فرانسیسی شاعر سینٹ جان پرس { آمد: 31 مئی 1887۔ رخصت: 20 دسمبر 1975۔Saint-John Pers} پرس جن کا اصل نام سینٹ لیگر لیجر{Saint-Leger Leger,} اور تخلص ایلیسس لیگر {Alexis Leger} تھا۔
سینٹ جان پرس کی پیدائش گوڈیلوپ کے پوائنٹ – پیٹری { Pointe-à-Pitre, Guadeloupe.} میں ہوئی تھی۔ ان کے والد اوردادا پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ، 1815 میں گوادوپے { Guadeloupe} میں رہائش پزیر ہوئے تھے۔ ان کے دادا اور والد بھی وکیل تھے۔ ان کے یہان پر والد بھی سٹی کونسل کے رکن تھے۔ لیجر کنبے کے پاس ایک بڑی زرعی اراضی پرایک کافی (لا جوسفائن) اور دوسرے چینی (بوائس ڈیبٹ)۔ کے دو باغات تھے ۔
ایک فرانسیسی شاعر ہونے کے علاوہ ایک سفارتکار بھی تھے۔ ان کو 1960 مین ادب کا نوبیل انوم سے نوازہ گیا پھر تو پر ان کی شخصیت اور شاعرانہ حسیات کو محیط ارّض سطح پر شہرت ملی۔ " وہ 1914 ء سے 1940 ء تک فرانس کے ایک بڑے سفارت کارتسلیم کئے جاتے تھے۔ ، بعد میں وہ بنیادی طور پر 1967 ء تک ریاست ہائے متحدہ میں رہائش پذیر رہے۔
1897 میں ، گاؤڈیلوپ جنرل کونسل کے پہلے مقامی منتخب صدر گیوڈیلوپین ہیگیسیپی لیگیٹیمس نے استعمار پسندوں کے خلاف ایک عزم ایجنڈے کے ساتھ اقتدار سنبھالا۔ لیگر کنبہ 1899 میں میٹروپولیٹن فرانس واپس آیا اور پاؤ میں آباد ہوگیا۔ نوجوان الیکسس کو ایک مہاجر محسوس ہوا اور اس نے اپنا زیادہ تر وقت پیدل سفر ، باڑ لگانے ، گھوڑوں پر سوار ہونے اور بحر اوقیانوس میں سفر کرنے میں صرف کیا۔ اس نے بکلوریاٹ آنرز کے ساتھ پاس کیا اور بورڈو یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ جب ان کے والد کی وفات 1907 میں ہوئی تو اس کے نتیجے میں ان کے کنبہ کی مالی اعانت میں کشیدگی نے لیگر کو عارضی طور پر اپنی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کردی ، لیکن آخر کار تگ و دوڈ کے بعد انھوں نے 1910 میں اپنی ڈگری مکمل کی۔
1904 میں ، انہوں نے اورتھیز میں شاعر فرانسس جیمس سے ملاقات کی ، جو بعد میں ان ایک قریبی دوست بن گے تھے۔ اس زمانے میں وہ ثقافتی مجاسس بھرپور انداز میں حصہ لیتے تھے ۔ اس زمانے میں ان کی ملاقاتین اور دوستیاں پال کلاڈیل ، اوڈیلون ریڈون ، ویلری لرباؤڈ اور آندرے گیڈ سے ہوئی۔ انہوں نے رابنسن کروسو کی کہانی Images à Crusoe سے متاثر ہوکر مختصر نظمیں لکھیں اور پنندر{Pindar.} کا ترجمہ بھی کیا۔ سینٹ جان پرس کی 1911 میں شاعری کی پہلی کتاب اولیج {Éloges}شائع کی۔
1914 میں انہوں نے فرانسیسی سفارتی خدمات میں شمولیت اختیار کی اور اپنے ابتدائی کچھ سال اسپین ، جرمنی اور برطانیہ میں گزارے۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو کچھ دن وہ حکومت کے لئے پریس کارپوریشن میں کام کیا۔ 1916 سے 1921 تک وہ پیکنگ میں فرانسیسی سفارت خانے کے سکریٹری رہے۔ 1921 میں ، واشنگٹن ڈی سی میں اسلحے سے پاک ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں حصہ لینے کے دوران ،وہ فرانس کے وزیر اعظم ارسٹائڈ برائنڈ نے انہیں اپنا معاون مقرر۔ کیا۔ پیرس میں ان نے دوست اور دانشور شاعر لرباؤد کو جان لیا ، جس نے چین میں سینت جان پرس کے قیام کے دوران لکھی گئی نظم انابیس{Anabase }کو شائع کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔
سینٹ جان پرس کو کلاسیکی موسیقی کا بہت شوق تھا۔ تھا ان کی شناسائی ایگور اسٹرانسکی ، نادیہ بولانجر اور سے تھی۔
سینٹ جان پرس 29 ستمبر 1938 کو میونخ معاہدے کے لئے ہونے والے مذاکرات میں شریک تھے۔ وہ ایک تصویر میں مسولینی کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ۔
چین میں قیام کے دوران سینٹ جان پرس نے اپنی پہلی توسیعی نظم انابیس لکھی تھی ، جسے "سینٹ-جان پرس" کے تخلص کے تحت 1924 میں شائع کیا تھا ، جسے انہوں نے ساری زندگی استعمال کیا۔ اس کے بعد انہوں نے دو دہائیوں تک ان کی کوئی تخلیق شائع نہیں ہوئی۔، یہاں تک کہ اپنی پہلی کتاب کا دوبارہ شایع ہونے کیےلی بھی نہ دی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ کسی سفارت کار کے لئے افسانہ شائع کرنا نامناسب ہے۔ 1932 میں برائنڈ کی موت کے بعد ، انھوں نے 1940 تک فرانسیسی دفتر خارجہ (کوئ ڈی آرسی) کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ اور بہت گہرائی سے چین کی تاریخ ، ثقافت اور ادبی رواثت کا گہرائی مطالعہ کیا۔
دفتر خارجہ کے اندر انہوں نے اس خوش طبع کی رہنمائی کی اب کا خیال تھا کہ جرمنی غیر مستحکم ہے اور اگر برطانیہ اور فرانس ہٹلر کے ساتھ کھڑے ہوئے تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔انہوں نے 1938 میں میونخ کانفرنس میں فرانسیسی وزیر اعظم آوارڈ ڈالیڈیئر کے ہمراہ ، جہاں جرمنی میں چیکوسلوواکیا کے کچھ حصے کے سیشن پر اتفاق کیا گیا۔ مئی 1940 میں فرانس کے زوال کے فورا. بعد ہی وہ اپنے عہدے سے برخاست ہوگئے ، کیونکہ وہ ایک مشہور مخالف نازی تھے۔ جولائی 1940 کے وسط میں ، سینٹ جان ہرس نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک طویل جلاوطنی کا آغاز کیا۔
10 دسمبر 1960 میں سینٹ جان پرس نے نوبل انعام کی قبولیت کی تقریر ، "پوسی" {"شاعری پر"} پر اسٹاک ہوم میں خطبہ دیا اور اس کا خطاب "ڈور ڈینٹے" ("ڈانٹے") پر انھوں نے ، 20 اپریل ، 1965 کو فلورنس میں بھی خطاب دیا۔ اس کو عنوان " ڈینٹے ایلجیئری کی پیدائش کی ساتویں صدی " تھا پھر سینٹ جان پرس کی جمع شدہ نظمیں ، ایک دو لسانی ایڈیشن شائع ہوئے۔ سینٹ جان پرس فاؤنڈیشن کی جانب سے فرانس کے ایکس این پروونس میں پرس کے مخطوطے ، ان کی تشریح شدہ ذاتی لائبریری ، ان کے انتخاب سے متعلق نوٹ بک، کلپنگ کے ساتھ کئی اسکریپ بکس ، اور دیگر دستاویزات کو بھی جمع کیا گیا۔
سینٹ جان پرس ایک "شاعر کا شاعر" کہا جاتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے 1960 میں ادب کے نوبل انعام سے بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کی ، اس سے پہلے گرانڈ پری نیشنل ڈیس لیٹریس اور 1959 میں گرانڈ پری انٹرنیشنل ڈی پوسی کے ذریعہ ان کے قارئین کا حلقہ چھوٹا ہی رہا۔ ٹی ایس ایس ایلیٹ اور زیزاؤ میوز جیسے متنوع شعرا نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ پرس کے ساتھی شاعروں کےلیے بھی قابل خراج تحسین ہے کہ کسی کو اپنی عمر کی معیاری ادبی تاریخوں کی بجائے اپنے کام کی پیمائش سے ان کی شناخت اور شعری
زہانت اور ان کے جوہر دریافت ہوئے۔ سینٹ جان پرس اپنے صدی کی فیشن پسند حرکتوں سے دور ہی رہے۔
واقعی یہ بات درست ہے کہ سینٹ جان پرس سب سے بڑھ کر ایک خودساختہ لاتعلقی ان کی ادبی شخصیت کا خلیقہ / امتیاز ہے۔ اپنے سفارتی کیریئر کے دوران ، 1914 سے 1940 تک انہوں نے ان برسوں میں اپنے عوام اور اپنی شاعرانہ شخصیت کے مابین واضح فرق برقرار رکھا۔ انھوں نے صرف دو تحریروں کو شائع کی۔ ، اناباسیس اور پرنس کی دوستی۔ اس کا جزوی طور پر انگریزی تخلص کے انتخاب نے ان کے دور موقف پر زور دیا۔
سینٹ جان پرس نے 1941 میں جلاوطنی پر انھوں نے اپنے سیاسی زندگی کے خاتمے کی نشاندہی کی لیکن اس کے شعری تخلیق کا احیاء کیا گیا۔ جو جلاوطنی میں ان کی ریاستہائے متحدہ میں لکھی جانے والی ان کی پہلی نظم 1941 میں پہلی بار فرانسیسی میں شاعری کے رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ ایک نقاد کا کہنا ہے کہ پرس نے ادبی دھڑوں کو ناگواری کی نظر سے دیکھا۔ کیونکہ ان کا یہ دور ان پر گزرا اور ان کی تخلیقات کے بارے میں عام مطالعہ تک نہیںکیا گیا۔ انہوں نے 1946 اور 1952 میں ، ہارورڈ میں نارٹن چیئر آف شعری نے ان کی شاعری دو بار مسترد کیا ، لیکن انھیں 1950 میں امریکی اکیڈمی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ لیٹرز نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ، جب انہیں شاعری کے لئے میرٹ میڈل کا کا اعزاز ملا۔
اپنی شاعری میں پرس نے شاذ و نادر ہی فاصلہ برقرار رکھا تھا جس میں جگہ کے نام یا کسی بھی قسم کے نشانات شامل تھے جو اس کے کام کو کسی خاص جگہ یا وقت کے تناظر میں تلاش کرتا تھا۔ پرس کے تصور میں شاعر کا کام ، سائنسدان کی طرح ، کائنات ، عناصر اور انسانی شعور کو تلاش کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فارس کی شاعری کا امتیازی معیار اس کی آفاقیت ہے لہذا ان کی کوشش ہے کہ کائنات کو اور انسانیت کو اس وقت کی ادبی دھاروں سے بالاتر حد سے زیادہ ذاتی حدود سے باہر ہی منایا جائے۔ اس تصور میں شاعری دوبارہ تخلیق یا حقیقت کی نقل نہیں ہے۔ بلکہ ، شاعری حقیقت ہے۔ مستقل طور پر اس کی تمام تر تناو اور اس کی پیچیدگی کے ساتھ۔ ایک مخصوص شکل یا روایتی میٹر سے آزاد فارس کی لمبی نظمیں ، اور اسی جملے کی بازگشت اور تغیرات کے ساتھ اس کی سمفونک مرکبات ، موسیقی کے معیار کو شاذ و نادر ہی اپنے ہم عصروں کے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
سینٹ جان پرس کی شاعری کو پڑھ کر شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے شاعری کو خواب یا حقیقی تجربے میں توسیع یا اس کے انکارہے اور اس کو ایسے ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح حقیقت کی دنیا کی قدر کو بڑھانے اور اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے کے لئےیہ پارس کے جھکاؤ کے مساوی ہے۔ اسی مناسبت سے وہ خوابوں کو لوگوں ، چیزوں اور حالات کو شامل کرتے ہوئے ظاہر کرتے ہیں۔ جو خاص شدت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ، خاص طور پر فطری یا خیالی تصور کے تناظر میں یہ شعری مکانیت سرانجام دی جاتی ہیں۔ ۔ لیکن وہ خواب کو غیر متزلزل ، صوابدیدی یا غیر متناسب ، تناقض کہ خصوصیات پر زور دیتے ہوئے ، اس کو مثبت اور منفی دونوں کے طور پر یا ذاتی اور غیر شخصی دونوں کے طور پر ہی کسی کام کے اندر اس کی اہمیت کو مختلف بنا کر یا ناجائز طور پر عبوریت کا ایک سلسلہ پیدا کرکے خوابوں میں بھی خلل یا معمولی سے اپنے شعری بیوہاریا برتاؤ کرتا ہے۔ سینٹ جان پرس کی شاعری کو کوضوعاتی توسیع ان کی نظموں کی طوالت نہیں کہی جاسکتی ان کا عموما " رزمیہ کہا جاتا ہے۔ چناچہ پال کلودل نے لکھا ہے" ہومر کی اوڈیسی" گھر کی واپسی کا رزمیہ ہے۔ جن کہ پرس کی نظم "ہوائیں باہر کی طرف سفر کا رزمیہ ہے۔" "اس نظم کی تشریح میں کسی طرح کے نقطہ ہائے نظر پیش گئے ہیں بعض نقادوں نے اسے تہذیب کی شکست و ریخت کا رزمیہ کہا ہے بعض لوگ سیسے امریکہ کے آباد کاروں کے ساتھ منسلک کرتی ہیں اور بعض لوگ اسے تعیم کے انداز میں مجموعی انسانی تجربے کا استعارہ قرار دیتے ہیں { سہیل احمد، 'طرزیں' صفحہ ۳۳، لاہور۱۹۸۲}میرے ضیال میں یہ نظم امریکہ میں یورپی مہاجرین کا پس کربیائی {ناسٹلجیائی} تجربے کا شعری اظہار تھا ۔ جو رزمیاتی بھی ہوسکتا ہے۔ پرس کا تصور کائنات تاریخ انسانی کا آفاقی تصور ہےان کے بشری وجود کو سمجھنے کے لیے۔ ہم گیر کونیات اور جغرافیائی اور ثقافتی مہاجرت کا ادراک ضروری ہے۔ محمد حسن عسکری نے لکھا تھا " آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ سینٹ جان پرس کوئی پرل بک نہیں کی اسکول کی لڑکیاں بھی اسے پڑھ کر خوش ہو لیں۔ " جس زمانے میں پاکستان میں نثری نظم" کا شور اٹھا تو سینٹ جان برس اس کے ساتھ ٹی ا ایس ایلیٹ، بودلیر، لورکا اور ایڈگر ایکن کے ساتھ سب سےزیادہ موضوع بحث بنایا گیا۔ کچھ اردو کے نئے شعرا ان سے متاثر بھی ہوئے۔ محمد حسن عسکری نے سینٹ جان پرس کی وفات پر مجلہ " سات رنگ" میں چھوٹا سا مضمون لکھا تھا۔ اس کے علاوہ انیس ناگی نے پرس کی کَی نظموں کو اردو میں منتقل کیا ہے۔
:: سینٹ جان پرس کے تصانیف :
Éloges (1911, transl. Eugène Jolas in 1928, Louise Varèse in 1944, Eleanor Clark and Roger Little in 1965, King Bosley in 1970)
– Anabase (1924, transl. T.S. Eliot in 1930, Roger Little in 1970)
– Exil (1942, transl. Denis Devlin, 1949)
– Pluies (1943, transl. Denis Devlin in 1944)
– Poème à l'étrangère (1943, transl. Denis Devlin in 1946)
– Neiges (1944, transl. Denis Devlin in 1945, Walter J. Strachan in 1947)
– Vents (1946, transl. Hugh Chisholm in 1953)
– Amers (1957, transl. Wallace Fowlie in 1958, extracts by George Huppert in 1956, Samuel E. Morrison in 1964)
– Chronique (1960, transl. Robert Fitzgerald in 1961)
– Poésie (1961, transl. W. H. Auden in 1961)
– Oiseaux (1963, transl. Wallace Fowlie in 1963, Robert Fitzgerald in 1966, Roger Little in 1967, Derek Mahon in 2002)
– Pour Dante (1965, transl. Robert Fitzgerald in 1966)
– Chanté par celle qui fut là (1969, transl. Richard Howard in 1970)
– Chant pour un équinoxe (1971)
– Nocturne (1973)
– Sécheresse (1974)
– Collected Poems (1971) Bollingen Series, Princeton University Press.
– Œuvres complètes (1972) Bibliothèque de la Pléiade, Gallimard. The definitive edition of his work. Leger designed and edited this volume, which includes a detailed chronology of his life, speeches, tributes, hundreds of letters, notes, a bibliography of the secondary literature, and extensive extracts from those parts of that literature the author liked. Enlarged edition, 1982
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...