بہت ذوروں کے سیلاب تهے….سارا قصبہ ڈوب گیا.اسکا گهر بار ،بزنس، زمین داری، رہن سہن سب کچه یہی قصبہ تها…پانی اترنے پر دیکها، کچه بهی باقی نہ بچا تها…سوائے تعمیر کے جذبے کے کوئ ساتهی بهی نہیں…..
اسی تعمیر کے جزبے کو آس کی ڈوری میں باندہ کر اس نے پهر سے جینا شروع کیا…
گهر کی چهتیں خوشحالی کے اچهے دنوں کے خواب کی طرح اڑ چکی تهیں. ہر طرف مایوسی، بربادی اور بیچارگی نے ڈیرے ڈال رکهے تهے.
سڑکوں پہ فاقہ ذدہ، قحط کے مارے، بهوک سے بلکتے لوگوں نے جهگیاں ڈالی ہوئی تهیں….بجلی پانی فون سی بنیادی ضروریات کہاں تهیں؟، ان کا نام و نشان ہی مٹ چکا تها….
زندگی ایک ٹوٹی ہوئ بات کی طرح تهی جس کا کوئ سرا کسی شے، کسی لمحے، کسی واقعے سے نہیں جڑتا تها….. اپنا محل جیسا خوبصورت اونچا اور پکا گهر جسے وه تالے لگا کر درود شریف ، چاروں قل اور آیت الکرسی کی پناہ میں چهوڑ کر اونچے مقام کی طرف کوچ کر گیا تها، اب ایک کهنڈر کی صورت کهڑا تها. اندر ایک عجیب منظر تها. سیلاب کی لائ مٹی کی تہیں ہر چیز کو یوں چهپائے پڑی تهیں جیسے چیل کے ڈر سے مرغی بچوں کو پروں میں چهپا لیتی ہے….دوسری منزل کچه کچھ سالم سی تهی..مگر سارا سامان بکهرا ہوا… کوئ چور کام کی ساری چیزیں چرا کر لے جا چکا تها…. گندم کی ایک بوری….دروازے کی اوٹ میں پڑی ہوئ ۔۔۔ نجانے کس طرح بچ گئ تھی…
اس نے ٹوٹے دروازے کے ملبے سے چهلانگ لگائ اور باہر نکل کر دیکها… ٹنڈ منڈ درخت، ٹوٹی شاخوں کے ڈهیر، درختوں سے اکهڑی سرنگوں شاخیں گویا دهرتی سے چمٹی اپنی جڑوں کا بین کرتی تهیں…. یہ اسکا باغ تها؟. اب کچھ پہچانا ہی نہیں جاتا تھا۔
مزید آگے بڑا….
ہر طرف بهری اینٹوں ، ملبے کے ڈهیر…سلگتی آنکهیں، سسکتے بدن…بهوک پیاس اور تهکن کی حکمرانی…..اس بازار کی ساری دوکانیں…جنکی کمائ سے اس کے محل جیسے گهر کا سارا خرچہ چلتا تها، ملیا میٹ ہو چکی تهیں….چاردیواریاں تک یوں چاروں شانے چت گری تهیں جیسے سیلاب کے ریلے کی عصمت دری کے بعد ان میں خود کو سنبهالنے اور اٹه کر بیٹهنے کی ہمت ہی نہ رہی ہو…
آگے جہاں اس کے کهیت شروع ہوتے تهے اب ایک ڈهلان سی تهی اور چٹیل میدان……الہی وہ بهری بهری لہلہاتی کهیتیاں کہاں ہوئیں؟
وه خواب اور آرزویں جن کے بیج کسانوں نے بسم اللہ پڑه کر ان کهلیانوں میں بوئے تهے…جنہیں امیدوں کی کهاد اپنی آس رہن رکه کر دی تهی.آدهی رات کو آٹه کر ارمانوں کا پانی لگایا تها…وه سارے خواب پانے کے ریلے کہاں بہا لے گئے؟
یہی ذمانے کا دستور ہے…یہ کهیت، کهلیان، دوکانیں، محل ماڑیاں ہی انسان کی پہچان بنتی ہیں….جیسے ہر درخت کی پہچان اسکے پهول پتے اور پهل سے ہوتی ہے…یہ ٹنڈ منڈ بے جان درخت کون سے ہیں،یہ تجربہ کار مالی بهی نہیں پہچان کر بتا سکتا….بزنس، کاروبار، اونچا محل اور کهیت کهلیان چهن جائیں تو انسان بهی کٹے درخت کی طرح بے چہرہ ہے…
آس کی ایک ڈوری سےکس کر اس نے اپنے ڈوبتے دل کو باندها…گهر کی دوسری منزل میں ٹوٹے مٹکوں کے ڈهیر سے پرے اسے اناج کی جو بوری نظر آئ تهی، وہی نظروں میں پهر گئ…
کهلیان تو اپنے تهے…ہاڑی فصل کا وقت بهی ختم نہیں ہوا تها، زمین بهی نم تهی…کاش وه دو بیلوں کی جوڑی اور ہل سیلاب میں نہ بہہ گئے ہوتے….
وہ سر جهکا کر ٹنڈ منڈ درخت کے تنے پر بیٹه گیا…..
چهوٹا سا تها…جب باپ مر گیا…ماں نے بڑی مشکلوں سے پالا ، بڑا کیا…یہی کهیت کهلیان تهے جنہیں اس نے کڑی محنت سے بڑا کیا.ماں کی دعاوں اور اسکی منہ توڑ محنت سے رنگ لگا تو لگتا ہی چلا گیا….
اس نے منہ اٹها کر اپنے هاتهوں کو دیکها، پهر قمیض کی باہیں اوپر کر کے اپنے بازووں کو….ابهی تک مضبوط اور تندرست تهے….ابهی تو میں ہٹا کٹا ہوں، سب کچه پهر سے کر سکتا ہوں….
یا علی مدد کا نعرہ لگا کر وہ اٹها اور ٹوٹی ہوئ مضبوط لکڑی کو کندهے پہ ڈالکر ہل چلانے لگا….
دو تین گهنٹوں کے بعد وه پسینے سے تتر بتر تها مگر ایک چهوٹا سا کهیت تیار تها….اسے خود بهی پتہ نہ چلا کی وہ کب اور کن قدموں سے اپنی ٹوٹی حویلی میں داخل ہوا.کن سیڑهیوں چڑها .کن ہاتهوں سے ٹٹول کر گندم کی بوری اٹهائ اور کیسے لپک کر کهیتوں کی سمت پلٹا….
آنکهیں کهلی تو وہ اک ہجوم میں تها….بهوک پیاسے بلکتے لوگوں کا ہجوم…..
دانے دانے کو ترستے ہونٹ، پیاس سے بلکتے ، بهوک سے نڈهال ہوتے چہرے…..
نجانے کس دقت سے اس نے پٹ سن سے سلی بند بوری کا منہ کهول لیا اور مٹهیاں بهر بهر کر سامنے پهیلی جهولیوں میں انڈیلنے لگ پڑا…
“