے جذبات کو کوئی معنی پہنانا چاہتا ہے۔
اردو کی ساختیاتی ادب کی فکری تاریخ کے پس منظر میں یہ دور اہم ہیں۔
۱ ۔ بھگتی تحریک
۲ ۔ ریختہ کی دو تحریکیں
۳ ۔ ایہام اور رد ایہام کی تحریک
۴۔ فورٹ ولیم کالج کے علمی اور ادبی تراجم
۵۔ علی گڑھ تحریک
۶۔ حالی اور آزاد کی نظم جدید کی تحریک
۷۔ اقبل کی تحریک
۸۔ رومانی تحریک { مخزن کے تحریک}
۹۔ ۱۹۳۶ء کی ترقی پسند تحریک
۱۰۔ حلقہ ارباب ذوق
۱۱۔ تحریک ادب اسلامی
۱۲۔ اردو کی گنگا جمنی تحریک اور اس کے روّیے
۱۳۔ پاکستانی ادب کے تحریک
۱۴۔ ارضی تہذیبی اور ثقافتی تحریک
۱۵۔ ساٹھوں دہائی میں اردو کی علامتی تحریک
۱۶۔ ۱۹۵۷ء کے بعد ادب میں غیر وابستگی کا رجحان، نئی جدیدیت اور نئی ترقی پسندی کا ظہور
۱۷۔ برصغیر اور تیسری دنیا کے حوالے سے احتجاجی اور مزاحمتی ادب کا فروغ
۱۸۔۔ لسانی تشکیلات کی تحریک
۱۹۔ نئی ترقی پسندی، [پروگرسیو} ، نئی وجودیت اورنئی ایقانی روایت کے رویّوں کا ظہور
اردو ادب کی تاریخ کا چاہے کوئی بھی دور ہو، ساختیاتی حوالے سے ادب کے معروضی اور موضوعی حقائق کے سلسلے میں اٹھنے والے فلسفیانہ سوالات کو انسانی فطرت، معاشرتی اور ثقافتی معمولات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی جو عنیت پسند سے تبدیل ہو کر سائنسی تجزیہ نگاری کی طرف گامزن ہے۔
ادبی ساختیات کی دو اقسام ہیں
۱۔ فطری ساختیات
۲۔ ترتیب وار ساختیات
فطری ساختیات:
نامیاتی نظریے کی طرح ساختیاتی ادبی نقطہ نظر کی اصل بھی ایک باضابظہ فکری عمل ہے، جو مروجہ عقلی رجعت پسندی کے خلاف، جو معاشرتی، معاشی اور اخلاقی سطح پر معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جس میں ترقی پسندانہ جمالیات اور معاشرتی تغیر پسندی کی خواہش سانس لیتی نظر آتی ہے۔ جہاں عموماً غیر مثالی (عینی) اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ جہاں ساختیات ایسا میزانیہ بن جاتی ہے۔ جہاں ایک بندھے بندھائے نظام معاشرت میں ادب کسی نہ کسی طور پر پروان چڑھتا ہے اور یوں ساختیاتی حوالے سے ادب کا ارتقاء نامیاتی طور پر ہوتا ہے۔ یوں ارتقائی اور فطری عوامل اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ مگر ساخت اور طریق کار کا تغاوت بھی ساختیاتی تنقید کا سب سے اہم موضوع ہے جہاں نفسیاتی، معاشرتی اور ثقافتی، عوامل کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہاں تخلیق کار کا معاشرتی ثقافتی اور ذہنی نظام چار شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
۱۔ حیاتیاتی فکر
۲۔ ماحولیاتی معروض
۳۔ فرو دیگر
۴۔ ابلاغ اور تبادلہ افکار
جبکہ معاشرتی ثقافتی سطح پر کم از کم ادبی فکر ماحولیاتی نظام کے تحت اپنی فعلیات انجام دیتی ہے۔ جس میں سات عناصر اہم ہوتے ہیں۔
۱۔ ادبی تخلیق کا تعارفی نظام
۲۔ تخلیق کار کے ذہنی تضادات، محرومیاں اور دیگر ٹینشن
۳۔ ضعیف اتقادی، رسم و رواج، مذہب، نئی سائنسی فکر، روشن خیال کے درمیان ربط کی صورتحال
۴۔ تخلیق کار کا قوت فیصلہ
۵۔ نظام اشاریت اور رمزیات کے نظام آگاہی (عمل سماجیانہ)
۶۔ تخلیق کار کی تخلیق ایک فکری نظام اور کئی ذیلی فکر جذباتی نفاسوں پر محیظ ہوتی ہے۔
۷۔ ہر تخلیق کا ایک حیاتیاتی نامیاتی ڈھانچہ ہوتا ہے۔
ترتیب وار ساختیات :
اس قسم کی ادبی ساختیات کو میکرو ترتیب وار اور ارتقائی ساختیات بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے سیاق کی بنیادوں میں جو بھی تخلیقی یا تنقیدی ذہن (فکر) تشکیل پایا ہے وہ زیادہ تر فردیاتی ہوتا ہے نہ کہ حیاتیاتی۔۔۔۔ یوں فکر کی میکانی صورت حال نمایاں ہو کر سامنے آتے ہے۔ جس میں تخلیقی بلوغت معاشرتی معروضی حقائق سے تخلیق پاتے ہیں جس میں تخلیق کار یا تنقید کار کی خلاتی کا مظہر اس کی تخلیقی اکائیوں (کردار) اور اس کی تخلیقی اکائیوں (دوست احباب) اور اعلٰی اکائیوں (ابلاغ کے جدید ذرائع وغیرہ) میں بٹ جاتا ہے اور بعض دفعہ یہی اکائیوں مختلف گروہوں مثلاً حلقہ ارباب ذوق (ادبی اور حلقہ ارباب ذوق سیاسی میں تقسیم ہو جاتی ہے)۔ جب ایک ادبی نظام کی صورت سامنے آتی ہے تو اس کی تین صورتیں نمودار ہوتی ہیں۔
۱۔ تخلیقی نظام (خودمختار آگاہی)
۲۔ تخلیقی صورتحال (جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے)۔
۳۔ تخلیقی طبقات (ایک دوسرے سے منسلک اکائیاں)
یہاں ادبیات میں ژقافتی عنصر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ثقافت ہی ادبی علامات کو تشکیل اور اس کی تفہیم میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ جب کسی تخلیق کی حرکیت کے سبب ساختیات میں انتشار برپا ہوتا ہے تو ثقافت اپنی علامات، تنافض کی مدد سے تخلیق میں ایک نئے تخلیقی عنصر کو روشناس کروا دیتے ہیں۔ جہاں ادبی رویوں اور تخلیق کی جمالیات کو نئے معنی اور مفاہیم مل جاتے ہیں جن کی توقع تخلیق کار بھی نہیں کر پا رہا تھا۔
اب ساختیاتی تنقید کا سٹار کئی نئی کروٹیں بدل چکا ہے۔ جدید ساختیاتی تنقید اب ادبی تخلیقات کا ریاضیاتی، شماریاتی اور ایمپریکل انداز میں تجزیہ کیا جاتی ہے، شماریات کے کلیات کائی اسکوئر، اسٹینڈ ڈی ویلشن، ریگرلیشن اور ملٹی ریگرلیشن وغیرہ کی مدد سے ادب کی ساختیاتی بنیادون کو مستحکم بنایا جا رہا ہے۔
کیا ان تما علمی، سائینس اور منطقی باتوں کو ہمارے یہاں آسانی سے قبول کر لیا جائے گا؟ شاید لوگ اسے دماغ کا خلل کہیں گے یا مجذوب کی بڑ۔۔۔۔۔ اب زمانہ اس قدر بدل چکا ہے کہ آئے دن تخلیقی اور تنقیدی معیادات اور ان کے تجزیاتی سانچے بدلتے رہتے ہیں لٰہذا ساختیاتی نقادوں کو اس انداز تنقید سے پوری طرح شناسائی ضروری ہے۔ اب تنقید میں تکنیکی تحریروں کا زمانہ ہے۔ ’’توتا کہانی‘‘ کی طرح تنقید لکھنے سے توبہ کر لینی چاہیے۔ جس طرح دنیا میں ہماری کوئی بات قابل قبول نہیں اسی طرح ہماری اردو تنقید کو اہمیت نہیں دی جاتی کہ اس میں منطقی روابط اور سائینسی فکر کا کال پڑا ہوا ہے۔
ساختیاتی حوالے سے فیض احمد فیض کی شاعری کا نامیاتی ڈھانچہ دیکھیں، جس سے انکشاف ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں ایک طرف تو بلا نما حسن و جمال ہے، تو دوسری طرف باطنی کیفیات میں انتشار بھی ہے۔ فیض ایسے فنکار ہیں جنہوں نے معروض اور موضوع کو نئی شعری جمالیات کا روپ دیا۔ جو شاید ہی کسی شاعر کے یہاں اس سے پہلے نظر آتا ہو۔ ان کے تمام شعری اور بشریاتی احساس فرد کی زندگی کا المناک مگر جمالیاتی استعارہ ہے۔ جہاں انسان دوستی کا وسیع تناظر پھیلا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے المناک المیہ اپنے عہد کی منافقت اور ایک انجان ہم زار سے پرسرار رشتہ ہے۔ ماضی کے خواب، آدرش، عصری تمدن، گُم شُدہ قدروں اور تہذیب، سیاست کے معدوم ہو جانے کے بعد فیض کے ہاں نئی رومانیت کا ظہور ہوتا ہے۔ جہاں جمالیاتی احساس معاشرتی تبدیلی کے خواب پر قربان نہیں ہوتا اور ایسی شعری وحدت کی تخلیق ہوتی ہے جہاں شعری تابندگی کا آفاقی نقش روشن ہوتا نظر آتا ہے۔ جن کے پس منظر میں کئی چھوٹے بڑے تاریخی سانحے پوشیدہ ہیں۔
-،-،-،-،-،-
جرمن ادیب منفریڈ فرینک کی " نو ساختیات" پر فکر انگیز کتاب"
گذشتہ ہفتے میں سفر میں رہا۔ سفر کے دوران کوئی پانچ دنوں میں منفریڈ فرینک {Manfred Frank } کتاب {" What is Neostructuralism?} "کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا۔ کتاب میں ادب کے تنقیدی نظرئیے کے حوالے سے انھوں نے نئی راہیں خلق کی ہیں جو معروضی بھی ہے اور پس ساختیات کے نظرئیے سے اپنی برھمی کا اظیار بھی کرتا ہے۔ جس کو پڑھ کرساختیاتی مباحث کی کئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اور نت نئے فکری انکشافات ہوتے ہیں اور ایک مہذب " نرم فکری مزاحمت اور بےچینی" نظر آتی ہے۔ ان کی اس کتاب کوسبیں ویلک {Sabine Wilke} اور رچرڈ گیری {Richard Gray} نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔
مصنف کو بہت کم قاری نصیب ہوئے مگر انھوں نے " نو ساختیات" کےتصور کو خاصی حد تک واضح کردیا ہے۔ مگر وہ اس بات کا احساس دلواتے ہیں کہ وہ جو بات کہ رہے ہیں وہ " جینوئن" ہے۔ کیونکہ یہ " نئی" ہے۔ لیکن اس کی شکل بگڑی ہوئی ہے۔ وہ اس کی درستگی اور تزئین چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ ان کا قاری ان سے سوال کرے اور ان کا فکری احتساب کرے۔
منفریڈ فرینک کی اصطلاح " نو ساختیات" کو اکثر پس ساختیات کی سیاق میں لیا جاتا ہے۔ . فرینک کا کہنا ہے کہ پوسٹ ساختیات کی تشکیل سازی ناممکن اور نامناسب ہےاور نہ ہی اس سے ساختیات اور پس ساختیات کو آزادنہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ۔ اس کے نقطہ نظر سے " نو ساختیات" کی مدد سے ان کی تفھیم اور تشریح کی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں نو ساختیات ہی نئے فکری رموز کھولتا ہے اور نئے رموز اور نظریات کی تشکیل سازی کرتا ہے۔ . جیسا کہ فرینک اسے دیکھتے ہیں۔ " نو ساختیات" ایک فرانسییسی تحریک ہے جس کے ڈانڈے 1968 کی پیرس کی طلبا تحریک سے جوڈے جاسکتے ہیں. بے شک، ژاک دریڈا ، گیلیس ڈیلازی مائیکل فوکوٹ، جولیا کریسٹووا، اور جین فرانیسس لیوٹارڈ کے دیگر متعدد متوازن فکری نظریات اور کاموں سے منسلک فکریات میں ایک تسلط اور جبر کی بو آتی ہے اور نظام سے بغاوت ، اور گریز پسندی سے ان کے نظریات میں ایک فکری تباہی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس پوزیشن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں جس میں وہ موضوع کی موت کو amoral جشن کے طور پر دیکھتے ہیں جو پریشانی کی بات ہے.
کتاب کو پڑھ کر میرے ذہن میں یہ سوالات آئے:
1۔ کیا دنیا کا عصری نقاد ، دانشور اور قاری " نو ساختیات " کے محیط ارض آفاق میں داخل ہوچکا ہے؟
2۔ کیا " نو ساختیات" کے مخاطبے کا ارتقا ساختیات کے قدیم اور روایتی نظرئیے کی طہارت کرنا چاھتا ہے؟
3۔ کیا " نوساختیات" ساختیات اور پس ساختیات دریدا، فوکو گولڈ میں، لاکان، جمیسن، لیورڈ، اور ٹیری ایگلٹن
کی فکریات کا رد ہے۔ جو کہ پس ساختیات کے زندان میں پابند سلاسل ہے۔
4۔ کیا " نو ساختیات " کی تنقیدی اور فکری نظریہ سازی کی نئی انصرامی سمتوں اور حدود فراہم کرتا ہے؟
5۔ کیا " نو ساختیات" نئے اطلاعتی معاشرے میں " متن " ایک صنعتی یا " ہائپر ٹیکسٹ" { قبل متن} بن گیا ہے؟
6۔ ساختیاتی نظرئیے کا دائرہ اب ساختیات ، پس ساختیات سے ہوتا ہوا۔۔۔"پس، پس ساختیات" ۔۔۔ تک پہنچ گیا ھے:::
***
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔