سال کا آخر تھا اور ایکسل لیب کی بیسمنٹ میں واقع کانفرنس روم میں مارکیٹنگ ٹیم آنے والے سال 2014 کے کیلنڈر میں شامل کی جانے والی تصاویر کو منتخب کررہی تھی۔
"celebrate Pakistan’s natural beauty”
کے موضوع پرتشکیل دیے جانے والے
اس کیلنڈر میں ہر ماہ کے لیے ایک تصویر منتخب ہونا تھی۔ مینیجر آوٗٹ ریچ کو کچھ کچھ دخل مارکیٹنگ کے شعبے میں بھی ہوتا ہے تو ہم بھی اس گول میز کانفرنس کا حصہ تھے۔ پیشہ ورانہ مہارت سے کھینچی فوٹوگرافرز کی تصاویر کےپرنٹ گردش میں تھے جب عرفان ابوبکر کی کھینچی ایک آبشار کی مسحور کن تصویر ہمارے ہاتھ میں تھم سی گئی۔ کیپشن تھا
"Waterfalls of Sajikot, Abbottabad”
ایک حالیہ مینیجر آوٗٹ ریچ اور سابقہ پی ایم اے پلاٹون کمانڈر کے دِل میں ایبٹ آباد سے ہجرت کا زخم ابھی تازہ تھا، اوپر سےایبٹ آباد کی قربت میں اس حسین آبشار کو نہ دیکھنےکا دُکھ، ہمارا ووٹ اس تصویر کےلیےپکاہوگیا نہ صرف ووٹ بلکہ یہ تہیہ بھی کہ جب بھی موقع مِلا اپنے محبوب ایبٹ آباد کے ہمسائے سجی کوٹ کی اس آبشار کو دیکھنے ضرور جائیں گے۔ انجامِ کار یہ تصویر بھی ایکسل لیب کے 2014 کے کیلنڈر کا حصہ بن گئی۔ وہی کیلنڈر جو ہر خاصے کی چیز کی طرح ایک محدود تعداد میں چھپتا تھا اور پھر ایک مشقت کے بعد ترتیب دی گئی لیب کے چیدہ چیدہ کلائنٹس اور منتخب شدہ ڈاکٹر حضرات کی لسٹ تک مارکیٹنگ ٹیم کی وساطت سے پہنچتا تھا۔ اس کیلنڈ ر کی ایک کاپی ہمارے دفتر کی زینت بھی بنی۔ ہماری منتخب کردہ عرفان ابوبکر کی سجی کوٹ آبشار کی تصویر اگست کے مہینے میں اپنی بہار دکھا رہی تھی
تصویر کے بالکل نیچے گوئٹے کا یہ ارشاد رقم تھا
"Whatever you can do, or dream you can, begin it. Boldness has genius, power and magic in it.”
جو بھی کام آپ کرسکتے ہیں یا کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اسے آج بلکہ ابھی سے شروع کردیں۔
(کسی بھی کام کو انجام د ے لینے کی) تمام دانائی، ساری طاقت اور کُل جادو کا انحصار پہلا قدم اٹھالینے کی ہمت میں پنہاں ہے۔
اب یہاں گوگل کی آرٹیفشل انٹیلیجنس آپ کو بتائے گی اوپر بیان کیاارشاد جو گوئٹےسےموسوم ہے درحقیقت سکاٹش کوہ پیما ولیم مرے کا ہے۔ اس سےقطع نظر کہ کہاوت کس نے کہی، ہمارے کوہ پیما دِل پر اس کا بھرپور اثر ہوا۔ اگلی فون کال ہم نے واہیات کمپنی کے گرگوں رحمان ارشد المعروف راشد منہاس اور افراز المعروف کبوم کو کی
’لڑکو بات سنو اس ویک اینڈ پر کیا کررہے ہو‘
’سر آپ بتائیں جانا کہاں ہے‘
واہیات کمپنی کی اسی ادا پر تو ہم دل وجان سے فدا تھے۔
ہنگامی بنیادوں پر موومنٹ آرڈر ترتیب دیا گیا، جس کی رو سے فیز ون میں لاہور سے کبوم نے چکلالہ پہنچنا تھا، فیز ٹو میں اسی دن گروپ نے راولپنڈی سے حویلیاں آنا تھا جہاں رات کے قیام کے بعد اگلے دن فیز تھری میں سجی کوٹ کی آبشار تک کا سفر اور پھر واپسی شامل تھی۔
حویلیاں اس سفر کا کنٹرول پوائنٹ اس لیے بھی تھا کہ حویلیاں کے مرکزی بازار سے سجی کوٹ جانے والی سڑک ایبٹ آباد جاتی شاہراہ کو چھوڑ دیتی ہے اور پہاڑی علاقوں کی ٹریڈ مارک بل کھاتی بلند و پست گھاٹیوں کے پہلو بہ پہلو چلتی بانڈی عتی خان کے راستے سجی کوٹ کی آبشار کو پہنچتی ہے۔
ویڈیو لنک
اب یہاں دو unforeseen (غیر متوقع)واقعات ہوئے۔ ایک تو ہم ہفتے کے دوران پیشہ ورانہ مصروفیت کے سبب پشاور سدھار گئے جہاں نہال خٹک ہمارا منتظر تھا۔اور دوسرا کبوم کی رشتے داری میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس سے ایک تازہ بہ تازہ سٹوڈنٹ ہمارے ساتھ سجی کوٹ جانے پر باقاعدہ پسر گیا۔
ایکسل لیب پشاور
۔۔۔
مرشدی و آقائی مشتاق احمد یوسفی کو بھی تو کراچی سے مردان کا ویزا ایشو ہو گیا تھا۔ بقول یوسفی کے باس اینڈرسن ’فرنٹیئرمیں نہایت عمدہ قسم کا ورجنیا تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کو تمباکو اور سرطان سے ہمکنار کرنے کا سہرا سر والٹر رائے کے سر ہے۔‘
اس مختصر مگر جامع تمہید کے بعد یوسفیؔ کو انکے باس نے اسی ’برگِ حرام‘ یعنی تمباکو پر ریسرچ کی خاطر خان سیف الملوک خان کے حوالے کردیا تھا کہ وہ مردان کے نواح کا رہنے والا قبائلی تھا۔
صاحبواسی طرز کی کچھ ملتی جلتی تعارفی تمہید ایکسل لیب کی G-4 میٹنگ میں بھی باندھی گئی تھی۔
’عمران صاحب فرنٹیئر میں ہمارے کلیکشن پوائنٹس پشاور میں ہیں۔ گردونواح کی قبائلی پٹی یہاں تک کہ سرحد پار جلال آباد بلکہ کابل تک کے مریض حیات آباد آتے ہیں۔ پشاور میں بہت بزنس پوٹینشل ہے‘۔ اور ہمیں پشاور کے حوالےکردیا گیا۔
یہ اوربات کہ قبائلی خون اورخوانین کےدیگرخارجی وپوشیدہ موادکےلیبارٹری ٹیسٹوں کےبزنس پوٹینشل میں ہماری مددکےلیےبنوں اورکرک کی نواحی پٹی کانیم قبائلی مسمی نہال خٹک ہم اپنےجہیز میں اسلام آباد سےساتھ لےکرگئے۔ نہال راولپنڈی میں ہماراتگڑاکوآرڈینیٹرتھا، مگرپشاورکی ٹیم اس کےلیےبھی نئی تھی نیا علاقہ، نئی ٹیم اور نہال خٹک کا ساتھ۔ بابا محمد یحیٰ خان نے اپنی کتاب پیا رنگ کالا کے پس ورق پر ہیر وارث شاہ کا ایک شعر نقل کیا ہے
عاشق بھور فقیر تے ناگ کالے
باجھ منتروں موُل نہ کِیلیے نی
باباجی لکھتے ہیں یہ چاروں ہی اندر باہر سے کالے ہوتے ہیں۔ ان چاروں کالوں سے راہ و رسم استوار کرنا ایک مشکل امر ہے کہ یہ کسی کے متر نہیں ہوتے۔ ہمارے ساتھ صورتحال ذرا فرق تھی۔ فرنٹیئر کی سنگلاخ گل زمین کے زندہ دل یارباش پختونوں سے راہ و رسم استوار کرنا بالکل بھی دشوار نہیں۔
آپ ان سے انکی ماں بولی پشتو میں بات کیجیے اور پھر دیکھیے۔ اب ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم پشتو میں صرف اپنا نام ٹھیک ٹھیک ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ کسی ہنگامی حالت میں سیمپل دینے یا پھر حوائجِ ضروریہ سے فراغت پانے کے لیے ٹائلٹ کا راستہ تک ہمیں پشتو میں پوچھنا نہیں آتا۔
اب ایسے میں ایکسل لیب کی پشاور کی ٹیم کو کیسے کِیلتے۔ نہال کے ساتھ معاملہ البتہ فرق تھا۔
خٹکم المعروف نہال خٹک
۔۔۔
پشاوراور اس کے نواحی علاقوں میں ہماری آمدورفت کےدوران ہم جب جب راستےمیں کسی چیک پوسٹ پر روکے جاتےاور ایسا اکثر ہوتا تھا تو جہاں ہم ریٹائرڈ میجر کے کوائف سیدھے کرتے نہال پشتو کا سہارا لیتا۔ حال احوال کے بعد نہال کا تعارف محض ایک لفظ پر مشتمل ہوتا ’خٹکم‘ یعنی میں خٹک ہوں۔ جواب میں خیبر پختونخواہ لیوی کے سپاہی گاڑی کے دونوں مسافروں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے، یعنی وہی کٹھور نظر جس سے ایک پٹھان اپنے علاقے میں غیر پختون کو دیکھتا ہے۔
ہم نے تو یہی نتیجہ نکالا کہ پختونخواہ والے کرک کے خٹک کو اتنا ہی پختون سجمھتے ہیں جتنا لائلپور کے آرائیں کو۔ اور دل لگتی کہیں تو جس طرح گنڈا المعروف پیاز آرائیوں کی کمزوری ہے بالکل اسی طرح ایک نجیب الطرفین خٹک تو ڈھول کی ایک تھاپ یا پھر الغوزے کے ایک مدھر سُر کی مار ہے اور نہال کو کِیلنے کے لیے تو ہمارے ترکش میں پورا پشتو ٹنگ ٹگور (راگ رنگ) سمایا ہوا تھا۔
کاکول کی پورے چاند کی ایک آدھی رات شینوارے لونگینہ کے خمار میں یہ دِل جو زرسانگه کا اسیر ہوا ہے تو اس کے بعد ہماری گاڑی کی پلے لسٹ پر پشتو گانوں کی کیٹیگری نمودار ہوگئی اور اس میں زرسانگہ نے مستقل جگہ بنا لی۔ اسلام آباد سے پشاور کی ایک ایسی ہی ڈرائیو میں ایک رسیلی دھن کے سُروں پر ہمارے فرنٹئیر کی ریشماں (مراد اس سے زرسانگہ ہیں) کی چاندی کے پانی میں دُھلی آواز کے ہتھیار سے ہم نے نہال خٹک کو زیر کیا تھا
ورو ورو کیژده قدمونه آشنا
شرنگ د پایزیب د عالمونه خبروینه، آشنا
او میرے محبوب اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھو
کہ تمہاری پازیب کی جھنکار تو دنیا کو جگانے کو پھرتی ہے
اپنے مشتاق احمد یوسفیؔ نے مردان کے قبائلی خان سیف الملوک خان کا جو سراپا باندھا ہے ہمارے لفظ تو اسکی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے مگر کیا کریں کہ ایک پختون سراپے میں اکثر فیچرز تو آرتھوڈوکس (روایتی) ہوتے ہیں۔ ہم اتنا ضرورکہیں گے کہ ایک نکلتے ہوئے پٹھان قد اسی قدر بڑے منہ اور راست تناسب میں نکلتی مضبوط کاٹھی۔ اب اس چوڑےڈیل ڈول پر گھنگھریالےبال اورداڑھی مونچھ سےبےنیاز ایک معصوم صورت کاتصورکرلیجیے تو یہ نہال تھا۔ اور پھر اس پر دل کو موہ لینے والی ایک کھِلی کھِلی مسکراہٹ۔ وہ کیا کہتے ہیں
او خاندا چہ رنگ دے خہ شی
(ہنسو کہ تمہارے چہرے پہ کچھ تو رنگ چڑھے)
نہال ہمیں ہمیشہ عمران صاحب کہہ کے مخاطب کرتا مگر جہاں صیغۂ غائب میں ہماری طرف اشارہ کرنا مقصود ہو محمود وایاز ایک کردیتا۔ یونیورسٹی روڈ پوائنٹ کے افتتاح پر نئے سٹاف سے ہمارا تعارف کراتے ہوئے، ’یہ عمران صاحب ہیں۔ یہ اسلام آباد سے ابھی ایدھر آیا ہے۔ اس کو کہہ کے بلانا پڑتا ہے کہ ایدھر ابھی تمہارا ضرورت ہے۔ سنتا ہی نہیں ہے مڑا‘۔ہم اس لیے اس کا برا نہیں مناتے تھے کہ وہ اپنے والد کا ذکر بھی اسی پیرائے میں کرتا تھا حالانکہ ان کے نظام الاوقات اور غصے سے خود کی جان نکلتی تھی۔ بڑے خان جی کچھ عرصہ فوج سے ہو آئے تھے۔
ساری عمر انہوں نے اولاد کو شیر کی نظر سے دیکھا تھا۔ نہال کو دیکھ کے لگتا تھا کہ ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔ ہماری ان سے فون پر ایک دفعہ بات ہوئی تھی۔
ہماری سجی کوٹ کی یاترا کا پہلا unforeseen راقم الحروف کا پشاور میں پایا جانا تھا۔ تو طے یہ پایا کہ ’میجر‘ پشاور سے سیدھا حویلیاں پدھارے جہاں چک لالہ سے چلے ہواباز گروپ سے گیسٹ روم میں ملاپ کیا جائے۔ اب یہاں راشد منہاس نے کہا کہ سر آتے ہوئے نہال بھائی کو بھی ساتھ لیتے آئیے گا۔
ہم نے ایک دعوتی صلح نہال کو بھی مار دی۔ ہمیں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ نہال کی جغرافیائی نقل و حمل کام کے سلسلے میں پشاور اور ویک اینڈ پر اپنے والد اور ہماری بھابھی سے ملنے کرک تک محدود تھی۔ بڑے خان جی نے نہال کو کورا جواب دے دیا۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ نہال کا مینیجر فوج کا ریٹائرڈ میجر ہے تو فرمائش کرکے ہم سے بات کی۔ ہمیں تو وہ دارجی لگے۔ ایک بزرگانہ رکھ رکھاؤ سے سجی اس گفتگو میں انہوں نے شفقت فرمائی اور ہمیں نہال کے بڑے بھائی (دیکھنے میں ہم نہال کے چھوٹے بھائی لگتے تھے) کے مرتبے پر فائز کرتے ہوئے نہال کو نہ صرف ویک اینڈ ٹرپ پر جانے کی اجازت دے دی بلکہ نہال کا پاسپورٹ ایک دم سے اسرائیل کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے تمام ڈویژنوں کے لیے کارآمد ہوگیا۔ بس ہماری ہمراہی شرط تھی۔
سجی کورٹ روانگی میں دوسرا unforeseen فیصل آباد سے مسٹر دی وائس کی ہمارے ساتھ جانے کی خواہش تھی۔ آپ کبوم کے کزن تھے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے کیمپس میں طالبعلمی کے بوجھ کے ساتھ ساتھ IEEE کے وائس چیئر کا منصب بھی سنبھالے ہوئے تھے۔
آئی ٹرپل ای(Institute of Electrical and Electronics Engineers) کامخفف ہےجس کےتیسرے E کا رنگ کھلتا ہوا گلابی ہے (ایساہمیں مسٹردی وائس سےملاقات کے بعد لگا)۔ تو یوں ہوا کہ فیز ون میں لائلپور اور لاہور سے دو سواریاں چک لالہ پہنچیں جہاں سے راشد منہاس انہیں ساتھ لےکرحویلیاں کےلیےچلا۔
فیزٹوکی دوسری شاخ میں میجراورخٹکم پشاورسےحویلیاں کےمسافرہوئے۔ اسی دن شام عصرکا وقت تھاجب واہیات کمپنی حویلیاں سےکچھ پہلےایک وےسائیڈہوٹل پردودھ پتی کےایک کپ پر اکٹھی ہوئی۔ حویلیاں کی مختصرچھاونی میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری کےآفیسرزکلب میں وی آ ئی پی کمرہ نمبر 3 اور4 ہمارےمنتظر تھے۔
وی آئی پی کمرہ نمبر 3 اور 4
۔۔۔
ہم قسم کھانے کو تیار ہیں کہ حویلیاں میں آفیسرز کلب کے دونوں کمرے وی آئی پی تھے۔ دونوں کمروں کی چابیوں پر جنگی محاذ کے ڈاگ ٹیگ سے مشابہ پیتل کی بنی ڈسک پر واضح انمٹ حروف میں لفظ وی آئی پی کھُدا ہوا تھا۔ ایسے ڈاگ ٹیگ سپاہی محاذوں پر پہنتے ہیں
جہاں کسی انہونی ( گولیوں اور گولوں کی بارش میں اسے ہونی ہی کہیے) کے تناظر میں سپاہی کانام، خون کا گروپ اور آخری رسومات کی ادائیگی میں سہولت کے لیے مذہب کھُدا ہوتا ہے۔ کمروں کی اندرونی حالت سے قطعِ نظر (جو کہ کسی بھی فوجی میس کے گیسٹ روم کی ابتری سے کسی طور کم نہیں تھی)
ہمارے کمروں کی چابیوں کا ٹیگ گواہی دیتا تھا کہ کمرے جیسے بھی ہیں ان میں رہائش کے دوران کسی انہونی کی صورت میں ہمارا حشر اس جہانِ خراب کے وی آئی پیز کے ساتھ ہوگا۔ ایک پورے دن کی سفر کی تکان میں ڈوبے معدوں میں اب چوہےدوڑنےسےپہلے والا وارم اپ کررہے تھے جب ہم نےگیسٹ روم حوالدار سے رات کے وی آئی پی کھانے کی بابت استفسار کیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چونکہ ویک اینڈ ہے تو باورچی رخصت پر اپنے گاوٗں گیا ہےاور ایسا تو وہ ہر ویک اینڈ پر کرتا ہے، ہم غلط دن تشریف لائے ہیں ۔ وی آئی پی سٹیٹس اپنی جگہ پر کھانے کی عیاشی دستیاب نہیں ہے، اصرار کرکے شرمندہ نہ ہوں۔
کہنے والے کہتے تھے کہ حویلیاں سے براستہ قومی شاہراہ ایبٹ آباد کی راہ لیں توجہاں ایبٹ آباد سےکچھ پہلےسڑک بڑاموڑ کاٹتی ہےوہیں سلہڈ نالےکے پہلو میں قطار اندر قطار مچھلی فروشوں کے چھپر نما ہوٹل ہیں۔ کہنے والے کہتے تھےاور ان میں خٹکم اور کبوم تو یہ بھی کہتے تھے کہ ان مچھلی فروشوں میں فضل آمین مچھلی فروش تلتا تو مچھلی ہے مگر بیچتا من وسلوٰی ہے۔ تو صاحبو اماوس کی اس اندھیری رات ایبٹ آباد کی نواحی پہاڑیوں پر جلتے بجھتے چراغوں کے جلو میں چارپائیوں پر دراز بینسن اینڈ ہیجز کے دھوئیں سے خود کو بہلاتے ایک شکم کُش انتظار کے بعد جو مچھلی نوشِ جان کی گئی
اس کاذائقہ آج بھی یادداشت میں تازہ ہے۔ ایک پولیس موبائل کےسائےمیں لگےبورڈ کےانوسار فضلِ آمین جہاں خود کوایک غلط بیانی میں واحد مچھلی فروش بتاتا تھا وہیں کچی کے بعد اور مچھلی سے پہلے لفظ’ پکی‘ پر فوڈ انسپکٹر کی آنکھ میں دھول جھونکنے یاپھرخوفِ فسادِخلق سے نیلاروغن پھیر دیا گیا تھا
عین ممکن ہے یہ ہمارے دوکاندار کی مارکیٹنگ سٹریٹجی ہو کہ گاہک پکی ہوئی مچھلی کا پوچھنے کاوٗنٹر تک آجائیں جہاں سے انہیں گھیرنے میں آسانی ہو۔ فضل آمین نے اپنی طرف سے بھلے ہوشیاری دکھائی ہو مگر اتنا وقت گزرجانے کے باوجود ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایبٹ آباد کی قربت میں
اس جوبن پر آئی رات ہم نے جو مچھلی کھائی وہ ضرور بالضرور پکی ہوئی تھی۔ آدھی رات اِدھر آدھی اُدھر پرباش شکموں اور نیتوں کے ساتھ سجی کوٹ کے یاتریوں کی یہ ٹولی وی آئی پی کمروں میں واپس آئی کہ صبح انہیں ایک مسحور کُن آبشار کا سفر درپیش تھا۔
حویلیاں کےدروبام پراتوارکاروشن دن طلوع ہواتودلوں میں جاگتی امنگ لےکرافسر میس کےوی آئی پی بھی بیدار ہوئے۔ مگرہماراباورچی ابھی بھی چھٹی پرتھا تو ناشتہ توایک طرف چائےکابھی دور دور تک پتہ نہ تھا۔ ایسےمیں نہال خٹک نےاپنی زنبیل میں سےڈنکن ڈونٹس کا ڈبہ نکال کر ہمیں واقعتاً نہال کردیا۔
مزید کمی ہمارے پشاور کوآرڈینیٹر نے یہ بھانڈا پھوڑ کر پوری کردی کہ یہ ڈبہ ایک نیک دِل خاتون کی طرف سے ایکسل لیب کے مینیجر آوٗٹ ریچ کے لیے تحفتاً بھیجا گیا تھا کہ وہ ہماری غائبانہ پرستار تھیں۔ ہم نے بھی زیرِ لب مسکراہٹ کی اوٹ میں راز کو راز ہی رہنے دیا۔
اب واہیات کمپنی کو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ ہماری نیک دِل خاتون ہر دور میں پشاور کے حاضر سروس مینیجر آوٗٹ ریچ پر اسی طرح فدا رہی ہیں۔ دیکھیے ہم موضوع سے ہٹے جاتے ہیں۔
تو صاحبو ڈنکن ڈونٹس سے داڑھ گیلی کرتی واہیات ٹولی نے ابھی ناشتہ کرنا تھا کہ اتوار کا دن اور سجی کوٹ کی آبشار ہماری راہ تکتے تھے ۔
(جاری ہے)
۔۔۔
پسِ تحریر
صاحبو ایکسل لیب چھوڑے اور ایک پرائے دیس میں اوڑھنا بچھونا کیے کم و بیش ایک دہائی ہونے کو آئی ۔ یہ بھولی بسری کہانی ہمیں کچھ اس سبب سے بھی یاد آئی کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ایکسل لیب کی خاصے کی چیز سالانہ کیلنڈر برائے 2025 ہمارے گھر کا پتہ پوچھتا آج ہمارے در تک آپہنچا۔