دھیمے لہجے کی شاعرہ محترمہ ساجدہ انور صاحبہ صرف شاعرہ ہی نہیں بلکہ ایک اچھی ادیبہ بھی ہیں ۔ ان کی شاعری تو ویسے ہی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کشش رکھتی ہے لیکن نثر کے میدان میں وہ ایک بہت اچھی افسانہ نگارہ بھی ہیں ۔ ان کے افسانوں کے عنوانات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ افسانے کتنی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ساجدہ صاحبہ کا اصل نام ساجدہ خاتون ہے اور قریشی قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ ساجدہ خاتون قریشی کہلاتی ہیں جبکہ اپنےخاوند محترم محمد انور صاحب کی نسبت سے وہ ساجدہ انور کے نام سے مشہور و معروف ہیں اور ان کا قلمی نام بھی ساجدہ انور ہی ہے ۔
ساجدہ صاحبہ 9 اگست 1971 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ان کے والد صاحب کا نام رحمت اللہ خان قریشی ہے۔ وہ اپنے والدین کی اولاد میں 7 بہن بھائی ہیں اور اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں ۔ علمی لحاظ سے وہ ایک گریجویٹ خاتون ہیں ۔ انہوں نے دوران تعلیم ہی آٹھویں جماعت میں جب وہ 14 سال کی تھیں، شاعری شروع کر دی ۔ نظمیں، کہانیاں، افسانے اور ذاتی ڈائری لکھتی رہیں، اخبارات اور رسائل میں بھی ان کی تخلیقات چھپتی رہیں ۔ ان کے افسانے، اسیر بے قفس، صبح کا بھولا اور بڑی دیر کی مہرباں، قابل ذکر ہیں ۔ نفیس الدین سعدی صاحب اور یاسر قاضی صاحب شاعری میں ان کے استاد ہیں ۔ اشفاق احمد ان کے پسندیدہ ترین ادیب جبکہ میر تقی میر ان کے پسندیدہ ترین شاعر ہیں ۔عصر حاضر کے شعراء میں فرحت شہزاد ان کے پسندیدہ شعراء میں سرفہرست ہیں ۔
ساجدہ نے کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں 4 سال تک معلمہ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ہیں لیکن شادی کے بعد انہوں نے خود کو امور خانہ داری تک محدود کر دیا ۔ تاہم وہ ادبی سرگرمیوں میں برابر حصہ لیتی رہتی ہیں ۔ ماشااللہ وہ 4 بچوں کی ماں ہیں جن میں ان کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں ۔ وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرتی رہتی ہیں ۔ریڈیو پاکستان اور ایف ایم ریڈیو کی ادبی نشستوں میں بھی شریک ہوتی رہتی ہیں ۔ مشاعروں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے شعراء اور شاعرات میں خود اعتمادی کا رجحان بڑھتا ہے جبکہ آجکل کے آن لائن مشاعروں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ذریعے بہت سے نئے شعراء اور شاعرات بھی متعارف ہوئے ہیں ۔ساجدہ کا کہنا ہے کہ معیاری ادبی واٹس ایپ کے گروپس کسی مدرس سے کم نہیں ہیں ان سے بھی شعراء اور شاعرات ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ ساجدہ انور صاحبہ کو بہترین افسانوں اور کہانی نویسی کے اعتراف میں آئیڈیل نیوز کی جانب سے بیسٹ رائیٹر کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے ۔ ان کی شاعری میں ہجر و فراق اور رومانوی کی غزلیں اور نظمیں کم ہیں معاشرتی مسائل اور حب الوطنی کے جذبات پر مبنی شاعری زیادہ ہے تاہم ان کی شاعری میں رومانس پر مشتمل اشعار بہت ہی متاثر کن ہیں ۔ وہ مشاعروں میں شرکت کو قلبی اور ادبی تقویت کا باعث قرار دیتی ہیں جبکہ آن لائن مشاعروں میں بھی ان کی اکثر شرکت ہوتی رہتی ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کے مقصد کے متعلق بتایا کہ ان کی شاعری کا اہم مقصد حق اور سچ کی ترویج ہے ۔
ساجدہ انور صاحبہ کی شاعری سے ایک نمونہ کلام اور چند منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسوو! آشکار مت ہونا
بے طرح بیقرار مت ہونا!
تیری توقیر خاک ہی نہ ہو
اشک "تو" گریہ زار مت ہونا!
درد سارے گھٹا کو پہنا دے
تو مگر اشکبار مت ہونا
فصل گل پر نہ حرف آ جائے
دل مرے! داغدار مت ہونا
عاجزی ہی گلے نہ پڑ جائے
اتنا بھی شرمسار مت ہونا!
ہم جلا لیں گے خود لہو کے چراغ
تم کبھی شعلہ بار مت ہونا!
دیکھ نور سحر بھی پائے گا
ظلمتوں کا شکار مت ہونا
راہ-منزل کو استوار کرو
راستوں کا غبار مت ہونا!
ساجدہ لاکھ مشکلیں ہوں، پر
کاسہءسازگار مت ہونا
ساجدہ انور"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر غم جب چھڑا تو بس یونہی
اشک بے کل مچل گیا لوگو
دور کارواں چل گیا لوگو
بات سے وہ بدل گیا لوگو
چاپ تک نہ سن سکے جب دل میں وہ داخل ہوا
دور اب نہ جائے، بس دل کو یہ ڈر ہوتا رہا
منزلوں کی جستجو میں راہ پر چلتے ہوئے
یوں لگا کہ ہر ڈگر پر میرا گھر ہوتا رہا
ساجدہ انور