(Last Updated On: )
یہ ڈاکٹر اندر بھان بھسین کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے۔ یہ کتاب اس سبب بہت عمیق اور دقیق ہے کہ اس میں سجاد ظہیر کی سوانح، ترقی پسند تحریک، ادب، روالپنڈی سازش کیس، جیلوں میں اسیری اور پاکستان سے واپس ہندوستان جانے سے متعلق ہیں۔ جس سے کئی تحقیقی اور متنازعہ فی نکات انکشافات کی صورت میں قاری سے متعارف ہوتے ہیں۔ جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہیں اور ترقی پسندی کے فکری اورادبی افق پر کم ہی موضوع بحث بنے ہیں۔ یہ 560 صفحات کا یہ مقالہ بہت عرق ریزی اور محنت سے لکھا گیا ہے نام تو اس کتاب کا ” سجاد ظہیر کا دور اسیری” ہے مگر اس میں سید سجاد ظہیر کی زندگی کا پورا منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے لیے ان کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کا علم سب کو ہے کہ سجاد ظہیر کیں انتظامی قابلیت بہت اچھی تھی۔ وہ انسان فہم اور نرم گو انسان تھے۔ انھی شخصی خصوصیات کے سبب انھوں نے قبل تقسیم ہند ترقی پسند تحریک کو آسمان تک پنچا دیا تھا۔ مگر راول پنڈی سازش کیس کے بعد لگتا ہے کہ جب وہ پاکستانی جیلوں سے رہا ہوکر ہندوستاں پہنچے تو حکومت ہند نے ان کو بڑی مشکل سے وزیر اعظم پنڈت جوانہر لعل نہرو کے کہنے پر ہندوستانی شہریت دی۔ جب رہائی کے بعد سجاد ظہیر سب سے پہلے ملاقات کے لیے پنڈت نہروکے پاس گے۔۔۔۔ تو پنڈت نہرو نے سجاد ظہیر کو پیار سے گلے لگایا اور کہا ” بے وقوف کہیں ” کے۔۔۔” اس وقت کے وزیر داخلہ ہند سردار پٹیل نے سجاد ظہیر کو ہندوستانی شہریت دینے کی شدید مخالفت کی تھی۔ جب سجاد ظہیر رہائی کے جب ہندوستاں پہنچے تو انہیں جلد ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ ترقی پسند تحریک میں دار ڑین پڑ چکی ہیں اور وہ پہلی کی طرح فعال نہیں ہے۔ اور پاکستان میں بھی ترقی پسندی اپنی زندگی کے دن پورے کرچکی ہے۔ سجاد ظہیر جب پاکستان سے رہا ہوکر دہلی آئے تو ریلوے اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لیے کوئی ترقی پسند تحریک کا کوئی عہدے دار یا کوئی بھی کارکن موجود نہیں تھا۔ صرف ان کے پرانے دوست سید محمد مہدی ان کے استقبال کے لیے تنہا ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔
اس کتاب کو ترقی پسند تحریک کی تحقیقی دستاویز کہا جا سکتا ہے۔ جس میں واقعات، ، حادثات، سازشیں، دوست، دشمن، ادیبوں اور سیاست دانوں کی طوطا چشمی ، بزدلی، پاکستانی فوج اور نوکر شاہی کا سیاست میں افسوسناک اور ازیت ناک کردار بھی کر سامنے آتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا کے کہ اگر کوئی فلم ساز سجاد ظہیر پر” بایو پک “بنائے تو اس کتاب میں سب کچھ ہے۔ یہ کتاب حوالہ جاتی کتاب بھی ہے۔ جس میں مصاحبے، تحریری دستاویز اور سجاد ظہیر کی موت پر شعرا کی تخلیقات بھی شامل کی گئی ہیں۔اس میں حمید اختر کا ٹائپ شدہ سوال نامہ اور ہاتھ سے لکھا ہوا خط، سجاد ظہیر کا پیام تعزیت فیض کے بڑے بھائی کی وفات پر { 20جولائی 1953} اور عبد الروف ملک کا اندر بھان بھسین کے نام دس فروری 2010 کے لکھا ہوا دستی خط بھی شامل ہے
زیر نظر کتاب میں فیض احمد فیض، سبط حسن اور حسن عابدی صاحبان کا ذکر اور باتیں ہیں جو میں نے خود ان کی زبان سے سنی ہیں۔ اور یوں مجھے اس کتاب کی سچائی اور طہارت کا ثبوت ملا ہے۔۔۔” ایک دشت کی سیاحی” کے عنوان سے الیاس شوقی نے اس کتاب کا ابتدائیہ لکھا ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کو لکھنے کے لیے فیض احمد فیض کی کتاب “صلیبیں میرے دریچے میں”۔۔۔ حمید اختر کی ” کال کوٹھری” ۔۔۔ کرنل مرزا احسن خان کی” شمشیر سے زنجیر تک”۔۔ سید جعفر احمد کی،” سجاد ظہیر، شخصیت اور فن”، ۔۔۔ سبط حسن کی “مغنی آتش۔ سجاد ظہیر ” اور حسن ظہر کی انگریزی کتاب “Rawalpindi Conspiracy.1951 “سے کلیدی مدد لی گئی ہے۔
کتاب کو سات/7 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب کے کئی ذیلی ابواب بھی ہیں۔
1۔ابتدائی زندگی
2۔ ترقی پسند تحریک
3۔ پہلا دور اسیری۔ سنڑل جیل لکھنو
4۔ آزادی کے بعد
5۔ راول پنڈی سازش
6۔ دوسرا دور اسیری اور جیلوں کے حالات
7۔ متفرقات [امدادی امور}
————
مصنف کا سراپا:
=========
ڈاکٹر اندر بھان بھیس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پختوں خوان { سابق صوبہ سرحد} کے شہر کوہاٹ سے ہے۔ وہ 15 اپریل 1936 میں پیدا ہوئے تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت منتقل ہوگیا۔ انھوں نے اپنی جوانی میں ترقی پسندی کا زمانہ دیکھا اور وہ اس سے متاثر بھی ہوئے ۔ بڑی محنت اور مشقت کے بعد انھوں نے لدھیانہ کے سرکاری کالج سے بی اے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایم اے فلسفہ، ایم اے اردو، پی ایچ ڈی فلسفہ اور پی ایچ ڈی اردو کی اسناد حاصل کیا اور سنسکرت میں ڈپلوما بھی کیا۔ اندر بھاں بھیسن کئی کتابوں کے مصنف ہیں:انکم ٹیکس کے محکمے مین افسر رہے۔ مگر وہ اپنی اس نوکری سے مطمن نہیں تھے۔ توا نھوں نے انکم ٹیکس کے محکمے سے استعفی دے کر اپنا ذاتی کنسٹررکشن{تعمیر ات}کا کاروبار شروع کیا اوروہ اس کاروبار سےاپنی موت تک منسلک رہے۔انکا انتقال 8 مئی 2017 ممبئی میں ہوا۔
1. گلا ستہ سخن
2۔ ایک شعلہ سیاہ پوش
3۔ Philosophy of self realization of Swami4.
Swami Yogeshwar anand4
5.Saraswati Himalyan Yogi
6. یوگا پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔
اندر بھان بھیسن کو ” سجاد ظہیر کا دور اسیری” پر ممبئی یونیورسٹی سے ڈاکڑیٹ کی سند ملی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ:
*قلم پبلی کیشنز
17/17 ایل آئی جی کالونی، ونو بھاوےنگر کرلا{ مغربی} ممبئی 400070۔
**کتاب دار
108/110جلال منزل، ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی 400003
فون: 9869321477