ہر ذی روح کا حق ہے۔ اگرچہ خواتین نے اسکو اپنے نام لکھ رکھا ہے۔ جیوگرافک چینل کی مدد سے اور اینیمل پلانیٹ کی ڈاکیومینٹریز کے ذریعے ہم جان گئے کہ سجنے سنورنے کا شوق ہر چرند پرند میں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔ اسکی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک اپنے لیے صنفی زوج کی تلاش اور دوسرا اپنی شخصیت کے ان پہلوؤں کا اظہار جو بظاہر نظر نہ پڑیں۔
جانوروں اور پرندوں میں تو قدرت نے فرق کر رکھا ہے، اور انکی جبلت میں یہ فرق کارفرما ہے کہ کونسا "میک اپ" کس وقت کے لیے ہے؟ اپنے زوج کو متاثر کرنے والے رویے مختلف ہیں اور دشمن کو خوفزدہ کرنے والے اور، اور قبیلے کی آنکھ کا تارہ بننے والے سرخاب کے پر والے اور۔
انسانوں میں البتہ یہ فرق انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور یہیں پر ساری گڑبڑ ہے۔ مرد و خواتین اکثر یہ فرق نظر انداز کر جاتے ہیں اور سماجی بگاڑ کا سبب وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
عورت کی مثال لیں تو سولہ سنگھار، نخرہ و ادا، لوچ و گداز سب ملا کر اپنے لیے سماج میں بہترین ساتھی ڈھونڈنے اور اس کے ساتھ نسل بڑھانے کے کائناتی تسلسل کے لیے کافی ہیں۔ مسئلہ مگر تب پیدا ہوتا ہے جب عورت یہی "صلاحیتیں" اور یہی "میک اپ" سماج کے باقی مواقع میں استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے فوائد حاصل کرتی ہے اور اس پر چیں بجبیں ہونے والے سماجی اصولوں کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔
مرد کی بات کریں، تو وجاہت و کامرانی، طاقت و بہادری، حفاظت و نگہداری جیسی خصوصیات اسکو صنف مخالف میں سے بہترین کے لیے پرکشش بناتی ہیں، اور بالاخر وہ "قبیلے" کی بہترین گود اپنی نسل کی پرورش کے لیے حاصل کرنے میں کامران ٹھہرتا ہے۔ مگر سماجی بگاڑ تب بڑھتا ہے جب وہی مرد یہ صلاحیتیں اپنے لیے جیون ساتھی حاصل کرنے کے علاوہ بھی استعمال کرتا ہے، اور حدود سے تجاوز کرتا ہے۔
ہر دو مثالوں میں بگاڑ اپنی حدود کا ادراک نہ ہونا اور تجاوز کرنے ہی میں ہے۔ ایک متوازن ذہن کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کونسا "میک اپ" کس موقع کے لیے ہے، اور ایک کم ذہن کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ "اسکا قصور کیا ہے؟"